اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا اور اپنے فضل سے انہیں بھائی بھائی بنایا ہے۔ اس نے مومنوں پر بعض ظاہری اعمال کی ادائیگی فرض کی ہے اور کچھ پوشیدہ عبادتیں بھی رکھی ہیں جن تک اخلاص والوں کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ انہی اعمال میں سے ایک دوسرے سے ہمدردی اور دلجوئی کا رویہ اختیار کرنا بھی ہے جو مومنوں کے درمیان الفت و محبت پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہ اسلام کی اعلیٰ اقدار میں سے ہے اور ایسا عظیم اخلاق ہے کہ جس سے پاکیزہ باطن افراد ہی متصف ہوتے ہیں۔
یہ عبادت صرف مال تک ہی محدود نہیں بلکہ ایک مسکراہٹ، یتیم کے سر پر دستِ شفقت، کسی کی تکلیف کو دور کرنا، لوگوں کے ساتھ انکساری کا رویہ، ان کی مشکلوں کو آسان کرنا، اور وہ نرم گفتار بھی جو شکستہ دلوں کی تسلی کا سامان کرے، زخمی روحوں کو تسکین پہنچائے اور تھکے جسموں کے لیے راحت کا ذریعہ ہو، اس عبادت کا حصہ ہے۔ کس قدر خوبصورت ہے یہ عبادت اور کیسی عظیم اس کی تاثیر ہے..!
اسی لیے امام سفیان ثوریؒ نے فرمایا:
“میں نے کوئی ایسی عبادت نہیں دیکھی جس سے بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب ہو جیسے اپنے مسلمان بھائی کے دل کو تسلی دینا ہے۔”
ہمدردی اور دلجوئی کا مفہوم:
ہمدردی اور دلجوئی کے معنی ہے کہ انسان دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اور دوسروں کے ساتھ ویسا معاملہ پسند کرے جیسا وہ اپنے لیے کرتا ہے۔ لغت میں اس کے مختلف معانی ہیں، جن میں یہ شامل ہے کہ کسی کی ضرورت پوری کرنا، اس کے غم میں شریک ہونا، اس کے دکھوں کا ازالہ کرنا اور اس کی راحت کا سامان کرنا۔ دلجوئی وہ عادت ہے کہ لوگوں کے اطمینان کا ذریعہ بنیں، ان کے دکھ میں شریک ہوں اور ان کی خوشی کا باعث بنیں۔
کسی بھی انسان کے دل میں اس اعلی انسانی صفت اور دینی قدر کی موجودگی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی فطرت سلیم ہے، اس کی روح پاکیزہ ہے اور اس کا اپنے رب پر ایمان خالص ہے .. کیوں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص اخلاق حسنہ کا حامل ہو اور اس کی فطرت پاکیزہ ہو اور پھر بھی وہ اپنے قول و فعل سے دوسرے کے دلوں کو مجروح کرے۔ (1)
اسلام میں ہمدردی و دلجوئی:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تعاون اور اشتراک کے لیے پیدا کیا ہے اور تمام ہی آسمانی صحائف میں عمدگی کو اچھے تعلقات کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ اسی طرح اسلام نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمدردی اور دلجوئی کا رویہ اختیار کیا جائے کیوں کہ یہ لوگوں کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔
اس سے اسلام کا مقصد ہے کہ پریشان حالوں کے غم و اندوہ میں کمی واقع ہو اور ہر خوف زدہ دل کو اطمینان نصیب ہو۔ اللہ کے نزدیک بھی یہ اس قدر اہم ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ام مکتومؓ کے سوال پر ان سے اعراض کیا تو اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ فرماتے ہوئے کہا کہ:
“ترش رو ہوا اور بے رخی برتی۔ اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمہیں کیا خبر، شاید وہ سدھر جائے۔ یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت اس کے لیے فایدہ مند ہو؟ جو شخص بے پروائی کرتا ہے، اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالاں کہ وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟؟” [سورہ عبس: 1-7]
اللہ تعالیٰ نے یتیموں اور فقیروں کے ساتھ دلجوئی کا معاملہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ:
“لہذا یتیم پر سختی نہ کرو اور سائل کو نہ جھڑکو”۔ [الضحیٰ: 9-10]
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مختلف تعلقات کی بہت سی اصناف کا ذکر کرتے ہوئے دلجوئی اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے، فرمایا :
“اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناوٴ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاوٴ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آوٴ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو۔” [سورۃ النساء: 36]
اسی بات پر زور دیتے ہوئے نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
“جس نے کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور فرما دے گا، جس نے دنیا میں کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں آسانی کرے گا، اور جس نے دنیا میں کسی مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے عیب کی پردہ پوشی کرے گا، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں ہوتا ہے۔” [صحیح مسلم]
یہی وہ اخلاق ہے جس کی حقیقت نور کی کرنوں سے مسطور ہے جیسا کہ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں جو دوسرے لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال یہ ہیں کہ مسلمان کا اپنے بھائی کو خوش کرنا، اس کی کوئی تکلیف دور کرنا، اس کا قرض چکانا اور اسے کھانا کھلانا۔ مجھے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا اس مسجد نبوی میں ایک مہینہ اعتکاف کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (اور یاد رکھو کہ) جس نے اپنے غضب کو روک لیا اللہ تعالیٰ اس کی خامیوں پر پردہ ڈالے گا، جو آدمی اپنے غصے کو نافذ کرنے کے باوجود پی گیا، اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کے دل کو امیدوں سے بھر دے گا۔ جو اپنے بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے چلا، اللہ تعالیٰ اس کو اس دن ثابت قدم رکھے گا جس دن قدم ڈگمگا جائیں گے۔” [السلسلة الصحيحة]
دلجوئی اور شہرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمدردی اور دلجوئی کے واقعات سے بھری ہے۔ بشر ہونے کے ناطے بعض موقعوں پر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی آپ کو تسلی دے۔ خصوصاً جب غار حرا میں جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوفزدہ سے ہوگئے۔ اس حال میں لوٹے کہ دل کانپ رہا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہؓ کے ہاں گئے اور کہنے لگے: مجھے کمبل اوڑھادو، مجھے کمبل اوڑھادو، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : اے خدیجہ! یہ مجھے کیا ہوا ہے؟ پھر انہیں تمام واقعہ سنایا اور کہنے لگے کہ مجھے اپنی جان کا خوف لاحق ہے … ایسے میں حضرت خدیجہؓ نے ڈھارس بندھائی کہ ہرگز نہیں! اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ [صحیح بخاری]
ایک مرتبہ جب مدینہ کے فقرا شکستہ دلوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پہنچے اور کہنے لگے کہ اے رسول ِخدا! مال و متاع والے تو اجر کما گئے ہیں، وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، ہماری طرح ہی روزے رکھتے ہیں، اور اپنے زائد اموال میں سے راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلی دی اور تسبیح، تہلیل اور نیکی کا حکم دینے کے ذریعے سے اجر کے حصول میں مسابقت کرنے کی تلقین فرمائی۔ [صحیح مسلم]
ایک اور روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جابر بن عبداللہ سے ملے اور فرمایا کہ تم غمزدہ کیوں دکھائی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میرے والد صاحب شہید ہوئے اور انہوں نے قرض اور اہل و عیال کی ذمہ داری چھوڑی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں وہ خوشخبری نہ سناؤں جو اللہ نے تمہارے والد کو دی ہے؟ اللہ جس کسی سے ہمکلام ہوا تو حجاب بھی اختیار کیا لیکن آپ کے والد کو دوبارہ زندگی بخشی اور براہ راست ہمکلام ہوا۔ اللہ نے کہا: اے میرے بندے! جو چاہو مانگو، تمہیں عطا کروں گا.. انہوں نے کہا: مجھے دنیا میں لوٹا دے کہ پھر تیری راہ میں جان لٹا آؤں، اللہ نے اس پر کہا: نہیں، یہ میرا فیصلہ ہے کہ دنیا میں نہ لوٹائے جائیں گے۔ [صحیح الترمذی]
عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین میں سے تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایذا اور تکلیف کا سبب بنا رہتا تھا، مگر اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ اللہ و رسول سے محبت کرنے والے سچے مومن تھے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ بھی سلوک میں اچھے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول کی دلجوئی کرنا چاہی تو انہیں اپنی قمیص عطا فرمائی اور ان کے والد کے لیے استغفار کیا، یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: “اور (اے پیغمبر!) ان میں سے کسی کیلئے بھی جن کا انتقال ہو جائے، کبھی نماز جنازہ نہ پڑھو اور نہ ہی ان کی قبر پر کھڑے ہوا کرو۔ [التوبة: 84]
غزوۂ حنین میں جب انصار نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو دینے میں زیادہ سخاوت فرمارہے ہیں تو وہ کبیدہ خاطر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراََ ان کی دلجوئی کی اور فرمایا: “اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں سے ہوتا.. اگر لوگ کسی اور راستے پر چلیں اور انصار کوئی اور راہ اختیار کریں تو میں انصار کے اختیار کردہ راستے کو اختیار کروں گا ۔۔۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما، ان کی اولادوں پر رحم فرما، ان کی اولادوں کی اولادوں پر رحم فرما۔” صحابہؓ نے یہ سنا تو اشکبار ہوگئے۔
دلجوئی ایک نازک معاملہ ہے:
شاید بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ ہمدردی اور دلجوئی میں تعزیت اور تسلی ہی کا عمل ہے تو وہ اسے ناپسند کرتے ہیں، اس لیے اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
دل رکھنے کی کوشش مختلف انداز میں کی جاسکتی ہے۔ مثلاََ راستے میں کسی چھوٹے بچے سے خریداری کرلینا اور جب وہ اپنی بہت معمولی چیزیں بھی پیش کرے تو کوشش ہو کہ اس کا دل نہ ٹوٹے بلکہ اس کے سامنے مسکرا بھی دیا جائے تو اچھا ہے۔ کبھی کبھی آنکھیں بھی کسی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچا دیتی ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ مستحضر رہے کہ ہم یہ سب مکمل انسانی حیثیت ہی میں کررہے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی مقصد پیش نظر نہیں ہے۔
سب سے اہم بھی یہی ہے کہ ہم دلجوئی کرنے میں تکلفات سے بھی بچیں اور یہ کام خوشی، محبت اور اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے کیا جائے۔ اس کو کرتے ہوئے کسی بوجھ کا احساس یا ریاکاری کی خواہش نہ ہو کیوں کہ ایسے معاملات میں کھوٹ برعکس نتائج ہی دیتا ہے۔ (4)
دلجوئی کا رویہ کیسے عام کریں؟
لوگوں کی راحت اور تسلی کا کام بہت کوشش اور زیادہ قوت کا محتاج نہیں ہے، نہ ہی ہمدردی اور دلجوئی کے رویے کو عام کرنے میں بہت مشکلات درپیش ہیں، بلکہ اس کے لیے تو انسانی دل ہی کافی ہے، جو ہمیں خود میں، دوسروں میں اور حتیٰ کہ بچوں میں بھی دوسروں سے ہمدردی کے راستے اور انداز پیدا کرنے کے قابل بناتا ہے اور یہ اس طرح ہوتا ہے کہ:
- اپنے سب ارادوں کو اللہ کے لیے خالص کیا جائے اور اللہ سے اجر کا گمان رکھتے ہوئے وہ تمام ذرائع اختیار کیے جائیں جو اسلام نے دوسروں کی عزت و وقار کے لیے مقرر کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ ہے کہ یہ خوشحال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو، مگر وہ ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں سے لپٹ کر مانگیں”۔ [البقرۃ: 273]
- اس بات کی اہمیت کو سمجھیں کہ کسی غمزدہ سے گفتگو کا آغاز کیسے کیا جائے۔ وہ آشنا ہو یا اجنبی، اس تک پہنچنے کا سلیقہ معلوم ہو۔
- فوراََ ہی ہمدردی نہ شروع کردی جائے، ایسا کرنے سے غمگین کے غم اور نادار کی پریشانی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
- کسی کو یوں نہ کہیں کہ پریشانی کا سبب وہ ہے، اس سے اس کا اضطراب بڑھے گا، مشکل پیچیدہ ہوگی، دل دکھے گا اور جذبات مجروح ہوں گے۔
- ہمیں گفتگو میں ایمان سے لبریز مثبت باتوں کو شامل کرنا چاہیے جو انسان کا اللہ سے تعلق مضبوط کریں اور یہ باور کرائیں کہ انجامِ کار ہر معاملے کو اللہ ہی کی جانب پلٹنا ہے۔
- ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق دوسروں کو شرمندہ کیے اور تکلیف پہنچائے بغیر ان کی مدد کرنی چاہیے۔
- ہم یہ جان لیں کہ جو شخص بھی لوگوں کی دلجوئی کرتا ہے، اللہ اسے بھی مصائب و مشکلات سے بچاتا ہے۔ (5)
ایک مسلمان کو دلجوئی کرتے ہوئے ان امور سے اجتناب کرنا چاہیے:
- کسی مغموم شخص کے سامنے ہنسی مذاق کرنا۔
- سامنے موجود کسی شخص کی مشکلات کو معمولی سمجھنا کیوں کہ ممکن ہے کہ اس کے نزدیک یہ صورتحال زیادہ بڑی ہو۔
- ایسے موقع پر مشتعل کردینے والے سوالات، جذبات مجروح کرنے والے جملے اور نامناسب الفاظ سب ہی سے گریز کرنا چاہیے۔ (6)
مترجم: زعیم الرحمان