میں چار بچوں کی ماں ہوں اور شوہر کے ساتھ مسلسل اختلافات کا سامنا کر رہی ہوں۔ میرا شوہر ایک تفتیشی پولیس افسر ہے، اور میں اس کے ساتھ دس سال اس امید پر رہی کہ اللہ اسے ہدایت دے اور وہ بدل جائے۔ ہماری زندگی میں بے وجہ شک اور ضرورت سے زیادہ غیرت ہمیشہ شامل رہتی ہے، حالانکہ میں والدین کے گھر جانے کے علاوہ کہیں اور باہر نہیں جاتی ہوں، نہ سفر کرتی ہوں، مجھے پیسوں کی ضرورت ہے مگر وہ مجھے کام نہیں کرنے دیتا ہے۔
میری مالی حالت کمزور ہے۔ میں نے چاہا کہ میں کام کروں اور گھر کی ضرورتیں پوری کرنے میں اس کی مدد کروں، مگر وہ راضی نہیں۔ میں نے اسے کہا کہ میں آن لائن سیلز کی نمائندہ بن کر گھر سے کام کرسکتی ہوں، یا کوئی بھی اور گھریلو قسم کا کام کر لوں، لیکن وہ پھر بھی نہیں مانا۔ جب میں بات کرتی ہوں تو وہ مجھ پر غصہ کرتا ہے، اور صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے، جب کہ بچوں کی ضروریات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
مجھے لگتا ہے میں اس کے ظلم کی شکار ہوں۔ میں کوئی ایسا کام نہیں کرتی جو شک پیدا کرے۔ میں ایک نیک عورت ہوں اور اللہ سے ڈرتی ہوں۔
ایک دن مجھے بیماری ہوئی اور ٹیسٹ کروانے کی ضرورت تھی۔ میں نے شوہر سے کہا، اسے مہلت بھی دی، مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ میں مجبور ہوئی کہ اپنی مدد آپ کروں اور گھر سے ہی کوئی کام شروع کروں۔ اسی دن میری پڑوسن نے فون کیا کہ میں اس کے گیارہ سالہ بیٹے کو ٹیوشن دے دوں، اور مجھے واقعی پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔
میں نے سوچا کہ شوہر کو بعد میں بتا دوں گی، لیکن اسے پہلے ہی پتا چل گیا۔ اس بات پر سخت جھگڑا ہوا اور اس نے بچوں کے سامنے مجھے گلا دبا کر مارنے کی کوشش کی۔ میں شدید ظلم اور تکلیف محسوس کرتے ہوئے والدین کے گھر آگئی۔ اب میرے والدین ہی میری ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ میں پریشان ہوں اور کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی… جب کہ میں چار بچوں کی ماں ہوں۔ آپ مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں؟
جواب
محترمہ سائلہ! اللہ آپ کے لیے آسانی فرمائے، دل کو سکون دے، اور جہاں بھی خیر ہو، آپ کو اس کی طرف رہنمائی کرے۔
ہم جانتے ہیں کہ شک کسی بھی رشتے کو برباد کر دیتا ہے، تو سوچئے کہ اگر شک میاں بیوی کے تعلق میں ہو تو نقصان کس حد تک بڑھ جاتا ہے، جہاں محبت اور مودّت کا رشتہ سب سے مضبوط ہونا چاہیے۔
دس سال کی شادی میں اگر آپ مسلسل شک کا سامنا کرتی رہی ہیں تو اس کے دو ہی معنی ہیں:
یا تو آپ نے واقعی بہت تکلیف برداشت کی ہے اور کڑوی زندگی گزاری ہے، یا پھر آپ میں ضبط اور برداشت کی بہترین صلاحیت تھی، جس نے آپ کو قائم رکھا۔ لیکن جب مالی حالات بگڑے، تو آپ مزید برداشت نہیں کر سکیں۔
دس سال میں اگر شوہر شک کی عادت نہیں چھوڑ پایا، تو یہ تعلق کی بنیادوں کو کمزور کرنے والی بات ہے۔ اکثر عورتیں صرف بچوں کی خاطر خاموش رہتی ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سمجھتیں کہ انسان کی برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جب بچے بڑے ہوتے ہیں اور انہیں دونوں والدین کی ضرورت ہوتی ہے، تو ماں خود تھک چکی ہوتی ہے اور مزید طاقت نہیں رکھتی۔ اس لیے اصل مسئلے کا علاج ضروری ہے۔
اس کا حل اس طرح ہے:
- باہمی گفتگو
- شوہر کے دل میں اطمینان پیدا کرنا
- خود کو مشکوک حالات سے بچانا
ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ یاد آتا ہے جب ایک صحابی گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً انہیں بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی خاتون صفیہؓ ہیں، تاکہ دل میں کوئی غلط خیال نہ آئے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ شک کرنے والے انسان کے سامنے وضاحت ضروری ہے۔
اگر میاں بیوی کے درمیان گفتگو سود مند ثابت نہ ہو، تو پھر رشتوں کے ماہر ( consultant) سے مدد لینا ضروری ہے۔ ممکن ہے شوہر کا شک نفسیاتی بیماری ہو، یا سابقہ زندگی کے کسی صدمے کا اثر ہو، یا پولیس کے پیشے میں مسلسل مجرموں سے ڈیل کرنے کے باعث اس کی سوچ مشتبہ ہو گئی ہو۔ ہو سکتا ہے وہ اپنی نوکری کی عادات گھر میں لے آیا ہو اور اسے اس بات کا احساس بھی نہ ہو۔
اسی لیے اس کے لیے سلوکی اور ذہنی علاج (Cognitive Behavioral Therapy) ضروری ہو سکتا ہے، تاکہ وہ اپنے پیشے اور ازدواجی کردار میں فرق سمجھ سکے۔
عقل مندی یہ ہے کہ آپ اسے نرم لہجے میں سمجھائیں، اس کی اچھی صفات کی تعریف کریں، پھر کہیں کہ آپ دونوں کو کسی ماہر کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بات تنہا اس کے خلاف کہہ دی جائے تو وہ ناراض ہو سکتا ہے۔
سائلہ محترمہ! آپ نے آغاز اور اختتام دونوں میں بچوں کا ذکر کیا، اس سے ثابت ہے کہ آپ اپنے بچوں کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں، جو فطری بات ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شوہر خود کو آخری جگہ پر محسوس کرتا ہے، جس سے اس کے دل میں بےچینی، عدم اعتماد اور شک پیدا ہوتا ہے۔
اسلام نے بھی شوہر کے مقام اور حقوق پر بہت زور دیا ہے، کیونکہ ماں کا کردار تو فطری ہوتا ہے مگر بیوی کا کردار سیکھنے سے مضبوط ہوتا ہے۔
مالی پریشانی اور بچوں کی ضروریات پوری نہ ہونا بڑا دکھ ہے۔ آپ نے کام کرنے کی نیت سے قدم بڑھایا، یہ اچھا عمل ہے، کیونکہ آپ نے مانگنے کے بجائے محنت کو ترجیح دی۔
آپ کو چاہیے کہ:
شوہر کو اعتماد میں لیں۔
اسے یقین دلائیں کہ گھر اور بچوں کے حقوق پورے ہوتے رہیں گے۔
اس سے اس کی شرائط پوچھیں۔
کوئی ایسا کام منتخب کریں جس سے اس کے خدشات کم ہوں۔
اگر آپ میکے میں ہیں اور وہ خرچہ بھی نہیں بھیج رہا، تو بہتر ہے اسے نرمی سے پیغام دیں کہ آپ والدین پر بوجھ نہیں بننا چاہتی، اس لیے آپ کو کام کرنا پڑے گا۔ مگر ساتھ یہ بھی کہیں کہ آپ اس کی ناراضی نہیں چاہتی اور ہر قدم اس کی مرضی کے مطابق اٹھانا چاہتی ہیں۔
شوہر اگر شروع سے بیوی کے کام کا عادی نہ ہو، تو یہ تبدیلی اسے مشکل لگے گی، خصوصاً ایسے شوہر کو جو پہلے ہی شک کرتا ہو۔ اسے یہ ڈر بھی ہو سکتا ہے کہ کام کرنے سے گھر نظرانداز نہ ہو جائے، یا بیوی کا غیر مردوں سے میل جول نہ بڑھے، یا گھر کی قوامیت متأثر نہ ہو۔
لیکن اگر آپ اس کا خوف کم کر دیں، اسے بتائیں کہ آپ صرف اس کی مدد کرنا چاہتی ہیں، اور نئے مالی نظام کے بارے میں صاف گفتگو کر لیں، تو ممکن ہے مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے۔
آخری بات:
یہ بات یاد رکھیں کہ گھر بسانا مشکل کام ہے، لیکن گھر توڑنا بہت آسان۔ اللہ سے دعا کریں، استخارہ کریں، اور صبر کے ساتھ فیصلے کریں۔ کتنی ہی بڑی مشکلات اللہ نے دعا اور کوشش سے آسان کر دی ہیں۔
اللہ آپ کا معاملہ آسان کرے، شوہر کے دل سے شک اور غیرتِ بےجا ختم کرے، اور آپ کے گھر میں سکون اور رحمت نازل فرمائے۔ آمین۔
مترجم: سجاد الحق