شیخ محمد الغزالی کے ہاں انفرادیت اور جدت کے بہت سے پہلو پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے آپ نے دنیا کے مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ اس کے ساتھ آپ شعبہ تعلیم کے مختلف مضامین میں محققین کے اہتمام اور توجہ کا مرکز بن رہے۔
شیخ محمد الغزالی اپنی تحریروں، تبلیغ اور خطبات کے ذریعے مسلمان عوام کے لیے جدید تعلیمی تصورات وضع کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ جس میں آپ نے خاص طور پر علم، اس کے طریقوں اور وسائل، حصول علم کے لیے عقل کی اہمیت اور قرآن و سنت کے مطابق مسلم شخصیت کی اخلاقی تربیت کا اہتمام کیا۔
شیخ محمد الغزالی کا مختصر تعارف:
شیخ محمد الغزالی احمد السقا 1917ء میں ضلع بحیرہ کے مرکز ایتای البارود کے گاؤں نکلا العنب میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک غریب دینی دیہاتی گھرانے سے ہے۔ آپ کے والد ایک متقی شخص تھے، جو حافظ قرآن تھے۔ وہ آپ (محمد الغزالی) کو دینی تعلیم دینے اور قرآن مجید حفظ کرنے پر زور دیتے تھے، اور آپ کی ایسی پرورش کا انتظام کیا جس کا خدا سے گہرا تعلق تھا۔
اپنے والد سے متاثر ہونے کے علاوہ شیخ الغزالی اپنے ان شیوخ سے بھی متاثر تھے، جن کے وہ شاگرد تھے، اور آپ کے اکثر شیوخ، شیخ حسن البنا سے متاثر تھے، چونکہ شیخ حسن البنا ایک فکر اور فقہ کے علمبردار تھے اور موجودہ اسلامی دنیا سے باخبر تھے۔
محمد الغزالی نے اپنے پیچھے کتابوں، مضامین، لیکچرز، خطبات اور دروس کا بہت بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے، جو انہوں نے اپنے طویل دعوتی اور فکری دورانیے کے دوران انجام دیے ہیں۔ آپ نے تعلیمی میدان میں بھی بہت بڑا حصہ ڈالا ہے، جہاں آپ کے پاس بہت سے تعلیمی افکار اور نظریات ہیں۔ اس کے ساتھ آپ نے دور دراز سفر اور دورے بھی کیے جہاں آپ سنت کے دفاع میں کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ اعتدال پسندی کے علمبردار بن گئے۔
محمد غزالی سنت کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے والوں سے برابر لڑتے رہے، یہاں تک کہ آپ 20 شوال 1416ھ بمطابق 9 مارچ 1996ء بروز ہفتہ کو ریاض، سعودی عرب میں وفات پا گئے۔ آپ وہاں اسلام اور دور جدید کے چیلنجز کے موضوع پر ایک کانفرنس میں شریک تھے اور مدینہ منورہ کے قبرستان البقیع میں دفن ہوئے، کیونکہ آپ نے وہاں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
محمد الغزالی اور معاصر تعلیمی فکر:
اسلام کی تعلیمی فکر پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں سے اکثر صرف دو چیزوں پر مشتمل ہے: یعنی قرآن مجید اور سنت نبوی سے ماخوذ تعلیمی ہدایات، اور دوسرا اسلامی تعلیمی ورثہ ہے۔ یہ دونوں بہت عظیم ماخذ ہیں، لیکن ان میں سے بہت کم تحریریں ایسی ہیں جو معاصر اسلامی حقیقت کو ان تعلیمی ہدایات اور طریقہ کار کی نظر سے پیش کرتی ہیں۔
تاہم، شیخ محمد الغزالی ان چند افراد میں سے ہیں جو جدید اور معاصر حقیقت کو ان ہدایات، تعلیمات اور اصولوں کے نقطۂ نظر سے پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے دنیائے اسلام میں رہنے والے نوجوان نسل کے دلوں پر ایک حقیقی چھاپ چھوڑی ہے۔
محمد الغزالی نے تعلیم کو اس پریکٹیکل نظریے سے دیکھا ہے جوعمومی ثقافتی پس منظر سے پیدا ہوتا ہے، جہاں انہوں نے اس بات پر تحقیق کی کہ تعلیمی شعور کی کمی کی وجہ سے عرب معاشروں کی بگڑی ہوئی صورتحال کس درجہ متاثر ہوئی ہے، اور اس دوران انہوں نے تعلیم، تربیت اور ثقافت کی ایک سے زیادہ تعریفوں کا ذکر کیا، اور قوموں کی ترقی اور اقدار کی ترویج میں تعلیم کی خصوصی اہمیت کی وضاحت بیان کرنے کے ساتھ نظم و ضبط کے کچھ ذرائع کی طرف بھی اشارہ کیا۔
محمد الغزالی کا تربیتی اسلوب:
شیخ محمد الغزالی نے تعلیم کے متعدد اہداف کی طرف دعوت دی ہے۔ یہ اہداف بالآخر ایک مسلم شخصیت کی مجموعی تعمیر پر منتج ہوتے ہیں۔ جو اسلامی تربیت کے سب سے اعلی مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے پس منظر میں نشو و نما پاتی ہے۔ اس کے لیے آپ نے جو اسالیب اختیار کیے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
- تربیت بذریعہ بہترین مثال: یہ انسان کی روح کو متاثر کرنے والی تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اور یہ سب سے کامیاب طریقہ بھی ہے۔ اس لیے استاد کو چاہیے کہ اپنے شاگردوں کے لئے ایک اچھی مثال بن جائے اور مربی کو چاہیے کہ تربیت حاصل کرنے والوں کے لئے اچھا نمونہ ثابت ہو۔ محمد الغزالی کا ماننا ہے کہ ذہانت کی تیزی اور علم کی وسعت، مربی کی نیک طینت اور شرافت نفس کی جگہ نہیں لے سکتے، وہ ذہین شر پسند سے نفرت کرتا ہے، کیونکہ کم ظرف شخص زیادہ علم کی وجہ سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے اور اس کے اندر برائی کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔
- وعظ اور یاد دہانی کے ذریعے تربیت: یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں زندگی کے آغاز سے لے کر اختتام تک پوری زندگی، پوری عمر لگ جاتی ہے۔ یہ تصور کرنا غلط ہے کہ اس عمارت کی تعمیر کے لیے چند مہینے یا سال درکار ہوتے ہیں، جس کے بعد بس تفریح اور آرام ہے، بلکہ مومن ایک کار کے ڈرائیور کی طرح اپنے نفس کو لے کر سارے راستے چوکس رہتا ہے، بصورت دیگر وہ محض ایک ساعت کی غفلت میں ہلاک ہوسکتا ہے۔
- تربیت بذریعہ خوف و رجا: جسمانی سزا سے ڈرانا اور مادی انعامات سے حوصلہ افزائی کرنا تعلیم کے میدان میں اچھی چیز ہے، لہٰذا استاد کو معلوم ہونا چاہئے کہ حوصلہ افزائی کا طریقہ کب استعمال کرنا ہے، اور کب اسے چھوڑ کر ڈرانے دھمکانے کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ محمد الغزالی اس بارے میں کہتے ہیں: جس طرح نفس کو رغبت دلاکر رہنمائی کی جاتی ہے، اسی طرح خوف سے اس کی رہنمائی ہوتی ہے، تو وہ سزا کے خوف سے برائی کو ترک کرتا ہے۔
- کہانی کے ذریعے تعلیم: قصہ تربیت کا ایک کامیاب ذریعہ ہے جو شاگردوں کے دلوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ شیخ غزالی کے مطابق صحیح اسلامی تربیت زندگی اور زمین و آسمان کی خلقت کے بارے میں ایک وسیع سمجھ پر مبنی ہے، ہر اس چیز کی سمجھ جو ہمیں متاثر کرتی ہے، اور جس پر ہم اثر انداز ہوتے ہیں۔
- فارغ اوقات میں تعلیم حاصل کرنا: اگر تم اپنے آپ کو اطاعت یا کسی مفید چیز میں مشغول نہیں کرو گے، تو نفس تمہیں لہو و لھب اور نافرمانی میں مشغول کرے گا۔ شیخ محمد الغزالی وقت کی قدر و قیمت پر زور دے کر کہتا ہے: اگر آپ نے خود کو حق سے وابستہ نہیں کیا تو نفس آپ کو جھوٹ سے جوڑ دے گا، اور یہ سچ ہے، کیونکہ اگر نفس اچھے کاموں کی تیز رفتار نقل و حرکت کے ساتھ چلنے میں کامیاب نہیں ہوتا ہے تو اسے سکون نہیں ملتا۔ اگر یہ جد وجہد اور اس کے مسلسل ثمرات حاصل نہ کرسکا، تو یہ بہت جلد لاپرواہ خیالات کے ذریعہ ختم ہوگا، اور انسانی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لئے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اسے ایک ایسا لائحہ عمل دیا جائے جس میں اس کے اوقات خرچ ہوں گے۔
- واقعات وحالات کے ذریعے تعلیم: انسانی زندگی مسلسل حالات و واقعات کا ایک سلسلہ ہے، جو ایک شخصیت کی تشکیل اور نکھار میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ محمد الغزالی کہتے ہیں کہ جو شخص اپنے تجربات سے نہیں سیکھتا ہے، ان کے ذریعے نقصانات اور دشمنی سے نہیں بچتا ہے، وہ کوتاہ نظر اور کمزور ایمان والا شخص ہے۔
- تربیت اور عملی مشق کے ذریعے تعلیم: اگر آپ نے سیکھا ہے اور اسے کبھی عملایا نہیں ہے، تو آپ لامحالہ اسے بھول جائیں گے۔ لہیذا ایک شخص کو صرف علم اور معرفت نہیں حاصل کرنا چاہئے، بلکہ اسے استعمال بھی کرنا چاہئے، اور اپنی زندگی میں اس کی تربیت اور مشق کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ محمد الغزالی کہتے ہیں: تربیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی زمین میں بارش کی امید پر بیج ڈالے جائیں جو آنے والی ہے یا نہیں آتی، اور اس کے علاوہ کوئی کوشش نہیں کرتا ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ تربیت بیج ڈالنے، پانی دینے، کام کرنے، کیڑوں کو بھگانے، وبائی امراض کو روکنے اور پختگی کے وقت تک جاگنے کو کہتے ہیں۔
محمد الغزالی کی فکر میں عورت کی حیثیت:
شیخ محمد الغزالی نے اپنی زندگی کے آخر تک عورت کا دفاع کیا۔ آپ نے عورت کے حقوق کا مطالبہ کیا، جو اسے اسلام نے دیے ہیں۔ آپ نے اسلامی قانون کے مطابق عورت کے لئے تعلیمی فریم ورک مرتب کیا، جس کی نمائندگی مندرجہ ذیل نکات میں ہوتی ہے:
اصلاح کا مکمل اور جامع نقطہ نظر: آپ نے عورت کو ایک ایسی جدید تعلیم دینے کا مطالبہ کیا ہے جو اسے اپنا گھر اور معاشرے کا انتظام کرنے کے قابل بنائے، تاکہ وہ اپنے خاندان کو فائدہ پہنچائے اور اپنے معاشرے کو خوشحال بنائے، کیونکہ ایسی باصلاحیت خواتین جو اسلام کی اخلاقیات سے آراستہ ہوں وہ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہونے اور مکمل آزادی کے ساتھ عوامی عہدوں پر کام کرنے کی حقدار ہیں۔
غزالی نے اپنی کتاب “یہ ہمارا دین ہے” میں مردوں اور عورتوں کے درمیان زندگی کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے عورت کو ہر شعبے میں شامل کرنے کے خلاف متنبہ کیا ہے، اور آپ کا عقیدہ ہے کہ اسلام مخلوط تعلیم کو مسترد کرتا ہے، کیونکہ ہر ایک کے اپنے مدارس اور یونیورسٹیاں ہیں۔
غزالی نے بعض فقہاء کی ماحول سے متاثر ہونے والی جامد سوچ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، جیسے انہوں نے فاسد مذہبیت اور مغربیت کے حملوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔
غزالی کی کتاب (جمود اور ابھرتی ہوئی روایات کے درمیان خواتین کے مسائل) پر نظر ڈال کر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کتابوں میں اسلامی دنیا میں بعض غلو پسندوں کی طرف سے عورتوں کی شبیہہ کو مسخ کرنے پر شدید دکھ کا اظہار کیا گیا ہے، جس کی وجہ بعض صحابیات، صحابہ کرام کی بعض کہانیاں اور امہات المومنین کی کہانیوں کا ذکر ہے۔
انہوں نے کچھ ایسی عورتوں کا ذکر کیا جو عفت، عزت اور پاکیزگی لے کر آئیں جو کہ اسلام سے پہلے جاہلیت کے دور میں تھیں۔ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں تعارف ہے، دوسرا باب خاندان اور گھر پر ہے، اور تیسرا باب عورتوں کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ہے۔
آپ کی تصنیفات:
شیخ محمد الغزالی نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں (شریعت اور عقل کے ترازو میں ہمارا فکری ورثہ) بھی شامل ہے۔ یہ ان کتابوں میں سے ایک ہے جس نے بہت توجہ حاصل کی اور 1992ء میں شائع ہوئی، اس کتاب میں محمد الغزالی نے اس آزمائش کے اسباب کو بیان کرنے کی کوشش کی جس میں ملت اسلامیہ ڈوب گئی، کیونکہ یہ قوم گرچہ عددی قوت کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں حصہ ہے، لیکن صنعت و حرفت، پیداوار، حریت اور یکجہتی کے لحاظ سے، یہ کہیں نظر نہیں آتی ہے۔
یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے، جس میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سولہویں صدی عیسوی تک تخلیق کے آغاز کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ محمد الغزالی نے اسلام کو علم کا دین قرار دیا ہے اور اس کی وضاحت کی ہے کہ فرشتوں نے آدم کو علم کی بنا پر سجدہ کیا۔ پھر محمد الغزالی نے اپنی کتاب میں مسلمانوں اور عربوں کے حالات کی مذمت کی ہے کہ وہ مکمل طور پر مغرب پر انحصار کرتے ہیں، اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مغرب کو اس سرزمین کی تعمیر کا حق حاصل ہے۔ پھر آسمانی رسالتوں اور آخری رسالت کے بارے میں بات کرتے ہیں اور ان کے معاملات اور احوال کے متعلق بات کرتے ہیں، اور ان میں کیسی ربانی تربیت تھی جس کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو تعلیم دی۔
الغزالی کی دوسری اہم تالیفات یہ ہیں:
سنت نبوی اہل فقہ اور اہل حدیث کی نظر میں
مسلمان کا عقیدہ
سیرت کیا ہے؟
اسلام کیا ہے؟
داعی کے غم
مسلمانوں اور عربوں کی پسماندگی کی وجہ
مسلمانوں کی ثقافتی وحدت کا آئین
مسلمان کا اخلاق
قرآن کی جنگ
اسلامی زندگی کی مشکلات
اسلام پر الزامات
اسلام اور اشتراکیت
اسلام اور اقتصادی مسائل
اسلام اور سیاسی استبداد
اسلام اور شکست خوردہ طاقتیں
استعمار، نفرت اور لالچ
دعوت کے سائے میں
اسلام اور مسیحیت میں تعصب اور رواداری
عرب قومیت
اللہ کے ساتھ
حق سخت ہے
حق کی چوٹ
دین کی جد و جہد
ہم کیسے جانیں
قرآن کا مطالعہ
عیسائی مشینری کا خطرہ
زندگی بدلیں
اسلامی دعوت
راستہ یہاں ہے
سیاسی فساد
قرآن کے پانچ مضامین
عورت اسلام کی نظر میں
دین اور زندگی
شریعت اور عقل کی ترازو میں ہمارا فکری ورثہ
غرور کا انجام
خاتم الانبیاء کی ذکر اور دعا
قرآن کیسے سمجھیں
مغرب کے اندھیرے
مسلمان گھر اور عصری چیلنجز
عورت کے مسائل
مسلمان بچے کی ثقافتی پرورش
مآخذ و حوالہ جات:
- عبد الحلیم عویس: شیخ الغزالی کی تاریخ، جد وجہد اور افکار، دارالقلم، دمشق،سوریا، 2000
- فتحی حسن ملکاوی: معاصر اسلامی تربیتی فکر: مفاہیم اور مصادر، اس کی خصائص اور اصلاح کی تدبیریں، پہلی طباعت،فکر اسلامی، ورجینیا، امریکہ،2020
- فاطمی احمد حشاش: شیخ محمد کے تربیتی اسالیب، 30 جنوری 2020
- لطیفۃ الکندری، بدر محمد ملک، شیخ محمد غزالی کی نظر میں عورت کی تربیت، مجلہ تعلیمی علوم، جامعہ قاہرہ، 2003
- محمد غزالی : عورت کے مسائل جمود اور رواج کے بیچ میں: ایک نظر، دار شروق قاہرہ،2005
- محمد غزالی: شریعت اور عقل کی میزان میں ہمارا ورثہ، قاہرہ، 1991
- نتشے کا سفر: شیخ غزالی کی عصری کتب، 3 اپریل، 2022
مترجم: سجاد الحق