اس دور میں جہاں اکثر لوگ خاموشی اور بغیر کسی خبر کے ہماری دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، وہیں بعض ایسے افراد بھی ہیں جن کے انتقال پر لوگ انہیں یاد کرتے ہیں اور ان کی وفات کو دنیا پر نازل ہونے والی کسی مصیبت سے کم نہیں سمجھتے۔ اہلِ ایمان ان کی جدائی میں روتے اور گڑگڑاتے ہیں اور ایسے موقعوں پر پوری ملت اسلامیہ اپنی تعزیت پرسی خود ہی کرتی ہے۔ لوگوں میں ایسی شخصیات کی خوبصورت یادوں اور نیک کارناموں کا چرچا ہونے لگتا ہے۔ وہ افراد جن کا نام اس طرح کی جماعت کے زمرے میں شامل ہے، ان ہی میں سے ایک علامہ یوسف القرضاوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کا نام ہے۔
علامہ یوسف القرضاوی کا شمار ان یگانہ روزگار علماء، مجددین اور مصلحین میں ہوتا ہے جو زمانہ کے افق پر شاذ ونادر ہی نمودار ہوتے ہیں۔ وہ اس امت کے ایسے عظیم فرد ہیں جو ہر محاذ پر دین کے دفاع میں کھڑے رہے ہیں۔ وہ کوئی مقامی یا علاقائی عالم نہیں تھے، بلکہ وہ مسلمانوں کے جملہ مسائل کے حل کی تلاش میں مصروف کار تھے۔ آپ نے اپنے پیچھے تعلیمی اور فکری میدان میں علم کا ایک عظیم ذخیرہ چھوڑا ہے، جس کے اندر ملت اسلامیہ کے حقیقی مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔
ذاتی زندگی:
یوسف عبداللہ القرضاوی 9 ستمبر 1926ء کو مصر کے صوبہ غربیہ، محلہ الکبری کے مرکز میں واقع ایک گاؤں صفت تراب میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک دیہاتی گھرانے سے تھا، اور آپ کی عمر اس وقت محض دو سال کی تھی جب آپ کے والد کا انتقال ہوگیا، پھر آپ کے چچا نے آپ کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی۔ چچا نے ان کی بہترین پرورش کی اور اس طرح انہوں نے دس سال کی عمر سے پہلے ہی تجوید میں مہارت حاصل کرکے حفظ قرآن مکمل کیا۔
اس کے بعد انہوں نے جامعہ الازہر شریف کے زیر انتظام اسکول سے منسلک ہوکر طنطا میں احمدی انسٹی ٹیوٹ سے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ آپ وہاں ہمیشہ اوّل آتے رہے۔ انہوں نے اپنی ثانوی تعلیم کے مرحلے کے دوران زیر حراست ہونے کے باوجود پورے مصر میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
بعد ازاں انہوں نے جامعہ الازہر کے شعبہ اصول الدین کے کالج میں داخلہ لیا، جہاں سے انہوں نے 1953ء میں پہلی پوزیشن کے ساتھ اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔ اسی طرح 1954ء میں فیکلٹی آف عربک لینگویج میں تدریسی سند اور عالمیت کی سند حاصل کی۔ آپ جامعہ الازہر کے گریجویشن کے تین شعبوں میں اپنے دوستوں میں اوّل پوزیشن پر رہے۔
انہوں نے 1958ء میں ہائر انسٹی ٹیوٹ آف عربک لنگویج اینڈ لٹریچر میں ڈپلومہ حاصل کیا اور 1960ء میں کلیہ اصول الدین سے شعبہ علوم القرآن والسنہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، جو کہ ماسٹرز کی ڈگری کے برابر ہے۔
آپ کو 1973ء میں اسی کالج سے امتیازی حیثیت کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی جس کا موضوع "زکوٰۃ اور اجتماعی مسائل کے حل میں اس کے اثرات” تھا۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی کوئی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی ہے۔
انہوں نے ایک عرصہ تک مسجدوں میں دعوت وتبلیغ کا کام کیا۔ پھر مصر میں وزارت اوقاف کے امامت کے شعبہ میں نگران مقرر ہوئے۔ اس کے بعد جامعہ الازہر کی اسلامی ثقافت کی جنرل انتظامیہ میں منتقل ہوگئے، وہاں انہوں نے مطبوعات اور ادارہ دعوت وتبلیغ کے تکنیکی دفتر کا چارج سنبھالا۔
آپ 1961ء میں قطر منتقل ہو گئے، جہاں وہ ثانوی تعلیم کے دینی ادارے میں بحیثیت پرنسپل مقرر ہوئے۔ انہوں نے اس ادارے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کردیا، یہاں تک کہ 1973ء میں آپ کی قطر یونیورسٹی کے سنٹرل کالج آف ایجوکیشن فار بوائز اینڈ گرلز میں تقرری ہوئی۔ پھر جب قطر یونیورسٹی میں شعبہ شریعت اور اسلامک اسٹڈیز کا قیام عمل میں لایا گیا، توآپ اس کے مدیر مقرر ہوئے۔
آپ نے 1991ء میں الجزائر یونیورسٹی کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ لیکن بعد میں واپس آکر قطر میں مرکز تحقیق "سنت وسیرت” کے ڈائریکٹر بن گئے۔ انہوں نے 2004ء میں مسلم علماء کی بین الاقوامی تنظیم بنانے میں نمایاں رول ادا کیا، اور 2018ء تک اس تنظیم کی سربراہی کرتے رہے۔ آپ یورپ اور مشرق کی بہت سی دینی مراکز کے سربراہ بھی رہے ہیں اور نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک جدوجہد کرتے رہے، یہاں تک 26 ستمبر 2022ء کو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی جوار رحمت میں بلا لیا۔
یوسف القرضاوی کی فکری نشو ونما میں تحریکِ اسلامی کا کردار:
اخوان المسلمین کی فکر وہ مضبوط و پائدارستون ہے جس کے اوپر شیخ قرضاوی نے اپنے منہج کی بنیاد رکھی۔ جس کی برکت سے آپ کی صلاحیتوں نے نشو ونما حاصل کیا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ودیعت کی تھیں۔
آپ کو کئی بار گرفتار کرکے پابند سلاسل کیا گیا۔ اس دور میں آپ ثانوی اسکول میں زیر تعلیم تھے یا وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے تھے، لیکن آپ نے کبھی کسی سلطان یا حاکم کے سامنے سر نہیں جھکایا اور نہ کبھی دنیا اور منصب کی طلب میں سودا بازی یا منافقت سے کام لیا۔ آپ کو سال 1949ء، 1954ء، اور 1963ء کے دوران پابند سلاسل رکھا گیا۔
یوسف القرضاوی اس وقت عید کی اجتماعی نماز کے پہلے خطیب تھے جب اسلامی جماعتوں نے احیاء سنت کے مقصد کے تحت پہلی بار عید گاہ میں نماز منعقد کرائی۔ اس طرح آپ نے 1976ء کو میدان عابدین کے عید گاہ میں پہلی بار عید الفطر کا خطبہ پڑھایا۔ جس کے بعد یہ ایک طے شدہ روایت بن گئی، پھر آپ نے اگلی بار اسکندریہ اسٹیڈیم میں نماز عید پڑھائی۔
اخوان المسلمین کے ہاں یوسف القرضاوی صرف فقیہہ اور داعی نہ تھے، جو تحریک کو محض دعوتی اور فقہی معاملات میں رہنمائی فراہم کرتے تھے، بلکہ آپ تحریک کے لیے بحیثیت سرپرست اور مربی کا کردار نبھاتے تھے۔
آپ کی محنت اور جد وجہد:
علامہ یوسف القرضاوی کے سامنے نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا ایک ایسا محاذ تھا، جہاں آپ نے کھڑا ہوکرکلمہ حق بلند کیا اور اسلام کی طرف دعوت دی۔ آپ سرکش حکومتوں کے مقابلے میں عوام الناس کے حقوق کا دفاع کرتے تھے، جس کی بنا پر آپ کو دوسرے مخلص داعیوں کی طرح ظلم وستم کا شکار بنایا جاتا۔ حتیٰ کہ کچھ ملکوں نے آپ کو اپنی سر زمین سے نکال بھی دیا، اور ان ممالک میں داخل ہونے پر پابندی لگائی۔ اسی ضمن میں 2018ء میں آپ کو مصر کی ایک عدالت نے غائبانہ طور عمر قید کی سزا سنائی، صرف اس بنا پر کہ آپ نے قتل وغارت اور خون ریزی کی حمایت کرنے سے انکار کردیا تھا۔
آپ نے شام کے مسئلہ پر بڑا سخت مجاہدانہ موقف اپنایا تھا، جس میں خون کے دریا بہائے گئے تھے اور ساری دنیا پریشانی میں مبتلا ہو گئی تھی۔ آپ عمر بھر مسئلہ فلسطین کی حمایت ونصرت میں کھڑے رہے، اسے ایک لمحہ بھی فراموش نہیں کیا اور اس کے تصفیہ اور فلسطین کے لوگوں کو مضبوطی فراہم کرنے میں کسی بھی جد وجہد سے گریز نہیں کیا، حتیٰ کہ مسلمانوں کے کسی بھی مسئلہ مثلاً برما، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، صومالیہ اور جہاں جہاں بھی مسلمانوں کا خون دھوکہ اور ظلم سے بہایا جاتا ہے۔
علامہ یوسف القرضاوی کا تصورِ تعلیم:
علامہ یوسف القرضاوی نے دو سو سے زائد کتابیں لکھی ہیں جس میں، اسلام میں حلال وحرام کا تصور، عصر حاضر کے مسلمان کے لئے آسان فقہ، اسلام میں ریاست کا تصور، موسیقی اور گانے کا تصور، اسلام میں اقلیتوں کا تصور، اسلامی شریعت میں اعضاء کی پیوند کاری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بہت سے آڈیو اور ویڈیو پروگرام بھی ریکارڈ کروائے ہیں۔
شیخ قرضاوی کی کتابوں میں جو فکر پیش کی گئی ہے اس میں بہت ساری خصوصیات ہیں۔ انہوں نے تقلید سے ہٹ کر براہ راست عقل کو مخاطب کیا ہے اور عملی تطبیق پر زور دیا ہے اور آپ تعلیم وتربیت کے عمل میں معلم کو بنیادی اور اہم عنصر سمجھتے ہیں۔ یعنی ایک معلم کے دل ودماغ میں جس حد تک علم وفکر راسخ اور اپنے مشن پر جتنا سچا ایمان اور بچوں سے محبت ہوگی یا جتنا اس کے اندر بہترین طریقہ تعلیم کے متعلق تجربہ اور صلاحیت موجود ہوگی اسی لحاظ سے وہ اپنے طلبہ اور بچوں پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوگا۔
وسعت علوم کے متعلق شیخ قرضاوی کی رائے یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں پر یہ بات واجب ہے کہ ان کے اندر ایسے لوگ موجود ہوں جو انسانی علوم کے مختلف شعبوں میں تخصص حاصل کر چکے ہوں مثلاََ، (سائیکولاجی، سوشل سائنس، تربیت، علم اقتصاد اور سیاست وغیرہ) یہاں تک کہ انہیں اسلام کے اصل منطقی طریقے سے پڑھانے اور پیش کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ اور ان علوم کے متعلق اسلام کا متوازن ومعتدل نقطہِ نظر واضح کرسکے۔ خاص کر وہ انسانی اور اجتماعی علوم جو کسی قوم کی فکر اور ذوق کو تعمیر کرتے ہیں اس کی سمت اور اس کے افراد کا طرز عمل متعین کرتے ہیں، اس لیے مسلمان ان علوم کو صرف جائز اور مباح نہ سمجھیں جنہیں حاصل کرنے یا نہ کرنے کی اجازت ہے بلکہ یہ مسلمانوں پر فرض کفایہ ہیں جنہیں چھوڑنا جائز نہیں ہے۔
اسی طرح آپ نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو جدت اور اختراع پر ابھارا جائے اور اندھی تقلید اور دوسروں پر تکیہ کرنا چھڑوایا جائے۔ اور کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اس کی باضابطہ پلاننگ کی جائے تاکہ بے ترتیبی، بد نظمی اور ایسے تضیع وقت سے بچا جائے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور ایسے صالح، باضمیر مومن ومسلم کو تیار کرنے کی ضرورت ہے جو اس عظیم مشن پر یقین رکھتے ہوں اور ہر فاسد وفاجر فکر یا بے ضمیر شخص کو تعلیم وتربیت کے میدان سے دور رکھا جائے۔
انہوں نے نوجوانوں کی طرف خصوصی توجہ دی۔ اور ان کا آخری پیغام جو ان کے ٹوئٹر کے آفیشل ہینڈل پر شائع ہوا وہ یہ تھا "کیا ہم سب اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ الحاد سب سے بڑا خطرہ ہے جو عالم بشریت کے اعلی اور مقدس تر اقدار کو تباہ کرے گا؟ تو آئیے ہم نوجوانوں کو الحاد کی تباہی اور اس کی مشکوک ومشتبہ علامتوں سے بچانے کے لیے تعاون کریں جو ایمان کو کھوکھلا اور فکر کو آلودہ کرتے ہیں! آئیے ہم وجود کے روشن اور عظیم تر حقائق سے ایمان کی شمع جلائیں، وہ حقیقت وجود رب تعالیٰ ہے جس نے ہر شئی کو تخلیق کیا، پھر اس کی نوک پلک درست کی اور جس نے تقدیر بنائی پھر اس کی طرف رہنمائی کی۔
علامہ قرضاوی کے افکار اور تعلیمات:
علامہ قرضاوی نے علمی اور فکری کارناموں کا بہت بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے جس سے مسلمان قوم اور ان کی آنےوالی نسلیں مستفید ہوسکتی ہیں۔ ان کے افکار کا ایک تعلیمی پہلو بھی ہے جو اسلامی تربیت اور اس کی خصوصیات کے متعلق ہے جس سے لوگوں کی ایمانی تربیت اور ربانی طرز زندگی کی تشکیل میں مدد مل سکتی ہے۔ ہم ان تعلیمات کو تین عناوین میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ جو آپ کی کتابوں میں اسلامی تعلیمات کی خصوصیات پر مبنی ہیں اور وہ اس طرح ہیں:
- اسلامی تربیت کی خصوصیات
- سیکھنے اور سکھانے کے تربیتی اصول و مبادی
- اسلامی زندگی کی ربانی تربیت
پہلا: اسلامی تربیت کی خصوصیات
علامہ یوسف القرضاوی تربیت مسلم کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "وہ مسلمان جو اسلام میں صرف نماز، روزہ، ذکر واذکار اور دعا پر مطمئن ہوکر بیٹھا ہے جب اس کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی کی بات آتی ہے، وہ صرف جزع فزع کرنے اور دعا مانگنے پر بس کرتا ہے۔ اس کی تربیت اس شخص سے بالکل مختلف ہوتی ہے جس کا سینہ غیرت اسلام سے ابال کھاتا ہے، جس طرح ہانڈی آگ پر ابال کھاتی ہے۔ اس کا دل مسلمانوں کے غم میں گھل جاتا ہے، جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے غم اور غیرت کو قوت ارادہ وعمل میں تبدیل کرتا ہےاور اس جذبے کو اللہ کی مدد سے انقلاب لانے میں صرف کرتا ہے۔ وہ لکھی ہوئی تقدیر کو بے عملی کا بہانہ نہیں بناتا ہے بلکہ اس کا ایمان یہ ہے کہ اللہ کی قضا غالب ہے اور اس کی تقدیر کبھی بدلی نہیں جاسکتی۔ یہ ایسا مسلم ہے جو اپنے مشن کے غلبے کے لیے کام کرتا ہے اور اپنی امت اور تہذیب کی تعمیر و تجدید کے لیے کام کرتا ہے۔
اسلامی تربیت کی خصوصیات جو شیخ قرضاوی نے اپنی کتابوں میں درج کی ہیں:
- عقل سے خطاب، اس کے ذریعے اسلام کی اصلیت اور زمانے کی روح ظاہر ہوتی ہے۔ یہ تجربہ کار اشخاص اور ماہرین کا احترام کرتی ہے اور ہر نفع بخش علم سے فائدہ اٹھاتی ہے، اور مستقبل کے لیے پلاننگ پر بھروسہ کرتی ہے۔ اوہام وخرافات کو مٹاتی ہے، تعلیم کو عام کرتی ہے اور جہالت سے جنگ کرتی ہے، دنیا کے ہر علم اور فکر کے تمام ذرائع کو قبول کرتی ہے ،عقل کا احترام اور وحی کا استقبال کرتی ہے۔
دوسرا: تعلیم وتعلم کے اصول و مبادی
شیخ قرضاوی اپنی کتاب (رسول اور علم) میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: تعلیم میں تربیتی اصول و مبادی کا اہتمام کیا جانا چاہئے اور وہ ان اصول واقدار کی بات کرتے ہیں جن کی تفاصیل سنت میں آئی ہیں، جس کا پاس ولحاظ صحابہ اور سلف صالحین نے رکھا ہے۔ قوی امکان ہے کہ اس سے آنے والی نئی نسلوں میں اپنے دین اور وراثت پر اعتماد بڑھے گا اور انہیں اپنی فکر اور نظام زندگی کے متعلق معرفت حاصل ہوگی، کہ اس میں اصل کتنا ہے اور باہر سے کیا کیا داخل ہوا ہے۔ تاکہ وہ علم اور تربیت میں ترقی کے اس زینے پر فائز ہوجائیں جہاں پہنچ کر انہیں اللہ کا تقویٰ اور اس کی خوشنودی حاصل ہو۔ اس میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:
- معلم پر توجہ دینا اور اس کی صلاحیتوں کی حوصلے افزائی کرنا
- بچوں کی تعلیم میں لوگوں کو سپورٹ کرنا
- سیکھنے والے کو خوش آمدید اور حوصلہ افزائی کرنا
- طالب علم سے نرمی اور ہمدردی کرنا
- غلطی کرنے والے پر رحم کرنا
- اچھا عمل کرنے والے کو شاباشی دینا اور تعریف کرنا
- سکھانے میں تدریج کا خیال رکھنا
- انفرادی خصوصیت کا لحاظ رکھنا
- اعتدال رکھنا اور سستی سے بچنا
- تربیت و رہنمائی میں عملی مثالوں سے کام لینا
- طے شدہ وسائل سے کام لینا
- بہترین اسالیب اختیار کرنا
- گفتگو اور سوال وجواب کے ذریعے متوجہ کرنا
تیسرا: اسلام میں خدا پرستانہ نظام زندگی کی خصوصیات
اسلامی نظام تربیت میں فرد اور اسلامی جماعت کے لیے تعلق باللہ بہت اہم پہلو ہے اور شیخ قرضاوی نے اس پہلو کو اپنی کتاب (اللہ کی طرف جانے والا راستہ ۔۔۔۔۔ علم اور ربانی زندگی) میں ایک مفصل حدیث کے ذریعے الگ بیان کیا ہے۔ انہوں نے لوگوں کی زندگی میں ربانی تصور اور ایمانی تربیت کی ضرورت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے: میرے اوپر عملی تجربہ کے ذریعہ، عملی میدان میں عامی اور علم رکھنے والے لوگوں کے ساتھ کام کرکے اور غافل، لاپرواہ اور مختلف اسلامی جماعتوں میں کام کرنے والوں سے مل کر یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ یہ سب اس بات کے سخت محتاج ہیں کہ ان کی صحیح ایمانی تربیت کی جائے۔ ان کے دلوں سے دنیا اور نفس کی محبت صاف کی جائے اور انہیں ہاتھوں سے پکڑ کر اللہ کے سجدے میں ڈالا جائے ۔۔۔۔ ان کے نفوس تزکیہ کے محتاج ہیں، جس کے بغیر کوئی کامیابی نہیں ہے: "اور قسم ہے نفس کی اور جو کچھ اسے بنایا ہے ہم نے اسے نیکی اور بدی الہام کی ہے، پس کامیاب ہوگیا وہ جس نے اس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوگیا وہ جس نے اسے آلودہ کیا” [الشمس: 7-10]۔
عالم انسانیت کے پاس عموماََ اور مسلمانوں کے پاس خصوصاََ حیات ربانی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اسلام میں حیات ربانی کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے انہیں سات اقسام میں تقسیم کرتے ہیں:
- توحید: یہ اسلام میں حیات ربانی کی پہلی خصوصیت اور اس کا بنیادی رکن ہے اور اس کے معنی یہ ہیں: صرف اللہ کی بندگی کرنا اور اسی سے مدد مانگنا۔ سے چھوڑ کر کسی کی عبادت نہ کرو۔ کسی سے مدد طلب نہ کرو اور یہی اللہ تعالیٰ کے اس قول کا تقاضا ہے "تیری ہی عبادت کرتے ہیں صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں” [الفاتحہ: 5]۔
- فرمانبرداری: اگر روحانی زندگی کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی ذکر، شکر گذاری اور عبادت میں بہترین تعلق استوار کیا جائے تو اس بہترین تعلق کی مضبوطی دو بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔
کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں توحید پر قائم ہوا جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور اللہ کی بندگی اس کی شریعت کے مطابق کی جائے۔
جیسا کہ فضیل بن عیاض نے کہا ہے: کوئی بھی عمل تب تک قبول نہیں ہوتی جب تک خالص اور صحیح طریقہ پر نہ ہو، اس کا خلوص یہ ہے کہ خالص اللہ کے لیے ہو اور صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سنت کے طریقہ پر ہو۔
- ہمہ گیر اور ہمہ جہت: ایک مسلمان دو متناقض اور متضاد زندگیاں نہیں گذار سکتا ہے، ایک روحانی اور دوسری الگ مادی زندگی۔ بلکہ اس کی زندگی ایک کل ہے، جس میں روحانیت اور مادیت ایک ساتھ ملی ہوئی ہیں، جس طرح جسم اور روح یا پھل اور شاخ جڑی ہوئی ہیں۔
- مداومت: جس طرح روحانیت ایک مسلمان کی زندگی کے ہر نشیب وفراز میں لازم و ملزوم ہے اسی طرح یہ ہر زمانے اور ہر لمحہ اس کے ساتھ ہے اور زندگی کے ہر طور طریقے میں اس کی ہدایت ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے رب سے جا ملے۔
- آسانی اور وسعت: اسلام میں روحانی زندگی آسان اور سہل ہے، اس میں کوئی تکلف نہیں ہے سوائے جس کی جتنی وسعت ہو۔ اس میں کوئی بوجھ یا شدت پسندی نہیں ہے، ہاں خود کو سخت مشقت میں ڈالے بغیر ہر کوئی اپنی استطاعت اور قدرت کے عمل کرسکتا ہے۔ "اللہ کے راستے میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تم لوگوں کو چنا ہے اور تمہارے لیے دین میں کوئی حرج نہیں رکھا ہے” [الحج: 78]۔
- توازن اور اعتدال: روحانی زندگی متوازن اور معتدل زندگی کا نام ہے، جو مادی زندگی کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھتی ہے، جیسا کہ اللہ اور رسول نے مقرر کی ہے ،جس میں انتہا پسندی اور غلو قابل قبول نہیں ہے، جس کی وجہ سے ایک مسلم خود پر اور دوسروں پر ظلم کرتا ہے۔ اسلامی روحانیت میں کوئی رہبانیت نہیں ہے اور مسلمان کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ خود پر دنیا کی پاک چیزیں حرام کردے۔ اسے بس اعتدال پر رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔
- تنوع: اسلام نے ایک مومن شخص کے روحانی مطالبات کو مختلف چیزوں کے اندر مضمر رکھا ہے، جس میں اس کا قول اور عمل، امر ونہی، فرض اورنفل، قلبی اور جسمانی عمل شامل ہے اور جو کچھ دن اور رات یا ظاہر اور باطن میں ہے۔
علامہ قرضاوی کی اہم تعلیمی اور دعوتی خصوصیات جن کی طرف اس نے دعوت دی ہے یہ ہیں:
- کسی بھی شخص کے دعویٰ کو بلا دلیل قبول نہ کیا جائے، چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو۔
- ہر اس موقعہ پر ظن وقیاس کو ترک کرنا جہاں پر یقین کامل کی ضرورت ہو۔
- جہاں غیر جانبداری اور معروضیت کی ضرورت ہو وہاں جذبات، خواہشات اور ذاتی مفادات کو ترک کرنا۔
- جمود، تقلید اور دوسروں کی فکری غلامی کے خلاف بغاوت کرنا۔
- غور فکر، تفکر اور تدبر کا اہتمام کرنا۔
یوسف القرضاوی کے تصور تعلیم کی عملی تطبیق:
سب سے اہم عملی میدان جس میں شیخ قرضاوی نے اپنے تصور تعلیم کو لاگو کیا ہے اور جس میں آپ کے اثرات ظاہر ہوئے وہ معاصر اسلامی بیداری میں نوجوانوں کا میدان ہے جہاں انہوں نے چھ براعظموں میں ان کے کیمپوں، سیمیناروں اور کانفرنسوں میں لگاتار شرکت کی اور کبھی کسی پروگرام کو مؤخر نہیں کیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہی وہ اہم ترین عملی میدان ہے جس کے اندر ایک داعی کو اپنی قوت کھپانے کی ضرورت ہے۔ جہاں انہوں نے اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ کیا، وہیں انہوں نے ان کانفرنسوں میں اسلام کے معتدل نظریہ حیات کو پیش کیا اور جمود اور انتہا پسندی کا رد کیا۔ اس بارے میں اپنی کتاب (عصر حاضر میں مسلم نوجوان کی ذمہ داری) میں اس فکر کی وضاحت کردی، جس سے بہت سارے نوجوان انتہا پسندی اور شکوک سے محفوظ رہے۔ جہاں تک آپ کی کتاب (اسلام میں حلال وحرام) کا تعلق ہے، یہ کتاب نمایاں معاشرتی معاملات اور عادات کے احکام شرعی کے متعلق صرف حلال اور حرام کا تعین کرتی ہے، یہ ان معاملات کی فقہی گہرائی میں جانے سے گریز کرتی ہے۔ جب یہ کتاب پہلی بار منظر عام پر آئی تو شیخ قرضاوی کو علماء اور خاص کر سعودی علماء کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ کچھ مخصوص طبقوں نے آپ کے سعودی عرب میں داخلے پر رکاوٹ بھی ڈالی اور بعد میں جا کر آپ کو اجازت مل گئی۔ یہ کتاب ایک مسلمان کی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل میں شریعت کا حکم جاننے کا مفید حوالہ ہے، جہاں یہ کتاب اسے نت نئے مسائل کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں مدد کرتی ہے۔
اس کتاب کے بارے میں پروفیسر مصطفی الزرقاء فرماتے ہیں: یہ کتاب ہر مسلمان گھر کے اندر موجود ہونی چائیے۔ اس کے بارے پروفیسر محمد مبارک فرماتے ہیں: یہ اس موضوع پر سب سے بہترین کتاب ہے اور عظیم استاذ علی طنطاوی مکہ کے کالج آف ایجوکیشن میں اپنے طلبہ کو یہ کتاب درساََ پڑھاتے تھے اور معروف محدث ناصر الدین البانی نے اس کتاب کے احادیث کی تخریج کی ہے۔
جہاں تک اقتصادی مسائل کا تعلق ہے جو کہ دور جدید کا سب سے اہم مسئلہ بن چکا ہے جس پر بڑے بڑے سرمایہ دار ملکوں اور سودی بنکوں کا غلبہ ہے، لیکن شیخ قرضاوی نے اسلام کے اقتصادی پہلو کو نظریاتی اور عملی دونوں سطح پر واضح کیا ہے۔ انہوں نے اسلام کے اقتصادی نظریات پر بہت سے لیکچر اور دروس پڑھائے ہیں اور اس پر کتابوں کا ایک بڑا مجموعہ مرتب کیا ہے، جسے عالم عرب اور عالم اسلام میں بہت سراہا گیا ہے۔ ہم یہاں بعض کا ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں: نظام زکواة، غربت وافلاس اور اس کا اسلامی حل، اسلامی بینکاری نظام میں بیع مرابحہ کی خرید وفروخت، اور آخری کتاب سودی بینکنگ حرام ہے۔ انہوں نے اسلامی بینکاری کا نظام بننے سے پہلے ہی عملاََ اس کی حمایت کی اور پھر جب اس نظام کا قیام عمل میں آیا تو انہوں نے اسلامی بینکاری کے عالمی اتحاد کی حمایت کی اور عمر کے آخری لمحہ تک اس کے ممبر رہے۔ اسلامی بینکاری کی رہنمائی ، پلاننگ اور اس کی سپورٹ کرکے اس کی مضبوطی کو یقینی بنایا۔
معاصرین میں آپ کی قدر ومنزلت:
انس بن مالک کی ایک روایت کے مطابق مسلمان دنیا میں اللہ کے گواہ ہیں: "صحابہ ایک شخص کے جنازے پر سے گذرے اور اس کی تعریف کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا واجب ہوگئی، پھر دوسرے جنازے پر سے گذرے، لوگوں نے اس کی برائی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، عمر رضی اللہ نے فرمایا کیا واجب ہوگئی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کی تم لوگوں نے تعریف کی اس پر جنت واجب ہوگئی اور جس شخص کی تم نے برائی کی اس پر دوزخ واجب ہوگئی، تم سب زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔
شیخ قرضاوی پر بہت سے علماء اور داعیوں نے گواہی دی ہے اور اس کی مدح کی ہے۔ آپ کے لیے علامہ محمد حسن ولد الدود کی یہ تعریف وتوصیف کافی ہے جس کی شہادت اس نے سوشل میڈیا کی ایک وڈیو کلپ میں دی ہے کہ "آپ ایک عالم دین اور مجتہد ہیں، جس نے اس دین اور علم کی خدمت کرنے اور اس پر اپنی ساری توانائیاں خرچ کرنے پر پوری صدی لگا دی” اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مرتے دم تک امامت کے منفرد منصب پر فائز رکھا، اور اس زمانے میں آپ کے شایان شان کوئی دوسری شخصیت پیدا نہ ہوئی، جسے میراث نبوی میں آپ سے بڑھ کر حصہ ملا ہو۔ آپ اس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے وارث مانے جاتے ہیں۔
مآخذ وحوالہ جات:
شیخ القرضاوی کی ویب سائیٹ: آٹوبیوگرافی، 12 دسمبر 2017
حسام تمام: شیخ قرضاوی اور اخوان۔۔۔ شیخ قرضاوی اور تحریک کا تعلق ۔۔۔ ایک مطالعہ، 5 ستمبر 2012
توم بیری: شیخ قرضاوی کی 96 برس کی عمر میں وفات ۔۔۔ عرب انقلابات کا سب سے بڑا حامی اور علمبردار، 26 ستمبر 2022
محمد صالح ابراہیم بک: شیخ قرضاوی کی کتابوں میں اسلامی تعلیمی فکر کی خصوصیات، تحقیقی مقالہ، ٹریننگ کالج، جامعہ اسلامیہ غزہ، 2009، ص 49-74
یوسف قرضاوی: عصر حاضر میں مسلم نوجوان کی زمہ داری، مکتب اسلامی کی نشر واشاعت، بیروت، لبنان، 1983
نور دین قلالہ: علامہ یوسف القرضاوی کی وفات، اسلام اون لائن، 26ستمبر 2022
الدرر السنیہ ویب سائٹ: علامہ محمد الحسن ولد الدود کی یوسف القرضاوی کو خراج عقیدت۔۔۔۔ سوشل میڈیا ویڈیو کلپ
رسول اور علم، ڈاکٹر القرضاوی، دار الصحوہ، قاہرہ، 2001
علم اور ربانی زندگی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، وہبہ لائبریری، اشاعت اول، 1995م
شیخ قرضاوی کی تصانیف کی روشنی میں اسلامی تعلیمی فکر کی خصوصیات، محمد صالح ابراہیم، تحقیقی مقالہ، تربیتی کالج، جامعہ اسلامیہ، غزہ، 2009
مترجم: سجاد الحق