ازدواجی تعلقات کے اکثر ماہرین اور علماء سماجیات کا ماننا ہے کہ شادی کا پہلا سال ایک طرح کا نیا تجربہ ہوتا ہے اور اسے کامیابی سے گزارنا اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ ازدواجی تعلق نے سب سے مشکل مرحلہ پاس کرلیا ہے۔ اسلام نے مسلم خاندان کو اس طرح قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ جس میں نفسیاتی، روحانی، جسمانی، مادی اور اخلاقی سمیت تمام پہلوؤں کا خیال رکھا جائے تاکہ اس اہم مرحلے پر خاندان بحران اور انتشار کا شکار نہ ہو، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ خاندان معاشرے میں دفاع کی پہلی لائن اور اس کا سنگ بنیاد ہے۔ اگر یہ اکائی متزلزل اور کھوکھلی رہ گئی تو اس کے نتیجے میں معاشرہ نفسیاتی اور اخلاقی لحاظ سے کھوکھلا اور منتشر ہو جائے گا۔
خاندان ایک ایسا ادارہ ہے جس کے انتظام میں سوجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے ، اور شادی شدہ زندگی کو بہتر طریقے سے منظم کرنے کے لئے معاملات میں مہارت، علم اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے، اور جہاں یہ تصور غائب ہوتا ہے وہاں طلاق کی کثرت سے خاص کر نئے شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کے پھیلاؤ سے معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
اسلام میں نکاح کے مقاصد:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان مضبوط تعلقات استوار کرنے کے لیے نکاح کا قانون بنایا ہے جس کی بنیاد نیک جذبات اور لطیف احساسات پر رکھ دی ہے، چنانچہ شادی ایک قانونی رشتہ ہے جو مرد اور عورت کے درمیان معاہدے کے ذریعے طے پاتا ہے جس کا انعقاد معتبر شرعی شرائط اور ارکان کے ذریعے ہوتا ہے۔
نکاح شریعت کے تحفظ میں قائم کیا گیا ایک معاہدہ ہے جس کا ہدف مختلف فطری و عظیم مقاصد اور دینی و دنیوی مصالح کو حاصل کرنا ہے جو فرد اور معاشرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں، اس کے ساتھ اسے خدا کی عبادت قرار دیا گیا ہے جس عبادت کے ذریعے انسان پاکیزگی حاصل کرتا ہے۔
اس کے ذریعے انسانی ذریت پھیلتی ہے جس پر انسانی تمدن اور زندگی کی تعمیر ہوتی ہے جس کے ذریعہ معاشروں اور خاندانوں کے مابین ایک دوسرے کے ساتھ تعامل اور آپسی انحصار قائم ہوتا ہے، بلکہ اس کا سب سے اہم مقصد انسان کی روح میں سلامتی اور سکون پھیلانا ہے تاکہ انسانیت ایک خوشگوار اور مستحکم زندگی گزارسکے۔
شادی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور کائنات میں اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، لیکن جب آپ کا سامنا شادی شدہ زندگی کی حقیقت سے ہوتا ہے تو امیدیں دم توڑ دیتی ہیں اور خواب اس وقت چکنا چور ہوجاتے ہیں جب نئے نویلے جوڑے شادی شدہ زندگی کی حقیقت کا سامنا کرتے ہیں، لہٰذا کچھ لوگ اس نئی حقیقت کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں اور کچھ لوگ ہمت ہار جاتے ہیں، اور خاص طور پر شادی کے پہلے سال میں تنازعات بڑھ جاتے ہیں، اس لیے اس تعلق کو شروع کرنے سے پہلے تعلیم اور کونسلنگ کے ذریعے اس کا علاج کیا جانا چاہئے۔
نوجوان مرد و خواتین کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شادی فاسٹ فوڈ ریستوراں کی طرح نہیں ہے جس کا سب سے بڑا ہدف معیار اور افادیت کو قربان کرکے رنگ، ذائقہ اور خوشبو کا اہتمام ہوتا ہے۔
لہٰذا ان دونوں کو چاہیے کہ اپنے طرز عمل میں بہترین آداب اور مہارات پیدا کریں۔ حتیٰ کہ لوگ اگرچہ اپنے مزاج، اصولوں، نقطۂ نظر، انداز اور تشریح میں کتنا بھی اختلاف رکھتے ہیں، اس کے باوجود شادی کا مقصد ہر ایک کے نزدیک ایک رہتا ہے یعنی خوشی اور سکون کو حاصل کرنا اور خاندان کی تشکیل کرنا ہے۔
ہر فریق کو دوسرے کے مزاج کو جاننا، قبول کرنا اور اختلافات کی صورت میں ایک دوسرے کو مؑذار سمجھنا چاہئے کیونکہ یہ فطری امر ہے۔
جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ اس معاملے میں دونوں کو باہمت بھی ہونا چاہیے کہ اگر وہ کوئی غلطی کریں یا یہ محسوس کریں کہ اس نے دوسرے فریق کو ناراض کیا ہے تو معافی مانگ لے۔ اسی بات کا مشاہدہ ہم بہت سے اسلامی گھروں میں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں جہاں زندگی میاں بیوی کے درمیان سالہا سال بغیر کسی پریشانی کے اس لیے کٹتی ہے، کہ ان میں سے ہر فریق دوسرے فریق کے مزاج اور حالات کو بخوبی سمجھتا ہے۔
ہر شریک کو اپنے شریک حیات کے کام کی نوعیت کا اتنا علم ہونا چاہئے، یہاں تک اس کے حالات اور اس پر پڑنے والے دباؤ کا احساس کرسکے، تاکہ اسے معذور سمجھ کر برداشت کرے۔
شادی کے پہلے سال کے چیلنجز:
شادی کے پہلے سال میں اکثر خاندان ٹوٹ جاتے ہیں جو بہت سے لوگوں کے لیے حیران کرنے اور ڈرانے والی بات ہے، اور بہت سے لوگ زوجین کو درپیش مشکلات کو بالکل نظر انداز کرتے ہیں اور ان کی ناکام شادی کو وجہ بناکر ان پر تشدد اور لعن طعن شروع کر دیتے ییں، اور یہاں تک کہ ایک دوسرے پر الزامات لگانا شروع کرتے ہیں کہ ایک فریق نے دوسرے فریق کے ساتھ غلط کیا ہے۔
اس لیے کچھ محققین نے بعض ایسے نمایاں مشکلات پر غور کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
- میاں بیوی کا ایک دوسرے کو نہ سمجھنا اور ان کے درمیان مزاجوں کا اختلاف، یہ اختلافات کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے، کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے صحیح بنیادوں پر انتخاب نہیں کیا ہے اور اپنے شریک حیات اور خود کی نفسیاتی خصوصیات کا لحاظ نہیں رکھا ہے، تاکہ اختلاف طبع کی وجہ سے پیدا ہونے والی غلط فہمی سے بچا جا سکے۔
- شادی کی روایات اور ازدواجی تعلق میں ایک مرد اور عورت کے رول سے لاعلمی، اس کے ساتھ وقت اور ماحول کے فرق کو نظر انداز کرنا۔
- مشکلات سے نمٹنے کے لیے تجربے کی کمی، اور گفتگو کی زبان میں اختلاف یا بعض اوقات گفتگو کی عدم موجودگی بھی سبب بنتی ہے۔
- روزمرہ کی زندگی کے دباؤ کے علاوہ ذمہ داریوں کی کثرت، اور انسان کی نفسیاتی حالت پر اس کے گہرے اثرات، پھر اس کے بارے میں آگاہی کی کمی اور اس سے نمٹنے کے طریقے اور حل نکالنے میں ناکام ہونا۔
- زندگی میں ایک دوسرے کے لئے احترام کا فقدان، اور ان میں سے کسی ایک کی طرف سے دوسرے پر حکم چلانے کی خواہش، اور ازدواجی تنازعات کو حل کرنے میں سب سے مضبوط فریق کی رائے کو اپنانا۔
شادی کے پہلے سال کی کامیابی کی أساس:
شادی کا ارادہ رکھنے والے خواہش مند افراد کے اندر ازدواجی کلچر اور روایات کو مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان اہم ترین عناصر اور بنیادوں کی نشاندہی کی جائے جو شادی شدہ جوڑوں کے حالات کو بہتر بنانے اور ازدواجی تنازعات اور جھگڑوں کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں، اور شادی کے پہلے سال کو کامیابی اور پرامن طریقے سے گزرانے میں مدد کرتے ہیں، جن میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں:
- اچھی خوبیاں رکھنے والے دوستوں کا ہونا کیونکہ وہ اپنے ساتھی کی نفسیات پر اچھا اثر ڈالتے ہیں۔
- ازدواجی زندگی میں صبر اور بقائے باہمی کا رویہ اپنانا۔
- ہر فریق دوسرے کے حقوق کے لئے کھڑا ہو اور جتنا ممکن ہوسکے انہیں اچھی طرح سے عملانے کے لئے کام کرے۔
- برے تجربات سے متاثر نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ ایک فرد کے تجربات دوسرے فرد سے مختلف ہوتے ہیں۔
- دونوں میاں بیوی کام اور اخراجات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔
- جذبات اور احساسات کا اظہار کریں۔
- منفی پیغامات سے پرہیز کریں جو دوسرے فریق کو مشتعل یا ناراض کرسکتے ہیں۔
- گھر کوئی ہوٹل نہیں ہے، یہ وہ جگہ ہونی چاہئے جہاں میاں بیوی زندگی کے جھمیلوں سے تھک ہار کر آرام و سکون حاصل کرسکیں۔
- ہر میاں بیوی کو گھر والوں کی مداخلت کے بغیر ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع دینا چاہئے، کیونکہ گھر والوں کی مداخلت منفی ہوسکتی ہے۔
- فرائض کو انجام دیں اور ایک دوسرے کے درمیان تعریف اور شکریہ کا تبادلہ کریں۔
- امور خانہ داری میں مساویانہ مشارکت کریں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کاموں کو برابر برابر تقسیم کریں بلکہ اس کا مطلب آپسی تعاون ہے اور ہر شریک حیات کو یہ احساس ہو کہ دوسرا اس کی مدد کر رہا ہے۔
- میاں بیوی کے خیالات کو قریب کرنے اور اسلامی بنیادوں پر اختلافات کو حل کرنے میں خاندان کا مثبت کردار ادا کرنا ضروری ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے بیان کرتے ہوئے فرمایا: “اگر تمہیں ان دونوں میں لڑائی بڑھ جانے کا ڈر ہے تو شوہر کے گھر والوں میں سے ایک ثالث اور بیوی کے گھر والوں میں سے ایک ثالث مقرر کرو اگر وہ صلح کرنا چاہتے ہیں تو اللہ ان کے درمیان صلح کرا دے گا” [النساء- 35] (4)۔
میاں بیوی کے لئے اہم نصائح:
یہاں ہم کچھ ناصحانہ کلام کرتے ہیں جو ہم شوہر کے گوش گزارکرانا چاہتے ہیں:
- شوہر اپنے گھر پر غلط رسم و رواج یا فرسودہ عادات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے بلکہ اس طریقے سے حکم چلائے جسے شریعت، عرف اور صحیح روایات کی سند حاصل ہو اور شریعت سے متصادم نہ ہو۔ تاکہ شادی کے پہلے سال سے لے کر زندگی کے اختتام تک ہر سال کامیاب ہو۔
- شوہر کو اطاعت میں سست نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کے لئے برا نمونہ بن جائے اورخدا کے سامنے اس کوجواب دہ ہونا پڑے۔
- وہ حرام میں مبتلا نہ ہو چاہے اس کا جواز کچھ بھی ہو اور چاہے اس کے آس پاس کا معاشرہ کچھ بھی ہو۔
- کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس کی جگہ اس کے گھر کے انتظامات ہاتھ میں لے یا اپنے منفی مشوروں کے ذریعے اس میں مداخلت کرے جو اس کی بیوی کے ساتھ اس کے تعلقات کو خراب کرسکتا ہے۔
- شوہر اپنی بیوی کے جذبات کو نظر انداز نہ کرے کہ وہ ٹھنڈے یا سخت ہوکر رہ جائیں چاہے اس کے کام کی نوعیت کچھ بھی ہو، بلکہ اپنی بیوی کی نرمی اور جذبات کی گرم جوشی کا لحاظ رکھے۔
- وہ اپنی عیاشی میں شتر بے مہار نہ ہو اور نہ ہی بلند و بالا خواہشات کا اسیر، کیونکہ یہ اسے ایک لامتناہی چکر میں زندگی گزارنے پر مجبور کرے گا۔
- وہ اپنی بیوی کو گالیاں نہ دے اور نہ ہی اس کی توہین کرے کہ وہ بھی مجبور ہوکر اس کے ساتھ گالیوں کا تبادلہ کرے اور گھر کے ستون گر جائیں گے، اورنہ وہ اسے اپنے اور اس کے گھر والوں یا کسی اور کے سامنے ملامت کرے کہ وہ اسے اس کی طرف سے اپنی توہین سمجھے۔
- اگر بیوی بیمار ہو جائے تو وہ اسے نظر اندازنہ کرے اور نہ اسے اپنے حال پر چھوڑے گا اور نہ ہی کسی اور کو اس پر خرچ کرنے کی اجازت دے، اس سے وہ خود کو محفوظ محسوس کرتی ہے اور اس پر مہربانی کے بدلے مہربانی کرتی ہے۔
- وہ اپنی بیوی کے سامنے دوسری عورت کی خوبیوں کا ذکر نہیں کرے اور نہ ہی اپنی بیوی کا کسی اور سے موازنہ کرے کیونکہ عورت حسد کرتی ہے۔
- وہ ضد کا سہارا نہ لے، کیونکہ یہ اختلاف اور مصائب کے دروازے کھول دیتا ہے اور شیطان کو ان کے درمیان لا کھڑا کرتا ہے، جو نہ سکون سے رہنے دیتا ہے اور نہ قرار دیتا ہے۔
- خود غرضی کو چھوڑ دے کیونکہ شوہر کی خوشی، اطمینان اور ذہنی سکون اس کی بیوی کی خوشی، اطمینان اور ذہنی سکون کے بغیر مکمل نہیں ہوگا۔
- اپنی بیوی کا کوئی راز ظاہر نہ کریں چاہے وہ مذاق ہی کیوں نہ ہو، اور چاہے وہ اس کے گھر والوں کے سامنے ہی کیوں نہ ہو، اور اس بات کو دھیان میں رکھے کہ وہ ذمہ داری لینے میں ابھی نئی ہے۔
- شوہر اختلافی چیزوں پراصرار نہ کرے بلکہ اتفاق رائے کے نکات کو تقویت دے تاکہ اختلاف ختم ہوجائے۔
بیوی کو ہم یہ نصیحتیں گوش گزار کرانا چاہتے ہیں:
- شوہر ایسی عورت چاہتا ہے جو اس کے ساتھ بلاتکلف اپنی فطرت کے مطابق معاملہ کرے، جو جذبات کو نہ چھپائے اور بغیر کسی تردد اور ہچکچاہٹ سے پیش آئے۔ اور کسی نتیجے کی پرواہ نہ کرے۔
- جان لو کہ محبت، شفقت اور تسکین معنوی چیزیں ہیں، جو عورت ان پر قدرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، وہ اپنے شوہر کے دل اور دماغ پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی، بھلے ہی وہ ایک وحشی مار دھاڑ کرنے والا ہی کیوں نہ ہو!
- جان لیں کہ اپنے شوہر کے تئیں آپ کی ذمہ داری آسان یا سہل نہیں ہے، لیکن آپ کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ آپ کے کردار کا بنیادی حصہ ہے، نہ کہ آپ کی طرف سے اس پر کوئی احسان ہے۔
- بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اپنی عفت وعصمت اور اس کے مال کی حفاظت کرے، اور گھر سے باہر سج دھج کر نہ نکلے۔
- اگر وہ اس کی طرف دیکھے تو اسے اپنی جسمانی، روحانی اور عقلی خوبصورتی کے ذریعے خوش کردے۔ عورت اپنی ظاہری شکل میں جتنی خوبصورت اور پرکشش ہوتی ہے، وہ اتنی نسوانی اور جاذب نظر معلوم ہوتی ہے اور شوہر اس کے ساتھ اتنا ہی زیادہ لگاؤ رکھتا ہے۔
- اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلیں۔
- بیوی اپنے شوہر کی شکر گذار ہو، وہ شادی کی نعمت پر خدا کا شکر ادا کرے۔ جس کے ذریعے اس کے نفس کی حفاظت کی اور اس کی وجہ سے اس کے بچے ہوئے اور وہ ماں بن گئی۔
- جب وہ کسی چیز کی خواہش کرے تو صحیح وقت اور صحیح انداز کا انتخاب کرے اور ڈرے کہ شوہر اسے اچھے طریقے سے انکار کر دے اور ایسے مناسب الفاظ کا انتخاب کرے جو اس کی روح پر اثر انداز ہوں۔
- اگر شوہر غریب ہے تو اس کی غربت پر صبر کرے اور اگر شوہر مال دار ہے تو اس کے مال داری پر شکر ادا کرے۔
- اپنے شوہر پر زور دے کہ وہ اپنے والدین، دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔
- یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اس کا شوہر کھانے میں کیا چاہتا ہے اور کیا پسند کرتا ہے، اور اسے خوش کرنے کی کوشش کرے۔
- جب وہ گھر سے نکلے تو اسے محبوب الفاظ سے الوداع کرے اور اسے گھر کے دروازے تک چھوڑ آئے اس طرح اس کی اپنے شوہر میں دلچسپی ظاہر ہوتی ہے اور شوہر کی وابستگی معلوم ہوتی ہے۔
- جب وہ گھر آئے، تو اسے خوش آمدید، مسکراہٹ اور فرمانبرداری کے ساتھ خوش استقبال کریں، اور اس کے کام کی پریشانیوں کو کم کرنے کی کوشش کریں۔
- شوہر کے ناراض ہونے کی صورت میں اسے جلد از جلد راضی کرے تاکہ مسائل نہ بڑھیں اور دونوں فریق اس کے عادی ہو جائیں اور یہ گھر کی روایت بن جائے۔
- دوسروں کو اپنی شادی شدہ زندگی میں مداخلت کرنے کی اجازت نہ دیں، اور اگر آپ کی شادی شدہ زندگی میں مسائل پیدا ہوجائیں تو خاندان، رشتہ داروں یا دوستوں کی مداخلت کے بغیر ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
المصادر والمراجع:
- تيسير التميمي (قاضي قضاة فلسطين): مقاصد الزواج في الإسلام، 24 أكتوبر 2014.
- خالد بن سعود الحليبي: سنة أولى زواج، الحلقة الأولى، ضرورة التثقيف قبل الزواج، مركز بوح للاستشارات التعليمية والتربوية، 5 أكتوبر 202
- غادة مظلوم: “سنة أولى زواج” هي الأكثر في المشكلات.. كيف نتعامل معها؟.
- هبة رفاعي: 8 نصائح لتنجحي في سنة أولى زواج، 2018.
- محمد عبدالرحمن صادق: وصيتي للأزواج في سنة أولى زواج، 24 مايو 2022.
- نصائح للزوجة في معاملة زوجها وبناء علاقة قوية
مترجم: سجاد الحق