وسیع پیمانے پرعوامی رابطہ اللہ عزوجل کی طرف دعوت دینے کے اہم ترین اصولوں میں سے ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لیے بھیجا، اور دنیا بھر کے لوگوں کو دعوت کا مخاطب امت بنایا، اور تبلیغ کی امانت کو داعیوں کے کندھوں پر رکھا، کیونکہ وہی انبیاء و رسل کے وارث ہیں۔
پس، داعی کا عوام میں گھلنا ملنا ضروری ہے، کیونکہ وہی دعوت کے سرچشمے ہیں، اور جتنا عوام سے تعلق ہوگا، اتنی ہی دعوت کی بنیاد مضبوط ہوگی، اور اس سے دعوت کو مادی اور معنوی فائدہ حاصل ہوگا۔ یہی وہ بات ہے جسے اسلام کے دشمنوں نے سمجھا، اور وہ اپنی پوری طاقت سے داعیوں کو عوام سے الگ کرنے کی کوشش میں جت گئے، جھوٹی افواہیں پھیلائیں اور تہمتیں گھڑیں، اور عوام کو یہ باور کرایا کہ یہ داعی دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں، جن کا مقصد عام لوگوں کو نقصان پہنچانا ہے، تاکہ اسلام کو ایک الگ تھلگ جماعت کے طور پر پیش کیا جائے، اور یوں داعیوں اور امت کے درمیان فاصلہ ڈالنے کی مذموم کوششیں کی گئیں۔
عوامی دعوت کی اہمیت:
اسلام میں عوامی کام کی اہمیت اس مقصد سے پیدا ہوتی ہے جس کے لیے اللہ نے انسانوں کو پیدا فرمایا، یعنی عبادت، زمین کی آباد کاری، اور کائنات کی اصلاح کی جدوجہد، اسی لیے اللہ نے ان میں انبیاء، رسول، علماء اور مصلحین بھیجے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے، انہیں ہدایت دیتے اور اللہ کے بندوں کو اللہ کے حق سے آگاہ کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی طاقت کے مطابق دعوتِ دین کا حکم دیا ہے، یعنی یہ کام کسی ایک فرد تک محدود نہیں، چنانچہ فرمایا:
"اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں” [فصلت: 33]
اور جب یہ فرض کیا کہ ہر مسلمان اپنی ذات میں ایک داعی ہو، خواہ عمل سے ہو یا ایک سادہ سے جملے سے، تو ان سے حسنِ دعوت کا بھی مطالبہ کیا، فرمایا:
"اے نبی ؐ ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سےمباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو” [النحل: 125]
یہ کام اور حسنِ دعوت اس زمانے میں مزید اہم ہو جاتا ہے جس میں اسلام اجنبی سا ہوچکا ہے، علم اور علماء کم ہیں، اور جہلاء کا غلبہ ہے، چنانچہ داعیوں پر فرض ہے کہ وہ دعوت کے فن اور اسلام کے مخالفین سے معاملہ کرنے کے طریقے سیکھیں۔
داعی درحقیقت اللہ کا پیغام پہنچانے والا، اسلام کا معلم اور اس کے نفاذ کی کوشش کرنے والا ہوتا ہے، وہی لوگوں کو ان کے رب سے متعارف کراتا ہے، انہیں اس کی یاد دلاتا ہے، ان کے دین کے شبہات واضح کرتا ہے، ان کی اصلاح کرتا ہے، ظلم کو روکتا ہے، اور نیکی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے۔
جیسا کہ قرآن میں فرمایا: "اے قوم، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تو تم لوگوں کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو! تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ ان ہستیوں کو شریک ٹھیراؤں جنہیں میں نہیں جانتا، حالانکہ میں تمہیں اس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا ہوں”۔ [غافر: 42-43]
اسی بلند مقام کی وجہ سے داعی کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لے، اور اس کی عظمت کو دنیاوی مفادات سے آلودہ نہ کرے، یا کسی باطل کے پیچھے نہ چلے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دینے کا ارادہ فرمایا، تو اس ذمہ داری کے لیے بہترین شخص کا انتخاب کیا، اور اس کے اجر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"ان کے پاس نرمی سے پہنچو، پھر انہیں اسلام کی دعوت دو، اور انہیں اللہ کے حق سے آگاہ کرو جو ان پر لازم ہے، اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعے ایک شخص کو ہدایت مل جائے، تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں (یعنی بہترین دولت) سے بہتر ہے"
دعوت عام میں کامیابی کیونکر ممکن ہو؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہم دوسروں کے دل کیسے جیتیں، بغیر کسی ظالمانہ فیصلے یا عمومی فتوے کے، تاکہ ہم عوامی دعوت کے مشن میں کامیاب ہوں اور پیروکاروں کا دائرہ وسیع کریں، چنانچہ فرمایا: "جب کوئی آدمی کہے: لوگ تباہ ہو گئے، تو درحقیقت وہی ان کو تباہ کرنے والا ہے” [مسلم و ابو داؤد]۔
ابو اسحاق، جو راویوں میں سے ہیں، کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ "أهلكَهم” نصب کے ساتھ ہے یا "أهلكُهم” رفع کے ساتھ۔ (یعنی تباہ کرنے والا یا تباہ ہونے والا)
جب مختلف دعوتیں اور نظریے عوام کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں، اور ہر کوئی عوام کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، تو صرف اللہ کی دعوت ہی ہے جو عوام کی بھلائی اور لوگوں کے فائدے کے لیے کام کرتی ہے، اور عوام سے کچھ لینا نہیں چاہتی بلکہ ان کی بھلائی کی طلب گار ہے، نہ کہ کسی فرد، جماعت یا پارٹی کے فائدے کے لیے انہیں "دودھ دینے والی گائے” سمجھ کر استعمال کرنا اس کا مقصود ہے۔
صرف اللہ کی دعوت ہی ایسے شخص کو جو اللہ کو رب مانتا ہے، اور اسلام کو دین اور طرزِ زندگی تسلیم کرتا ہے — خواہ اس کا رنگ، نسل یا زبان کچھ بھی ہو — بلند ترین انسانی مرتبے اور اعلیٰ مقام عطا کرتی ہے۔ لہٰذا داعیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے دلوں کو لوگوں کی محبت سے لبریز کریں، یہاں تک کہ یہ محبت دل کی گہرائیوں میں اتر جائے، اور یہ جذبہ ایسا طرزِ عمل بن جائے جس سے نرمی، محبت اور شفقت جھلکے، اس حد تک کہ داعی کو لوگوں کے درمیان اس کی لوگوں سے محبت، ان کے لیے فکرمندی، ان کی خدمت میں خلوص اور ان کو گمراہ نظریات کی آفتوں سے بچانے کی تڑپ کے ذریعے پہچانا جا سکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال اپنے سامنے رکھیے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جو مکہ میں داخل ہوئے، اور ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے انہیں مکہ سے نکالا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو عذاب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے محبوب چچا حضرت حمزہؓ کو شہید کیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بس اتنا کہا: "جاؤ، تم سب آزاد ہو”۔”
سو، داعی جب عوام میں نکلتا ہے تو اُسے کوئی پرانی نفرت یا خاندانی یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر قائم تعصبات کو ساتھ لے کر نہیں نکلنا چاہیے، کیونکہ اکثر لوگ اپنے دل و دماغ میں اُن منفی رویوں کو سنبھالے رکھتے ہیں جو کبھی کسی نے ان سے کیے ہوں، یہاں تک کہ یہ رویے دُکھ بھری یادوں کی صورت جمع ہو جاتے ہیں، اور نسل در نسل ان کی روایت منتقل ہوتی ہے، یہاں تک کہ بڑے لوگ چھوٹوں کو وصیت کرتے ہیں کہ تعلقات منقطع رکھو اور برائی کا جواب برائی سے دو۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ لوگ اسلام کی روحانی و عقلی تربیت سے دور ہوتے ہیں، اور ان کی زندگی پر قبائلی و علاقائی تعصبات حاوی ہو جاتے ہیں، اور وہ اسی غیر اسلامی ماحول سے اپنے رویے اخذ کرتے ہیں۔
لہٰذا داعی پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کو سکھائے کہ وہ منفی یادوں سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ اور ممکن ہے کہ داعی کو سب سے زیادہ مزاحمت انہی قریبی لوگوں کی طرف سے ملے جو یہ محسوس کریں کہ وہ ان پرانی کدورتوں کی پرواہ نہیں کرتا جنہیں وہ لوگ ایک قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں۔ ایسے میں داعی کو صبر کرنا ہوگا۔
داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخاطب لوگوں کو پہچانے، چاہے وہ ادارے یا دفتر کی سطح پر ایک چھوٹا حلقہ ہو، یا شہر و ملک کی سطح پر ایک بڑا مجمع ہو۔ یہ شناخت معلومات جمع کرنے سے آتی ہے، اور معلومات جمع کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ داعی چوکنا اور محتاط رہے، تاکہ لوگ اس پر شک نہ کریں کہ وہ ان کی پوشیدہ باتیں جاننا چاہتا ہے یا ان کے راز کھولنا چاہتا ہے، جب کہ داعی کا اصل مقصد تو صرف یہ جاننا ہوتا ہے کہ معاشرے میں اثر و رسوخ کے مراکز کہاں ہیں، فکری رجحانات کیا ہیں، اور لوگ دعوت سے کتنے قریب یا دور ہیں۔
اور معلومات جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں غیر جانبداری کا لحاظ رکھنا لازمی ہے، کیونکہ کسی بھی رائے یا فیصلے میں مبالغہ بعض اوقات بڑے خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے، جو کہ غلط اندازے کی بنا پر ہوتے ہیں۔ ممکن ہے داعی کسی شخص کو صرف ایک مشاہدہ کیے گئے رویے کی بنیاد پر اپنے مخالفین میں شمار کر لے، اور اُسے ایسا سمجھے جیسے وہ دشمن نظریہ یا مخالف رجحان رکھتا ہو، حالانکہ یہ جلد بازی اور غلط فیصلہ دشمنوں کی تعداد بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔ ہر جزوی رویہ یا انفرادی عمل کسی مکمل فکری یا نظریاتی شناخت کی دلیل نہیں ہوتا۔ مثلاً: ہر وہ شخص جو عرب اور عربیت کی بات کرے وہ ضروری نہیں کہ قوم پرست ہو، اور ہر وہ شخص جو قومی ملکیت کا ذکر کرے وہ ضروری نہیں کہ اشتراکی (کمیونسٹ) ہو۔
اسی طرح معلومات کے نقل کرنے میں بھی ایک مخصوص طریقۂ کار ہونا چاہیے۔ ہم صرف اُنہی لوگوں سے خبریں یا معلومات لیں جو سچے اور اپنے نقل میں محتاط ہوں۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ بعض سچے لوگ بھی دُرست نقل نہیں کرتے کیونکہ وہ خود بھی ناقص معلومات رکھنے والوں سے متاثر ہوتے ہیں، اور اگر اس طرزِ نقل کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر فیصلے ظنی اور غیر منصفانہ ہوں گے۔
عوام کے افراد، ان کی طبیعتوں، ضروریات، خوشیوں اور غموں کو جاننا اُس شخص کے لیے ضروری ہے جو عوامی روابط میں وسعت چاہتا ہے۔ داعی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ معاشرے کے افراد کو کون سی خوشیاں یا مصیبتیں پیش آتی ہیں۔ اگر کسی کو اولاد ملے تو داعی اُن میں سب سے پہلا مبارکباد دینے والا ہو جو اُسے اللہ کی نعمت یاد دلائے، اور اگر کسی کا بچہ اسکول یا یونیورسٹی میں کامیاب ہو جائے تو داعی وہ پہلا شخص ہو جو خوشی کا اظہار کرے جیسے یہ کامیابی اس کی اپنی ہو، اور اگر کسی کو کوئی مصیبت پیش آجائے یا بیماری آجائے یا کسی عزیز کا انتقال ہو جائے، تو داعی اُن میں سب سے پہلا تعزیت کرنے والا اور دل جوئی کرنے والا ہو۔
ساتھ ہی، داعی کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں مؤثر انداز سے متحرک ہو، ایسی حرکت جو نتیجہ خیز ہو، اور اُسے راہ میں آنے والی رکاوٹیں یا مشکلات روک نہ سکیں۔ اسے یہ بھی جاننا چاہیے کہ بعض لوگوں کے ساتھ نرمی و مصلحت سے پیش آنا اور ان سے حسنِ سلوک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ نرمی ایک پسندیدہ سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے قائم فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اِسے اندر آنے دو، یہ اپنے قبیلے کا بُرا آدمی ہے” یا فرمایا: "یہ قبیلے کا بُرا بھائی ہے”۔ جب وہ اندر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی سے گفتگو فرمائی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے تو ایسا (برا آدمی) کہا تھا، پھر اس سے نرمی سے بات کیوں کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے عائشہ! اللہ کے نزدیک بدترین مقام والا وہ ہے جس سے لوگ اس کی فحش گوئی کے خوف سے دور رہیں” [بخاری]۔
سلام بھی ایک اہم ذریعہ ہے جس سے داعی اپنے مخاطبین سے تعلق قائم کرتا ہے۔ سلام کے ذریعے داعی لوگوں کے دلوں میں داخل ہوتا ہے کیونکہ اس ایک کلمے سے محبت، خلوص اور وفا کا پیغام ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ عوامی رابطے کی چیزیں عبادات کا درجہ رکھیں جن کے ذریعے بندہ اللہ کا قرب حاصل کرے، اور ان ذرائع کو ایمان کی شاخیں اور علامات قرار دیا۔ چنانچہ ہمارے عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا: کون سا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھانا کھلانا اور سلام کہنا اُنہیں جنہیں تم جانتے ہو اور جنہیں نہیں جانتے” [بخاری و مسلم]۔
تحفے تحائف کا تبادلہ محبت اور عوام سے تعلق پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے، کیونکہ تحفے میں ایک خاص جادو ہوتا ہے جو داعی کے دل کو لوگوں کے دلوں سے جوڑ دیتا ہے۔ تحفہ داعی کی طرف سے محبت اور قدر کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر تحفے کا لین دین مسلمانوں اور غیرمسلموں، حتیٰ کہ دشمنوں کے درمیان جائز ہے، تو مسلمانوں کے آپس میں تو یہ بدرجۂ اولیٰ ہونا چاہیے۔
اسی طرح داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر انسان کے ساتھ نرمی اور خوش خلقی کا مظاہرہ کرے۔ نرمی کا مطلب ہے بات اور عمل میں نرم روی، آسانی و سہولت والا رویہ اختیار کرنا، سختی اور تند خوئی سے بچنا۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ نرم دل ہے، نرمی کو پسند کرتا ہے، اور نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا” [مسلم]۔
دعوتِ دین صرف ایک عمل نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے، اور داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ جس چیز کی طرف بلاتا ہے، خود اس کی جیتی جاگتی، سچی تصویر ہو۔ پہلے داعیوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ کردار نے کئی علاقوں کے دل جیت لیے۔ مثال کے طور پر، مصعب بن عمیرؓ، جو اسلام کے پہلے سفیر تھے، ان کی حسین دعوت اور اخلاق کے سبب مدینے والوں کے دل کھلے، اس سے پہلے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے وہاں پہنچیں۔
اسی طرح سمرقند کی پوری بستی مسلمانوں کے اخلاق، داعیوں کی بردباری اور انصاف کے منظر دیکھ کر مسلمان ہو گئی۔ وہاں کے فوجی قائد نے قاضی کے حکم پر فوج پیچھے ہٹا لی اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، بغیر جنگ کے شہر پر قبضہ کرنے کی بجائے، پہلے ان کے دلوں تک پہنچا۔
لہٰذا، داعی کے لیے اچھی اور عملی مثال بننا ایک دینی ضرورت ہے، کیوں کہ اسی روش جو دراصل سافٹ پاور ہے، کے ذریعے اسلامی ریاست نے دنیا کے کئی خطوں کو اپنے اخلاق اور کردار سے متاثر کیا۔ داعی کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمات کو سب سے پہلے اپنی ذات پر لاگو کرے، تاکہ اس کا علم دوسروں کے لیے ایک عملی نمونہ بنے۔
داعی کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ اس کا اخلاق عمدہ ہو، اس کے اقوال اور افعال میں ہم آہنگی ہو، وہ ہر اس چیز سے بچے جو اس کی مثال کو نقصان پہنچا سکتی ہو یا لوگوں کے دل میں اس کی عزت کو کم کر سکتی ہو۔ صرف یہی نہیں، بلکہ داعی کو عوام کے سامنے شریعت پر عمل کر کے دکھانا چاہیے تاکہ لوگ اس کی پیروی کرسکیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔
داعی اور عوام میں عدم مطابقت: درپیش چیلنج اور خطرات
دعاۃ (داعی کی جمع) کے عوام سے نہ جڑنے اور عمومی دعوت سے کنارہ کش ہونے کے خطرات ان نکات میں ظاہر ہوتے ہیں:
جَہل:
جب دینی علم اور تعلیمات عوام تک نہ پہنچیں، تو لوگ آسانی سے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں، مشکوک لوگ اپنی گمراہ کن باتوں سے دین کی بنیادوں کو متزلزل کرنے لگتے ہیں، جیسے آج کل بخاری کی کتب اور عقائد پر حملے ہو رہے ہیں۔
معاشرتی تقسیم:
دعوت نہ پہنچنے سے معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو جاتا ہے، آپس میں فکری اور گروہی لڑائیوں میں اُلجھ کر کمزور ہو جاتا ہے، اور دین کی حقیقت لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
نئی نسل کی گمراہی:
دینی دعوت کی غیر موجودگی نئی نسل کو بے راہ روی میں ڈال دیتی ہے، وہ اخلاقی زوال اور جدید ٹیکنالوجی کی بے لگام لہروں کا آسان شکار بن جاتی ہے، جیسے “پب جی” جیسی کھیلوں میں بتوں کو سجدہ کرنے جیسے خطرناک مظاہر سامنے آئے۔
سیکولر افکار کا غلبہ:
جب دین کی دعوت موجود نہ ہو، تو معاشرے میں سیکولر (علمانی) سوچ آہستہ آہستہ پنپنے لگتی ہے، اور دین زندگی کے مرکزی مقام سے ہٹ کر ایک غیر مؤثر شے بن کر رہ جاتا ہے۔
ثقافتی یلغار:
جب داعی پیچھے ہٹ جاتے ہیں، تو گمراہ فرقے، ملحدین، اور بدعتی لوگ کھلے میدان میں آ کر اپنی گمراہ کن باتیں عام کرتے ہیں، جو اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔
اسلامی شناخت کا مٹنا:
دین کی دعوت کی عدم موجودگی سے معاشرے میں دینی شعائر اور ظاہری علامات دھندلا جاتی ہیں، مغربی رسوم و رواج اور افکار معاشرے میں رچ بس جاتے ہیں، اور اسلامی تشخص رفتہ رفتہ ختم ہوتا جاتا ہے۔
چند نصیحتیں (برائے داعیان و مربین):
بہت سے فنون اور مہارتیں ہیں جو عوامی کام میں اور لوگوں سے رابطے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مؤثر ثابت ہوتی ہیں، ہم ان میں سے کچھ کی مربيوں اور داعیوں کو نصیحت کرتے ہیں، اور وہ یہ ہیں:
دوسروں کی اچھی طرح سننا، چاہے وہ ہم سے اختلاف ہی کیوں نہ کریں: کیونکہ جب ہم دوسروں کی بات توجہ سے سنتے ہیں تو وہ بہت راحت محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بات کہہ دی، اور جب ہم اچھی طرح سن لیں تو پھر اپنی بات پہنچانا شروع کرتے ہیں، اور یقیناً وہ ہمیں سنیں گے۔ جیسا کہ سیرت کی کتابوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف عتبہ بن ابی ربیعہ کے ساتھ آیا ہے جب وہ آپ کے پاس آیا اور مختلف چیزوں کی پیشکش کی کہ آپ دین اسلام اور اس کی دعوت کو چھوڑ دیں، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روکا نہیں، اس کی بات پوری سنی، یہاں تک کہ وہ اپنی بات ختم کر چکا۔
دوسرے کو اس کے پسندیدہ نام سے پکارنا: جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کے ساتھ کیا، جب وہ اپنی بات مکمل کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے ابا الولید! کیا تم فارغ ہو گئے؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کنیت سے پکارا، صرف نام سے نہیں، حالانکہ عتبہ کافر تھا اور ایک شکست خوردہ بات لے کر آیا تھا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سنی، پھر اسے پسندیدہ نام سے پکارا۔
غلطی کے وقت لوگوں کے جذبات کو مجروح نہ کرنا: اے عزیز داعی! اپنے بھائی کی عزت کا تماشا نہ بنانا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا، چاہے اس سے غلطی ہوئی ہو۔ دیکھو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے زنا کی اجازت مانگنے والے نوجوان، مسجد میں پیشاب کرنے والے بدوی، یا نماز میں بولنے والے آدمی کے ساتھ نرمی اور حکمت سے معاملہ کیا۔
لوگوں کو ان کے مقام پر رکھنا اور انسانی دلوں کو خوش کرنا: یقیناً جب آپ لوگوں کو ان کے مناسب مقام پر رکھتے ہیں تو وہ داعی کی قدر کرتے ہیں اور اس کی بات سنتے ہیں۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا: "اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ”۔
دوسروں کے لیے دعا کرنا: امام حسن البنّاؒ سے پوچھا گیا کہ وہ لوگوں پر اتنا اثر کیسے ڈالتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: "میں دن میں انہیں دعوت دیتا ہوں اور رات میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں۔” تو داعی کو چاہیے کہ وہ جسے دعوت دے رہا ہے اس کے لیے دعا کرے، چاہے رات کو قیام میں ہو یا سجدے میں، اخلاص سے دعا کرے، پھر دن میں اس سے گفتگو کرے، اور وہ حیرت انگیز نتیجہ دیکھے گا۔
جس نے آپ پر احسان کیا اس کا شکریہ ادا کرنا: کیونکہ جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔
دعوت کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کرنا: جیسا کہ حکمت میں کہا گیا ہے "شہد حاصل کرو، لیکن چھتے کو مت توڑو”۔
اختلاف اور مکالمے کے آداب کا خیال رکھنا: داعی کا دل سب کے لیے وسیع ہوتا ہے، وہ لوگوں کو جوڑتا ہے، نہ کہ توڑتا ہے، وہ تعارف اور تعاون کرتا ہے، نہ کہ لڑائی۔ اس کے پیشِ نظر یہ اصول ہونا چاہیے: "جن باتوں پر ہم متفق ہیں ان میں ہم تعاون کریں گے، اور جن باتوں میں اختلاف ہے ان میں ایک دوسرے کو معذور سمجھیں گے”۔
مصادر :
دكتور همام سعيد: قواعد الدعوة، ص82-95
الإمام ابن باز: مجموع فتاوى ومقالات متنوعة
موقع بصائر: التواصل الدَّعوي الناجح.. فنون ومهارات
النووي: شرح النووي على مسلم،2/207
ابن حجر: فتح الباري57/1
عبد الرحمن النحلاوي: أصول التربية الإسلامية وأساليبها،234
الشيخ منصور إبراهيم الجبيلي: العزوف عن العمل الدّينيّ (الأسباب ـ الآثار ـ الحلول)
مترجم: زعیم الرحمان