تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، جو بلند و بالا، عظیم، باخبر اور مہربان ہے، ہر نفس کے اعمال کو جاننے والا اور انہیں ان کے اعمال کے مطابق بدلہ دینے والا ہے۔ درود و سلام ہو اللہ کے محبوب اور مخلوقات کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کے آل و اصحاب پر اور ان تمام پر جو آپ کے راستے پر چلنے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض بندوں پر خاص فضل فرمایا کہ انہیں اپنی طرف بلانے کے راستے پر گامزن کیا اور انہیں اپنے دین کے لیے کام کرنے والوں میں شامل کیا۔ یہ عظیم نعمت انہیں ان لوگوں کے قافلے سے جوڑ دیتی ہے جو ہدایت اور رہنمائی کے علمبردار رہے۔
بھلا اس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: “اور اُس شخص سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے، نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں” [فصلت: 33]
دعوت الی اللہ کا راستہ:
دعوت کا راستہ نہ صرف ایک انتخاب ہے بلکہ ایک شرف بھی ہے۔ جو لوگ اس راستے پر سبقت لے گئے، انہوں نے نہ صرف راستہ ہموار کیا بلکہ اس کی مشکلات، آزمائشوں اور صعوبتوں کو جھیلا۔ ان کی یہی ثابت قدمی اور صبر بعد میں آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ اور دعوت کا سفر جاری رہا اور قافلہ اپنے راستے پر گامزن رہا۔
ان عظیم داعیوں میں امام شہید حسن البنا رحمۃ اللہ علیہ ایک روشن مثال ہیں، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلتے ہوئے اللہ کا یہ فرمان اپنے سامنے رکھا: “کہہ دو، یہی میرا راستہ ہے، میں بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرے پیروکار بھی، اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں” [یوسف: 108]۔
ہر نسل اپنی کوششوں اور قربانیوں سے اس مشن کو آگے بڑھاتی ہے۔ سابقین کی خلوص پر مبنی جدوجہد آئندہ آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہوتی ہے، اور ان کا کام ایک ایسا سرمایہ ہوتا ہے جسے بعد والے سنوارنے، محفوظ رکھنے اور مزید بہتر بنانے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ تاکہ دعوت کی خدمت کی جائے اور اس کے اہداف کو حاصل کیا جائے۔
سابقین اور تابعین:
جو لوگ اس راستے پر پہلے آئے، اللہ نے انہیں سچائی، ثابت قدمی اور دعوت میں قربانیوں کی بدولت لوگوں کے دلوں تک ہدایت پہنچانے کا ذریعہ بنایا۔ چنانچہ انہوں نے بعد میں آنے والوں کے لیے راستہ ہموار کیا راستے کے مشکل مراحل طے کیے۔ اس طرح جو بعد میں آئے وہ انہی کی کاوشوں اور قربانیوں کا ثمر ہیں لہٰذا جب بعد میں آنے والے انہی کی جدو جہد کا نتیجہ ہیں تو ان پر فرض ہے کہ وہ اخلاص، ثابت قدمی اور قربانی کے ساتھ اس راستے پر چلیں، تاکہ ان کے بعد آنے والے انہیں اپنا نمونہ بنا سکیں۔ اس طرح وہ بھی اپنے بعد والوں کے لیے سابقین بن جائیں گے۔
دعوت میں سبقت کے فضائل:
1. بڑا اجر: دعوت میں سبقت لے جانے والوں کو اللہ کی طرف سے اجر عظیم اور بہترین ثواب ملتا ہے اور یہ اجر ان کی زندگی میں اور موت کے بعد ان کے مخلصانہ اعمال تک محدود نہیں رہتا بلکہ دوگنا ہوتا رہتا ہے، جب تک آنے والے لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس نے ہدایت کی طرف بلایا، اسے ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہو، اور جس نے ضلالت کی طرف بلایا اسے ان تمام لوگوں کے برابر سزا ملے گی جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان کی سزا میں کچھ کمی ہو” [مسلم]۔ اور ابو مسعود انصاری کی حدیث میں آیا ہے کہ “جس نے خیر کی طرف بلایا اسے اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا” [مسلم]
کیا اللہ کی طرف دعوت دینے کے راستے پر چلنے سے بڑھ کر کوئی خیر ہوسکتی ہے؟ تاکہ اللہ کے دین کو غلبہ حاصل ہو، اور اللہ کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لیے قربانی دی جائے، لوگوں کو نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے، اور انہیں اللہ کے احکامات پر عمل کرنے اور حرام سے بچنے کی دعوت دی جائے؟
2. دعائیں اور بخشش: ان کے لیے مغفرت اور رضائے الٰہی کی دعا کی جاتی ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ نیک اعمال اور مفید کوششوں کے ذریعے اپنے پیرو کاروں کی طرف سے رحمت، مغفرت اور رضائے الٰہی کے دعاؤں کی برکتیں حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اور جو ان کے بعد آئیں گے، وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں۔۔۔” [الحشر: 10] جس طرح ہم غروبِ آفتاب کے وقت محبت و اخوت کے ساتھ۔ انہیں دعاؤں میں یاد کرتے ہیں۔
3. دلوں میں بلند مقام: جو اس دعوت میں اخلاص، ثابت قدمی اور قربانی سے جڑے رہے، ان کے لیے بعد والوں کے دلوں میں خاص مقام پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس دعوت کے سچے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی دعوت کی بلندی پر ایمان رکھا، اس نظریے کو مقدس جانا، اور سچے عزم سے یہ فیصلہ کیا کہ اسی کے ساتھ جائیں گے یا اسی کی راہ میں مریں گے۔ آنے والی نسلیں انہیں نہیں بھولتیں اگر وہ دنیا سے جا چکے ہوں تو ان کی سیرت، قربانیاں اور جدوجہد ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ وہ ان سے سیکھتے ہیں، دوسروں کو سکھاتے ہیں، اور اپنی تحریک و عمل میں ان کی پیروی کرتے ہیں۔
ان کے بھائیوں کے ساتھ ان کا تعلق اور ظن ایسا ہوتا ہے جیسا کہ ابو عمرو بن العلاء نے مثال میں خوب فرمایا ہے: “ہم ان کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے پودا، جو لمبے درختوں کی جڑوں سے اُگتا ہے”
اور اگر وہ زندہ ہوں تو وہ اپنے بھائیوں کی آنکھوں اور دلوں کا نور ہوتے ہیں، ان سے مل کر خوشی محسوس کی جاتی ہے اور ان سے ملاقات کے لیے لوگ مشتاق ہوتے ہیں۔ ان کے تجربات اور علم کے خزانے سے لوگ فیض یاب ہوتے ہیں۔ ان کے عمل سے استقامت سیکھتے ہیں، اور ان کی قربانیوں سے قربانی کا جذبہ حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کی صحت کمزور ہوچکی ہوتی ہے اور عمر ڈھل چکی ہوتی ہے، مگر ان میں ہمیں برکت، حکمت اور راہِ حق کے لیے زادِ راہ نظر آتا ہے۔
4. اچھا ذکر: بے شک حقیقی زندگی تو وہی ہے جو اللہ کی پناہ میں، اس کی اطاعت میں، اس کی دعوت کے لیے کام کرنے، اس کے راستے میں قربانی دینے، اور اس کے بندوں کی حاجات پوری کرنے کی کوشش میں گزاری جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “کیا وہ شخص جو مُردہ تھا، ہم نے اسے زندہ کیا اور اسے ایسا نور دیا جس سے وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے، کیا وہ اس شخص کی مانند ہے جو تاریکیوں میں ہے اور وہاں سے نکلنے والا نہیں؟” [الانعام: 122]
بے شک اللہ کے نیک اور عمل کرنے والے بندے، جنہوں نے اپنی دعوت اور دین کے لیے قربانیاں دیں، ان کی زندگی موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ مجاہدینِ حق کی زندگی کے جاری رہنے اور ان کے اچھے ذکر کا سبب یہی ہے کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا، وہ خالصتاََ اللہ کے لیے کیا، اور جو کچھ بھی قربانیاں دیں، وہ صرف اجر کی امید پر دیں نہ کہ شہرت کے لیے۔ تو اللہ ان کے اعمال کو زندہ رکھتا ہے، ان کا ذکر اچھا کرتا ہے، اور ان کے نیک اثرات ان کے بعد بھی ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے اخلاق، اعمال، اور مؤقف لوگوں کے لیے نمونہ بن جاتے ہیں، اور لوگ ہمیشہ انہیں خیر کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
غلط فہمیوں کی اصلاح:
ان جذبات میں سے جنہیں قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے، اور ان غلط فہمیوں میں سے جن کی اصلاح لازمی ہے، ایک یہ خیال ہے جو کبھی کبھی سننے کو ملتا ہے کہ بعض سابقین کی قدر و اہمیت کم کرکے یہ کہا جائے کہ: “بزرگوں کے جسم حرکت کے قابل نہیں رہے، ان کی کمر جھک گئی ہے، ان کی توانائیاں نتیجہ خیز کام سے ماند پڑ گئی ہیں، ان کی یادداشت پُرجوش خطبے یا خوش اسلوب گفتگو کے قابل نہیں رہی، اور وہ جدید انتظامی تبدیلیوں، منصوبہ بندی، سوچ اور رابطہ کاری کی مہارتوں سے دور ہیں، اس لیے انہیں نوجوان نسل کے لیے جگہ خالی کر دینی چاہیے…” وغیرہ جیسے جملے، جو ایسی سوچ اور احساسات کو ظاہر کرتے ہیں جنہیں درست کرنے اور ازسرِنو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور اس سوچ کی اصلاح کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم سب کی صلاحیتوں کو دعوت کے کام میں لگانے کی اہمیت کو کم سمجھیں، یا مہارتوں اور قابلیت رکھنے والوں کی قدر گھٹائیں۔ دعوت کا میدان سب کے لیے ہے، اور ہر ایک اپنے حصے کا کردار ادا کرتا ہے۔ دعوت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اور اس کی کامیابی تمام افراد ۔۔۔ خواہ وہ پرانے ہوں یا نئے، بزرگ ہوں یا نوجوان، سب کی کوششوں کا ثمر ہے۔ لیکن ایسے خیالات رکھنے والوں سے ہم بس یہ کہنا چاہتے ہیں: اگر ہمارے بڑے بھائیوں کے جسم کمزور ہو گئے ہیں، تو وہ صرف جسمانی طور پر کمزور ہوئے ہیں، ان کا حوصلہ کبھی کمزور نہیں ہوا۔ آزمائشوں کی شدت اور وقت کے گزرنے کے باوجود، وہ سر بلند رہے، صرف اپنے خالق کے آگے جھکے، اپنے مؤقف پر قائم رہے، اور یوں دعوت ہمیں ان کے ذریعے خالص اور اصل حالت میں پہنچی۔
اگر ان کی کمر جھک گئی ہے، تو وہ دعوت کے راستے پر جمے ہوئے جھکی ہے، تاکہ یہ راستہ ان کے بعد والوں کے لیے ہموار اور سیدھا رہے۔
اگر ان کی گفتگو کم ہو گئی ہے، تو نئی نسلیں اپنی تمام صلاحیتوں اور توانائیوں کے ساتھ، انہی کی قربانیوں اور اعمال کا ثمر ہیں۔
اگر ان کی باتیں کم ہو گئی ہیں، تو ان کے ساتھ بیٹھنا اور ان کے ساتھ زندگی گزارنا، جب وہ اپنی بیعت کے وفادار اور دعوت کے راستے پر قائم رہتے ہیں، آنے والوں کے لیے عملی تربیت کا گہرا ذریعہ ہے۔
اور اگر بیماری نے ان میں سے کسی کو حرکت سے روک دیا ہے، تو دعوت ان کی زندگی کو ایسا بھر دیتی ہے کہ ایک بزرگ بھائی نے ایک بار اپنے ساتھیوں سے کہا: “مجھے زیادہ دیر تنہا نہ چھوڑا کرو، مجھے میرے بھائیوں کے پاس لے جاؤ، میں چاہتا ہوں کہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کروں کہ میں ان کے درمیان ہوں۔”
یہ حضرات ہمیشہ سے، اور اب بھی، اس مبارک دعوت کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں، اور دعوت کے نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کے لیے فکری و عملی مثالوں کا ایک بہتا ہوا چشمہ ہیں۔
دعوت کے راستے پر چلنے والے بزرگوں کا حق:
1. ان کے لیے دعا کرنا: چاہے وہ زندہ ہوں یا دنیا سے جاچکے ہوں، مغفرت، رضائے الٰہی، اور دعوت کے راستے پر ثابت قدمی کی دعا کرنا۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کوئی مسلمان بندہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرے، تو فرشتہ کہتا ہے: تمہارے لیے بھی ایسا ہی ہو۔” [صحیح مسلم]
2. ان کے نقش قدم پر چلنا: ان کے نیک اعمال، قیمتی قربانیوں، اور اعلیٰ حکمت کی پیروی کرنا۔
3. ان کی صحبت اختیار کرنا: اگرچہ ان کی باتیں کم ہوں، مگر ان کا طرزِعمل زبانی کلام سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
4. ان کی عزت کرنا: ان کو ان کا مناسب مقام دینا، کیونکہ انہی کے ثبات کی بدولت ہم موجود ہیں، انہی کی محنتوں سے ہم نے زادِ راہ حاصل کیا، اور انہی کے بنائے راستے پر ہم چل رہے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ کی تعظیم میں سے ہے کہ کسی بوڑھے مسلمان کی عزت کی جائے” [حدیث حسن]
حضرت عمر بن شعیب، اپنے والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔” [ترمذی]
نیز فرمایا: “میری امت میں وہ شامل نہیں جو ہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے، ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے، اور ہمارے عالم کے حق کو نہ پہچانے” [احمد، صحیح الجامع]
5. ان کی مجلس میں ادب کے ساتھ بیٹھنا: انہماک سے سننا، محبت و عزت سے گفتگو کرنا، نرمی اختیار کرنا، ان کے بولنے کے دوران بیچ میں نہ بولنا، اور اپنی آواز پست رکھنا۔ ان کے تجربات سے سیکھنا۔ زندگی اور دعوت کے میدان میں ان کے تجربات، حالات، اور تربیتی لمحات میں غور و فکر کرنا۔
آخری بات:
یہ ہے اللہ کی طرف دعوت کا راستہ، جس پر نسل در نسل کاروانِ حق چلتا رہا ہے، ہر نسل اپنی پیش رو نسل کے نقشِ قدم پر چلتی ہے، اور آنے والی نسل کے لیے فضا کو سازگار بناتی ہے۔ تعاون، تکامل، اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ نصرت اور تمکین کے ساتھ پورا ہو جائے۔
﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا، ترجمہ: “اور وہ کہتے ہیں: وہ کب آئے گی؟ کہہ دو: شاید وہ قریب ہی ہو” ﴾ [سورۃ الإسراء: 51] ہم اللہ سبحانہ وتعالى سے دعا کرتے ہیں: کہ وہ ہماری دعوت کو فتح عطا فرمائے، ہماری فکر کو عام کرے، ہمارے پرچم کو بلند کرے، ہمارے قائدین کو توفیق دے، ہماری اخوت میں برکت عطا کرے، اور ہمیں اور ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے۔
الحمد للہ رب العالمین۔
بقلم: محمد حامد علیوة
مترجم: سجاد الحق