تعلیمی فکر کی نمایاں خصوصیات اور ظلم کے خلاف مزاحمت
عبد الرحمن کواکبی کو انیسویں صدی عیسوی کےان چند عرب مفکرین میں سے ایک اہم شخصیت سمجھا جاتا ہے جنہوں نے عرب نشأة ثانیہ کی بنیاد رکھنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں سے عربوں کی قومی فکر کو از سرِ نو زندہ کیا گیا۔ انہوں نے ہر لمحہ بگڑتے حالات کو سدھارنے اور استبداد کے خلاف محاذ آرائی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسے ہی تعلیم کے میدان کی طرف متوجہ ہوکر نیا راستہ تلاش کرکے ایسی نسل کھڑی کردی جس سے بہتر مستقبل کی ضمانت فراہم ہوگئی۔
کواکبی نے محسوس کیا کہ تعلیم وتربیت ہی وہ واحد راستہ ہے کہ جس سے ظلم کی مزاحمت اور خاتمہ کرنا ممکن ہے اور اسی کے ذریعے پسماندگی سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ وہ اس بات کو ظلم کی سب سے بڑی قسم سمجھتا تھا کہ علم پر جہالت کی ظلمت چھائی ہوئی ہو اور عقل پر نفس کا غلبہ ہوجائے۔ اس کے ہاں تربیت کی دو قسمیں تھیں۔ ایک عام قومی تعلیم جس میں چھوٹا بڑا ہر شخص شامل ہے۔ یہ تعلیم اخلاق اور قومی خصوصیات کو نکھارنے کے ساتھ ہی اچھی عادات و اطوار کو جلا بخشنے میں مدد کرتی ہے۔ دوسری تعلیم وہ ہے جو مدارس کے بچوں کو دی جاتی ہے ایسی تعلیم وتربیت جو انہیں اور پوری قوم کو فائدہ پہنچائیے۔
عبد الرحمن کواکبی کی ولادت
عبد الرحمن بن احمد کواکبی 1854ء میں شام کے شہر حلب میں پیدا ہوئے۔ وہ آسودہ حال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، جو علم وادب میں کافی اونچا مقام رکھتا تھا۔ ان کا نسب اہل بیت سے جاکر ملتا ہے، اور جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا، جو انطاکیہ کے مفتی کی بیٹی تھی، وہ محض چھ سال کا تھا۔ اس طرح ان کی نشوونما انطاکیہ میں خالہ نے کی جس نے اس کی تربیت اور شخصیت کو سنوارنے میں کلیدی رول ادا کیا۔
عبد الرحمن کواکبی نے ابتدائی تعلیم انطاکیہ میں حاصل کی۔ پھر انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسہ کواکبیہ حلب میں داخلہ لیا، جہاں ان کے والد بحیثیت استاد اور پرنسپل کام کرتے تھے۔ انہوں نے عربی کے ساتھ ہی فارسی اور ترکی زبان میں بھی مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ انہوں نے تقریباً سارے عصری علوم میں وسیع مطالعہ کیا، خاص کر سیاست، فلسفہ اور قانون کے میدان میں تجربہ حاصل کیا اور آگے جاکر انہوں نے علم قانون میں تخصص حاصل کیا۔
جب کواکبی 1876ء میں بائیس سال کی عمر کو پہنچ گیا، وہ حکومتی جریدے فرات کا ایڈیٹر بن گیا، جو عربی وترکی زبان میں شائع ہوا کرتا تھا، لیکن انہوں نے جلد ہی اسے خیر باد کہہ دیا اور 1877ء میں ہاشم عطار سے مل کر شہباء کے نام سے اپنا رسالہ جاری کیا۔
اس وقت عثمانی ترک شام پر حکومت کررہے تھے، انہوں نے اسے زیادہ دیر تک رسالہ چھاپنے سے روک دیا، خاص کر اس وقت جب رسالے میں ان کی فکر وفصاحت سے پُر مقالے آگ کے گولے بن کر سیاسی، اقتصادی اور سماجی حالات پر برسنے لگے۔ پھر انہوں نے 1879ء میں "اعتدال” کے نام سے رسالہ جاری کیا جس میں انہوں نے اپنے تند و تیز مقالے جاری رکھے، یہاں تک کہ وہ بھی بند کیا گیا۔
کواکبی نے حلب کے دارالحکومت میں بہت سے منصوبوں پر کام کیا، جہاں وہ کمیٹی برائے مال ومعارف عامہ حلب کے ممبر منتخب ہوئے۔ اسی طرح پبلک ورکس کمیٹی کے اعزازی چیئرمین بھی رہے، جس کے دوران انہوں نے ایسی خدمات انجام دیں جو ریاست کے لیے سودمند ثابت ہوئیں۔ 1892ء میں وہ حلب کے مئیر بن گئے اور انہوں نے حکومتی پرنٹنگ پریس کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لیا۔
جب ان کے خلاف سازشیں شروع کردی گئی تو انہوں نے مصر کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، جہاں وہ 1899ء میں پہنچ گئے۔ مصر میں انہوں نے کھلی ہوا اور آزادانہ ماحول میں رہ کر اپنے خیالات پھیلائے، وہاں کوئی روک ٹوک اور دباؤ نہیں تھا، کیونکہ وہاں برطانوی حکومت کا قبضہ تھا جو ترکوں کے مخالفین کو کھلی چھوٹ دے رہے تھے۔
14 جون 1902ء بروز جمعرات شام کے وقت کواکبی قاہرہ میں اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ ان کا جنازہ بڑے کربناک فضا میں پڑھا گیا۔ انہیں جبل مقطم کے دامن میں مشرقی قاہرہ کے باب الوزیر قرافہ میں دفنایا گیا۔
عبد الرحمن کواکبی: تعلیمی فکر اور اس کی خصوصیات
ہم عبد الرحمن کواکبی کی تعلیمی فکر اور اس کی خصوصیات کو ان کی لکھی ہوئی تمام تحریروں سے معلوم کرسکتے ہیں جو انہوں نے تربیت اور سیاسی ودینی اصلاح کی طرف دعوت دیتے ہوئے قلم بند کی ہیں، ان تحریروں میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:
کواکبی کی نظر میں تربیت کا مفہوم: یعنی وہ صلاحیت جو ہمیں تعلیم حاصل کرنے، عمل کرنے، قیادت کرنے اور وسائل سے استفادہ کرنے میں ضرورت ہوتی ہے، اسے حاصل کرنے کو تربیت کہا جاتا ہے جس کے لیے مربیین کا وجود اصل ضرورت ہے اور دین کا وجود اس کی ترقی کے لیے اہم ہے۔
شخصیت کی تعمیر: کواکبی کی تعلیمی فکر، شخصیت کی تعمیر پر خاص توجہ دیتی ہے۔ اس کے لیے وہ دینی، عملی اور تربیت عامہ کے ذرائع استعمال کرتا ہے۔ ان کی نظر میں شخصیت کی تعمیر کرنا عصر حاضر کا ضروری تقاضا ہے جہاں لوگوں کو بہت سے مسائل اور چلینجز کا سامنا ہے جو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان کے پاس کافی تجربہ اور ذمہ داری اٹھانے کی طاقت ہو۔
آزادی اور انصاف کا حصول: کواکبی کی فکر، حریت اور انصاف کی قدروں کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ وہ اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ تربیت کے ذریعے ذمہ دار فرد اور صالح قوم کو تیار کیا جائے، کیونکہ حریت اور انصاف اتنی اہم قدریں ہیں جن کی تلاش میں عصر حاضر کا انسان در در بھٹک رہا ہے۔
عملی تربیت وقت کی ضرورت: کواکبی کی نظر میں عملی تعلیم بہت ضروری ہے اور واجب ہے کہ علم ومعرفت کی عملی تطبیق پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ عملی تربیت سے طلباء ان صلاحیتوں کو حاصل کرسکتے ہیں جو عملی زندگی میں درکار ہیں۔ اس فکر کے پیچھے یہ منطق ہے کہ اس طرح علم ومعرفت کی عملی تطبیق سے طلباء زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں اور یہ عملی مہارتیں آگے چل کر زندگی کے اہداف حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔
اردگرد کا ماحول: وہ کہتے ہیں کہ بالغ ہونے کے ساتھ ہی تربیت شروع کرنی چاہیے۔ جیسے اپنے آس پاس کے ماحول کا تعارف، اجتماعی حالات کی جانکاری، قانون اور سیاسی فضا کی تعلیم اور انسانی نفس کی تعلیم۔ کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ گھر اور اسکول کی ذمہ داری تو سیکھ لیں لیکن اجتماعی ذمہ داری بھول جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم وتربیت کو اجتماعیت تک محدود رکھنا ضروری ہے، لیکن کواکبی نے اس سارے عمل کو منظم اجتماعی وسیاسی حالات سے منسلک کیا ہے۔
تعلیم کی ابتدا حکومت کے ذریعے ہوتی ہے: وہ یہ سمجھتا ہے کہ حکومت اس وقت سے قوم کی تعلیم کی نگرانی کررہی ہوتی ہے جب ایک بچہ باپ کی صلب میں ابھی نطفہ ہی ہوتا ہے۔ یعنی حکومت قوانینِ نکاح بنا کے پھر زچگی کرانے والی نرسوں، ویکسینیشن اور ڈاکٹروں کا انتظام کرکے، اسی طرح یتیموں کے لیے گھر بناکر، اس کے بعد بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے پرائمری اسکول اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے بناتی ہے۔ کانفرنسوں کا انعقاد کرانا، انجمنیں بنانا، کتب خانے، میوزیم اور یادگاریں بنانا، اخلاق وحقوق کے لیے قانون سازی کرنا، قومی روایات اور مذہبی رسومات وجذبات کو نشوونما دینا، امید وامل بڑھانا اور ان لوگوں کے لیے روزگار وکاروبار کے مواقع فراہم کرنا جو بے روزگار ہیں وغیرہ یہ سب حکومت کی نگرانی میں ہوتا ہے۔
گھر انسان کی پہلی تربیتی درسگاہ ہے: ان کا ماننا یہ ہے کہ گھر میں جو نیا بچہ آ جاتا ہے اس میں اچھا اور برا بننے کی دونوں صلاحیتیں فطرتاً موجود ہوتی ہیں، پھر اس فیملی کے افراد اپنے اپنے میلان طبع اور خواہشات کے مطابق اس بچے کی جسمانی وعقلی قوتوں کی نشوونما کرتے ہیں پھر وہ اسی سلوک کے مطابق ڈھل جاتا ہے اور نیک یا بد کوئی ایک صورت اختیار کرلیتا ہے۔
عورت کی تعلیم: کواکبی جانتا تھا کہ کوئی بھی قومی اصلاح، عورت کی تعلیم کے بغیر نامکمل ہے۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب (أم القری) میں فرماتا ہے: "یقیناً عورت کی جہالت سے جو نقصان اور برا اثر بچوں اور بچیوں کے اخلاق پر پڑتا ہے، یہ بات اتنی واضح ہے جسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
قومی تعلیم: کواکبی کی نظر میں قومی تعلیم، بیداری اور کھلی ہوئی آنکھیں رکھنے کا نام ہے جس کی ابتدا بصیرت اور اعتماد سے ہوتی ہے نہ کہ ذلت آمیز مرعوبیت اور اندھی تقلید کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے۔ اور یہ ایسی طاقت ہے جو تعلیم، تجربہ، قیادت اور استفادہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے لیے مربیین کا وجود لازمی اور بنیادی ہے، اور دین اس کے لیے اہم ترین ذریعہ ہے۔
مربیین کو تیار کرنا: انہوں نے مربیین کو وصیت کی کہ اپنی تربیت کرو، اپنے دل ودماغ کو مصائب پر صبر کرنے کے لیے تیار کرلو، اپنی رکاوٹوں پر قابو پانے کی کوشش کرو اور اپنے مقصد کی راہ میں اپنی ذات کو بھول جاؤ۔ یہ ایک ایسی مشقت اور مجاہدہ ہے جس میں شدید فوجی ٹریننگ اور صوفیانہ زہد شامل ہے۔ اس کے بعد علم کے کسی ایک شعبے میں تخصص حاصل کرو، تاکہ لوگوں میں آپ کو احترام سے دیکھا جائے۔ اسی طرح عادات واطوار کا خیال رکھا کرو۔
منکر سے روکنا: پس وہ سمجھتا ہے کہ نصیحت اور زجر و توبیخ سے اخلاق کو سنوارا جاسکتا ہے، یعنی افراد کو نظم اجتماعی کی حفاظت کے لیے آمادہ کرنا۔
تین قسم کی خصلتیں: پہلی خصلت فطری اچھائی، جیسے سچائی، امانت داری، ہمت، قوت مدافعت اور رحمت۔ اور بری فطرت جیسے ریاکاری، گھمنڈ، بزدلی اور سخت دلی۔ دوسری: یعنی کمال، جس کو الہامی کتابیں لے کر آتی ہیں جیسے ایثار میں احسان کا درجہ پیدا کرنا، عفو و درگذر، لالچ وزنا کو برا جاننا۔ اور تیسری: عام خصلت جو ایک انسان وراثتی تعلیم یا صحبت سے حاصل کرتا ہے پھر اپنی افتاد طبع سے اسے نکھارتا ہے یا بگاڑتا ہے۔
تعلیم اور ظلم وجبر میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے: تعلیم میں کمزوریاں ہونے کے باوجود کچھ تعمیری کام بھی ہوتا ہے لیکن اس پر استبداد حملہ کرکے بزور مٹا دیتا ہے، خاص کر اس کی مثالیں مشرقی دنیا میں ملتی ہیں جو ظلم وبربریت اور محرومیوں سے دوچار ہے۔ اب صرف ایک امید ہے کہ یہ ظلم ختم ہو جائے اور عقل کو روشنی حاصل ہو جائے اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ تعلیم کو صحیح وسالم بنیادوں پر استوار کیا جاسکے۔
تعددِ مربیین: وہ سمجھتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ طالب علم کے بہت سے اساتذہ ہوں اور اس پر یہ دلیل دیتا ہے کہ جو مسلمان شریعت کو عملانا چاہتا ہے اس کے کوئی گناہ نہیں ہے اگر وہ سارے مجتہدین سے سیکھ کر اسے سہل طریقے سے اپنا سکتا ہے۔
آسان طریقہ ہائے تعلیم: کواکبی کا ماننا ہے کہ وہ آسانی کے لیے متعین تعلیمی طریقوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ تعلیم کے ان مصادر ومراجع کو بڑی اہمیت دیتے ہیں جو بہت ہی سہل، واضح اور مختصر گائیڈ کی صورت میں دستیاب ہوں۔ بلکہ وہ اس طریقہ کار کی مدح وثنا میں اس حد تک جاتے ہیں کہ مستشرقین کے عربی زبان سیکھنے کے طریقہ کار کو دل وجان سے داد دیتے ہیں۔
جدید مغرب کی تقلید: وہ اس تقلید کو تذلیل سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ دینی اور قومی مسائل کو اولین ترجیح دی جائے اور اس بارے میں ان کا کہنا تھا: "اس ذلت کا سب سے برا پہلو یہ ہے کہ ہمارے لوگ مغرب کی تقلید کرنے میں وہی خیال رکھتے ہیں جیسے ایک بچے کا اپنے والدین اور اساتذہ کے بارے میں خیال ہوتا ہے۔ وہ ان کی نقل کرنے میں اچھل رہے ہیں اور یہ کہہ کر فخر کرتے ہیں کہ ان چیزوں میں نزاکت، خوبصورتی، ندرت اور تہذیب پائی جاتی ہے۔ اور جس چیز پر وہ سب سے زیادہ ڈھیٹ بنے ہوئے ہیں جس سے وہ دھوکہ کھا رہے ہیں وہ ان کی یہ بات ہے کہ ہم بنیاد پرست دین داری نہیں مانتے اور خوشی سے دین پر فخر کرنا ترک کرتے ہیں۔”
اخلاق فاضلہ کی تخم ریزی اور نوجوانوں کی صحیح پرورش: ان کی رائے ہے کہ تعلیمی نظام کی اصلاح، نوجوانوں کے اس عزم کی ایک کڑی ہے کہ وہ تعلیم کے ذریعے امت اور وطن کی خدمت کے لیے کھڑے ہوں گے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنی وراثت، تاریخ اور عصری علوم کا گہرا مطالعہ کریں گے۔ کیونکہ وہ ان اسلاف کے جانشین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جنہوں نے دنیا کو خیر و بھلائی کی طرف رہنمائی کی تھی۔
جامع مستقل اور عملی تعلیم: ان کی نظر میں شخصیت کے ایک پہلو پر کام کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ سارے پہلوؤں کو ایک ساتھ نشوونما دینا ضروری ہے۔ ان کا ہدف ایک مکمل شخصیت کی تعمیر ہے جو عصر حاضر کے تقاضوں اور اسپرٹ کے شایانِ شان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اصلی شناخت کی محافظ بھی ہو۔
کواکبی کی تصانیف
عبد الرحمن کواکبی نے کافی ساری کتابیں لکھی ہیں اور ادبی تصانیف کا ایک انبار چھوڑ کر گئے ہیں جس میں درج ذیل شامل ہیں:
ظلم کی طبیعت اور غلامی سے لڑائی: یہ ان کی سب سے مشہور کتاب ہے، اسے انیسویں صدی کی اہم ترین عربی کتاب تسلیم کیا جاتا ہے اور اس میں اس نے سیاسی استبداد کے پہلو پر روشنی ڈالی ہے اور اس بات کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ اسے مٹائے بغیر حریت اور انصاف کو قائم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
أم القری: یہ ایک تاریخی کتاب ہے جس میں انہوں نے عربوں کی تاریخ اور تہذیب پر گفتگو کی ہے اور عربوں کی تہذیب زندہ کرنے کی طرف دعوت دی ہے۔
اسلام اور وطنیت: اس کتاب میں انہوں نے اسلام اور وطنیت کے تعلق پر لکھا ہے اور اس بات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ دین اور حب الوطنی کے رشتے کو مضبوط کیا جائے۔
کواکبی کے مقالے: یہ وہ مضامین ومقالات ہیں جو کواکبی نے مختلف موضوعات پر لکھے ہیں جس میں سیاست معاشرت اور ادب شامل ہیں۔
کواکبی کی ذاتی یادیں: یہ ان کی ڈائری میں لکھی ہوئی تحریریں ہیں جو انہوں نے اپنی زندگی اور خیالات کے متعلق لکھی ہیں۔
عرب نشأہ ثانیہ کے پس منظر میں عبد الرحمن کواکبی کی تعلیمی فکر کو بڑی اہمیت حاصل ہے انہوں نے کوشش کی کہ ایسی جدید تعلیمی فکر پیدا کی جائے جس کا مطمح نظر حریت، انصاف اور مساوات کے اصول ہوں۔ اس لیے عرب ماہرین تعلیم آج بھی ان کے تعلیمی افکار سے بڑے اہتمام کے ساتھ استفادہ کررہے ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی جبر کے خلاف بڑے معرکے لڑے ہیں۔ انہوں نے اس ظلم کے خلاف لڑنے، عوام الناس اور ان کی ترقی پر منڈلاتے خطرات کو زائل کرنے کے لیے، اپنی زندگی، قلم اور فکر کو وقف کردیا اور اس راہ میں اجنبیت، ہجرت، جیل کی وحشت اور ظلم وستم جیسی بہت سی مصیبتیں برداشت کیں۔
مآخذ اور حوالہ جات:
- أ، د، نجاح ہادی کبہ: مسئلہ تعلیم پر عبد الرحمن کواکبی کے معاصر نظریات
- محمد عمارہ: مسلم انقلابی شخصیات ، ص217
- جورج کتورا: کواکبی کی کتاب ظلم کی طبیعت میں طبیعت کا مطلب ، تحلیلی مطالعہ ، ص106-107
- عبد الرحمن کواکبی: مکمل مجموعہ کتب، ص266-267
- احمد بن عدی خلیلی: ظلم کی شکلیں اور اس کی مزاحمت ص388
- عبد الرحمن کواکبی: ام القری ،ص152
- نوربیر تابییرو: کواکبی ۔۔ایک انقلابی مفکر، مترجم علی سالمہ، ص129
(مترجم: سجاد حسین میر)