ایک معلم کا کردار صرف علمی حد تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے اچھے اخلاق کی طرف رہنمائی اور نصیحت کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اور طلبہ کو نصیحت کرنے کے فن میں مہارت حاصل کرنی چاہیے، تاکہ حال اور مستقبل میں انہیں فائدہ ہو گا، نیز ان کے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ معلم ان کی غلطیوں کی اصلاح کیلئے ان کے ساتھ ایسا سلوک کرے جیسا کہ ایک شفیق باپ اپنے بچوں کے ساتھ کرتا ہے، جن کے لیے وہ ہمیشہ بھلائی چاہتا ہے اور شر سے انہیں محفوظ رکھتا ہے۔
نصیحت ایک فن ہے، جس میں ہر وہ شخص مہارت حاصل کرتا ہے جس نے ایک کامیاب معلم کی قابلیت اور صلاحیت سے استفادہ کیا ہو، اور یہ ایک معلم کے کام کا مرکزی نکتہ ہوتا ہے جو اپنے طلباء سے جڑے تمام دینی و دنیوی امور کو ان کے پروردگار کی طرف سے دی گئی رہنمائی کے مطابق درست تعلیم کے ذریعے بہتر بناتا ہے۔ اس لیے نصیحت اور درست رہنمائی کی اہمیت میں سے ایک یہ ہے کہ: ہمیشہ بہترین کی کوشش کرتے ہوئے، کام اور افراد کے درجے کو بلند کرنا۔ یہ اس کے بنیادی آداب اور شرائط میں سے ہے تاکہ خدانخواستہ نتائج اس کے برعکس نہ آئیں، کیونکہ طبیعت ان لوگوں کو پسند نہیں کرتی جو اس پر حملہ کرتے ہیں یا اس کے عیوب کو نامناسب طریقے سے ظاہر کرتے ہیں۔
طلباء کو نصیحت کرنے کا فن: مفہوم اور شرعی بنیادیں
لغوی اعتبار سے نصیحۃ کا لفظ "نصح” سے ماخوذ ہے، جو دو چیزوں کی درستگی اور اصلاح کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی اصل ناصح (اصلاح کرنے والا) ہے، یعنی درزی (کپڑوں کی اصلاح اور درستگی کرنے والا)۔ نصیحت یا اصلاح دھوکے کی ضد ہے۔ جیسا کہ عرب کہتے ہیں، نصحتہ / انصحہ: میں نے اسے نصیحت کی، اس کی اصلاح کی یا میں اس کی اصلاح کرتا ہوں وغیرہ۔ راغب نے کہا ہے: ”نصیحت کے معنی ان کے قول سے ماخوذ ہے: میں نے اسے نرمی سے نصیحت کی۔ یعنی: میں نے اسے مخلص بنایا۔ ان کا ایک اور قول ہے: میں نے جلد کی اصلاح کی: یعنی اس کی سلائی کی۔ ابن منظور نے کہا: اس نے چیز کو درست کیا: وہ مخلص تھا، یا وہ نصیحت یا اصلاح کرنے اور دوسری چیزوں میں مخلص ہے۔ وغیرہ "
جہاں تک اس لفظ کے اصطلاحی معنی کا تعلق ہے تو: خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "نصیحت ایک ایسا لفظ ہے جس سے ایک پورا جملہ مراد ہے۔ یہ کہ "نصیحت سے مراد اس شخص کی خیر خواہی ہے جسے نصیحت کی جارہی ہے۔” علامہ راغب رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: نصیحت سے مراد ایسا عمل یا بیان ہے جس میں اس کے کرنے والے کی صداقت اور خیر خواہی شامل ہو۔ محمد بن نصر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: "بعض علماء کا خیال ہے: نصیحت سے مراد اس شخص کے دل اور جذبات و احساسات کی رعایت کرنا ہے جس کو نصیحت کی جارہی ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔” علامہ جرجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نصیحت سے مراد: "خیر کی طرف بلانا اور اس چیز سے روکنا ہے جس میں شر اور فساد ہو۔”
نصیحت انبیاء کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی ارشاد فرماتے ہیں کہ جس میں وہ اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: (میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر خواہ ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں) [الاعراف: 62]، اور دوسری جگہ ھود علیہ السلام کی زبانی ارشاد فرمایا: (میں تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے) [الاعراف: 68]۔ اور سیدنا شعیب علیہ السلام کی زبانی ارشاد فرمایا: (میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کردیا) [الاعراف: 93]۔
یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے خیر اور بھلائی کی دلیل ہے، جیسا کہ ارشاد باری ہے: (دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو) [آل عمران: اور عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اُن لوگوں میں کوئی خیر بھلائی نہیں جن میں نصیحت کرنے والے خیر خواہ نہ ہوں، اور نہ ان میں کوئی خیر ہے جو نصیحت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ یہ دین کا ستون اور بنیاد ہے۔ اور کہا: ’’دین سراپا خیر خواہی ہے‘‘ بلکہ اس پر آپ نے بیعت لی۔ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کیلئے خیرخواہی پر بیعت لی ہے۔ (بخاری و مسلم)۔ پس خیر خواہی صوم و صلوٰۃ کا قرینہ ہے۔
اس کو زمین پر نافذ کرنے والے اللہ کے جانشین ہیں۔ حسن البصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو خدا کے بندوں سے اس کے رب کی خاطر بھلائی کرتے ہیں، خدا کے بندوں کو ان پر خدا کے حقوق کے بارے میں نصیحت کرتے ہیں اور زمین پر اس کے لئے بھلائی کے ساتھ کام کرتے ہیں، یہ لوگ زمین پر خدا کے جانشین ہیں، اور یہ محبت اور ہم آہنگی کا ثبوت ہے۔ حارث المحاسبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جان لو کہ جس نے آپ کو نصیحت کی اس نے آپ سے محبت کی، اور جس نے آپ سے چاپلوسی کی اس نے آپ کو دھوکہ دیا، اور جس نے آپ کو مشورہ دیا اس نے آپ کو دھوکہ دیا۔ اور جو تمہاری نصیحت قبول نہ کرے وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔
طلباء کو نصیحت کرنے کے شرائط
وہ معلم کہ جس نے طلبہ کو تعلیم دینے اور ان کی ٹھیک ٹھیک رہنمائی کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کچھ شرائط پرعمل کرے۔ جن میں سب سے نمایاں شرائط یہ ہیں:
سچائی اور ایمانداری: مصعب بن سعد نے روایت کی ہے کہ سعد نے فرمایا: "مومن تمام اعمال کی طرف مائل ہوسکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔” نصیحت کا اخلاص طلبہ کے قریب اور ساتھ رہنے، معاملات کو واضح کرنے اور اخبار و اقوال کے صحیح ہونے سے ثابت ہوتا ہے، شک اور شبہ کی بنیاد پر مشورہ دینا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بد گمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے” (رواہ البخاری)
اللہ کیلئے نیت کا خالص ہونا: اسے کسی بھی سفلی خواہش، خود غرضی، تحقیر، ملامت، یا اسی طرح کے کسی مذموم چیز سے آلودہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
صحیح طریقے کا انتخاب: یعنی اکیلے میں نصیحت کرنا، کیونکہ یہ طریقہ طالب علم کیلئے کم نقصان دہ اور زیادہ محفوظ ہے ،کہ شیطان کوئی حملہ نہ کرے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بجا فرمایا کہ: "لوگوں کے سامنے نصیحت کرنا، ڈانٹ ڈپٹ اور ملامت ہے۔ نصیحت کیلئے لازم ہے کہ وہ شائستگی، مہربانی اور نرمی سے کی جائے اور اس میں نرم اور شائستہ الفاظ استعمال کئے جائیں۔
سختی اور بدتمیزی سے اجتناب کرنا: کیونکہ یہ دلوں کو بند کر دیتا ہے اور کانوں کو بہرا کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اگر تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے) [آل عمران: 159]۔
عاجزی اور کمزوری کا اعتراف کرنا: علم کے اندر یہ چیز لازمی ہے کہ بندہ اس بات کو تسلیم کرے کہ جو معلومات اس کے پاس ہیں ان میں غلطی کا امکان ہے اگر چہ وہ صحیح ہوں۔ اسی طرح یہ بات تسلیم کرلینا کہ جو کچھ دوسروں کے پاس ہے وہ صحیح ہے اگر چہ بظاہر آپ کو غلط نظر آرہا ہو۔
معروضیت کی چھان بین کرنا: قانونی دلائل اور شواہد کے ساتھ اچھی بحث کرنا، اور کسی بھی معاملے میں اس شخص کی طرف رجوع کرنا جس کے پاس زیادہ علم ہو، نیز اس کا حوالہ دینا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "(یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے)۔ [النساء: 83]
صبر: نصیحت کرنے والے کو ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی اپنے عزم و حوصلے کو پست کرنا چاہیے، اگر اسے مخالف سمت (منصوح کی طرف سے) سے صحیح رد عمل نہ مل رہا ہو، کیونکہ اس معاملے میں ایقان، عزم و حوصلہ، اور تنفیذ کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ تو شرف قبولیت ہی نہیں ہوتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں) [الاعراف: 79]۔ اور اس نے خدا کے سامنے اس کا عذر بنایا ہے۔
اس چیز کا علم جس کی تلقین کی جارہی ہے: معلم پر لازم ہے کہ اسے اس چیز کا صحیح علم ہو جس کی وہ تعلیم دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (اور کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو) [الاسراء: 36]۔
یہ کہ نصیحت قبولیت کے ساتھ مشروط نہ ہو: ابن حزم نے فرمایا ہے: "اپنی طرف سے قبولیت کی شرط پر نصیحت نہ کرو، کیونکہ اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم ناصح نہیں بلکہ ظالم ہو، اور اطاعت کا متلاشی، دین اور بھائی چارے کے حق پرعمل کرنے والا نہیں۔ یہ نہ توعقل کا تقاضا ہے اورنہ دوستی کا، بلکہ یہ تو ایک بادشاہ کا اپنی رعایا کے لئے حکم ہے، اور آقا کا اپنے نوکر کے ساتھ والا رویہ ہے۔”
نصیحت حکمت اور عمدہ طریقے کے ساتھ ہونی چاہئے: نصیحت کرنے والے کو چاہئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے اس فرمان کو ایک اصول کے طور پر اپنائے: ارشاد باری ہے۔(اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے) (النحل:125)۔
نصیحت کا مقصد منصوح (جسے نصیحت کی جارہی ہو) کی خیر خواہی، اس کے حال کی درستگی اور اس کی عزت کی حفاظت ہونا چاہیے: نصیحت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اس شخص کو بتائے کہ اس کی نیت بھلائی اور خیرخواہی پر مبنی ہے اور یہ کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ اور یہ کہ وہ اپنی نصیحت سے خداتعالیٰ کی خوشنودی کے سوا کسی چیز کی امید نہیں رکھتا، اور یہ کہ اس نصیحت کا مقصد آپ کو اللہ کے غضب سے بچانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول پر عمل کرتے ہوئے کہ: ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (بخاری)۔
نصیحت کے آداب
طلباء کو نصیحت کرنے کے ضمن میں آداب کا ایک مجموعہ شامل ہے جس پر معلم کو ان لوگوں کے ساتھ عمل کرنا چاہیے جو ان کی پرورش اور تعلیم پر اعتماد کرتے ہیں، بشمول:
نصیحت کو پوشیدہ رکھا جائے: اس کا اظہار لوگوں کے سامنے کسی صورت میں نہ کیا جائے الا یہ کہ کوئی مصلحت ہو۔ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سلف صالحین میں سے اگر کوئی کسی شخص کو نصیحت کرنا چاہتا تو اسے چھپ کر اکیلے میں نصیحت کرتے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے کہا: جو شخص اپنے بھائی کو خلوت میں نصیحت کرے، وہی نصیحت ہے، اور جو لوگوں کے سامنے نصیحت کرتا ہے وہ اسے ڈانٹتا ہے۔” فضیل نے کہا: مومن چھپاتا اور نصیحت کرتا ہے جب کہ فاسق بے عزت اور طعنہ زنی کرتا ہے”۔
معلم نصیحت کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کرے: ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: "بے شک ان دلوں کی خواہش اور خواہش ہوتی ہے، اور ان میں ایک مدت اور ایک موڑ ہوتا ہے، لہٰذا جب چاہیں ان کو لے لو۔ اور خواہش” اور اسے اس کے انجام اور انجام پر چھوڑ دو۔
ناصح اس پر عمل پیرا ہو جس کا وہ لوگوں کو حکم دے اور اس سے اجتناب کرتا ہو جس سے دوسروں کو روک رہا ہو: اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کے قول و فعل میں تضاد پر ملامت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟ )
نصیحت کے دوران لفاظی سے اجتناب: بہترین کلام وہ ہے جو مختصر مدلل (معنیٰ خیز) ہو۔ نصیحت کوغیر ضروری طول دینے اور تکرار سے منصوح بدمزہ اور غضب ناک ہوسکتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ”عبداللہ ہر جمعرات کو لوگوں کو نصیحت کرتے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن، کاش تم ہمیں ہر روز نصیحت کرتے؟ اس نے کہا: مجھے ایسا کرنے سے جو چیز روکتی ہے وہ یہ ہے کہ مجھے تمہیں بور کرنا پسند نہیں ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ تم نصیحت کیلئے آمادہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آمادگی کا فائدہ اٹھاتے، اس ڈر سے کہ کہیں ہم لوگ بور نہ ہوجائیں۔ (بخاری)
عملی ذرائع
ایک کامیاب معلم کی مہارات میں عملی ذرائع شامل ہیں جن سے ہر ذمے دار معلم و مربی کو استفادہ کرنا چاہیے تاکہ متربیین اور متعلمین ان کے مشوروں کو قبول کریں اور ان کی تربیت سے استفادہ کریں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
• مناسب مواقع پر طلباء کی تعریف کرنے کو اپنا شعار بنائیں۔
• طلباء کو مختلف مواقع پر لوگوں کی خدمت کرنے پر اکسانا، تاکہ ان میں خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے۔
• ضرورت مندوں کی مدد کے لیے کلاس روم میں اہتمام کرنا اور انہیں خرچ کرنے کی ترغیب دینا۔
• کلاس روم میں ہر طالب علم اپنے مسائل پیش کرنے کی مشق کرے اور پھر باقی طلبہ خلوص، اخوت اور اخلاص کے جذبے کے تحت خدا کی طرف رجوع کرتے ہوئے ان کے حل کیلئے کوششیں کریں۔
• یکجہتی فنڈ جمع کرنے کی مشق
• نصیحت کے بارے میں کلاس روم کے اندر مشق کرانا جس میں تمام آداب و شرائط کی رعایت کی جائے اور طلبہ کو تیار کیا جائے۔
حوالہ جات:
1. الفارس: معجم مقاييس اللُّغة 5/ 435.
2. ابن منظور: لسان العرب 7/ 4438.
3. الفيومي: المصباح المنير 2/ 276.
4. الراغب الأصفهاني: المفردات، ص 494.
5. ابن رجب الحنبلي: جامع العلوم والحكم 1/ 220.
6. أبو حامد الغزالي: إحياء علوم الدين 1/95.
7. عبد الفتاح أبو غدة: رسالة المسترشدين، ص 71.
8. حزم: رسائل ابن حزم، ص 364.
9. الدكتور حامد أشرف همداني: النصيحة.. شروطها وضوابطها، ص 57، 5