اگرچہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر، فلسفی، سیاست دان اور مشہور ومعروف وکیل تھے، لیکن ان کا شمارعرب سے باہر پیدا ہونے والے ان اسلامی مفکرین میں ہوتا ہے جنہوں نے عالم اسلام میں اصلاح تعلیم کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ان کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے دور جدید کے چیلنچز کا ادراک کرتے ہوئے مسلمانوں کو جدید اسلامی تعلیم کی طرف دعوت دی تاکہ وہ نئے مسائل سے نبرد آزما ہوسکیں۔
شاعر اسلام کے نام سے مشہور ہونے والے محمد اقبال کے اہم ترین افکار میں سے یہ ہے کہ اسلام ہی تعلیم کی اساس ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے مبادیات اور اصولوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اسی طرح انہوں نے اسلام کے علمی ورثہ کو زندہ کرنے کی دعوت دی اور اس تجدیدی کام کو دور حاضر سے ہم آہنگ بنانے پر زور دیا۔ اس حوالے سے ان کی رائے یہ تھی کہ ایسی مکمل تعلیم کا انتظام کیا جائے جس میں انسان کے روحانی، عقلی اور جسمانی پہلو سمیت ہر پہلو کی رعایت ملحوظ نظر رکھی جائے اور ایسی عملی تربیت کا اہتمام کیا جائے جس کا محور صلاحیتوں اور مہارتوں کی ترقی ہو۔ اس کے علاوہ حب الوطنی کی تعلیم پر توجہ مرکوز کی جائے جو امت کی تشکیل نو میں معاون ثابت ہوسکے جس کے نتیجے میں وطن سے محبت اور وابستگی میں اضافہ ہوگا۔
محمد اقبال علیہ الرحمہ کی پرورش اور عملی جد وجہد:
محمد اقبال علیہ الرحمہ مملکت پاکستان کی ریاست پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں (1289ھ بمطابق 1873ء) میں پیدا ہوئے۔ وہ متوسط درجے کے کشمیری برہمن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان نے سترہویں صدی عیسوی میں اسلام قبول کیا تھا۔ اقبال پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے بھائی تھے، ان کے والد کا نام شیخ نور محمد ہے، جو پیشہ سے ایک درزی تھا۔ انہوں نے اپنے کام اور اخلاق کی وجہ سے لوگوں میں کافی نام کمایا تھا اور انہیں اپنے بچوں کی دینی تعلیم کا بہت شوق اور کافی فکر تھی۔
اقبال کی ذہنی صلاحیتیں اور اعلی تحریری خوبیاں کم سنی میں ہی ظاہر ہونا شروع ہوئیں، اور جب ان کی خداداد صلاحیتوں پر ان کے استاد سید میر حسن کی نظر پڑی تو انہوں نے اسے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور ترقی دینے کی طرف رغبت دلائی۔ اس کے بعد اقبال نے قرآن کریم حفظ کیا اور اپنی ابتدائی تعلیم اپنے شہر میں مکمل کی۔ پھر ثانوی تعلیم کے لیے مدرسہ اسکاتلندیہ کے ساتھ منسلک ہوا اور اسی اسکول میں عربی اور فارسی زبانیں بھی سیکھ لیں۔
اس کے بعد اقبال لاہور یونیورسٹی سے منسلک ہوئے۔ وہاں انہوں نے فلسفہ، انگریزی اور عربی ادب پڑھا، اور لٹریچر میں امتیازی حیثیت سے گریجویشن حاصل کی۔ اسی طرح فلسفہ میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے انہیں سونے کے تمغہ سے نوازا گیا، پھر اسی کالج میں ماسٹرز کرنے کے لیے داخلہ لیا اور اس طرح ادب کے مضمون میں پوری یونیورسٹی سے پہلی پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
پھر وہ انگریز مستشرق تھامس آرنلڈ کے ساتھ منسلک ہوکر لندن چلے گئے اور وہاں ایک سال ان کے ساتھ کام کیا (1905)۔ اس کے بعد (1907) میں جرمنی کا سفر کیا اور یونیورسٹی آف میونخ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔
وطن واپس آتے ہی انہوں نے فلسفہ اور سیاست پر کام شروع کیا اور (1919) میں انجمن “حمایت اسلام” کے جنرل سیکرٹری بن گئے، جو ایک اسلامی، فکری اور سیاسی تنظیم تھی، جس کا مرکز لاہور میں تھا۔ اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری بننے سے پہلے اقبال نے اس کے لیے سالہا سال تک ایک فعال رکن بن کر کام کیا۔
اقبال نے پنجاب شریعت کونسل میں بحیثیت رکن بھی کام کیا اور بالآخر مسلم لیگ ہند کے صدر بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے شخص ہیں جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندؤں سے الگ ہونے کی ضرورت پر زور دیا اور ان کے لیے ایک علیحدہ ملک بنانے کی تجویز پیش کی اور یہ بات اس نے الہٰ آباد کانفرنس میں ایک تاریخی خطاب سے فرمائی تھی۔
اقبال وہ شخصیت ہیں جنہوں نے دینی فکر کی تجدید کرنے اور اجتہاد کا دروازہ کھولنے کی طرف پر زور دعوت دی۔ انہوں نے انسان کی گم کردہ ذات کو اپنا مقام دلانے اور منفی تصوّف وسلوک کے ساتھ جنگ کرنے پر ابھارا۔ انہوں نے اپنے پیچھے فکری وادبی خدمات کی صورت میں کافی بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے، جس کا بیشتر حصہ عربی زبان میں منتقل ہوچکا ہے، یہاں تک کہ وہ 21 اپریل 1938ء کو مختلف بیماریوں میں مبتلا رہنے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ وہ پاکستان کے شہر لاہور میں مدفون ہیں۔
اقبال کا تصورِ تعلیم:
شعر وفلسفہ میں نام کمانے کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال نے تعلیم کے میدان میں بھی اپنے افکار کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو متاثر کیا، جن میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:
اسلامی نظام تعلیم کی اصلاح: اقبال نے اسلامی نظام تعلیم کی اصلاح کی طرف دعوت دی جس میں شاگرد کی اسلامی شخصیت کی تعمیرِنو اور مستقبل کے لیے اسے تیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
اسلامی علوم کو مادری زبان میں سیکھانے پر زور: اقبال نے اسلامی علوم کو مادری زبان میں پڑھانے کی اہمیت پر زور دیا یہاں تک کہ طالب علم بہترین انداز میں سمجھنے اور غور وفکر کرنے کے قابل بن سکے۔
سکھانے کے نئے اسالیب اختیار کرنا: اقبال کی رائے یہ تھی کہ اسلامی تعلیم کو نئے مناہج کے ذریعے سکھایا جائے، ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے جو عصر حاضر کی روح اور تبدیلیوں کے مطابق ہو۔
نئے اسالیب تعلیم استعمال کریں: اقبال اس بات کے قائل تھے کہ اسلامی تعلیم کو نئے اسالیب میں پیش کرنا چاہیے مثلاً ایکٹو لرننگ اور تعاون کے ذریعے تعلیم حاصل کرنا۔
حب الوطنی کی تعلیم: شاعر اسلام نے بچوں کو حب الوطنی کی تعلیم دینے اور وطن کے دفاع کے لیے تیار کرنے کی طرف دعوت دی اور اس جذبہ کو نشوونما دینے پر زور دیا، جیسے ان کا قول ہے “انسانی نفس میں حب الوطنی کا شعور فطرتاً موجود ہے لیکن اس جذبے کو پروان چڑھانا اور پختہ کرنا تعلیم وتربیت ہی سے ممکن ہے”۔
بچوں کو اخلاق فاضلہ کی تربیت دینا: انہوں نے بچوں کی تربیت، اخلاقِ حمیدہ اور اسلامی اقدار کے مطابق کرنے پر ابھارا ہے، جیسے صداقت وامانت اور عدل واحسان۔ اور اقبال نے یہ بات اس طرح واضح کی ہے: “اخلاق ہی شخصیت کی اساس ہے، اور شخصیت معاشرے کی بنیاد ہے اسں لیے مضبوط اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے بچوں کی تربیت اخلاقِ حمیدہ پر کرنا بہت اہم معاملہ ہے”۔
قرآن سے وابستگی: مثلاً وہ کہتے ہیں: “اے مسلمان تم ابھی تک دین کے نام نہاد دعوے داروں اور علم کے ٹھیکیداروں کے اسیر بنے ہوئے ہو، اور تم اپنی زندگی کے لیے قرآن سے براہ راست حکمت حاصل نہیں کرتے ہو۔ جو کتاب تمہاری زندگی کا مصدر ہے اور تمہاری قوت کا منبع ہے اس کے ساتھ تمہارا تعلق بس موت کے وقت ظاہر ہوتا ہے، جب تمہاری روح نکالنے کے لیے سورہ یٰس تلاوت کی جاتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو کتاب اس لیے نازل ہوئی تھی کہ تجھے قوت وحیات عطا کرے، آج صرف اس غرض سے تلاوت کی جاتی ہے کہ تیری روح راحت وسکون سے نکل جائے”۔
مثالی مربی: وہ فرماتے ہیں “نوجوانوں کی تربیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ان کے اندر اساتذہ وہی اثر ڈالیں جو اثر سورج کی شعاعیں قیمتی پتھروں پر ڈالتی ہیں”۔
تربیت اور اصلاح بھاری ذمہ داریاں ہیں: انہوں نے کبھی دنیاوی مناصب اور عہدوں کے لیے کام نہیں کیا، بلکہ خود کو تربیت واصلاح کے کاموں کے لیے وقف رکھا۔ جیسا کہ کتاب “انقلابی شاعر” کے مصنف نے کہا ہے: “۔۔۔ اقبال نے اپنے عظیم مشن کی راہ میں بڑے بڑے عہدوں اور اونچے مناصب کی قربانی دی”۔
تعلیم میں جدت لانا: اقبال کی تعلیمی فکر کی نمایاں خصوصیت ہی یہ ہے کہ انہوں نے نوجوانوں کی تعلیم میں جدت پسندی پر زور دیا ہے۔ اس میں مسلسل سیکھنے، تعاون کرنے اور معلم و شاگردوں کے درمیان فعال رابطہ رکھنے پر تاکید کی گئی ہے۔
مجرد علم سے کوئی فائدہ نہیں ہے: یہ بھی ضروری ہے کہ علم کے ساتھ دل اور ایمان کا مضبوط تعلق ہو، بلکہ اس کی رہنمائی عشق ومحبت سے کی جائے۔ علم وبصیرت یا عقل ودل کا رشتہ وہی ہے جو بارش اور ہوا کا ہوتا ہے، پھولوں کی نشوونما میں دونوں کا اشتراک لازمی امر ہے۔ وہ کہتے ہیں: باغ میں پھولوں کی کیاریاں اچھی نہیں لگیں گی اگر ہوا کا جھونکا پھولوں میں شبنم کو شامل نہ کرے۔ اسی طرح علم کا بھی معاملہ ہے اگر حکیم کی فکر میں کلیم کی ذکر نہ ملائی جائے تو ایسا علم بے کار ہے۔
حاکموں اور بادشاہوں کو رجوع الی القرآن کی دعوت دینا: فرماتے ہیں جب انہوں نے افغانستان کے بادشاہ کے نام قرآن کا یہ پیغام بھیجا کہ “یقیناً یہ کتاب اہلِ حق کا اصل سرمایہ ہے اس کی روح میں زندگی ہے اور اس میں ہر ابتدا کی انتہا ہے اور اسی کے دم پر علی رضی اللہ عنہ فاتح خیبر ہوا” تو بادشاہ رو پڑا، پھر اس نے کہا: “فی الحقیقت نادر خان پر ایسا وقت آن پہنچا ہے جب اس کے پاس قرآن مجید کے سوا کوئی مونس وغمخوار نہیں ۔۔۔۔۔”
روح کی نشوونما جسم کی پرورش سے زیادہ ضروری ہے : وہ کہتے ہیں:
“دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھ میں ہے دل یا شکم؟”
” بلاشبہ فقر بادشاہی ہے اور شکم پروری روح کے لیے موت ہے اور تمہاری مرضی ہے ان میں سے جو اختیار کرو۔ چاہو تو دل کو چنو اگر نہیں تو شکم کو چن لو”۔
نفس کی پہچان: اقبال اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں:
” ۔۔۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی ۔۔۔”
“جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی”
اسلام کی نشر واشاعت اور زبان کا احیاء: انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے کہا ہے: “میں نے بعض مسلمان امراء جن کے پاس ریاستوں کا نظم ونسق تھا، کو مشورہ دیا کہ غیر مسلموں میں اسلام کی نشر واشاعت کی طرف توجہ دیں اور مسلمانوں کے اندر اسلامی آداب وثقافت اور عربی زبان پھیلانے کی کوشش کریں”۔
کفار کی سازشوں کا مقابلہ کریں: اس کا ایک قصیدہ بعنوان “ابلیس کا پیغام اپنے سیاسی فرزندوں کے نام” ہے جس میں وہ (ابلیس) کہتا ہے:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہيں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
تاکہ اس کے اندر صبر ختم ہو جائے، وہ غربت سے تنگ آجائے، اسے موت سے شدید خوف محسوس ہونے لگے۔
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخيلات
اسلام کو حجاز و يمن سے نکال دو
وحدت اسلامی پر زور: فرماتے ہیں “ہم حجاز، چین، ایران اور مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمان ہیں ہم بہت سے پھول ہیں جن میں ایک ہی خوشبو اور مہک ہے۔
دین ودنیا کی تفریق کو مٹانا: وہ اپنی نظم میں فرماتے ہیں (دین اور سیاست) کلیسا کی بنیاد رہبانیت پر رکھی گئی تھی۔ اس لیے حکومت وسیاست اور انتظام وفیصلہ سازی میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، کیونکہ وہاں (مغرب) رہبانیت اور حکومت کے درمیان کافی عرصہ سے دشمنی چلی آرہی تھی، یہاں تک کہ سیاست نے دین سے اپنا پیچھا اس طرح چھڑایا جس طرح کمان سے تیر نکلتا ہے۔ ایسے میں جب دین اور سیاست علیحدہ ہوگئے تو خواہشات اور شہوات نے اس کی جگہ لے لی اور جنگل کا قانون چھا گیا لیکن یہ تفریق دین وریاست دونوں کے لیے نحوست ثابت ہوئی۔ یہ چیز اس تہذیب کی کوتاہ نظری اور فساد قلب ونظر پر دلالت کرتی ہے۔”
طالبِ علم کی حوصلہ افزائی کرنا: اقبال شاگرد کی روح کو بیدار اور متحرک کرنا چاہتے ہیں، اس کی آنکھیں کھولنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ حقیقت دیکھ سکے اور اعلی مقاصد کے حصول کے لیے آمادہ ہو جائے۔ وہ اسے محض قصے کہانیاں پڑھانے پر راضی نہیں ہیں۔
علم اور مدرسہ کے اہداف: ان کی نظر میں اسکولوں کے اہداف یہ تھے کہ انسان زندگی میں رفعت وترقی حاصل کرے، لیکن یہ مقاصد بدل دیے گئے ہیں۔ اب یہ سب چیزیں نوکری حاصل کرنے اور کسب معاش کے ذرائع بن چکے ہیں اور یہ اصل میں انسان کی ترقی نہیں بلکہ اس کی فطرت کی تنزلی ہے۔
شاعر اسلام اور ان کی ادبی خدمات:
اقبال وہ پہلے شخص ہیں جنہیں شاعر اسلام کا لقب ملا ہے اور پہلے وہ انسان جنہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن بنانے کے لیے آواز اٹھائی، جو کہ ان کی وفات کے بعد قیام پاکستان کی شکل میں شرمندۂ تعبیر ہوا۔
ایسا لگتا ہے کہ ابتدا میں تصوف کے ماحول میں پرورش پانے اور اسلام کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے اس کے اندر رسول اللہ صلعم کی محبت رچ بس گئی تھی، جس کے ذریعے اس نے اپنے نفس پر غلبہ پالیا اور خواہشات کو زیر کرلیا۔ یہ ان کے لیے مغربی زندگی کی چکاچوند سے بچنے اور مادیت کے طوفان کا مقابلے کرنے میں ڈھال بن گئی۔
اقبال اپنے متعلق کہتے ہیں:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ افروز فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ ونجف
یعنی مدینہ کی خاک مجھے ساری دنیا سے زیادہ عزیز ہے۔
ان کا دل ودماغ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی یاد میں کڑھتا اور تڑپتا رہتا تھا۔ اس بارے میں انہوں نے اپنے اشعار میں ذکر کیا ہے”میں اسی سوچ میں حیران وفکر مند ہوں کہ وہ کونسا شعلہ تھا جس نے اپنی حرارت وروشنی سے ماضی میں پورے عالم کو بھر دیا تھا اور میں نے اپنی زندگی ماضی کے ان کارناموں اور بلند پایہ شخصیات کو تلاش کرنے میں گزار دی جو ہم سے دور چلے گئے ہیں اور کہیں ماضی کی پنہائیوں میں کھو گئے ہیں”۔
مصری ناول نگار نجیب کیلانی نے اقبال پر ایک کتاب (انقلابی شاعر) کے نام سے لکھی ہے اور اس میں خلاصہ کیا ہے کہ اقبال نہیں چاہتے ہیں کہ شاعری محض فلسفہ بن کر رہ جائے جس میں پھولوں کے کھلنے، باد نسیم کے چلنے اور جھلملاتے تاروں کو فلسفہ اور بحث ومباحثہ کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ بلکہ وہ ایسی شاعری کا دلدادہ ہے جو نیرنگی فکر سے مزین ہو، جس میں نظر کی سچائی اور وجود کی حقیقت نمایاں ہو اور جو کائنات کے اسرار ورموز کی آگہی پر مبنی ہو۔ ایسی شاعری جو ہواؤں سے سرگوشی کرے ،عقل کو روشنی دے ،مزاحمت اور آزادی کے لیے آئین وضع کرے اور انسانوں اور ملکوں کے مسائل حل کرے۔
فلسفہ کے میدان میں اقبال کو اسلام کے نقلی اور عقلی علوم میں سے کافی وافر حصہ عطا ہوا تھا اور اسے قدیم وجدید، مشرق ومغرب کے مختلف فلسفی مذاہب کی گہری جانکاری تھی۔ انہیں تاریخ کی حرکت پر گہری نظر تھی، وہ اس کے احوال وکوائف سے واقفیت رکھتے تھے۔ انہوں نے معاشروں اور ملکوں کی تعمیر وترقی پر تجزیے پیش کیے ہیں۔
وہ طاقت کے نشے اور بڑائی کے جنون سے شدید تحفظات رکھتے تھے۔ فرماتے ہیں: “ذرا غور کرو کہ چنگیز خان اور اسکندر نے کس طرح انسانیت کی چادر تار تار کی، کیسے شرافت وکرامت کو شرمسار کیا اور بار بار انسان کو ذلیل ورسوا کیا”۔ ان کی فکر اور شاعری میں تصوف کی گہری باتیں، زبردست فلسفہ اور وسیع معرفت کی تند وتیز لہریں رواں ہیں۔ حقیقتاً وہ جلال الدین رومی کے شیدائی ہیں۔ وہ جرمنی کے دو مکاتب فکر کے حامل ہیں: یعنی عقلی آئیڈیلزم اور محسوس مثبتیت۔ وہ ایک صاحب بصیرت اور بالغ نظر سیاسی ناقد ہیں۔
ان سب سے بڑھ کر وہ ایک ایسا مسلمان شاعر ہے جو انصاف کے لیے اٹھتا ہے۔ اپنی صلاحیت اور اپنے زمانے کی وسعت کے لحاظ سے مثبت تحریک چلاتا ہے، احیاء اور تجدید کی کوشش کرتا ہے۔ اسلامی فکر کو نئے سرے سے زندہ کرنے کے لیے اس طریقے کے مطابق سعی کرتا ہے جس میں نقل وعقل کے امتزاج کو پیش نظر رکھا جائے، جس میں رائے اور شریعت کو ساتھ ساتھ چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
علامہ اقبال نے شاعری کے 9 دیوان لکھے ہیں، جن میں بارہ ہزار اشعار موجود ہیں، جس میں سے تقریبا سات ہزار فارسی شعر ہیں اور باقی پانچ ہزار اردو میں ہیں۔ ان کے مشہور شعری دیوان یہ ہیں، بال جبریل، اسرار ورموز، بانگِ درا، پیام مشرق، ضربِ کلیم، اور ارمغانِ حجاز۔
انہون نے نثر میں کتاب “اسلام میں دینی فکر کی تجدید”، بلادِ فارس میں مابعدالطبیعیات کا ارتقاء” لکھی ہیں اور ان کا آخری کلام جب وہ بستر مرگ پر تھا یہ ہے:
سرود رفتہ باز آید کہ ناید ؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید ؟
سرآمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید ؟
اقبال اپنی شاعری، فلسفہ اور تعلیمی فکر میں جس بلندی پر فائز تھے اس کی وجہ سے انہیں ان شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے جنہیں بہت پذیرائی ملی ہے، اور ان پر دور جدید میں بہت سی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ وہ اپنی بات، قلم اور جد وجہد سے اللہ کی راہ میں مزاحمت کرنے والا اور اسلام کی دعوت دینے والا داعی فی سبیل اللہ ہے۔ وہ ہندوستان کے سب سے بڑے شاعری مکتب فکر کے استاد ہیں اور ان کے تعلیمی نظریات بہت قدر ومنزلت کے حامل ہیں۔
ان کے متعلق مولانا ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں: “میں نہیں جانتا عصر حاضر میں کوئی ایسا شخص یا مکتبہ فکر اٹھا ہے جس کا مطالعہ اتنے سارے قلمکاروں، مصنفین اور محققین نے کیا ہو جتنا اس عظیم شاعر کو پڑھا گیا ہے” اور حکومت پاکستان کی طرف سے لاہور میں اقبال کی یاد میں ایک تقریب منعقد کروائی گئی تھی جس میں ایک تحقیقی مقالہ پڑھا گیا اس میں بتایا گیا: “علامہ اقبال کے نام سے دنیا کی مختلف زبانوں میں چھپنے والی کتابوں اور رسالوں کی تعداد دو ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تعداد ان تحقیقی مضامین اور مقالات کے علاوہ ہیں جو ان پر لکھے گئے ہیں”۔
مآخذ وحوالہ جات:
- ابو الحسن ندوی: اقبال کے شاہکار، ص 28-40
- محمد بن عبد الرحمن مدنی: شاعر محمد اقبال اور اس کے تعلیمی تصورات
- میریہ جراح: اقبال کے متعلق اہم معلومات
- ڈاکٹر احمد عبد الحمید عبد الحق: شاعر محمد اقبال ۔۔۔ ایک مصلح اور معلم
- شاعر اسلام محمد اقبال: بیدار مغز مجاہد اور مفکر
- الجزیرہ نت: محمد اقبال
مترجم: میر سجاد الحق