دنیا بھر میں (آوارہ) سڑک کے بچوں کا مسئلہ مختلف تناسب سے پھیلا ہوا ہے، جس کا آغاز بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں ہوا۔ یہ مسئلہ حکومتوں کے لیے زیادہ فکر مندی کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ اس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ ایک آئینہ ہے جو واضح طور پر مختلف اداروں کے ذریعے تربیت کے طریقوں میں خامیوں کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ سماجی اور نفسیاتی عدم توازن، خاندانی مسائل اور ماحولیاتی مشکلات کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔
یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے کہ صرف ان بچوں کے ساتھ رواداری کو بڑھا کر حل کیا جا سکے جو سڑک کو اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں، جو حفاظت اور تحفظ کے احساس سے محروم ہیں، اور جن کے پاس مستقبل کے لیے کوئی خواب نہیں ہے۔ جن کی سوچ صرف اپنے کھانے اور سونے کی جگہ تک محدود ہوتی ہے۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ اس طبقے کو تعلیمی اور تربیتی طور پر سنبھالا جائے تاکہ ان کے رویے کو درست کیا جا سکے اور ان کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔
سڑک کے (آوارہ) بچوں کا تصور:
ماہرین تعلیم اور محققین کے درمیان سڑک کے (آوارہ) بچوں کی اصطلاح کی تعریف کے حوالے سے اختلاف ہے، لیکن مجموعی طور پر ان سے مراد "ایسے بچوں کا گروہ ہے جن کا سڑک سے تعلق ہو، جو ان کی زندگی میں ایک تعاملی عنصر کے طور پر کام کرتی ہو، اور گھر جن کے کھیل کود، ثقافت یا روزمرہ کی زندگی اور سرگرمیوں کا ذریعہ یا مرکز نہ رہا ہو۔”
بعض لوگ انہیں ایسے چھوٹے بچوں کے طور پر بیان کرتے ہیں جنہیں دوسرے لوگ بے دھڑک استعمال کرتے ہیں اور ان کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں۔ بلکہ دنیا انہیں بھلانے یا نظرانداز کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ بچے بڑوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، کیونکہ کوئی ان پر مسکراتا نہیں، کوئی انہیں پیار نہیں کرتا، کوئی ان کے لاڈ نہیں اٹھاتا یا ان کے درد کو کم نہیں کرتا، اور آخر میں، یا تو وہ جرائم کے سلسلے میں جیل جاتے ہیں یا پھر مارے جاتے ہیں۔
1985 میں، اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو نے اس اصطلاح کی ایک جامع تعریف پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ "ہر وہ بچہ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، جس نے، بغیر کسی ذمہ دار بالغ شخص کی دیکھ بھال، حفاظت یا نگرانی کے، سڑک کو (اس کے وسیع معنی میں) اپنی زندگی گزارنے یا مستقل رہائش کی جگہ بنا لیا ہے۔”
1996 میں امید کی تنظیم کی جدید تعریف کے مطابق، "ان سے مراد وہ بچے ہیں جن کے اپنے خاندانوں سے تعلق کے درجے مختلف ہوں، منظم اور جزوی رابطے سے لے کر تقریباً مکمل علیحدگی تک، اور جو سڑکوں، عام میدانوں اور فٹ پاتھوں پر رہتے ہیں، اور اکثر اپنی ذاتی زندگی کے معاملات کا انتظام کرنے میں اپنے آپ پر انحصار کرتے ہیں۔”
سڑک کے بچوں کی وبا کے پھیلنے کی وجوہات:
سڑک کے بچوں کی وبا کے پھیلنے کی وجوہات میں کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
- خاندان: خاندان کے تربیتی کردار میں کمی اور والدین کا اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑنا بچے کو ان پر اعتماد کھونے کا باعث بنتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ اپنے سب سے اہم انسانی ادارے کو کھو دیتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے اور معاشرے کے ساتھ اس کا مثبت رابطہ معطل ہو جاتا ہے۔ جب بچہ خاندان میں اس طرح کا برتاؤ دیکھتا ہے، تو وہ سڑک کی پناہ لینا پسند کرتا ہے جہاں اسے پناہ، آزادی اور روزی ملتی ہے، لیکن اسی وقت وہ انحراف، بھیک مانگنے اور جرائم کی طرف اپنا پہلا قدم اٹھا چکا ہوتا ہے۔
- غربت: یہ بچے کی صحت، تعلیم اور نفسیاتی حالات کو بہتر بنانے کی صلاحیت کا فقدان ہے جو اس کی درست تربیت کے لیے ضروری ہے، تاکہ وہ وقت کے ساتھ معاشرے میں رہنے بسنے کے قابل ہوسکے۔ یہ بحران خاندانوں کو اپنے بچوں کو تعلیم کی بجائے روزی کمانے اور کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ لہٰذا غربت بے گھر بچوں کی وبا کو فروغ دینے والی وجوہات میں سے دوسری اہم وجہ ہے، اس کے علاوہ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور بالغان کا کچھ پیشوں سے گریز کرنا، جو بچوں کو کم اجرت پر ان کاموں کو کرنے پر ابھارتا ہے۔
- دیہات سے شہر کی طرف ہجرت: یہ ان وجوہات میں سے ایک ہے جس نے بے گھر بچوں کی وبا کو پھیلایا ہے، کیونکہ بہت سے خاندان جو خرابی حالات کے باعث شہروں کی طرف منتقل ہوتے ہیں وہ بے گھر ہو جاتے ہیں، اور مجبوراً انہیں پسماندہ معاشروں میں رہنا پڑتا ہے اور اپنے بچوں کو سڑکوں پر چھوڑنا پڑتا ہے۔
- بُرے ساتھی: یہ ان بڑی وجوہات میں سے ایک ہے جو بہت سے علاقوں میں – خاص طور پر غیر منظم آبادیوں میں – اس وبا کے پھیلنے کا باعث بنتی ہے۔ وہ بچہ جو زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور سختی، غربت اور خاندانی ٹوٹ پھوٹ سے گزرتا ہے، آسانی سے ایسے ساتھیوں میں شامل ہو سکتا ہے جو اسے باہر نکلنے، کام کرنے اور کمانے کی دعوت دیتے ہیں، اور اسی وقت سڑک پر سونے اور وقت کے ساتھ انحراف میں پڑنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
- اسکول کو وقت سے پہلے چھوڑنا: بہت سے محققین اس وبا کی وجوہات کو اسکول سے جلد نکلنے سے جوڑتے ہیں، کیونکہ تعلیم سے الگ ہونا اس وبا کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے، اور بلاشبہ بچے کے پاس بے گھر ہونے والوں کے قافلے میں شامل ہونے کا زیادہ وقت ہوتا ہے۔ حالانکہ اسکول سے وقت سے پہلے نکل جانا بذات خود ایسے پیچیدہ عوامل کا نتیجہ ہے جو حکومت کی تعلیمی اصلاحات کی پالیسیوں، خاندانی عوامل، اسکول کے اندر نفسیاتی عوامل، یا خود بچے سے متعلق ہو سکتے ہیں۔
اسلام سڑک کے بچوں کے مسئلے سے تربیت کے ذریعے نمٹتا ہے؟
اسلام نے سڑک کے بچوں اور بے گھری کی وبا کا مقابلہ اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی کیا ہے، اور اس مسئلے کا بہترین علاج انسان کی پہلی پرورش گاہ یعنی ذمہ دار خاندان میں تربیت کے ذریعے مقرر کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام والدین یا ان کے قائم مقام پر بچوں کے انحراف کی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ اس کے قوی دلائل میں سے ایک وہ حدیث ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے ایک چوپایا صحیح سالم چوپایا پیدا کرتا ہے، کیا تم میں سے کوئی کٹا ہوا چوپایا پیدا ہوتے دیکھتا ہے؟” پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت کی : "(یہ) اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے” [الروم: 30]۔
والدین کی اپنے بچوں کی تربیت کی مکمل ذمہ داری کا ایک حصہ یہ ہے کہ وہ اپنے فرائض میں کوتاہی پر جواب دہ ہوں گے۔ امام نسائی اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول روایت کیا ہے: "بیشک اللہ ہر نگران سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کرے گا، آیا اس نے ان کی حفاظت کی یا ضائع کر دیا، یہاں تک کہ آدمی سے اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔”
متفق علیہ حدیث میں ہے: "تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک اپنے ماتحتوں کا ذمہ دار ہے، تو امیر جو لوگوں پر مقرر ہے وہ ان کا نگران ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہوگا، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہوگا، اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہوگی، اور آدمی کا غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور وہ اس کے بارے میں جوابدہ ہوگا، سنو! تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک اپنے ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہوگا۔”
جس طرح اسلام نے بچپن سے ہی نشوونما پانے والوں پر توجہ دی، اسی طرح جماعت اخوان المسلمین نے بھی اپنے دین کے نہج پر چلتے ہوئے اس نسل پر توجہ دی جس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ آگے چل کر ملت اسلامیہ کا ستون، اس کی طاقت اور اس کی عزت کا ذریعہ بنے۔ اس لیے انہوں نے اس پودے کے لیے مناسب تربیتی ماحول مہیا کرنے میں بہت زیادہ احتیاط برتی تاکہ وہ خوبصورت پودے کی طرح پھلے پھولے اور اس کی قوت اور صلاحیت سے معاشرہ پائیدار ہو۔
بے گھر بچوں کا مسئلہ ان اہم مسائل میں سے ہے جو ہر اس ذِی حِس انسان کو پریشان کرتا جو قوم و ملت کی بہتری، اس کے افراد کی سلامتی اور اس کے مستقبل کی حفاظت کے لیے کام کرتا ہے، خاص طور پر جب یہ بچے امت کے دشمنوں جیسے باطل کے مبلغین اور منشیات اور دیگر مہلک اشیاء کے پھیلانے والوں کے نشانے پر ہوں، کیونکہ انہیں احساس ہے کہ ان بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں اگر انہیں کچھ ہو جائے، لہٰذا انہیں پکڑا جائے یا پھر مار دیا جائے تو کوئی پرواہ نہیں کرے گا۔
اخوان المسلمین نے جب دیکھا کہ بے گھری اور سڑک کے بچوں کی وبا کا بنیادی سبب غربت اور خاندانی ٹوٹ پھوٹ ہے، تو امام حسن البنا شہیدؒ نے ایک منصوبہ بنایا جس کا مقصد سڑکوں پر رہنے والے محتاج لوگوں کو مستقل روزگار کی تربیت دینا تھا، اور وہ خود ان کی نگرانی کرتے تھے، اور انہوں نے اہم مقصد تک پہنچنے کے لیے مضبوط منصوبے بنائے اور ان میں مددگار وسائل شامل کیے۔ انہوں نے ہر شعبے میں ایک رات کی تربیت گاہ قائم کی جس کا بنیادی مقصد دینی تعلیمی ناخواندگی کو ختم کرنا تھا، جہاں مزدور، کسان اور سڑک پر رہنے والے جمع ہوتے تھے، اور یہ اسماعیلیہ، ابو صویر اور عابدین کے شعبوں میں ہوا، جن کے اداروں میں ناخواندگی اور بے گھری سے نمٹنے کا ایک شعبہ تھا۔
اخوان المسلمین نے بہت سے بے گھر اور غریب بچوں کی دیکھ بھال کی، اور ان کے لیے زندگی کی ضروریات، خاص طور پر کھانا فراہم کرنے کی کوشش کی۔ السرایات اور الخرطہ علاقے میں اخوان المسلمین نے ہر مہینے ایک بار تقریباً ایک سو پچاس غریبوں کو کھانا کھلایا، نیز انہوں نے غریبوں اور بے گھر بچوں کے لیے "یوم الفقیر” (غریب کا دن) نامی ایک خاص دن مقرر کیا۔
بے گھر بچوں کو تعلیمی بنیادوں پر کھڑا کرنا:
اگر ہم سڑک کے بچوں کی ضروریات پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں تربیت اور صحیح پرورش کی شدید ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، انہیں ہمدردی اور ذہنی سکون، محبت، امن اور حفاظت کا احساس، صحت اور تعلیمی دیکھ بھال، اور معاشی مسائل سے نجات کی ضرورت ہے۔ اس پسماندہ طبقے کو تعلیمی طور پر سنبھالنے کے لیےضروری ہے کہ:
- ایسے سماجی ادارے قائم کیے جائیں جو انہیں تشدد اور استحصال سے بچانے کے لیے ابتدائی مداخلت پر توجہ دیں۔
- غربت کے خلاف پروگراموں کو بہتر بنانا، خاندانی مشاورت کے دفاتر کی تعداد میں اضافہ کرنا، ان کے کردار کو فعال اور بہتر بنانا، اور ایسے مراکز قائم کرنا جن کا مقصد ان بچوں کو نفسیاتی، پیشہ ورانہ اور تعلیمی طور پر تربیت دینا ہو۔
- عوامی آگاہی بڑھانے اور اس مسئلے کے بارے میں رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے میڈیا کے کردار کو فعال بنانا۔
- خاندانوں کو ماہانہ مالی امداد کی فراہمی کے ساتھ ان بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا اگر ان کی تعداد ریاست کے تعلیمی اداروں کی استعداد سے زیادہ ہو جائے، تاکہ وہ ایک خاندانی ماحول میں رہ سکیں جہاں وہ تربیت، رہنمائی اور تعلیم سے لطف اندوز ہوں۔
- ان بچوں پر خرچ کرنے اور انہیں صحیح اسلامی تربیت دینے کے لیے عطیات کے پیسوں سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے، بلاشبہ یہ طبقہ زکوٰۃ کے مال سے فائدہ اٹھانے کا حقدار ہے کیونکہ وہ فقیر اور مسکین ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "صدقات (زکٰوۃ) صرف فقیروں، مسکینوں اور زکٰوۃ جمع کرنے والوں کے لیے ہیں…”۔
- معاشرے میں اس طبقے کا جامع حصر کرنا اور انہیں ایسے تعلیمی اداروں میں شامل کرنے کی کوشش کرنا جو انہیں اپنے لیے اور اپنی امت کے لیے نیک افراد بننے کے قابل بنائیں۔
- ان خاندانوں کی نگرانی کرنا جو ٹوٹ پھوٹ اور خاندانی تشدد کے خطرے کا شکار ہیں، اور اس طرح اس مسئلے کے پھیلاؤ کو محدود کرنا اور بچوں کو بے گھری اور سڑکوں پر جانے سے بچانا۔
- مختلف فلاحی مراکز کو بے گھر بچوں کی نفسیاتی، اخلاقی اور تعلیمی مدد کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
- معاشرے کے تمام خاندانوں کو آگاہ کرنا اور ان خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا جن کا سامنا سڑک کے بچوں کو کرنا پڑ سکتا ہے۔
- ان بچوں کے ساتھ تعامل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا، چاہے وہ پولیس ہو یا نفسیاتی اور سماجی ماہرین، تاکہ وہ ان کے ساتھ صحیح تعلیمی انداز میں تعامل کریں اور انہیں ضروری خدمات فراہم کریں۔
- ان مشکوک تنظیموں کا مقابلہ کرنا جو مشکل حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان بچوں کو کچھ کھانے پینے، جوس، اور معمولی رقم کے بدلے غنڈہ گردی کے کاموں میں استعمال کرتی ہیں۔
سڑک کے بچوں اور بے گھری کے مسئلے کا علاج دو سمتوں میں ہو سکتا ہے: پہلا، ایک جامع اصلاحی پروگرام جس میں معاشی، سیاسی، سماجی اور دیگر شعبے شامل ہوں۔ یہ ایک جامع طویل المدتی اصلاحی منصوبہ ہے جس کے ساتھ اس وبا کے بڑھنے اور نئے بے گھر افراد کے ظہور کو روکا جا سکتا ہے۔ دوسری اور اہم سمت یہ ہے کہ اس طبقے کو تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت دی جائے اور انہیں دیکھ بھال حاصل کرنے اور معاشرے میں شامل ہونے میں ترجیح دی جائے۔
مصادر و مراجع:
1. احمد محمد موسیٰ کی کتاب "سڑک کے بچے، مسئلہ اور اس کے حل کے طریقے” (صفحات 14-15)
2. ڈاکٹر مزوز برکو کی کتاب "سڑک کے بچے… اقدار اور والدین کی تربیتی طریقے” (صفحہ 83)
3. مجدی جرس کی "خطرے سے دوچار بچوں کے ساتھ کام کرنے والوں کی رہنما کتاب” (صفحہ 28)
4. خالد زواوی کی کتاب "عرب دنیا میں بیروزگاری… مسئلہ اور حل” (صفحہ 125)
5. صالی عبدالعزیز کی کتاب "بے گھر بچے… تصور اور عوامل” (صفحہ 8)
6. امانی عبدالفتاح کی کتاب "بچوں کی مزدوری بطور دیہی سماجی رجحان” (صفحہ 87)
7. اخوان المسلمین کا ہفتہ وار اخبار (شمارہ 16، 13 رجب 1352ھ / 1 نومبر 1933ء)
مترجم : عاشق حسین پیرزادہ