ذوالحجہ کا مہینہ ہر سال ہم پر اپنے فضل و کرم اور برکتوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اور ان مبارک ساعتوں میں اللہ کے گھر کی زیارت کا شوق ہمیں بے چین کیے ہوتا ہے۔ ساتھ ہی عیدالاضحی کی خوشیاں بھی آتی ہیں جو ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ آزمائشوں پر صبر اور رضامندی کا رویہ ہی اللہ کے قرب کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور یہ کہ اللہ سے تعلق کے آداب کو نبھانے، اس کے احکامات کی پیروی اور اس کے نواہی سے اجتناب ہی نجات کا راستہ ہے۔
اس عید کے ساتھ تاریخ کے صفحات کی ایسی عظیم داستان جڑی ہوئی ہے کہ جس میں قربان ہونے اور فدا ہونے کا رویہ بھی ہے، اللہ پر توکل کی حسین مثال بھی ہے اور اس کی جانب سے آزمائشوں پر محبت اور رحمت کے ساتھ صبر کا رنگ بھی ہے۔ یہ داستان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے کہ جب انہیں اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی بابت دو امتحانات سے آزمایا گیا۔ ایک تو وہ کہ جب انہیں حکم دیا گیا کہ اس لڑکے اور اس کی ماں کو مکہ چھوڑ آؤ، ایسی زمین جہاں اللہ کے سوا ان کا کوئی بھی نہیں، نہ کوئی کھیتی، نہ پینے کو پانی اور نہ ہی کھانے کو کوئی غذا تھی۔
پھر جب اسماعیل علیہ السلام بڑے ہوئے تو ایک اور امتحان ان باپ بیٹے کا منتظر تھا۔ جب اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرو، ارشاد ہوا:
“پھر جب وہ اس کے ساتھ بھاگ دوڑ کرنے کی عمر کو پہنچا اس نے کہا: اے میرے بیٹے! میں دیکھ رہا ہوں خواب میں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو دیکھو! تمہاری کیا رائے ہے ؟ اُس نے کہا: ابا جان! آپ کر گزرئیے جس کا آپ کو حکم ہو رہا ہے۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔” [الصافات: 102]
یہاں ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے اپنے رب کے لیے اور اسماعیل علیہ السلام کا اپنے والد کے لیے فرمانبرداری کا ایک اعلی رویہ نظر آتا ہے، جس نے انہیں اس کا اجر عظیم عطا کیا اور فرمایا:
“تو جب ان دونوں نے گردن جھکادی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم! بیشک تو نے خواب سچ کردکھایا ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔ بیشک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی۔ [الصافات: 103-107]۔
عیدالاضحی کے احکام و آداب:
عیدالاضحی کا دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت اور فضیلت کا حامل دن ہے۔ حضرت عبداللہ بن قرضؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ ؛ قربانی کا دن) ہے اور اس کے بعد یوم القر ہے۔ [صحیح ابو داؤد] اور یوم القر سے مراد ۱۱ ذی الحجہ کا دن ہے جب حجاج کرام منیٰ میں قیام کرتے ہیں۔
“الاضحیۃ” کا لفظ “ضحی یضحی” کا مصدر ہے اور اس کی جمع “أضاحی یا أضاح” بنتی ہے۔ اس کی اصل “ضحوۃ” سے ہے ۔۔ یعنی دن کے ابتدائی حصے کا وقت ۔۔ قربانی کے تناظر میں الاضحیۃ سے مراد وہ جانور اور مویشی ہیں جنہیں خاص شرائط کے ساتھ خاص اوقات میں ذبح کیا جاتا ہے۔
اس مبارک عید کے بہت سے آداب اور احکامات ہیں جن میں سے چند اہم یہ ہیں :
- تکبیرات کہنے کا عمل جو عرفہ کے دن کی فجر سے ایام تشریق کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ :ان گنتی کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کرو ۔۔ [البقرۃ: 203 کا حص]
- نمازِ عید کے لیے جایا جائے اور مسلمانوں کی خوشی میں شریک ہوا جائے۔ حضرت ام عطیہؓ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں عورتوں کو باہر نکالیں، دوشیزہ، حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو بھی، لیکن حائضہ نماز سے دور رہیں۔ وہ خیر و برکت اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی عورت کے پاس چادر نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس کی (کوئی مسلمان) بہن اس کو اپنی چادر کا ایک حصہ پہنا دے۔” [متفق علیہ]
- نماز عید ادا کی جائے اور اس کا خطبہ بھی سنا جائے۔ سنت کا طریقہ یوں ہے کہ نماز عید سورج کے نکلنے کے بعد ادا کی جائے۔
- مسلمان پر عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے اور اسی طرح اس کے بعد ایام تشریق میں بھی۔۔ حضرت ابی سعید الخدریؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ [متفق علیہ] اسی طرح ایام تشریق کے روزوں کے بارے میں بھی حضرت نبیشہ الہذلي سے روایت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔ [مسلم]
- عید الاضحیٰ کے دن بہترین عمل نماز عید کی ادائیگی ہے اور اس کے بعد جانوروں کو قربان کرنا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہم اس دن (عید کے دن) کی شروعات سب سے پہلے نماز سے کرتے ہیں، پھر واپس آکر قربانی کرتے ہیں، جس نے اس طرح ہی کیا اس نے ہمارے طریقے پر عمل کیا۔ [البخاری]
- عید کے دن سنت یہ ہے کہ مسلمان خوبصورت لباس پہن کر زینت اختیار کرے اور بہترین کپڑے پہنے۔ جب کہ عورت نماز کے لیے اس طرح باہر نکلے کہ وہ بناؤ سنگھار نہ کرے، خوشبو نہ لگائے اور زینت کی نمائش نہ کرے۔
عیدالاضحیٰ میں کھیل اور تفریح:
شریعت مطہرہ نے عیدالاضحیٰ کے بابرکت دنوں میں کھیل اور تفریح کی اجازت دی ہے بشرطیکہ وہ اسلامی تعلیمات کے مخالف نہ ہو۔ یہ حکم اللہ کی جانب سے بھی اپنے مومن بندوں کے لیے ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر اپنے قول و فعل سے ترغیب دلائی ہے۔۔ یہ امور درج ذیل ہیں:
- خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جائے اور اور جائز کھیل کھیلے جائیں۔
- عبادت کی مشقت کے بعد دل کو اور جسم کو آرام دیا جائے۔
- عید کی نماز کو جاتے اور آتے وقت مختلف راستے اختیار کیے جائیں۔
- اگر مسجد میں نمازِ عید ادا کی جائے تو اس سے قبل دو رکعت پڑھ لی جائے۔
- عید کے دن کی مبارکباد دی جائے اور اپنے اہل خانہ اور قریبی لوگوں سے ملا جائے۔
قربانی کے جانور کی شرائط:
عید الاضحیٰ میں قربانی کے جانور کا بعض شرائط پر پورا اترنا بھی ضروری ہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
(1) اس کا شمار مویشیوں میں سے ہو جن میں اونٹ، گائے اور بھیڑ، بکری وغیرہ شامل ہیں۔
(2) ایک اونٹ یا گائے میں سات افراد شرعاََ حصہ دار ہوسکتے ہیں۔
(3) ایک بکری یا بھیڑ ایک شخص اور اس کے اہل خانہ کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے۔
جانور کی عمر شرعاََ معتبر ہونی چاہیے۔۔ اونٹ کے لیے 5 سال، گائے کے لیے 2 سال، بکرے کے لیے 1سال جب کہ دنبے کے لیے چھ ماہ کی عمر ضروری ہے۔
جانور میں ایسا عیب نہ ہو جو اسے قربانی کے لیے ناقابل قبول بنادے ۔۔ جیسے لنگراہٹ، مرض، اندھا پن یا بہت ہی کمزور ہونا۔
قربانی عید کی نماز کے بعد شروع کی جائے اور 13 ذوالحج کی مغرب تک مکمل کرلی جائے، جب قربانی کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ یہ گوشت خود کھائے، دوسروں کو کھلائے یا پھر صدقہ کرے۔
عید الاضحیٰ کے تربیتی پہلو:
اس عید کے تربیتی پہلو میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان انبیاء کے صبر کو جان سکے اور وہ صبر ہی شریعت کے احکامات پر عمل کرنے لیے بہترین نمونہ ہے۔ یہ عید دراصل ایک موقع ہے جس میں مومن حضرت ابراہیم و اسمعیل علیہ السلام کے صبر کو یاد کرتا ہے، ان کا اللہ کی اطاعت اور محبت کو اپنی ذات اور اپنی اولاد کی محبت پر ترجیح دینے کو یاد کرتا ہے اور یہ کہ یہی صبر اور ایثار تھا کہ جو آزمائشوں پر پورا اترنے کا سبب بنا۔ جب مومن اس کو یاد کرتا ہے تواسے نفس کی خواہشات اور تمناؤں پر اللہ کی محبت کو مقدم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
عید الاضحیٰ کے تربیتی پہلو میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ: سو ان پر اللہ کا نام لو، اس حال میں کہ گھٹنا بندھے کھڑے ہوں، پھر جب ان کے پہلو گر پڑیں تو ان سے کچھ کھاؤ اور قناعت کرنے والوں کو کھلاؤ اور مانگنے والوں کو بھی۔ [الحج: 36]
اس طرح یہ عبادت نا صرف مختلف اقوام کو دینی لحاظ سے جوڑتی ہے بلکہ ایک ہی امت کے مختلف افراد میں بھی ربط پیدا کرتی ہے اور یہ تعلیم دیتی ہے کہ امت کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا رویہ اپنائیں اور زندگی کی مشقتیں اٹھانے میں ممد و معاون ہوں ۔۔ اور امت میں اس تعاون کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔
عید کا معاشرتی پہلو:
عید الاضحیٰ کے موقع پر بعض لوگ ماحول کی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ جب کہ یہ فعل شرعی لحاظ سے بھی ٹھیک نہیں اور مہذب ہونے کے بھی خلاف ہے۔ بلکہ اسلام نے مسلمانوں کو ماحول کے احترام کی تلقین کی ہے، کیونکہ ماحول کے معاشرے پر بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان معاشرتی رویوں میں ایک منفی طرز عمل یہ بھی ہے کہ لوگ قربانی کے جانوروں اور عید کے کپڑوں کے حوالے سے آپس میں فخر کی اور مقابلے کی فضا قائم کرتے ہیں۔ خواتین میں خصوصاً یہ عادت پائی جاتی ہے جن سے بچے بھی اپنے ننھے اذہان میں یہ بات محفوظ کرلیتے ہیں کہ شاید یہ عمل عید کے ہی لازمی امور میں سے ہے۔ جب کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس بداخلاقی پر مبنی رویے سے بچیں، کیونکہ معاشرے پر اس کے منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں خصوصاََ ان لوگوں پرجو دنیوی لحاظ سے پیچھے رہ گئے ہوں۔
اس لیے مسلمانوں کو اس عبادت کے مادی پہلو کو اس درجہ اہمیت نہیں دینی چاہیے کہ وہ اس کے اخلاقی سبق اور تربیتی زاویے کو نظر انداز کردیں۔ اگر محض مادی پہلو کو ہی اہمیت دی جائے تو معاشرہ شدید تنگی اور تصادم کا شکار ہوسکتا ہے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں ہماری اقدار اور معیارات آسمان سے نازل شدہ ہوں نا کہ ان کا تعلق زمین سے ہو اور وہ دنیوی مفادات و معیارات پر مبنی ہوں۔ اسی طرف سید قطبؒ نے بھی توجہ دلائی ہے کہ وہ معیار جو انسان کی قدر و قیمت اور مقام و مرتبے کو متعین کرتا ہے وہ وہی ہونا چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کو دے کر بھیجا کہ تمام اقدار اسی کے مطابق ہوں اور وہ یہ ہے کہ: اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔ [الحجرات]
اسلام اور فلسفۂ عید:
اسلام میں عید الاضحی کا فلسفیانہ پہلو بھی ہے۔۔ جس کے نکات درج ذیل ہیں:
عید خوشی کا موقع ہے: اسلام میں عید کے معنوں میں خوشی اور فرحت کا احساس شامل ہے۔اس میں وہ خوشی ہے جو اللہ کی فرمانبرداری اور اس کے قرب میں محسوس ہوتی ہے، یہ ایسی امت کی خوشی ہے جو اپنے مقاصد کو جان لیتی ہے، وہ خوشی جو یتیموں کی غمگساری اور ان کی کفالت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، وہ خوشی جو فقراء، مساکین اور ضرورت مندوں کو مانگنے کی نوبت سے بچانے کی صورت میں ملتی ہے اور وہ خوشی جو امت کے غلبے اور دشمنوں کے مقابل اس کے اتحاد کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔
عید عبادت کا عنوان ہے: عبادت کے حوالے سے فلسفۂ عید کا اظہار نماز ادا کرنے میں، خدا کو پکارنے میں، اس کے آگے عاجزی اختیار کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ راستوں پر، مسجدوں میں اور گھروں میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے اور کثرت سے اللہ کا شکر بجا لایا جاتا ہے، اس کی کبریائی بیان ہوتی ہے اور اس کی توحید کی گواہی دی جاتی ہے۔۔ اور ایام تشریق میں تو ان اعمال کی فضیلت بھی وارد ہوئی ہے۔ اس طرح عید کے ان شعائر کے ذریعے سے مسلمانوں کی قوت کے اظہار ہوتا ہے اور ان کا باہمی ربط مضبوط ہوتا ہے۔
عید وحدتِ امت کا پیغام ہے: فلسفۂ عید میں اتحاد کا پیغام بھی پنہاں ہے کہ جب تمام مسلمان ایک دن نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے جمع ہوتے ہیں اور حج کی صورت میں جب کہ ایک زمین پر ایک ہی وقت اور ایک ہی لباس میں کھڑے ہوتے ہیں، اپنے معبود واحد کے آگے گڑگڑا رہے ہوتے ہیں، یہ وحدت یہ بتاتی ہے کہ غریب و امیر میں کوئی فرق نہیں ہے، وزیر و خادم میں کوئی تمیز نہیں ہے، بڑا چھوٹے سے ممتاز نہیں ہے، سیاہ و سفید چمڑی ہی بنیاد پر کوئی برتر نہیں ہے۔۔۔ برتر وہی ہے جو تقویٰ اور نیکی میں آگے ہے۔ سب اللہ کے سامنے برابر ہیں اور یہ سب مل کر تلبیہ پکارتے ہیں کہ “ہم حاضر ہیں، اے اللہ ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں ہم حاضر ہیں۔ شکر بھی تیرا ہے، نعمتیں بھی تیری ہیں، بادشاہت بھی تیری ہے اور ان میں تیرا کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ یہی اتحاد ہمارا مقصد ہونا چاہیے کہ جس کے لیے ہم اپنی جان اور اپنا مال لگائیں تاکہ اقوام عالم میں ہماری ملت کو معزز مقام حاصل ہو اور بین الاقوامی تعلقات میں بھی ہماری حیثیت بنی رہے۔
زینت و خوبصورتی اختیار کرنا اور خوشبو کا استعمال: فلسفۂ عید میں یہ بھی ہے کہ انسان اللہ کے لیے خوبصورتی اور زینت اختیار کرے اور خوشبو کا استعمال کرے کیوں کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں۔ اللہ نے ہی حکم دیا ہے کہ مساجد میں زیب و زینت اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: اے بنی آدم! نماز کے لیے جاتے ہوئے زینت اختیار کرو، کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو کہ تمھارا رب اسراف کو پسند نہیں کرتا۔ [الأعراف: 31]
رحمدلی اور احسان کا معاملہ: فلسفۂ عید میں رحمدلی اور عمدگی بھی شامل ہے جس کا اظہار جانور کو ذبح کرنے اور اس کے ساتھ رحم اور نرمی پر مبنی سلوک کی صورت میں نظر آتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم اپنی چھریاں تیز رکھیں اور جانور کو آرام پہنچائیں اور یوں نہ کریں کہ اسے چھری دکھاتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: اللہ نے ہر معاملے میں عمدگی کو لازم کردیا ہے۔ سو جب کوئی قتل بھی کرے تو اچھے سے کرے اور ذبح کرے تو بھی اچھے سے کرے اور تم میں سے ہر ایک اپنی چھریاں تیز کرے اور اپنے جانور کو آرام پہنچائے۔
سماجی رابطہ اور ہمدردی: فلسفۂ عید میں سماجی ہمدردی بھی شامل ہے۔ اس لحاظ سے سخاوت کا معاملہ اختیار کیا جائے، محبت و خوش اخلاقی کا رویہ اپنایا جائے اور لوگوں سے خوشی خوشی ملاقات کی جائے۔ اسی طرح صدقات اور تحائف دیے جائیں، اپنے گھر والوں پر، بچوں پر اور ہمسایوں پر دل کھول کر خرچ کیا جائے، تعلقات کو جوڑا جائے، ہم آہنگی کا مظاہرہ ہو، صلح کی ابتدا ہو، اختلافات کا اختتام ہو، دل بغض و کدورت سے پاک ہوں، خطاکار سے درگزر کیا جائے، جانے انجانے سب کو سلام کیا جائے اور لوگوں کو اس موقع پر کھانا کھلایا جائے۔
عیدالاضحیٰ ایسا دینی تہوار ہے جو چہار جانب سماں ہی بدل دیتا ہے، راستے روشن ہوجاتے ہیں، چہروں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے، پاکیزہ ہاتھ مصافحہ کرتے ہیں اور مومن روحیں مبارکباد دیتی ہیں، بڑے چھوٹے سب اس کے منتظر رہتے ہیں کہ ان لمحات کو سب کے ساتھ خوشی سے گزارا جائے، بچے یوں انتظار کرتے ہیں کہ اس میں کھیل کود کا موقع ملے اور بڑے اس لیے کہ گھر والوں کے ساتھ وقت گزاریں گے، بھائی بہنوں سے ملیں گے، دوستوں کے پاس جائیں گے اور رشتہ داروں سے ملاقات ہوگی اور یوں خوشی کا ایک موقع ملے گا۔
یہ دن نفرت کا اور غصے کا بھی نہیں ہے لہٰذا سربراہِ خانہ یوں نہ کرے کہ عید کے دن غصے سے یا چیختے چنگھاڑتے ہوئے اپنے بچوں سے نہ ملے، کیونکہ اس سے ماحول کشیدہ ہوجاتا ہے، رشتوں میں دوری ہوجاتی ہے اور عید کی خوشی تلخی میں بدل جاتی ہے۔ یوں بھی نا ہو کہ شوہر بیوی میں کہیں جانے پر اختلاف ہوجائے، ہر کوئی اپنی گاڑی میں الگ الگ راستوں پر نکل جائے یا گھر میں رہ کر بھی رشتہ داروں سے عید نہ ملے۔
مترجم: زعیم الرحمان