سید قطب شہید علیہ الرحمہ کا شمار معاصر دنیا کی ان برگزیدہ شخصیات میں ہوتا ہے جن کی ملت اسلامیہ کے تئیں لازوال فکری، علمی و تربیتی اور ادبی خدمات ہیں۔ امت مسلمہ کو مغرب کی طرف سے درپیش فکری چلینج کا مقابلہ جس پامردی کے ساتھ سید قطب نے کیا وہ انہی کا خاصہ ہے۔ انہوں نے مغربی ثقافتی یلغار کا علمی اور فکری طور پر جو مقابلہ کیا اس کے باعث ان کی لازوال خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
فی ظلال القرآن کے مصنف کی تعلیمی و تربیتی فکر کے خدوخال، ان کی تفسیر اور تعلیم، انسانی فطرت، اقدار، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کے لیے اسلامی نقطہ نظر کی خصوصیات، خاندان اور اسلامی سماج کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے بارے میں ان کے وژن سے واضح ہو جاتے ہیں۔
سید قطب کی پرورش:
سید قطب ابراہیم 1906 عیسوی میں اسیوٹ گورنریٹ میں واقع گاؤں موشہ میں ایک نسبتاً خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گاؤں والوں میں ایک ممتاز مذہبی شخصیت اور نیشنل پارٹی کے رکن تھے، جس کے سربراہ مصطفیٰ کامل تھے۔ ان کی والدہ ایک دیندار خاتون تھیں، اور ان کی دو ہم عمربہنیں حمیدہ اور امینہ اور ایک چھوٹا بھائی محمد تھا۔
سید قطب ابھی قاہرہ میں زیر تعلیم ہی تھے کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اس لیے انہیں ذمے داری کا بوجھ محسوس ہونے لگا۔ انہوں نے اپنے آپ کو دارالعلوم سے منسلک کیا جہاں سے وہ 1933ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ جب 1940ء میں ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ زندگی میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگے۔ وہ دو سال تک مصری وفد پارٹی سے منسلک رہے اور 1942ء میں ایک تنازعہ کے بعد اس سے الگ ہو گئے۔
3 نومبر 1948ء کو وہ مصری وزارت تعلیم کی طرف سے دو سالہ مشن پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ گئے، 1950ء میں مصر واپس آئے اور اسی سال وہ اخوان المسلمون میں شامل ہوئے۔ جہاں انہیں شعبہ تربیت کی سربراہی کے ساتھ ساتھ، شعبہ نشرو اشاعت اور چیف ایڈیٹر کی ذمے داری سونپی گئی۔
جب ان کے بھائی محمد کو 1965ء میں گرفتار کیا گیا تو انہوں نے پولیس کو ایک احتجاجی خط بھیجا، جس کی پاداش میں انہیں بھی اسی سال گرفتار کر لیا گیا، اور انہیں سزائے موت سنائی گئی، اور اس سزا پر 29 اگست 1966ء کو عمل درآمد ہوا، اس موقعے پر انہوں نے ایک ایسی بات کہہ دی جس نے نسلوں کو حوصلہ بخشا ہے: “ہمارے لفظ شمع کے پروانے بن کر رہیں گے، جب ہم ان لفظوں کی راہوں میں قید جاں سے گزر جائیں گے تو ان میں روح سرایت کر جائے گی اور ان کے لیے حیات جاوید لکھ دی جائے گی۔”
سید قطب کی تفسیر کا علمی و ادبی اور تربیتی مقام:
سید قطب کی تفسیر فی ظلال القرآن کے غائر مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے بہت سارے علمی اور تربیتی مسائل کی طرف توجہ دی ہے اور انہیں حل کیا ہے۔ جن میں سے نمایاں ترین ایشوز یہ ہیں:
انسان، کائنات اور زندگی کے بارے میں اسلامی تصور، تعلیم و تربیت کے ضمن میں اسلام کا مؤقف اور منہج اور خصوصیات، انسانی فطرت، اقدار، تہذیبی و ثقافتی انقلاب، اسلامی خاندان بحیثیت ایک تربیتی ستون، اسلامی سماج کی تربیت و نشونما، اور اسلام کا فلسفۂ علم و سائنس، مسلم شخصیت کی تعلیم و تربیت کے بنیادی پہلوؤں کے علاوہ: (عقائد کی تربیت، اخلاقی تعلیم و تربیت، جہادی تعلیم و تربیت، اور سماجی تعلیم و تربیت)۔
عصر حاضر کے مسلمانوں میں مطلوبہ اسلامی کردار اور کیریکٹر پیدا کرنے کے لیے علمی اور عملی رہنمائی فراہم کرنا۔ اس کے لئے انہوں نے ان عملی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی اور وہ عظیم الشان انکشافات کئے جو اسلامی تحریک کے کارکنوں کو دعوت اور اصلاح کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جابجا ایمانی کیفیت اور اس کی نوعیت، اس کی سچائی، اس کی اہمیت، انسانی زندگی میں اس کے اجزاء، اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر روح، رویے اور زندگی پر اس کے اثرات کی وضاحت پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
قرآن کریم کی وساطت سے تشکیل دیے گئے اسلامی معاشرے کے خدوخال اور اس کی خصوصیات کو واضح کرنا۔ ان مضبوط بنیادوں کی وضاحت کرنا جن پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے، پھر اس کے قیام کے لیے مربوط تحریکی اور جہادی سرگرمیوں کا خاکہ بنانا، یہ سب اس تصور پر مبنی ہے کہ قرآن میں افراد کی کامیاب تربیت و پرورش کے لیے ایک منظم جماعت کا ہونا بہت ضروری ہے۔
امت مسلمہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے جس راستے پر گامزن ہے اس کے خدوخال کو سید قطب بیان کرتے ہوئے اس کے مراحل کا تعین کرتے ہیں اور اس راستے کے فتنوں، اندیشوں اور رکاوٹوں سے وہ امت مسلمہ کے افراد کو متنبہ کرتے ہیں۔
تعلیم و تربیت کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کی خصوصیات:
سید قطب نے تعلیم و تربیت کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کی خصوصیات پر اس طرح بحث کی ہے کہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اخذ کردہ اس الٰہی نقطہ نظر میں تعلیمی معجزے کے پہلوؤں کو مجسم کیا گیا ہے۔ ان خصوصیات میں سب سے نمایاں ترین خصوصیات، جیسا کہ فی ظلال القرآن میں وارد ہے، کی وضاحت کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے۔ جیسے:
ا۔ بنیادی عقیدہ اور نظریہ: تعلیم و تربیت کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کی بنیاد نظریہ، فکر اور عقیدے کو درست سمت دینے اور اسے انسانی سرگرمیوں کا پہلا اور سب سے بڑا محرک بنانے پر ہے۔ تربیت کے حوالے سے عقیدے اور ایمان کی تصدیق و توکید کے لیے سنت نبوی وارد ہوئی۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی تربیت جن مضبوط بنیادوں پر کی، ان میں سب سے سرِفہرست صحیح عقیدہ اور فکر تھی۔ جس کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے اور مختلف آیات کے اندر بار بار اس کا مطالبہ کرتا ہے۔
تربیت کو ثمر بار بنانے کے لیے، “تعلیم و تربیت کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ عبادت و عقیدے کو باہم مربوط کرکے دل و ضمیر کے اندر ایمان اور عقیدے کی سچائیوں کو راسخ کرکے اسے حقیقی عبادت بناتا ہے۔ ان حقائق کو زندگی بخشتا ہے، انہیں واضح اور ایک زندہ تصویر کی طرح نشونما دینے کے طریقے سکھاتا ہے۔
ب۔ انسانی فطرت کو آفاقی آیات سے مخاطب کرنا: آیاتِ قرآنی یا آیاتِ آفاقی کے ذریعے تربیت کرنا اسلامی تربیت کے مؤثر ترین طریقوں میں سے ایک ہے، اور اس سے مراد “آیات کے ذریعے انسانی ذہن، سماعت، بصارت اور احساسات کو بلند کرنا ہے۔ بہتر ادراک، بصیرت، اور حواس کے استعمال اور احساس کو اس قابل بنانا کہ وہ اسباب و علل کو جان کر حقیقت کی تہہ تک پہنچیں۔
سید قطب تعلیم و تربیت کے حوالے سے اسلامی منہج کی امتیازی خصوصیات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ “یہ انسانی فطرت کو اس کائنات میں انسان کے گرد پھیلی ہوئی خدا کی آفاقی نشانیوں سے مخاطب کرتا ہے، جن کے بارے میں خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ قابل فہم زبان اور قابل سماعت انکشافات ہیں۔ اس کے لیے قرآنی اسلوب ان فلسفیانہ موشگافیوں کا سہارا نہیں لیتا جو کہ قدیم و جدید فلاسفہ کا خاصہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ یہ طریقہ دلوں تک نہیں پہنچتا، دلوں کو بدل کر ان میں تحریک پیدا نہیں کرتا اور نہ ہی زندگی کی تعمیر کا باعث نہیں بنتا ہے۔
ج– فطری ضرورتوں کو منظم کرنا اور ان سے مخاصمت نہ کرنا: سید قطب نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ “اسلام فطری تقاضوں سے نہیں لڑتا اور نہ ہی ان کو کچلتا ہے، بلکہ ان کو منظم کرتا ہے، ان کی تطہیر کرتا ہے، انہیں حیوانی سطح سے اوپر اٹھاکر اتنی بلندی عطا کرتا ہے یہاں تک کہ اسے انسانی توجہ کا مرکز بنا دیتا ہے جس کے گرد بہت سارا نفسیاتی اور سماجی ادب گھومتا ہے”۔
د– عملی، مشقی اور تجرباتی اسلوب تربیت کا انتخاب: سید قطب کا ماننا ہے کہ اسلام میں تعلیم و تربیت کا اسلوب حقیقت پسندانہ اور عملی ہے، نہ کہ محض نظریاتی اور فلسفی۔ اسلام ایک نظریے کو ٹھوس بنیادوں پر تشکیل دے کر اسے پیش کرتا ہے۔ اس اسلوب تربیت کی نفسیاتی اور فلسفیانہ وضاحت کرتے ہوئے سید قطب فرماتے ہیں کہ، “اللہ کی ذات اس بات سے واقف تھی کہ بشر کی تخلیق نہ صحیح طریقے سے تشکیل پاسکتی ہے، نہ ہی یہ صحیح طور پر پختہ ہو سکتی ہے، اور نہ ہی کسی طریقہ کے مطابق درست اور سیدھی ہو سکتی ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کی تعلیم و تربیت حقیقت پسندانہ، تجرباتی اور مشقی طریقہ ہائے کار سے کی جائے جو دلوں اور اعصاب میں کندہ ہو، اور روح ان کو محسوس کریں اور جو زندگی کی واقعاتی اور تصوراتی حقیقتوں سے لگّا کھاتی ہوں۔
مشقی اور تدریبی اسلوب کے ذریعے تعلیم کے حصول کی الگ ہی اہمیت ہے، کیونکہ یہ طلباء کی سمجھ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ نیز یہ اس بوریت کو کم کرتا ہے جس سے طلباء کلاس روم میں بیٹھ کر محض نظریاتی مطالعہ کی کثرت سے دوچار ہوتے ہیں، اور یہ کہ مشق کرنا اور چیزوں کا اطلاق کرنا، معلومات کو محفوظ رکھنے اور اسے بھول جانے سے حتی الامکان بچانے کا ایک طاقتور عنصر ہے۔
ھ– مسلمانوں کو مفید علمی تجربات سے مستفید ہونے کی ہدایت: سید قطب نے مسلمانوں کو اپنے علاوہ اپنے پیش روؤں کی مہارات اور تجربات سے مستفید ہونے کی ہدایت کرنے میں اسلامی تعلیمی نقطہ نظر کی دلچسپی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: “اللہ تعالیٰ نے اسی طرح امت مسلمہ سے وابستہ پہلے مسلمانوں کو بھی مخاطب کیا، اور انہیں ان کے پیش روؤں کے تجربات اور علمی کمالات سے مستفید ہونے کی ہدایت کی۔ وہ پاک ہے۔ اپنے برگزیدہ بندوں میں سے جسے پسند کرتا ہے اس کا انتخاب کرکے اسے اپنی امانت سونپتا ہے۔ اور زمین پر اسے نیابت عطا کرتا ہے۔
و– انحراف پر مبنی رویوں کا تدریجی علاج: سید قطب فرماتے ہیں کہ “قرآن مجید کا شاندار اور دل آویز انداز یہ ہے کہ وہ انسانی فطرت کے تقاضوں کا خیال کرتے ہوئے قدم بہ قدم ان کی رہنمائی کرکے انہیں بتدریج آسانی، نرمی، زندگی کے ساتھ ساتھ، گرمجوشی، فصاحت، علم و معرفت اور بصیرت کے ساتھ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھاتا ہے”۔
سید قطب ہمارے لئے اس اصول کی وضاحت کرتے ہیں جس پر اسلام اپنے تعلیمی اور تربیتی نظام کی بنیادیں کھڑی کرتا ہے۔ وہ اس طرح سے کہ جس حکم کا تعلق عقیدے اور ایمانیات سے ہوتا ہے اسے اسلام پہلے ہی لمحے قطعی اور فیصلہ کن طور پر متعین کرتا ہے۔ تاہم جہاں حکم کا تعلق کسی فعل کے کرنے یا کسی فعل کی ممانعت کے دائرے سے ہوتا ہے، یا اس کا تعلق کسی رسم، روایت یا کسی پیچیدہ سماجی صورت حال سے ہوتا ہے، تو اسلام یہاں انتطار کرتا ہے اور صورتحال کا جائزہ لے کر اس مسئلے کو آسانی کے ساتھ اٹھاتا ہے۔ اور تدریجاً ایسے حالات پیدا کرتا ہے جس سے لوگوں کو اس حکم پر عمل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اور اس حکم کا نفاذ یقینی ہو جاتا ہے۔
اسلامی خاندان بحیثیت ایک تربیت گاہ:
سید قطب بتاتے ہیں کہ ایک بچے کو خاندان کی دیکھ بھال، بہتر تربیت اور والدین کی موجودگی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ اسے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، کیونکہ انسانی بچے کا بچپنا دوسروں کے مقابلے میں سب سے طویل ہوتا ہے۔ بچپن انسانی زندگی کا وہ اہم مرحلہ ہوتا ہے جس میں بہتر تربیت، بہتر دیکھ بھال کی اسے اشد ضرورت ہوتی ہے، اور آنے والی زندگی کے تمام مراحل کی بنیاد اسی بچپن میں ملنے والی تربیت پر ہوتی ہے۔ چونکہ شخصیت سازی دنیا کا سب سے بڑا اور کٹھن کام ہے اور پھر خاندان میں اس کا کردار سب سے بڑھ کر ہوتا ہے، اسی لیے اس کے بچپن کو مستقبل کی تیاری اور تربیت کو بہتر بنانے کے لیے طویل کیا گیا ہے۔
خاندان چونکہ انسانی زندگی کی تعمیر کا اولین ادارہ ہوتا ہے، اسی وجہ سے اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ انسانی زندگی کی پرورش میں مصروف ایک ادارہ ہے جو اسلامی تصور کے اعتبار سے اس کائنات کا سب سے عظیم عنصر(انسان) ہے۔
سید قطب تاکید کرتے ہیں کہ خاندان کو بطورِ ایک تربیتی ادارے کے کسی بھی دوسرے ادارے سے نہیں ملایا جا سکتا، وہ خاندان سے باہر بچوں پر پڑنے والے منفی اثرات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، “ایک بچہ جو خاندانی ماحول سے محروم ہوتا ہے وہ اپنی زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں غیر معمولی طور پر منفی اثرات پر لیے بڑا ہو جاتا ہے، چاہے اسے خاندانی ماحول سے باہر کتنا ہی سکون اور آسائش و سہولت میسر ہو۔”
ان کا ماننا ہے کہ خاندان کی دیکھ بھال کا جامع تصور صرف حیاتیاتی اور جسمانی پہلو تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ دیگر اہم اور ضروری پہلوؤں تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ خاندان کے ان نمایاں تعلیمی و تربیتی پہلوؤں کا خلاصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، جو نوجوانوں کی جسمانی، روحانی اور جذباتی طور پر نشوونما کرتے ہیں۔ یہ چیز ضروری ہے کہ نوجوانوں کو انسانی علم اور تجربات کی دولت سے روشناس کیا جائے، جو انہیں انسانی معاشرے کی تعمیر کے اہل بنائے اور اس کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کے قابل بنائے۔
سید قطب: اللہ کی طرف بلانے والا ایک عظیم داعی:
“وہ ایک عظیم داعی ہیں، ہم دعوت و تربیت اور رہنمائی میں ان کے اثرات، زریں نقوش اور ان کی عظمت کا اندازہ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ علامہ یوسف القرضاوی بیان کرتے ہیں کہ وہ راہ حق کے ایک عظیم داعی تھے جنہوں نے اس راہ میں اپنی گردن اور اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا جس پر وہ ایمان لائے تھے۔
علامہ قرضاوی فرماتے ہیں: میرا یقین ہے کہ وہ (سید قطب) اپنی دعوت میں مخلص تھے، چاہے ان کا مؤقف ٹھیک تھا یا غلط، بہرحال وہ مخلص تھے، اور میرا یقین ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے: “کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں” [الانعام: 162-163]۔
ایک داعیِ دین کے طور پرسید قطب کے وژن کے بارے میں علامہ قرضاوی فرماتے ہیں کہ: “پادریوں (دین داروں) کی آفت یہ ہے کہ جب مذہب ایک پیشہ اور ایک کاروبار بن جاتا ہے نہ کہ ایک ولولہ انگیز نظریۂ حیات (رہتا ہے)، یعنی جب لوگ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے، وہ دوسروں کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں لیکن اپنے آپ کو نظرانداز کرتے ہیں، وہ اللہ کی کتاب میں تحریف کرتے ہیں، اور اللہ کی آیات کی من پسند تشریح کرتے ہیں۔ نیکی و راستبازی کی دعوت اور اس کی طرف بلانے والوں کا عملی انحراف وہ لعنت ہے جو لوگوں کو شک میں مبتلا کرتی ہے، نہ صرف مبلغین کے حوالے سے بلکہ خود دعوت اور اس پیغام کے حوالے سے بھی۔
جس طرح سید قطب نے ادب اور تنقید میں کمال حاصل کیا، اسی طرح تبلیغِ اسلام کے حوالے سے بھی ان کا ستارہ خوب چمکا۔ انہوں نے دین کو بطور نظامِ زندگی پیش کیا، جو زمین پر نظام انصاف کا قیام عمل میں لاتا ہے، لوگوں کے درمیان ناانصافیوں کا خاتمہ کرتا ہے، غریبوں اور مظلوموں کے حقوق کا تحفظ دو طرح سے کرتا ہے: قانون سازی کے ذریعے اور دوسرا بہترین اخلاقی نظام کی طرف ان کی رہنمائی کے ذریعے۔
سید قطب مصر میں سماجی ناانصافیوں اور دیہی علاقوں میں جابرانہ جاگیرداری اور شہروں میں استحصالی اجارہ داری اور سرمایہ داری کے ذریعے مصری معیشت کے کنٹرول کے خلاف سخت نالاں تھے۔ اسی طرح کسانوں اور مزدوروں (جو کہ مصر کا اکثریتی طبقہ تھا) ، پر ظلم اور استحصال کے خلاف انہوں نے آواز اٹھائی۔
ان کا یہ مؤقف (نئی فکر) میگزین میں ان کی شرکت کے دوران مزید واضح ہوا، اور اس مرحلے پر ان کی پہلی کتاب “اسلام اورعدل اجتماعی” کے نام سے شائع ہوئی، جس میں انہوں نے اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ مذکورہ بالا کتاب میں سید قطب نے اسلام میں سماجی انصاف کی بنیادوں کی وضاحت کی۔ اسلامی حلقوں کے اندر اس شاہکار کتاب کو خوب پزیرائی ملی۔ اسلامی تحریک کے وابستگان اپنی پہلی اٹھان میں سید قطب کے حوالے سے کافی پرجوش تھے کہ اسلامی تحریک کو ایک ادبی وزن اور فصیح قلم والا مصنف ملا ہے۔ لہذا یہ اس رجحان میں ایک قابل قدر اضافہ تھا۔
سید قطب نے اسی کتاب پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ انہوں نے کچھ مزید کتابیں منظر عام پر لائیں جن میں سرفہرست یہ چند ہیں: (اسلام اور سرمایہ داری کے درمیان جنگ) اور (عالمی امن اور اسلام)، اور انہوں نے اخوان کی طرف سے جاری کردہ (الدعوۃ) میگزین میں کئی مضامین لکھے۔ اسی طرح لیبر پارٹی کی طرف سے جاری ہونے والا رسالہ “اشتراکیت” اور قومی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ (اللواء) میگزین کے اندر بھی وقتاً فوقتاً کافی مضامین لکھے۔ لیکن ان تمام مضامین کے اندر اسلام کی حقانیت بیان کی گئی ہے۔ بعد میں ان تمام مضامین کو(اسلامک اسٹڈیز) کے عنوان سے جمع کرکے الگ سے شائع کیا گیا۔
سید قطب شہید سے فکری اختلاف کے باوجود ہر کوئی ان کی دین پر ثابت قدمی اور ان کی قربانی کی گواہی دیتا ہے۔ انہوں نے دینِ حق کی خاطر اپنی جان تک قربان کی لیکن ظالم کے آگے سرتسلیم خم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ “وہ شہادت کی انگلی جو دعا میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے اس بات سے انکار کرتی ہے وہ ایک ایسا خط لکھے جس میں ظالم کی حکمرانی کو تسلیم کیا جائے اور اس کے آگے سر تسلیم خم کیا جائے۔”
خدا شہید اسلام پر اپنا رحم نازل فرمائے اور ان سے راضی ہو اور جنت الفردوس کو ان کا ٹھکانہ بنائے: “اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے” [الحشر: 10]
المصادر والمراجع:
- الدكتور صلاح عبد الفتاح الخالدي. سيد قطب من الميلاد إلى الاستشهاد. دار القلم- دمشق 1431/2010.
- عبده دسوقي . سيد قطب.. من المدرسة الشعرية إلى الزعامة الإسلامية. مجلة المجتمع، 29 أغسطس 2018.
- الدكتور محمود خليل أبو دف. معالم الفكر التربوي للشهيد سيد قطب. 1423ه/2002م.
- الأستاذ سيد قطب. في ظلال القرآن. طبعة دار الشروق.
- الدكتور يوسف القرضاوي. سيد قطب.. المفكر الإسلامي شهيد الدعوة والتربية والثقافة والفكر. https://www.al-qaradawi.net/node/2186 في 5 سبتمبر 2022
مترجِم: عاشق حسین پیر زادہ