امت مسلمہ کی ثقافت کو پروان چڑھانے والے جن بہت سارے علماء نے تعلیم و تربیت کے میدان میں تاریخ کے صفحات پر بہت واضح نقوش چھوڑے ہیں ان میں سے ایک شہاب الدین بن ابو الربیع ہے۔ جنہوں نے بچوں کی بہترین طریقے پر تربیت کرنے کے لیے نظریات وضع کیے ہیں جن نظریات کی تفصیل ان کی مشہور کتاب “سیرۃ المالک فی تدبیر الممالک” میں بیان ہوئی ہے۔
مصنف سعید مختاری اپنی ایک تحقیق بعنوان “ابو الربیع کی تعلیمی فکر” میں اس مسلم مفکر کے اہم تعلیمی تصورات کا خلاصہ پیش کرتا ہے تاکہ اس میں سے نوجوان بچوں کی تربیت کے متعلق ضروری نصائح حاصل کیے جائیں۔
شہاب الدین بن ابو الربیع کا تعارف:
آپ کا پورا نام شہاب الدین احمد بن محمد بن ابو الربیع ہے۔ ہمارے پاس اس عالم کا صرف نام اور واحد کتاب جو “سیرۃ المالک” کے نام سے معروف ہے، پہنچ سکا ہے۔ شاید آپ کی دوسری تصانیف بھی ہوں گی جو ضائع ہوچکی ہیں اور یہ کتاب حجری مکتبہ سے جو قاہرہ میں ہے 1286ھ میں 152 صفحات پر مشتمل شائع ہوئی ہے۔ البتہ آپ کی زندگی کے بارے میں جو معلومات موجود ہیں وہ قابل اعتبار نہیں ہیں۔
شہاب الدین بن ابو الربیع اور آپ کے زمانۂ حیات کے متعلق اکثر محققین کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے، بعض کا کہنا ہے کہ آپ معتصم باللہ کے وقت میں موجود تھے اور اسی کے لیے آپ نے کتاب سیرۃ المالک لکھی ہے، جب کہ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ آپ مستعصم باللہ کے زمانے کے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کتب تراجم میں ان کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے، سوائے اس کے کہ حاجی خلیفہ کی کتاب کشف الظنون سے اس بارے میں کچھ معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان میں سے بہت اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔
شہاب الدین ابن ابی الربیع کے تعلیمی افکار:
شہاب الدین ابن ابی ربیع کے تعلیمی افکار کو جاننے کا واحد ذریعہ ان کی قیمتی کتاب “سیرۃ الملک فیتدبیر الممالک (سلطنتوں کے انتظام میں مالک کی سوانح حیات) ہے۔ اگرچہ یہ کتاب سیاست، بادشاہ کے نظم و نسق اور عمومی طور پر انسان سے متعلق حکمرانی اور اخلاقیات کے قوانین پر لکھی گئی تھی، لیکن انہوں نے ان مبادیات کو نظرانداز نہیں کیا جو انسان کی تشکیل میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، یعنی تعلیم اور تربیت۔
ابن ابی الربیع کہتے ہیں: “بچے کو چھوٹی عمر سے ہی زیر تربیت رکھنا چاہیے ، چھوٹا بچہ تقلید اور پیروی کرنے میں اچھا اور تیز ہے اور وہ کسی ایسی چیز کا عادی نہیں ہے جو اسے اس سے توقع کی جانے والی چیزوں پر عمل کرنے سے روک سکے، اور نہ ہی حکم پر عمل نہ کرنے کا عزم رکھتا ہے، وہ ہر چیزکو آزمانے کا عادی ہوتا ہے اور اس پر پرورش پاتا ہے چاہے وہ اچھا ہو یا برا، اور شاید ہی وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے۔ ایک بار جب اسے بچپن سے ہی خوبصورت تعلیمات اور قابل ستائش اعمال سکھائے جاتے ہیں تو وہ ان سے چپک جاتا ہے اور اگر وہ انہیں اچھی طرح سمجھتا ہے تو ان میں بہتری لاتا ہ اور اپنے آپ کو اس پر ثابت قدم رکھتا ہے، لیکن اگر اسے اس وقت تک نظر انداز کیا جائے جب تک کہ اس کی فطرت اس جانب مائل ہوجائے یا بری چیزیں اس پر حاوی ہو جائیں جو اس کی طبیعت میں نہیں تھیں، پھر اس کی تربیت کرکے اس سے ان برائیوں کو چھڑانا ایک مشکل معاملہ ہے اور جو کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ اسے آسانی سے نہیں چھوڑ سکتا۔ زیادہ تر لوگ ابتدائی جوانی کی عادات کی وجہ سے ان کے برے آداب سے متاثر ہوتے ہیں۔
آپ فرماتے ہیں: جان لو کہ سب سے بہتر اولاد وہ ہے جس میں حیا ہو اور اور جسےعزت و الفت سے محبت ہو، اور اگروہ ایسا ہے تو اس کو با ادب بنانا آسان ہے، اور جو بچی اس کے برعکس ہو، اس کے ساتھ نمٹنا مشکل ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو برا کام کرتے وقت ڈرانے دھمکانے سے کام لیا جائے۔ اور پھر اگر ڈرانے دھمکانے سے کام نہ بنے تو اسے مارا پیٹا بھی جاسکتا ہے۔ پھر اگر وہ سدھر گیا تو اسے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
انفرادی خصوصیات:
جہاں تک نوعمر بچوں میں انفرادی خصوصیات کے مختلف ہونے کا تعلق ہے تو اس کے لیے ہم مفکر کی اس فکر انگیز تحریر پر نظر ڈالتے ہیں کہتے ہیں: “جہاں تک ادب ، جس کو اخلاق سے تعبیر کرتے ہیں کو قبول کرنے سے حاصل کرنے میں آگے بڑھنے اور اس میں دل چسپی رکھنے والے لوگوں کا تعلق ہے تو وہ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ وہ اس کا بغور مشاہدہ کرتے ہوئے اس کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ خصوصاََ بچوں کے اندر اس لیے کہاخلاق ان کی نشو و نما کے ساتھ ہی ظاہر ہوتا ہے اور ایک بچہ اپنا رویہ کسی ظاہری لبادے یا سوچ کے ذریعے نہیں چھپاتا، جس طرح کہ ایک پختہ آدمی کرتا ہے جو اپنے کمال کو پہنچ چکا ہے، کیونکہ اسے اپنے نفس کی برائی کی پہچان ہوتی ہے تو وہ یہ برائی کسی حیلے یا ایسے اعمال کے ذریعے چھپاتا ہے جو اس کی اصل فطرت کے بر خلاف ہوتے ہیں۔
پھر وہ اس میں اضافہ کرتے ہیں کہ آپ بچوں کے اخلاق پر غور کریں اور ان کے اندر ادب کو قبول کرنے اور اس سے دور بھاگنے کی استعداد پر غور کریں، اور ان میں جو بعض کے اندر شرارت اور بعض میں حیا پائی جاتی ہے، اسی طرح ان میں جودوکرم اور بخل، رحمت اور سختی، یا حسد اور اس کا متضاد رویہ دیکھا جاتا ہے ان سب حالات میں یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں آپ کو معلوم ہوگا کہ اخلاق فاضلہ کے قبول کرنے میں انسانوں کے مختلف درجے ہیں اور یہ کہ ان کا ایک جیسا درجہ نہیں ہے اور یہ کہ ان میں کوئی سازگار ہے تو کوئی ناسازگار، کوئی سہل، سیدھا اور آسان ہے کوئی سخت مشکل اور ٹیڑھا ہے، کوئی اچھا اور کوئی برا اور ان سارے درجات کے بیچ میں بہت سے اور مراتب ہیں جن کا کوئی شمار نہیں ہے۔
ابن ابی الربیع کہتا ہے، ” اگر طبیعت لاپرواہ ہو جائے اور تادیب اور ڈسپلن قبول نہ کرے تو ہر انسان بہت ہی بری فطرت پر نشو ونما پائے گا اور ساری عمر اپنی طفلانہ حالت پر رہے گا اور ہمیشہ اسی چیز کی اتباع کرے گا جو اس کے مزاج کو پسند آئے گا یعنی کبھی غصے اور کبھی لذت کی پیروی کرے گا اسی طرح شہوت فرج یا شکم پرستی کرے گا۔”
اس کے بعد شہاب الدین سیکھنے والوں کی بہت ساری قسموں کا ذکر کرتا ہے، جب وہ انسان کے رویہ کے بارے میں بات کرتا ہے کہ اپنے ماتحت انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے وہ دو قسموں کی بات کرتا ہے، مثلاََ
پہلی قسم: سیکھنے والے، جو کہ تین طرح کے ہوتے ہیں:
پہلی مثال: بہترین طبیعت کے مالک لوگ، ضروری ہے کہ ان سے علم کی کوئی چیز پوشیدہ نہ رہے، اور انہیں اپنے اقدار اور عقلی صلاحیت کی پوری جانکاری حاصل ہو۔
دوسری مثال : وہ بہت ہی غبی قسم کے لوگ ہیں جن کے پاس معمولی سی عقل ہوتی ہے جس پر کوئی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، تو ان پر اتنا ہی بوجھ ڈالیں جو وہ سہار سکیں تاکہ وہ اس سے وہ حاصل کریں جس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
تیسری مثال: یہ بری طبیعت کے لوگ ہیں جو علم کو غلط کاموں میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ انہیں اخلاق سے آراستہ کیا جائے اور ان کے نفس کا تزکیہ کریں۔
دوسری قسم یعنی اساتذہ:
- لازمی ہے کہ بچے کو یہ تعلیم دی جائے کہ اسے پالنے پوسنے والے اس کے والدین ہیں۔
- یہ کہ معلمین اس کی روح کی تربیت کرتے ہیں اور بہترین جوہر سے منور کرتے ہیں۔
- یہ کہ اگر وہ انہیں والدین سے بڑھ درجہ نہ بھی دے لیکن اس سے نیچے بھی نہ سمجھے۔
- یہ کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو وہ اس چیز کا حق دار نہیں ہے جہاں اس کو پہنچایا گیا ہے۔
- اور سارے معلمین ایک جیسے نہیں ہوتے وہ مختلف ہیں۔
- یعنی کچھ لوگ ہیں جو نفوس کی تربیت اور اصلاح کا کام کرتے ہیں۔
- یہ کہ جب ان میں سے کسی کی ضرورت ہو تو اس کو پورا کرے۔
- ان کے حقوق کو ادا کرے، ان کی صحیح خدمت کرے۔
- ان کی طرف سے نظم شکنی پر زجر و توبیخ نہ کرے۔
طریقۂ کار:
شہاب الدین ابو الربیع نے نشو ونما اور تربیت کے طریقۂ کار کو اس طرح پیش کیا ہے :
حسن تادیب: اس کو اس طرح تقسیم کیا ہے
- نفسانی:
امور شریعت پر نظر رکھنا
آداب اور علوم سکھانا
علماء کے مشورے سے رائے دینا
کتابیں اور سیرتیں پڑھنا
- جسمانی
لڑائیاں دیکھنا اور گھوڑ سواری سیکھنا
کھانے پینے اور سونے جاگنے میں خیال رکھنا
باقی ہر کام میں اچھی مثال دینا، اس کو اس طرح منقسم کرتے ہیں
- ایسا کلام کرنا جس میں فحش کی آمیزش نہ ہو۔
- بے حیائی کلام سے منع کرنا
- نہ تعریف کرنا اور نہ مذمت کرنا
بہترین تربیت جس میں یہ باتیں شامل ہیں
- بہترین راستہ اختیار کرنا
- پسندیدہ عادات
- اس طرح کی سزا دینا جس سے نقصان نہ ہو، اس میں متعلمین پر تشدد، سختی اور ظلم کرنے سے بچنے کی طرف واضح اشارہ ہے، ضرورت پڑنے پر بات پر اس کے بدلے میں ٹھوس اقدامات اٹھانا۔
د- اصول صحت کے ذریعے صحت کی حفاظت کرنا
بچوں کے حالات:
شہاب الدین ابو الربیع نے بچوں کے تربیتی حالات کی تشریح ان نکات میں پیش کی ہے:
- چھوٹی عمر کی حالت میں یہ سیکھتا ہے:
- اس کے سامنے غذا چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں رکھا جائے
- اسے کہا جائے کہ اپنے سامنے سے کھائے اور وہاں موجود کسی انسان کی طرف نہ دیکھے
- اسے لوگوں کی خدمت کا حکم دیا جائے
- اپنے خالی وقت میں کھانا بنانا اپنا مشغلہ بنائے
- جھوٹ اور برائی پر سزا دی جائے
- اسے سونے چاندی سے نفرت دلائی جائے اور بے ہودگی سننے سے روکا جائے
- اسے آسان کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے جس میں فضول چیز نہ ہو
- اس کے اندر سخاوت، خدمت کی عادتیں ڈالی جائیں، اسے سستی اور کہالت برتنے سے منع کریں اور کام پر ابھاریں۔
- اسے بری باتوں سے دور رکھیں جیسے گالیاں اور قسمیں
- بلوغت کی حالت:
- اس کے لیے عقلمند اور صاحب فہم معلم تلاش کریں جو اس کے ساتھ کتاب اللہ کی شروعات کرے اور کسی غیر ضروری چیز میں مبتلا نہ کرے۔
- وہ زبان اور نحو سے اپنی استطاعت کے بقدر معرفت حاصل کرے اور بلاغت وکتابت میں دلچسپی لے۔
- پھر اس کے ذہن کو حساب وہندسہ پیش کیا جائے اور اسے معلوم سے نامعلوم نکالنے کی تعلیم دی جائے۔
- وہ خاص فضائل، اس کے اعراب اور معانی پر غور کرے۔
- وہ فقہ کا کچھ حصہ سمجھ لے اور کتب احادیث کا مطالعہ کرے۔
- اس کے علاوہ اسے استاد کا اکرام سکھایا جائے،اس کی خدمتکرنے پر اسے تیار کیا جائے اور اُسے سکھایا جائے کہ استاد کا کیا حق ہے؟
- تب جاکر وہ اس حالت کو پہنچ سکے گا جہاں وہ نفع بخش چیزوں کو اختیار کرے گا اور مضر چیزوں سے بچنے کی تدبیر اختیار کرے گا۔
- جس طرح طالب علم کو بہترین تربیت اور اچھی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے اسی طرح مدرس کو عزت و احترام کا حق ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جن سے شہاب الدین ابو الربیع کی کتاب خالی نہیں ہے۔
المصادر:
- عبد الكريم بكار: صفحات في التعليم، ص 133.
- طه عبد الرحمن: حوارات من أجل المستقبل، ص 12.
- ابن أبي الربيع: سلوك المالك في تدبير الممالك، ص 155.
- سعيد حليم، علاقة المتعلم بالأستاذ في ظل المستجدات التربوية، ص 5.
- عماد الدين خليل، مدخل إلى إسلامية المعرفة، ص51.
مترجم: سجاد الحق