’’فالج کا مریض‘‘ مرد مجاہد: جس کے تربیت یافتہ جوانوں نے دشمنوں کو حیران کرکے رکھ دیا۔
جب بھی حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں امت مسلمہ کی عزت ووقار بحال کرنے اور مسجد اقصیٰ کا دفاع کرنے کے لیے صہیونیت کے مقابلے میں کوئی معرکہ لڑتی ہیں ایسے ہر معرکہ میں شیخ احمد یاسین کی یادوں کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔ جس کی زندگی کی کہانی، تاریخ جہادِ فلسطین کے صفحات پر روشن الفاظ میں رقم ہوچکی ہے۔ جو جہاد ایک وحشی نظام سے اس وقت بھی جاری ہے اور وہ اس مقدس مزاحمت کی تاریخ میں امتیازی نشان بن کر ابھرے ہیں۔
شیخ احمد یاسین تحریک حماس کے مخصوص جہادی ماڈل کا بانی ہے۔ اس نے اپنے علم اور تربیت سے جانباز لوگوں کی وہ کھیپ تیار کی جس نے عالمی طاقتوں کو مبہوت کرکے رکھ دیا، اور معمولی وسائل کے بل بوتے پر دشمنوں کو اپنی فکر، سیاسی تدبر اور عسکری و اسٹریٹیجک منصوبہ بندی سے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اس طرح وہ أن بہترین شاگردوں میں شامل ہوگئے جنہوں نے اپنے حقیقی مربی کے نقش وقدم پر چل کر سرزمین فلسطین کی آزادی کا راستہ طے کیا۔
شیخ احمد یاسین کون ہے؟
شیخ احمد یاسین جون 1936ء میں جورہ عسقلان کی ایک تاریخی بستی میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی سال ہے جب پہلی مرتبہ صہیونی نظام کے خلاف مسلح بغاوت شروع ہوئی۔ وہ محض پانچ برس کا تھا جب اس کے والد کا انتقال ہوگیا اور جب وہ بارہ برس کا ہوا تو عربوں کی تاریخ میں سب سے بڑا حادثہ پیش آیا، یعنی 1948 کی ہزیمت۔
احمد یاسین نے اس شکست سے ایک سبق حاصل کیا، جس نے اس کی فکری اور سیاسی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔ وہ (سبق) یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد فلسطینیوں کو اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ انہیں دوسروں کے بجائے اپنے لوگوں کو مسلح کرنا چاہیے۔ وہ اس دور کے متعلق بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جوعربوں کی فوج صہیونیوں سے لڑنے آئی تھی انہوں نے یہ کہہ کر ہم سے ہمارے ہتھیار چھین لیے کہ فوج کے علاوہ کسی اور قوت کے پاس ہتھیار نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح ہماری قسمت ان سے وابستہ ہوکر رہ گئی۔ جب یہ فوج شکست کھا گئی، ہم بھی ان کے ساتھ ہی ہار گئے۔ تب صہیونیوں نے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے معصوم عوام کا قتل عام شروع کیا، اس وقت اگر ہمارے پاس ہتھیار ہوتے تو حالات کچھ اور ہوتے۔
ان حالات نے یاسین کو اپنے اہل وعیال کے ساتھ غزہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا، لیکن وہاں پہنچ کر حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ باقی خاندانوں کی طرح اس کا خاندان بھی غربت، فاقہ کشی اور محرومیوں سے دوچار ہوا۔ مجبور ہوکر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مصری فوجی چھاؤنیوں میں جاتا تھا، وہاں سے اہل وعیال اور رشتہ داروں کے لیے فوج کا بچا ہوا کھانا لاتا تھا۔ اس نے ایک سال کے لیے اسکول چھوڑ دیا، تاکہ اپنی سات افراد پر مشتمل فیملی کو کھلانے کے لیے غزہ کے فول ریستوراں میں کام کرے، پھر بعد میں دوبارہ پڑھائی شروع کی۔
جب 1952 ء میں احمد یاسین سولہ سال کا تھا وہ ایک بڑے حادثے کا شکار ہوا جس نے اس کی زندگی کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ کچھ دوستوں کے ساتھ کھیل کے دوران حادثے میں اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی جس کے سبب وہ تمام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔ یہ حادثہ ان مہلک بیماریوں کے علاوہ ہے جن سے وہ ساری زندگی لڑتا رہا۔
احمد نے اپنی ثانوی تعلیم 1957/58 میں مکمل کی اور اس طرح وہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ حالانکہ پہلے پہل اس پر حالت صحت کی وجہ سے اعتراض بھی کیا گیا۔ اس کی تدریسی ملازمت کی آمدنی کا زیادہ حصہ فیملی کے اخراجات پر خرچ ہوتا تھا۔
جب وہ بیس سال کی عمر کو پہنچا، تو اس نے مظاہروں میں شرکت کی جو غزہ میں سہہ ملکی جارحیت کے خلاف نکالے گئے تھے، جس کے ذریعے 1956ء میں مصر پر حملہ کیا گیا۔ وہاں یاسین نے اچھی خاصی تقریری اور تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ وہ اور اس کے رفقاء غزہ پر بین الاقوامی نگرانی کے خلاف محو جد وجہد تھے اور وہاں مصری انتظام وانصرام کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔
جونہی احمد یاسین کی قسمت کا ستارہ چمکنے لگا وہ اسی وقت مصری خفیہ ایجنسیوں کی نظروں میں آگیا، جو وہاں کام کررہی تھیں۔ 1965ء میں اسے گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاری مصر کے اس وقت کے سیاسی حالات کے تناظر میں عمل میں لائی گئی، جس کا ہدف ہر وہ شخص تھا جسے اخوان المسلمین کے تعلق سے 1954ء میں پہلے بھی گرفتار کیا جاچکا تھا۔ وہ قریب ایک مہینہ قید تنہائی میں رہا، پھر جب تحقیقات سے ثابت ہوا کہ اس کا اخوان کے ساتھ کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے، تب اسے رہا کیا گیا۔ 1967ء کی شکست کے بعد جب صہیونی پورے فلسطین پر قابض ہوگئے، جس میں غزہ کی پٹی بھی شامل ہے، شیخ احمد یاسین مسجد عباسی کے منبر سے نمازیوں کے جذبات کو گرماتے رہے، جہاں وہ غاصب صہیونی کے خلاف لوگوں کو مزاحمت پر ابھارتا تھا۔ اسی دوران وہ شہیدوں اور قیدیوں کے اہل وعیال کے لیے فنڈنگ اور امداد جمع کرتا رہا اور پھر بعد میں غزہ میں اسلامی ایسوسیشن کے لیے بحیثیت امیر خدمات انجام دیں۔
چونکہ شیخ احمد یاسین نے اخوان المسلمین کے مدرسے سے تربیت پائی تھی جو امام حسن البنا کے ہاتھوں سے 1928ء میں قائم ہوا تھا، اس لیے اس کی عملی کاروائیاں، جہاد کے لیے دعوت اور نوجوانوں کی تربیت نے، دشمن صہیونی حکومت کو پریشان کیا۔ اس کے سبب 1982ء میں اسے جیل میں ڈال دیا گیا اس پر عسکری تنظیم بنانے اور ہتھیار رکھنے کا الزام لگایا گیا اور تیرہ سال کی سزا سنائی گئی۔ بعد میں اس کی سزا واپس لی گئی اور 1985ء میں قیدیوں کے تبادلے کے تحت چھوڑ دیا گیا۔
احمد یاسین نے صہیونی قبضے کے خلاف اپنی آواز بلند کرکے اور تربیت رجال کے ذریعے جد وجہد جاری رکھی۔ اس نے 1987ء میں تحریک مزاحمت حماس کی بنیاد رکھی، یہاں تک کہ مارچ 2004ء میں نماز فجر کے بعد اسے شہید کیا گیا۔ اس پر22 بزدلانہ صہیونی کارروائی کے تحت حملہ کیا گیا جس کی سرپرستی خونخوار آرئیل شیرون کررہا تھا۔
شیخ احمد یاسین کی تربیتی خدمات
بلاشبہ احمد یاسین نے ایک مجاہدانہ زندگی گزاری۔ وہ غاصبانہ تسلط کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین کا مربی تھا۔ وہ صرف فلسطین ہی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کے عزت ووقار کو بحال کرنے کے لیے محو جد وجہد تھا۔ اور کیوں نہ ہو؟ وہ ایسا شخص تھا، جو نوجوانوں کو سرحد پر لے جاکر اپنے مقبوضہ وطن کا نظارہ کرواتا تھا، تاکہ ان کی روحیں آزادی کے لیے تڑپ جائیں۔ اس زندہ شہید نے مجاہدین کی نسلوں کی تربیت میں بہت بڑی خدمات انجام دی ہیں، جو آج تک بہادری کے ایسے کارنامے دکھا رہے ہیں، جن سے دشمن بھی حیران رہ گئے ہیں اور دشمنوں کے مقابلے میں معمولی وسائل ہونے کے باوجود ان پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس کی خدمات میں درج ذیل کارنامے شامل ہیں:
- جہادی فکر کی تعلیم دینا: اس فکر کی تاسیس اس نے صہیونی ریاست کی مزاحمت کے لیے تحریک حماس کی شکل میں رکھ دی۔ اس نے اس بات پر زور دیا کہ صرف اسی صورت میں ہم اپنا مقبوضہ علاقہ چھڑوا سکتے ہیں نہ کہ کسی خارجی قوت پر بھروسہ کرکے، وہ قوت چاہے عرب ہوں یا کوئی اجنبی۔
- نوجوانوں کی تربیت کرنے کی دعوت: 1967ء میں عربوں کی شکست کے بعد اس کی صدائے بازگشت کی گونج غزہ کی مسجدوں میں سنی گئی جس میں وہ بچوں کی ایمانی وجہادی تربیت پر زور دے رہا تھا، تاکہ وہ بڑے ہوکر غاصب کا مقابلہ کرسکیں اور ارض مقدس کو واپس چھڑوا کر لاسکیں۔
- نوجوانوں کی تعلیم وتربیت : شیخ احمد یاسین نے اپنے خطابات اور مجالس کے ذریعے نوجوانوں کی تعلیم پر زور دے کر انہیں نفس کی پاکیزگی، آنکھوں کی حفاظت اور تقویٰ حاصل کرنے کی دعوت دی۔ اس نے تاکید کی کہ معاشرے کی اصلاح میں پہلی اینٹ گھر کی اصلاح ہے۔
- عورتوں کے تربیتی اجتماعات: احمد یاسین عورتوں کے لیے ایمانی وتربیتی اجتماعات منعقد کرواتا تھا، چونکہ اسے یہ احساس تھا کہ فلسطینی مسلم عورت کی تربیت وجہاد میں کتنی اہمیت ہے۔ اور یہ کہ وہ خاندان کی اساس ہے۔ ان سیمیناروں میں مسلم خواتین کے فقہی مسائل، بچوں کی پرورش، رشتوں کو مضبوط بنانے کی اہمیت، شوہر کو زندگی کا بوجھ اٹھانے میں خواتین کے تعاون کے اثرات اور دیگر خاندانی وشرعی امور پر گفتگو ہوتی تھی۔ یہ کوششیں اس طرح بارآور ثابت ہوئیں کہ فلسطینی عورت نے حجاب پہننے اور عبادت کرنے کا اہتمام شروع کردیا۔ اور وہ عملی اسلامی نسل تیار ہوئی جس نے دعوت، جہاد اور صہیونیت سے مزاحمت کرنے جیسی بھاری ذمہ داریاں اٹھائیں۔
- اجتماعی شادیاں منعقد کرانے کی دعوت: شیخ احمد یاسین اس کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کے نکاح میں مدد کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اپنے آپ کو بے راہ روی سے بچا سکیں۔
- شہداء کے وارثوں اور زخمیوں کی دیکھ بھال اور یتیموں کی کفالت: اس کے لیے اس نے اصحاب خیر کے ساتھ مل کر پچھلی صدی کی ساتویں دہائی میں اسلامی کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ اس کمیٹی نے ہزاروں یتیم خاندانوں کی کفالت کرنے اور انہیں ماہانہ معاونت فراہم کرنے میں بہت بڑی اجتماعی ذمہ داری نبھائی۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے بچوں کی پرورش کے لیے کنڈرگارٹن اسکول اور مسلم خواتین کی تربیت وتحسین کے لیے سینٹر قائم کیا۔
- جسمانی ورزشوں میں دلچسپی: اس حوالے سے شیخ نے نفس کی تہذیب ونشوونما اور مسلم فرد پر اس کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے جسمانی ورزش پر زور دیا۔ اس نے اسلامی کمیٹی میں سپورٹس کلب کا اضافہ کیا، جس کا مقصد نوجوانوں کو بھلائی کی طرف بلانا اور ان کے اندر صحیح اسلامی ریاضت کی تربیت کرنا تھا، تاکہ ان کا وقت ایسے کاموں میں صرف ہو جو دنیا وآخرت میں انہیں فائدہ پہنچائیں۔
- فلاحی اداروں کا قیام: شیخ احمد یاسین نے غزہ میں بہت ادارے قائم کیے جس میں اسلامی اکیڈمی، جمعیت اسلامیہ اور جمعیت اصلاح شامل ہیں۔ جو فلسطینی لوگوں کو بہت سے امور میں ان کی مدد کرتی ہیں۔
- باہمی تعلق کی اصلاح پر کام کرنا: یہ وہ تربیتی واجتماعی کردار ہے جس کا ذمہ شیخ نے اٹھایا تھا۔ اس طرح وہ اپنی بصیرت اور حکمت سے لبریز نقطہ نظر کو بروئے کار لاکر بہت سارے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوا اور فلسطینی معاشرے کا شیرازہ بکھرنے سے بچا لیا۔
تحریک مزاحمت حماس کی تشکیل
شیخ احمد یاسین نے 1987ء میں کچھ اسلامی لیڈروں کے ساتھ مل کر یہ طے کیا کہ اخوان المسلمین کے طرز پر غزہ میں بھی اسلامی تنظیم تشکیل دی جائے، جو صہیونیت سے مقابلہ کرنے اور فلسطین کی آزادی کے لیے کام کرے۔ جس کا نام تحریکِ مزاحمت اسلامی رکھا گیا اور بعد میں حماس کے نام سے مشہور ہوئی۔
شیخ احمد یاسین اس تحریک کے روحانی رہنما قرار پائے، جو 1987ء میں پہلی فلسطینی انتفاضہ کا آغاز ہوتے وقت قائم ہوئی۔ یہ کام مسئلہ فلسطین کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا کیونکہ مضبوط تنظیم سازی سے تحریکِ مزاحمت کی کایا ہی پلٹ گئی اور شیخ اس کی فکر کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلانے میں کامیاب ہوا۔ اس نے فلسطینی عوام کے اپنے وطن پر حقوق کی بحالی کو اپنا مؤقف بنایا اور اس پر اصرار کے ساتھ کام کیا، جس میں اس نے کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کی۔ وہ حقیقت میں ایسا مرد مجاہد ہے جس نے امت مسلمہ کی ہمت کو جگایا اور جہاد فلسطین کو دوبارہ اعتبار بخشا اور اس فریضے کو زندہ کیا جو تقریباً دفن ہوچکا تھا۔
اس ضمن میں شیخ نے اپنے گہرے ایمان کے تحت صہیونیت کے خلاف عملی جہاد شروع کیا۔ 1987 ء میں جب پہلا فلسطینی انتفاضہ شروع ہوا، حماس نے نمودار ہوکر پہلا بیان دیا کہ فلسطین ایک اسلامی سرزمین ہے اسے صہیونیت کے ساتھ بانٹا نہیں جاسکتا۔ جب دشمن کی کارروائیاں شروع ہوئیں، اس وقت میدان کارزار میں حماس کے جوانوں اور فلسطینی قوتوں کے مخلص بیٹوں کے سوا کوئی بھی نہیں نظر آیا، جن کی رہنمائی شیخ احمد یاسین خود کررہے تھے۔ جس نے دشمن کی قید کاٹنے کے باوجود مؤقف میں تبدیلی نہیں کی۔
شیخ نے فلسطینی وطنی حکومت اور عرب ممالک سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی۔ یہ مانتے ہوئے کہ تفرقہ بازی سے فلسطینی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن اس نے نہ کبھی صہیونی دشمن سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی اور نہ نام نہاد قیام امن کے موضوع کو چنداں اہمیت دی۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے ’’یہ نام نہاد امن، حقیقت میں امن نہیں ہے اور یہ کبھی بھی جہاد اور مزاحمت کا متبادل نہیں ہوسکتا۔‘‘
اس بطل جلیل نے بہت کچھ برداشت کیا۔ اس نے صہیونی جیلوں میں مار پیٹ اور تعذیب سے اپنی دائیں آنکھ بالکل کھودی۔ اس کے کان اور پھیپھڑوں میں انفکشن ہوگیا، اس کے باوجود جب وہ صہیونی قاضیوں کے سامنے پیشی کے لیے حاضر ہوتے تھے، تو پوری جرأت سے جواب دیا کرتے اور انہیں یہ کہہ کر غصہ دلاتے تھے کہ وہ ان کی ریاست قبول نہیں کرتا۔ وہ انہیں ڈراتا تھا کہ بہت جلد تم لوگ صفحہ ہستی سے مٹ جاؤ گے اور وہ صہیونیت کے خلاف جہاد کرنے اور انہیں یہاں سے نکالنے کے لیے فلسطینیوں کو اکٹھا کرتا رہے گا۔
اس کی شجاعت وبسالت سے ایسی صالح نسلیں تیار ہوئیں جو یہ ایمان رکھتی تھیں کہ نصرت صرف اللہ کی طرف سے آتی ہے اور وہ اسی رب کی طرف رجوع کرنے سے صہیونی دشمن پر غالب آسکتے ہیں اور محض اسلامی طریقہ کار پر چل کر نیکوکار بندوں کو دشمنوں پر فتح نصیب ہوتی ہے۔ یہ صرف حماس ہے جو تن تنہا غاصب ظالم صہیونیت کے خلاف کھڑی ہے، اس دشمن کے سامنے جسے بڑی بڑی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے، تاکہ اس کا ظلم وبربریت برقرار رہے۔ اس کے باوصف اس کا حال یہ ہے کہ خوف ودہشت سے تھر تھر کانپتی ہے، کیونکہ مقابلہ شیخ احمد کی تربیت یافتہ نسل سے ہے۔
جس طرح کی شجاعت ومحیرالعقول کارنامے ہمیں ان لوگوں کی طرف سے دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنے لوگوں اور پوری امت کے لیے عظیم الشان نصرت کا راستہ ہموار کیا، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ سرزمین غزہ شجاعت وعزت اور جان نثاری کی سرزمین ہے جس نے امت کے دامن سے نارملائزیشن (Normalisation) کا بدنما دھبہ دھو ڈالا۔ اور جس طریقے سے حماس، قسام بریگیڈ اور دیگر فلسطینی جماعتوں اور نوجوانوں نے طوفان اقصیٰ کے نام سے دھاوا بولا ہے، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ لوگ عظیم جہادی رہنماؤں اور خاص کر شیخ احمد یاسین کی فکر وبصیرت کی پیروی کرتے ہیں، جس نے اپنے آخری انٹرویو میں کہا تھا ’’ہم لوگ تو شہادت کے طلبگار ہیں، ہمیں اس زندگی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ زندگی تو بہت ہی پست اور سستی ہے، ہم تو حیات ابدی کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘
مأخذ اور حوالہ جات:
- ڈاکٹر رقیہ بنت محمد محارب: شیخ احمد یاسین کی شہادت سے کیا سبق ملتا ہے۔
- اسلام کا راستہ: سرپرست جہاد شیخ احمد یاسین کی زندگی کا مختصر تعارف
- جمال ہواری: شیخ احمد یاسین
- اخوان المسلمین: شیخ احمد یاسین، تربیت اور جہاد کے نظریات
- نور سوری: شیخ مجاہد احمد یاسین، ایک شخص پوری قوم۔
- ڈاکٹر عاطف عدوان: شیخ احمد یاسین، اس کی حیاتِ زندگی اور جہاد