حل: علاج یا طلاق
سوال:
میں تیس سال کی ایک عورت ہوں۔ میری شادی گیارہ سال پہلے ایک آدمی سے ہوئی ہے جو عمر میں مجھ سے تقریباً دس سال بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دو بچوں سے نوازا ہے۔ میرا شوہر ایک بااخلاق انسان ہے اور ہماری مالی حالت بھی متوسط درجے کی ہے۔ میں خود بھی کام کرتی ہوں اور اپنے گھریلو معاملات میں اس کی مدد کرتی ہوں۔
مسئلہ یہ ہے کہ میرا شوہر ٹھنڈے جذبات و احساسات کا حامل ہے جو ایک الگ ہی دنیا میں رہتا ہے۔ اسے بات چیت پسند نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہ پسند کرتا ہے کہ ہم کسی موضوع پر گفتگو کریں۔ وہ زیادہ تر اوقات میں مجھ سے اور بچوں سے دور رہتا ہے۔ جہاں تک ہمارے مخصوص تعلقات کا سوال ہے تو وہ شادی کے بعد سے ہی سرعت انزال کا شکار ہے۔ میں نے اسے بارہا ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے کہا، لیکن وہ فضول قسم کی دلیلیں اور بے کار قسم کے بہانے بناتا ہے۔ میں نے انہیں کسی نفسیاتی معالج کے پاس جانے کے لئے بھی کہا تاکہ وہ ہماری کچھ مدد کرسکے لیکن وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے اور نہ ہی اس بات کا اعتراف کرنے کے لئے تیار ہیں کہ ہم دونوں کے بیچ میں واقعی کوئی مسئلہ ہے۔ میں نے اس سلسلے میں اس کے ساتھ کئی مرتبہ بات کی تاکہ اس کا ارادہ بدل جائے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
آخر کار مجھے یقین ہوگیا کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور میرا شوہر بھی اب الگ کمرہ میں رہنے کے لئے بہانہ بنانے لگا جس کی وجہ سے مجھے ایک طرح کی محرومی کا احساس ہونے لگا ہے۔ مجھے یہ خدشہ ہے کہ میں بھی کسی شادی شدہ عورت کی طرح ہو جاوں گی۔ یہ مسئلہ میری نفسیات پر بھی اثر انداز ہونے لگا ہے اور میرا خود پر سے اعتماد اور بھروسہ ختم ہونے لگا ہے۔ میں اس کے ساتھ اپنے آپ کو ایک مکمل عورت محسوس نہیں کرپاتی ہوں، باوجود اس کے کہ میں خوبصورت ہوں اور عمر میں بھی ابھی چھوٹی ہوں۔ یہ بات مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں اس سے طلاق لینے کے بارے میں سوچوں اور اپنی نئی زندگی کسی ایسے مرد کے ساتھ شروع کروں جو مجھے سمجھ سکے، مجھ سے پیار کرے اور میری زندگی کو مکمل بنائے۔ لیکن مجھے اپنے بچوں کا ڈر ہے تو میں کیا کروں ؟
یہ جانتے ہوئے کہ میرا شوہر بالکل میرا خیال نہیں رکھتا اور مجھے میرے ازدواجی حقوق سے بھی اسی طرح محروم رکھا ہے جس طرح جذباتی اور احساساتی طور پر اس نے مجھے محروم رکھا ہے۔ وہ میرے ساتھ نہ تو پیار بھری باتیں کرتا اور نہ ہی میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور بوس و کنار وغیرہ جیسی کوئی چیز کرتے ہیں۔ آخر کار میں ایک طرح کے مرض میں مبتلا ہو گئی اور مجھے کئی بار ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت پیش آئی اور ٹیسٹ کروانے پڑے۔ یہ چیزیں ان پر بوجھ بننے لگیں اور شکوہ شکایت شروع ہوگیا اور وہ غصہ ہونے لگے، حالانکہ ہمارے پاس آنے جانے کے لئے ایک گاڑی تھی۔ میں اس سے کوئی پیسے وغیرہ بھی نہیں مانگتی تھی، کیونکہ میں خود کام کر کے پیسے کماتی ہوں۔ اس چیز نے بھی مجھ پر بہت زیادہ اثر ڈالا۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے کوئی مستحکم فیصلہ کرنے میں مدد کریں گے، اس لئے کہ اب میں مزید برداشت نہیں کرسکتی۔
جواب:
محترمہ سائلہ:
عزیز مہمان صاحبہ اس فورم پر آپ کا خیر مقدم ہے۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تمہیں ذہنی سکون اور خوشحال زندگی عطا فرمائے اور آپ کی پریشانیوں کو دور کرے۔
ہم آپ کی شکایت کو کچھ کم یا چھوٹا نہیں سمجھتے اور اس کی وجہ سے آپ جن مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں، ہم انہیں بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ ہر مشکل اور پریشانی کا، چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، اللہ کی مدد سے اس کا کوئی نہ کوئی حل نکل آتا ہے۔
پیاری بہن ہم آپ کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ زندگی مشکلات اور پریشانیوں کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ کسی پر بھی اس کی قوتِ برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے۔ لہذا اس پر اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کی بڑائی بیان کرنی چاہئے۔ اور ضروری ہے کہ ہم ہر حال میں اس بات پر قائم رہیں تاکہ ہم اس اطمینان کو پا سکیں جس کی وجہ سے ہم مشکلات کو ان کے اصلی حجم میں دیکھتے ہیں، نہ اس سے بڑی اور نہ ہی چھوٹی۔
شوہر کی نعمت حاصل ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرو، اگرچہ وہ کچھ حقوق کی ادائگی میں کوتاہی کرتا ہے۔ اپنے شوہر کے سلوک اور رویے پر گرچہ وہ تمہاری پسند اور مرضی کی عین مطابق نہ بھی ہے، تو بھی اللہ کا شکر ادا کرو۔ اور اللہ کا شکر ادا کرو اپنی مالی حالت اور شوہر کے اچھے اخلاق پر جس کی طرف تم نے خود اشارہ کیا ہے۔
پیاری بہن، ہم تمہیں کچھ نعمتیں یاد دلانا چاہتے ہیں، تاکہ ان میں سے کسی نعمت میں کوئی نقص یا کمی، غم اور مایوسی کا سبب نہ بنے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کو اپنے غصے کے اظہار اور اپنی مشکلات کا حل تلاش کرنے کے حق سے محروم کیا جائے۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہونا چاہئے جب ہمارے دل اللہ کی حمد و ثنا سے بھرے ہوئے ہوں۔ اس لئے کہ شیطان ہمیں مایوس اور اداس کرنا چاہتا ہے۔
اگرآپ انٹرنیٹ پر تلاش کریں تو آپ کو اس سوال کے دسیوں جوابات مل جائیں گے کہ سرعت انزال کا علاج کیسے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سوال کا صحیح جواب اور اس سے نمٹنے کا طریقہ درحقیقت شوہر کی نفسیات کو سمجھنے میں پوشیدہ ہے۔ جب ایک مرد کو اس چیز کا احساس دلایا جاتا ہے تو گویا اُسے اُس کے اندر کا ایک عیب اور نقص بتایا جاتا ہے، جو ایک شوہر کے نقطہ نظر سے اس کی مردانگی کا ایک عیب ہے۔ اور یہ احساس کسی بھی مرد کے لئے بہت مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ تمہارے اور تمہارے شوہر کے درمیان اس مسئلے سے متعلق گفتگو کچھ بھی ہو اس سے تمہارے اور تمہارے شوہر کے درمیان ایک نفسیاتی خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اگرچہ تم نے اِس سے اُس کی برائی یا نکتہ چینی کا کوئی ارادہ نہ بھی کیا ہو لیکن جس طریقے سے تم نے اس کے سامنے یہ بات رکھی ہے اور اسے بار بار ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے کہا ہے اس سے تمہارے شوہر کو تکلیف پہنچی ہے اور وہ تم سے بد ظن ہو گیا ہے۔ لہذا اپنی بات کہنے کے لئے مناسب الفاظ کا انتخاب اور بحث کرنے کےلئے صحیح طریقہ اختیار کرنا از حد ضروری ہوتا ہے۔ یہ ہوئی پہلی بات۔
رہی دوسری بات: تمہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس مسئلے سے صرف تم پر ہی نہیں بلکہ تم دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس میں بڑا فرق ہے کہ جب تم اس مسئلے پر اس طرح بات چیت کرو کہ اس سے صرف تمہیں ہی نہیں بلکہ تم دونوں کو نقصان ہو رہا ہے۔ جب ہم ہمدردی کے جذبات کا اظہار ان لوگوں (شوہر) کے لئے کرتے ہیں، جو اس کے زیادہ حقدار ہوتے ہیں۔ تب تمہیں مختلف نتائج حاصل ہوں گے۔ گویا تم اپنے شوہر سے یہ کہہ رہی ہوگی کہ ہم ایک ہی ٹوکری میں ہیں اور ان مسائل کا حل ہم سب کے لئے مزید خیر و سعادت کا باعث ہوگا ۔
تم نے ان اثرات کے بارے میں بتایا جو اس مسئلے کی وجہ سے تمہارے اعتماد پر پڑ رہے ہیں، تو تم اس سے اندازہ لگاؤ کہ تمہارے شوہر کی خود اعتمادی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہوں گے۔ اس سے اس کی خود اعتمادی پر تم سے کئی گنا زیادہ اثر پڑتا ہوگا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جب ایک شوہر کی خود اعتمادی کی بنیادیں ہل رہی ہوں اور وہ اپنی جوان اور تندرست بیوی سے ہمبستری کر سکے۔
ضروری ہے کہ تم ایسی عملی کوشش کرو جس سے اس کی خود اعتمادی واپس آئے۔ اس کی طرف سے تمہیں خوش کرنے والے کسی بھی عمل کی تعریف کرکے، اور اس رشتے میں موجود کسی نقص کی نشاندہی نہ کر کے، اور ازدواجی تعلقات کے ماہرین کے پاس جانے کے متوازی عمل کے ساتھ، چاہے تمہیں اکیلے ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ آپ کے کسی ماہر کے پاس جانے کے معاملے میں کوئی شک نہیں جس سے آپ کو یہ معلوم ہو کہ اس مسئلے سے نفسیاتی سطح پر نمٹنے کے لئے شوہر کے ساتھ نفسیاتی سلوک کس قدر اہم ہے۔
اور جہاں تک صحت کی سطح کا تعلق ہے تو اس بارے میں کئی نقاط ہیں:
ـ اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ آدمی ایسی بیماری سے پاک ہو جو اس قسم کے مسائل کا سبب بنتی ہیں مثلاََ پیشاب کی نالی کا انفیکشن یا اس طرح کی کوئی اور بیماری۔ یہ کام ڈاکٹر سے رجوع کئے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔
ـ یہ بات قابل افسوس ہے کہ اس طرح کی مشکلات کا انکار کرنا ان کے علاج میں تاخیر کا سبب بنتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کا علاج بہت آسان اور واضح ہوتا ہے۔ لہذا خدا سے مدد طلب کرو تاکہ تم اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لئے راضی کر سکو۔
ـ مسئلے کی صحیح وضاحت: اس مسئلے کے بارے میں ماہرین میں سے ایک ماہر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر دخول دو منٹ سے کم ہو، یا بیوی 50 فیصد سے کم مطمئن ہو، یا سرعت انزال پر قابو پانے میں ناکامی ہو۔ یہ ہے سرعت انزال کی تعریف۔ اگر دخول دو منٹ سے زیادہ قائم رہتا ہے تو ہم اسے سرعت انزال نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اگر ہر بار کی ہمبستری کے وقت سرعت انزال پر قابو نہیں پایا جاتا تو پھر ایک متعینہ مدت تک علاج معالجے کی ضرورت ہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اس مسئلے کو بیان کیسے کرنا ہے، اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس لئے کہ کبھی کبھی یہ مسئلہ اس حد بڑا نہیں ہوتا ہے اور اسے نمایاں کرنے سے آپ کے درمیان کے تعلقات میں ایک نفسیاتی دوری اور غلط قسم کی مشروط وابستگی پیدا ہوجاتی ہے۔
بہت سے ماہرین اس مسئلے کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مشت زنی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ شوہر کو کسی مذہبی عالم کی بات سننی چاہئے جو اس کی ممانعت کے بارے میں بتاتے ہیں، ساتھ ساتھ کسی ڈاکٹر کی بات ماننی چاہئے جو اس کے علاج میں مدد کرتے ہیں۔
یہ بات اپنے شوہر تک نہایت اچھے انداز سے پہنچاؤ کہ علماء اور فقہا ء کا اجماع ہے کہ شوہر کا بیوی کے ہاتھ سے مشت زنی جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فرمان الہی کے مطابق: "اور وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں کہ ان پر (محفوظ نہ رکھنے میں) وہ قابل ملامت نہیں ہیں”۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو حلال کیا جب یہ اپنے جوڑے کے ہاتھ سے ہو اور اسے حرام کیا جب یہ کسی شخص کے اپنے ہاتھ سے ہو۔ خاص کر اس وقت جب وہ اس کے نقصانات جانتا ہو، لیکن خواہشات کا غلبہ اور شیطان کا وسوسہ اس سے بھی بڑا ہوتا ہے۔
کبھی کبھی ڈاکٹر کچھ علاج یا مرہم تجویز کر سکتا ہے، لیکن ڈیپریشن دور نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر کو یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کچھ دوائیں لے رہا ہے۔ تو پھر یا تو شوہر خود ڈاکٹر کے پاس جائے گا جب اسے یہ معلوم ہوگا کہ تم اس سے طلاق لینے کا سوچ رہی ہو یا پھر تم اس سے اس مسئلے کی وضاحت طلب کرو۔ ہم تعلقات میں دھمکی کو ترجیح نہیں دیتے۔ اس لئے طلاق کی دھمکی دینے سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ تم اس کے ساتھ بات چیت کرکے اسے طبی مدد کے لئے راضی کر سکو۔ اس لئے اس دھمکی سے تم دونوں کے درمیان زیادہ دشمنی پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔
جنسی معاملات کی ماہر ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی جسم میں پانی کی کمی کے سبب مرد سرعت انزال کا شکار ہوتا ہے۔ اور یہ ایسا معاملہ ہے جو ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے اور جس کا ہم خود تدارک کر سکتے ہیں اور دوسری وجوہات پر توجہ دے سکتے ہیں۔ اسی طرح اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مباشرت کے درمیان زیادہ وقفہ بھی سرعت انزال کا سبب بنتا ہے۔ گویا کہ جسم اس مباشرت کا پیاسا ہوتا ہے اور یہ بھی ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ ہم مباشرت میں زیادہ دنوں کا وقفہ نہ ہونے دیں۔
آخر میں: سی بی ٹی تھراپی / معرفی تھراپی برائے تبدیلی برتاؤ
یہ ایک خاص قسم کی نگرانی میں ہوتا ہے جسے آپ انٹرنیٹ پر بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ جب ہم یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مسئلے کی وجوہات کیا ہیں؟ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زیادہ تر وجوہات نفسیاتی ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ بلوغت کے زمانے میں مشت زنی کے ذریعے جنسی تعلقات کے ابتدئی تجربات ہیں۔ نوجوان اسے جلدی جلدی کرتے ہیں تاکہ انہیں کوئی دیکھ نہ لے اور اس لئے بھی کہ اس حرام کام پر ان کا ضمیر بھی ملامت کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی جنسی خواہشات تیزی سے پوری ہو جاتی ہیں۔
تھراپی علاج اس سوچ کو بدلنے کا کام کرتا ہے۔ کیونکہ یہ رد عمل دماغی انتشار میں ہارمونز کے اخراج سے منسلک ہے۔ دماغ جن چیزوں کا عادی ہوتا ہے اسے اس کے علاوہ کسی اور چیز کے لئے تیار کرنے میں بہت محنت اور توجہ درکار ہوتی ہے۔ جب بھی مباشرت کی جائے تو اس پرانے خیال کو چھوڑ دینا چائے کہ مباشرت کا عمل تیزی سے پورا ہو جانا چاہئے۔
اس قسم کے علاج کے ماہرین دو طرح کی ورزشیں بھی بتاتے ہیں جن سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور منی کا اخراج بھی دیر سے ہوتا ہے۔ ان ورزشوں کو (کیگل ورزش) کہا جاتا ہے۔ ان کو جاننا اور کرنا بہت آسان کام ہے۔
محترمہ سائلہ:
طلاق لینا بہت آسان ہے لیکن اس کے مسائل اور چیلینجز اس سے کئی زیادہ ہیں جو تم سوچ رہی ہو۔ حالانکہ اس مرض کے علاج کو کوشش بھی مشکل ہے مگر ہاں اس کا پھل یقینی ہے۔ شریعت ضرر کے تناظر میں خلع کی اجازت دیتی ہے تو کیا تم اس مسئلے میں اس حد تک پہنچ گئی ہو کہ تم یہ راستہ اختیار کرنے پہ مجبور ہو یا تم نے ابھی اس کے علاج کی کوئی تدبیر ہی نہیں کی۔
کچھ مسائل خود بات نہ کرنے اور بات کرنے کے بجائےعملی حل کی طرف جانے سے حل ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے ایک ایسی بیوی کی ضرورت ہوتی ہے جو سمجھدار ہو اور شوہر کے لئے سچے دل سے ہمدردی رکھتی ہو۔ سب سے برا طریقہ لڑائی جھگڑا ہے۔ اسی لئے تمہارا شوہر تم سے دور بھاگ رہا ہے کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے کہ یہ رشتہ تمہارے لئے تسلی بخش نہیں ہے، اس لئے اس نے اپنی عزت بچانے کے لئے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تمہاری گزشتہ کوششوں سے سوائے مزید نفرت اور طلاق کے خیال کے علاوہ اور کیا حاصل ہوا؟ اس لئے اب تم دونوں کی آپسی مفاہمت اور اپنی نظر میں شوہر کا مقام ومرتبہ بلند کرنے کا وقت آگیا ہے۔ بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ تمہارا شوہر خود تمہاری نظر میں بااخلاق ہے۔ تم اسے اس مسئلے کے حل کے لئے مکمل اقدامات، ازدواجی رشتوں کے صلاح کار کا نام، اس سے ملنے کا طریقہ، اور اس علاج کی رازداری کا یقیں دلاؤ۔ پھر اسے یہ بھی بڑے آرام سے بتاؤ کہ تم دونوں اپنے فائدے کے لئے اکٹھے جاؤ گے۔ اگر وہ پھر بھی انکار کرے تو اسے غصہ کیے بغیر یہ بتا دو کہ تم جا رہی ہو۔
ہاں میں سمجھ سکتا ہوں کہ تمہیں اس حال میں دس سال ہو گئے ہیں جن کے بارے میں تم نے خود یہ کہا کہ وہ نہیں بدلا۔ لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خدا پر بھروسہ رکھو نہ کہ اسباب پر، کیونکہ اللہ سبحانہ تعالی تمہاری حالت کو بہتر حالت میں بدلنے پر قادر ہے۔
اپنی گفتگو کے آخر میں ہم ہر شوہر کو خدا کا خوف یاد دلاتے ہیں کہ بیویوں کے معاملے میں اللہ سے ڈریں، کیونکہ وہ ان کے پاس قید ہوتی ہے۔ اور مردوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ شرعی معاملات سے دور اور بے خبر رہنا ہی فساد کی جڑ ہے۔ شریعت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مرد جنسی معاملات میں پہل کرے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ "تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تمہیں اختیار ہے جس طرح چاہو، اپنی کھیتی میں جاؤ، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو، اور اللہ کی ناراضی سے بچو، اور خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبیﷺ جو تمہاری ہدایت کو مان لیں انہیں فلاح و سعادت کا مژدہ سنا دو”۔
مردوں کو چاہئے کہ اپنے رسول سے ہمبستری کا طریقہ اور اس کے آداب سیکھیں۔ مردوں نے جب یہ نہیں سیکھا تو اپنے آپ کو خوش کرنے لئے کیا کیا جدوجہد نہ کی اور جس کی وجہ سے خود کو بھی اور اپنے ساتھ والوں کو بھی دکھی کر دیا۔ اللہ مسلمانوں کے گھروں کو درست فرمائے اور اس راستے کی طرف رہنمائی کرے جو اسے پسند ہے اور جس سے وہ خوش ہوتا ہے۔