اسلامی دعوت کی منصوبہ بندی دور نبوی علیہ السلام کے مکی مرحلے کے آغاز ہی سے شروع ہو گئی تھی، جہاں پر مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر موقع پر مہارت سے کام لیتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرتے دیکھا، جو دعوت کی کامیابی میں مددگار ثابت ہوا۔
بعض داعیان دین یہ سمجھتے ہیں کہ دعوت صرف کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ اچھا کلمہ کہہ دینے پر مشتمل ہے، اور یہ کہ یہ ایک بے ترتیب طریقے سے چلتی ہے جس میں سب داعیین اپنی صلاحیتوں کے فرق کے باوجود یکساں ہیں۔ بلاشبہ، کچھ دعاۃ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کی غیر معمولی صلاحیت سے نوازا ہے۔ وہ لوگوں سے جُڑتے ہیں اور لوگ ان سے جُڑتے ہیں، اور اللہ نے ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں قبولیت رکھ دی ہے۔ جب کہ کچھ دعاۃ ایسے ہیں جو حکمت اور اسلوب میں کامیابی سے محروم رہتے ہیں۔ حالانکہ دونوں گروہوں کو دعوت کے اصولوں، طریقوں اور ان کی مشق کرانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح دعوت ایک فن بن جاتا ہے جسے سیکھا جاتا ہے، ایسے اصول اور طریقے جنہیں ترقی دی جاتی ہے، اور ایسے ذرائع جو جدیدیت اور عصری تقاضوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
قرآن مجید اور سنت مطہرہ میں دعوت و تبلیغ کی منصوبہ بندی کی اہمیت کو اجاگر کرنے والی بے شمار مثالیں بھری پڑی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عسکری میدان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “اور ان (دشمنوں) کے مقابلے کے لیے اپنی طاقت بھر تیاری کرو، اور مقابلے کے لیے گھوڑے تیار رکھو تاکہ تم اس کے ذریعے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کرو، اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے…” [الانفال: 62]۔ یہ آیت عسکری منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیتی ہے، تاکہ ممکنہ قوت کے ساتھ تیار رہیں تاکہ دشمنوں کو ملک پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہو، نہ کہ اس کے ذریعے تم عام لوگوں یا پڑوسی ممالک پر ظلم کرو، چاہے اختلافات کچھ بھی ہوں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں مصر پر آنے والے قحط سے نمٹنے کے لیے ان کی منصوبہ بندی کا ذکر قرآن میں ملتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “یوسف نے کہا: تم سات سال لگاتار کھیتی کرو گے، پھر جو کچھ کاٹو، اسے بالیوں ہی میں رہنے دو، سوائے تھوڑے سے حصے کے جو تم کھا لو۔ پھر ان کے بعد سات سال خشک سالی کے آئیں گے جو تمہارے جمع کردہ اناج کو کھا جائیں گے، سوائے اس تھوڑے سے اناج کے جو تم محفوظ کرچکے۔ پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں پر بارش ہوگی اور وہ (پھل) نچوڑیں گے” [یوسف: 47-49]۔
قرآن میں منصوبہ بندی کی ایک اور مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: “اے چادر اوڑھنے والے! کھڑے ہو جاؤ اور ڈراؤ۔ اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔ اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور ناپاکی سے دور رہو” [المدثر: 1-5]۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو بت پرستی ترک کرنے اور دعوت کو پھیلانے کا حکم دے رہا ہے۔ شروع میں دعوت خفیہ تھی، لیکن بعد میں اللہ نے اعلانیہ تبلیغ کا حکم دیا، جیسا کہ ارشاد ہے: ” جو کچھ تمہیں حکم دیا جاتا ہے، اسے لوگوں پر ظاہر کرو اور مشرکین سے کنارہ کشی اختیار کرو” [الحجر: 94]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی دعوت کا آغاز اپنے قریبی رشتہ داروں اور قبیلے سے کریں، کیونکہ وہ آپ کے سب سے قریب ہیں اور سب سے پہلے آپ کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اللہ کے بعد آپ کی قوت بن سکتے ہیں تاکہ لوگوں کو اسلام کی دعوت میں داخل کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ، اور مومنوں میں سے جو تمہاری پیروی کریں ان کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرو” [الشعراء: 214-215]۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کے ہر مرحلے میں حکمت عملی، مضبوط تنظیم، اور عمدہ منصوبہ بندی کا کمال دکھایا۔ مثال کے طور پر ہجرت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک محکم منصوبہ بنایا جس میں مقصد کا تعین، مناسب مقام کا انتخاب، رازداری، قیادت کی تقسیم، ذرائع کی تنظیم، عمل درآمد کا طریقہ کار، مستقبل کے امکانات کا جائزہ، اور سب سے بڑھ کر اللہ پر بھروسہ شامل تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوراندیش منصوبہ بندی مسجد نبوی کی تعمیر، مدینہ کے دستور، جنگی مہمات (سرایا)، فتوحات، قبائل، رہنماؤں اور بادشاہوں سے رابطوں میں بھی واضح نظر آتی ہے۔ آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ کامیابی کے لیے منصوبہ بندی بنیادی اصول ہے، اور یہی دین کی مضبوط بنیاد ہے۔ منصوبہ بندی کی ایک اور مثال وہ واقعہ ہے جب ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے اپنی اونٹنی مسجد کے دروازے پر اللہ کے بھروسے بغیر باندھے چھوڑ دی تھی، لیکن وہ بھاگ گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تمہیں چاہیے تھا کہ پہلے اسے باندھتے، پھر اللہ پر بھروسہ کرتے”۔ اس سے معلوم ہوا کہ عملی تدابیر اختیار کرنا اور اللہ پر توکل کرنا دونوں ضروری ہیں۔
دعوتی منصوبہ بندی کی کامیابی کے عوامل:
قرآن کریم کی آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کے لیے منصوبہ بندی کئی مقامات پر واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اس منصوبہ بندی کی کامیابی کے لیے درج ذیل عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے:
1. منصوبوں کی تیاری اور عمل درآمد میں لچک: منصوبہ بندی کا مقصد تنظیم اور رہنمائی ہے، نہ کہ پابندی یا جبر۔ اس میں بنیادی اصولوں کو طے کرنے کے ساتھ ساتھ غیرمتوقع حالات کے لیے اجتہاد اور فیصلہ سازی کا موقع دیا جاتا ہے۔ ایک اچھی منصوبہ بندی میں ہنگامی حالات کے لیے خاص حصہ مختص ہوتا ہے، تاکہ رکاوٹوں کا سامنا ہو تو داعی تیار اور ہوشیار رہے۔
2. منصوبے کی واضح تشریح اور مبہم باتوں سے اجتناب: دعوت کے اہداف کو ترجیحات کی بنیاد پر واضح کرنا، بنیادی اور ثانوی اہداف، قریبی اور دوررس مقاصد میں فرق، دستیاب وسائل اور انسانی قوتوں کا تعین، اور ہر داعی کی صلاحیتوں کے مطابق مناسب دعوتی ذرائع کا انتخاب۔
3. داعیوں کے درمیان تعاون: منصوبے کی کامیابی کے لیے داعیوں کا باہمی تعاون ضروری ہے۔ ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو اور اجتماعی طور پر منصوبے کو عملی شکل دی جائے، نہ کہ انفرادی یا گروہی مفادات کو ترجیح دی جائے۔
4. اہل افراد کی ذمہ داری: منصوبہ بندی کا کام ماہرین اور قابل افراد کے سپرد کیا جائے، جو علمی اور عملی دونوں لحاظ سے مکمل صلاحیت رکھتے ہوں۔
5. نگرانی اور جوابدہی: منصوبے کے نتائج اور اہداف کی پیمائش کے لیے نگرانی کا نظام ہو۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے مکہ والوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپ کے بارے میں پوچھا، اسی طرح ہر ذمہ دار کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
منصوبہ بندی کے فوائد:
دعوتی منصوبہ بندی کے متعدد فوائد ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہیں:
- دعوتی اہداف، پروگراموں، اور منصوبوں کی واضح نشاندہی، نیز عمل درآمد کے دوران بہتر کارکردگی اور بعد میں درستگی۔
- ہر داعی کی صلاحیتوں کے مطابق مناسب دعوتی طریقوں کا انتخاب۔
- دعوتی پروگراموں میں پیش آنے والی رکاوٹوں کا پیشگی اندازہ لگانا، جس سے غیرمتوقع حالات کا مقابلہ کرنا آسان ہوتا ہے۔
- ترجیحات کا تعین، تاکہ تضاد یا وقت کی کمی کی صورت میں اہم کاموں کو ترجیح دی جاسکے۔
- دعوتی کاموں میں ہم آہنگی، جس سے وقت اور وسائل کا ضیاع روکا جاسکتا ہے۔
- مالی اور انسانی وسائل کا بہتر استعمال، کیونکہ بے ترتیب منصوبہ بندی سے وسائل ضائع ہوتے ہیں۔
- منصوبہ بندی، دعوتی پروگرام یا عام طور پر دعوتی منصوبے میں شامل کارکنوں کے فرائض اور ان کے کام کرنے کے طریقے کو واضح کرنے میں مدد دیتی ہے، جس سے انہیں مناسب طریقے سے منظم اور رہنمائی کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور مطلوبہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
- منصوبہ بندی دعوتی پروگرامز یا منصوبوں کے منتظمین کی تاثیر اور پیداواریت کو بڑھاتی ہے۔ جب منصوبہ بندی کے ذریعے اہداف واضح اور مخصوص کیے جاتے ہیں، تو یہ فیصلہ سازی میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے، جسے طے شدہ اہداف کی روشنی میں ہی انجام دیا جاتا ہے۔
- یہ دعوتی مواقع سے بہتر طور پر فائدہ اٹھانے میں معاون ہے، کیونکہ اس سے پروگرامز کی بروقت تیاری، مناسب وقت کا انتخاب، اور خصوصاً پروگرامز کے انعقاد کے اوقات اور معلومات کو پہلے سے جمع کرنے اور انہیں بہتر طریقے سے ترتیب دینے میں مدد ملتی ہے۔
- یہ پروگرامز اور منصوبوں کو زیادہ جامع اور مربوط بنانے میں مفید ہے۔ اس کا اثر بعض مبلغین یا دعوتی اداروں کی کوششوں میں دیکھا جا سکتا ہے، جو معاشرے کے مخصوص طبقات یا چند موضوعات تک محدود ہو جاتے ہیں جب کہ دوسروں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ منصوبہ بندی دعوتی کاموں اور کوششوں کو ہمہ گیر بناتی ہے، جس سے ان کے پروگراموں اور پیغامات میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
- یہ وقت کا تعین کرکے سرگرمیوں کے آغاز اور اختتام کو منظم کرتی ہے، جس سے مبلغ اپنے کاموں کا جائزہ لے سکتا ہے اور طے شدہ مدت کی پابندی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ پروگرام کے لیے مناسب وقت کا انتخاب اور دوسری سرگرمیوں کے ساتھ تصادم کو روکنے میں بھی مددگار ہے۔
- تخطيط (منصوبہ بندی) دعوتی طریقوں اور ذرائع میں تجدید کو فروغ دیتا ہے اور یکسانیت سے بچاتے ہوئے صحیح دعوتی منہج کے اصولوں پر قائم رہنے میں مددگار ہوتا ہے۔ یہ مختلف دعوتی تنظیموں یا کارکنوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، خواہ جغرافیائی علاقوں کی تقسیم ہو، دعوتی پروگراموں میں تخصیص ہو، یا دیگر امور۔ اس کے علاوہ، یہ پروگراموں کے تکرار کو روکتا ہے اور کوششوں کے ضیاع یا اہم پروگراموں کو نظرانداز ہونے سے بچاتا ہے جن کی ضرورت زیادہ ہو سکتی ہے۔
- تخطيط (منصوبہ بندی) موجودہ دعوتی صورت حال کا جائزہ لینے، منصوبوں یا ان کے نفاذ میں کمزوریوں کی نشاندہی کرنے، اور آنے والی منصوبہ بندی میں انہیں دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ گزشتہ غلطیوں کو دہرایا نہ جائے اور ہر دعوتی منصوبے کے اختتام پر جامع جائزہ لیا جائے۔
- یہ داعی کو ان پروگراموں، سرگرمیوں، اور منصوبوں کو منظم کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے جو دعوت کے سمت کو درست رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ساتھ ہی، یہ انسانی فطرت میں پائی جانے والی کمزوریوں کو سمجھنے اور دعوتی صلاحیتوں کو عملی، انتظامی، اور قیادت کے اعتبار سے بہتر بنانے کے لیے تربیتی پروگراموں کی تشکیل میں معاون بنتا ہے۔
- تخطيط (منصوبہ بندی) دعوتی اداروں کو داعیوں اور کارکنوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے معیارات طے کرنے اور ان کے مقاصد کے حصول کا اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے۔
درحقیقت، منصوبہ بندی ایک داعی کے لیے نہ صرف اہم خوبی ہے بلکہ اسے اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔ یہ خیال کرنا کہ دعوت صرف “بھلے الفاظ” کہنے یا بے ترتیب طریقے سے چلانے سے کامیاب ہو جاتی ہے، غلط ہے۔ ایک باشعور داعی جانتا ہے کہ دانشمندانہ منصوبہ بندی ہی دعوت کو ایک پیداواری اور فنی ڈھانچے میں منتقل کرتی ہے۔ منصوبہ بندی درحقیقت دعوت کے نظریاتی تصور کو عملی شکل دیتا ہے، اور جتنی یہ مکمل اور جامع ہوگی، اتنا ہی اللہ کے فضل سے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
مآخذ و حوالہ جات:
یحی عبید ثمانی الخالدی: منصوبہ بندی کا فن اور داعی کی زندگی پر اس کے اثرات، ص 14-18
ڈاکٹر یوسف القرضاوی: اسلامی نظام حیات: فریضہ اور ضرورت، ص232
محمد ابوالفتاح البیانونی: علم دعوت کا تعارف، ص308
ویبسائٹ حرکۃ الاصلاح: دعوت کا اسٹراٹیجک پلان
ڈاکٹر بسیونی نحیلۃ: دعوتی منصوبہ بندی کا منہج
ویبسائٹ عالمی فورم برائے امت وسط: منصوبہ بندی اسلام کی نظر میں۔
مترجم: سجاد الحق