اللہ کی طرف بلانا بے شک ایک عظیم شرف ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو منتخب فرماتا ہے، تاکہ وہ اسلام کو تمام انسانوں تک پہنچائیں اور اسے زندگی کے عملی میدان میں نافذ کریں، اور دعوت ان اسالیب و ذرائع کے ساتھ پیش کریں جو مخاطبین کے مطابق ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے لوگوں کی ضروریات کا شعور اور ان سے خطاب کے طریقوں میں جدت کا ہونا لازمی ہے۔
لیکن جب داعی سستی کا شکار ہو جائیں، عوامی کام سے کنارہ کش ہو جائیں، یا اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے سے خوفزدہ ہو جائیں، یا حکمران کی خوشامد میں مصروف ہو کر دعوت کو موقوف کر دیں، تو اس سے نااہل افراد کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے، جو جلد ہی گر جاتے ہیں اور لوگوں کو مایوسیوں میں ڈال دیتے ہیں، اور یہی چیز مصلحین پر یہ ذمہ داری ڈالتی ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالیں اور اس کا مقابلہ کریں۔
دعوت الی اللہ میں عوامی کام کی اہمیت:
اللہ عزوجل نے مخلوق کو اپنی عبادت اور زمین کو آباد کرنے کے لیے پیدا فرمایا، اور انہیں کائنات کی اصلاح کے لیے باہم جدوجہد کا حکم دیا، اور ان میں سے انبیاء، رسل، علماء اور مصلحین کو چنا جو لوگوں کو دعوت دینے، ہدایت دینے اور اللہ کا حق بندوں پر واضح کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو ان کی استطاعت کے مطابق دعوتِ دین کا حکم دیا، کیونکہ دعوت کسی ایک فرد تک محدود نہیں، چنانچہ فرمایا: “اور اس سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے” [فصلت: 33] اور ہر مسلمان کو اپنے ماحول میں، چاہے وہ عمل سے ہو یا قول سے، داعی بننے کا مکلف بنایا، اور حسنِ دعوت کا حکم بھی دیا، جیسا کہ فرمایا: “اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔” [النحل: 125]۔
آج کے اس دور میں جب کہ علم و علماء کی کمی اور جہالت کے غلبے کے باعث اسلام اجنبی ہو گیا ہے، عوامی رابطےاور حسنِ دعوت کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، جس کی بنا پر داعیوں پر لازم ہے کہ وہ دعوت کے فنون، اسالیب اور اسلام دشمن عناصر سے نبرد آزما ہونے کے طریقے سیکھیں۔
یقیناً داعی اسلام کا مبلغ، اس کا معلم، اس کے نفاذ کا خواہاں، اللہ کا تعارف کرانے والا، دین کے مبہم امور کو واضح کرنے والا، نصیحت کرنے والا اور باطن کی اصلاح کرنے والا ہوتا ہے، وہ ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور باطل کا عمدگی سے رد کرتا ہے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کا فریضہ انجام دیتا ہے: “اے قوم، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تو تم لوگوں کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو! تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ ان ہستیوں کو شریک ٹھیراؤں جنہیں میں نہیں جانتا، حالانکہ میں تمہیں اس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا ہوں” [غافر: 41-42]۔
اس بلند مقام کی بنا پر داعی پر لازم ہے کہ وہ اس کی قدر کرے، اس کے وقار اور تقدس کو لوگوں کے دلوں میں باقی رکھے، اسے دنیا کے کسی فائدے یا باطل کے پیچھے چل کر آلودہ نہ کرے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودِ خیبر کو اسلام کی دعوت دینا چاہی، تو اس ذمہ داری کے لیے موزوں داعی کا انتخاب کیا اور اسے دعوت کا اجر بھی واضح فرمایا: “آہستہ آہستہ ان کے پاس پہنچو، پھر انہیں اسلام کی دعوت دو، اور اللہ کے حقوق سے انہیں آگاہ کرو، اللہ کی قسم! اگر اللہ تیرے ذریعے ایک شخص کو ہدایت دے دے، تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے” [صحیح بخاری]۔
عوامی کام اور مثالی داعیان:
اللہ کی طرف بلانا ایک طرزِ زندگی ہے، اور داعی کو ہر اُس چیز کی صحیح اور سچی تصویر ہونا چاہیے جس کی وہ دعوت دیتا ہے، اور اچھے اسوہ کا اثر لوگوں کے دلوں کو کھولنے میں نمایاں ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ کا قول ہے: “ہزار آدمیوں میں ایک آدمی کا عمل، ایک آدمی پر ہزار آدمیوں کی بات سے بہتر ہے”۔
اسلاف کے آثار سے واضح ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی اخلاق اور اچھے برتاؤ سے بہت سے علاقے فتح کیے اور اسلام کے لیے دل کھولے، جیسے حضرت مصعب بن عمیرؓ جو اسلام کے پہلے سفیر تھے، ان کی اچھی دعوت سے مدینہ کے لوگوں کے دل اللہ نے کھول دیے اس سے پہلے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت فرماتے۔
دیکھنا چاہیے کہ سمرقند کا پورا شہر کیسے اسلام لے آیا صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے داعیوں کے اخلاق، مسلمانوں کی نرمی، اور ایک فوجی کمانڈر کی قاضی کے حکم پر لبیک کہنے کو دیکھا، جب قاضی نے حکم دیا کہ فوج شہر سے نکلے، لوگوں کو امن دے اور پھر اسلام کی دعوت دے، تو کمانڈر اور اس کی فوج نے یہ بات قبول کی۔
لہٰذا داعیوں کے اچھے اسوہ کا ہونا دعوتِ دین کے لیے ایک لازمی چیز ہے، جو بہترین نتائج دیتی ہے، اور یہ اسلامی ریاست کی نرمی کی قوت ہے جس سے دنیا کے بہت سے علاقے فتح ہوئے، اور داعیوں کو چاہیے کہ اپنے علم کو پہلے خود پر نافذ کریں، پھر دوسروں کو دعوت دیں۔
مثالی داعی کوعوام میں نفوذ اس کےعمدہ اخلاق اور قول و فعل کی ہم آہنگی سے حاصل ہوتا ہے، اس پہ لازم ہے کہ ہر ایسی چیز سے بچے جو اس کی سیرت کو مجروح کرے، بلکہ اسے چاہیے کہ اسلامی احکام پہ عمل لوگوں کے سامنے اعلانیہ کرے تاکہ لوگ اس کی پیروی کریں اور سیکھیں۔
مبلغین کی دعوت سے گریز کی وجوہات:
بہت سے داعی معاشرے سے جُڑنے اور اس میں گھل مل جانے کے درمیان فرق پر توجہ نہیں دیتے، تو وہ اور ان کے اردگرد کے لوگ اچانک یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی دعوت اور شناخت کے برعکس رویے اپنا رہے ہیں۔ ایسا کئی صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے، جیسے ظاہری شکل و صورت اور رویّے محض فیشن سے ہم آہنگ ہونے کے لیے، یا سینما اور کیفے جیسی جگہوں کی حاضری، جو داعی کے مقام، وقار اور اثر و رسوخ کے لائق نہیں۔
ان غیرمانوس صورتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض داعی ایسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جو عربی زبان اور اس کے معانی سے دور ہوتی ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ داعی کی زبان ٹیڑھی ہو جاتی ہے اور اس کے الفاظ کا معیار گر جاتا ہے، بلکہ بعض دفعہ وہ ایسے معانی استعمال کرنے لگتا ہے جو ان کے صحیح سیاق میں نہیں ہوتے، بلکہ اسلام سے ٹکرا سکتے ہیں، جیسے ہر بات میں آزادی کا لفظ استعمال کرنا، حالانکہ اسلام نے آزادی کے مفہوم کو شریعت سے ہم آہنگ کر کے ہی تسلیم کیا ہے۔
بعض داعی دعوت کے کام سے کنارہ کشی کے لیے جواز بھی تلاش کرتے ہیں۔ اس بارے میں شیخ جماز الجماز فرماتے ہیں:
دعوت سے پیچھے ہٹنے کا رجحان جتنا آج کے دور میں نمایاں ہے، پہلے کبھی اتنا نہیں تھا۔ بہت سے نوجوان دنیا کے جھمیلوں میں ایسے الجھ گئے کہ انہوں نے دعوت، تربیت اور تعلیم کو بھلا دیا۔ اس کی چند وجوہات یہ ہیں:
مقصد کا غیر واضح ہونا یا دعوت الی اللہ کی اہمیت اور اس کے دنیا و آخرت پر اثرات کا نہ جاننا۔
داعیوں میں کاہلی اور ذمہ داری کا احساس نہ ہونا، شروع میں عزم کی کمی اور اگر ابتدا ہو بھی جائے تو تسلسل نہ رکھنا اور جلد تھک جانا۔
راستے کی رکاوٹوں سے ناواقفیت؛ آزمائش کے پہلے ہی مرحلے میں دعوتی کام چھوڑ دینا اور آرام کو ترجیح دینا۔
گرفتاری، ملازمت سے محرومی یا جواب دہی کے خوف سے دعوتی ذمہ داریوں سے بچنا اور الزام دوسروں پر ڈال دینا۔
داعیوں کی تربیتی بنیادوں کا کمزور ہونا، اور صرف علمی پہلو پر اکتفا کرنا۔
تزکیہ نفس سے غفلت، بنیاد کی کمزوری، اور بیوی بچوں اور مال میں مشغولیت۔
شہرت کے خوف یا اس کے اثرات سے بچنے کی کوشش میں پردے کے پیچھے کام کو ترجیح دینا، حالانکہ اگر دعوت کا تقاضا ہو تو اعلانیہ کام کرنا بھی لازم ہے۔
فرد کو ناموزوں ذمہ داری دینا، جس سے کام درست نہیں ہو پاتا اور افراد ضائع ہو جاتے ہیں۔
سب افراد کو کام میں شامل نہ کرنا، کچھ پر کام کا بوجھ، کچھ بےکار؛ نتیجہ: احساس کمتری اور پیچھے ہٹ جانا۔
داعیوں کی نگہداشت کا فقدان؛ مشکلات میں تنہا اور کوئی سہارا نہیں ہوتا، تو وہ مایوس اور دل شکستہ ہو جاتے ہیں۔
خود پسندی، غرور اور شہرت کی خواہش؛ خود کو ہی سراہنا اور دوسروں سے تعظیم و اطاعت کا تقاضا کرنا، اور نصیحت نہ ماننا۔
کم ہمت اور کم ارادہ لوگوں کی صحبت، اور چھوٹے گناہوں اور لغزشوں میں پڑ جانا۔
دعوتی حلقوں میں اندرونی اختلافات، جو فضا کو زہر آلود کر دیتے ہیں، تعلقات کو خراب کرتے ہیں، اور اختلاف و انتشار پیدا کرتے ہیں۔
قیادت کی تنظیم کا فقدان یا اس کی اہلیت کی کمی، جو داعیوں کو مایوس کر کے کام سے دور کر دیتی ہے۔
وقت کی کمی یا روزگار میں مصروفیت؛ جب روزی کے لیے ملازمت اور دینی کام میں توازن نہ ہو پائے تو دعوتی میدان چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اثرات:
معاشروں میں جب داعی حضرات دعوتِ دین اور عوامی دینی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں تو اس کے اثرات درج ذیل صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں:
الف) معاشرے میں ثقافتی یلغار کو موقع مل جاتا ہے، چنانچہ میدان اُن بدعتی اور ملحد عناصر کے لیے کھل جاتا ہے جو اسلام کی تعلیمات سے ٹکرانے والے گمراہ کن نظریات پھیلاتے ہیں۔
ب) اسلامی شناخت مٹنے لگتی ہے، دینی شعائر اور اسلامی مظاہر غائب ہوجاتے ہیں، اور معاشرہ مغربی رسم و رواج اور اسلام سے متصادم خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔
ج) لوگ اپنے دین کی تعلیمات سے جاہل ہو جاتے ہیں، جس سے شکوک پیدا کرنے والوں کے لیے اپنا زہر پھیلانا آسان ہو جاتا ہے، اور دین کے بنیادی اصولوں پر ضرب لگائی جاتی ہے، جیسا کہ آج کل صحیح بخاری اور عقیدے کی بنیادوں پر شبہات اٹھائے جا رہے ہیں۔
د) معاشرہ ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے، خود آپس میں تقسیم اور کمزور ہو جاتا ہے، اور فکری و جماعتی جھگڑوں میں الجھ جاتا ہے کیونکہ لوگوں کے دل و دماغ میں اسلام کی سچائی واضح نہیں ہوتی۔
ہ) نئی نسلوں میں اخلاقی بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اور وہ انحراف کا آسان شکار بن جاتی ہیں، نیز جدید ٹیکنالوجی کے ایسے ذرائع میں الجھ جاتی ہیں جو ان کی صلاحیتوں کو تباہ کر کے انہیں دین سے دور کر دیتے ہیں، جیسا کہ “پب جی” کھیل میں ایک بت کو سجدہ کرنے کا مطالبہ دیکھا گیا۔
و) اسلامی معاشرے میں سیکولر فکر کی راہ ہموار ہوتی ہے اور زندگی میں دین کا مرکزی مقام ختم ہوتا چلا جاتا ہے۔
علاج:
جب اسباب کا علم ہو جائے تو علاج بھی واضح ہو جاتا ہے۔ لہٰذا داعیوں کے دعوتی میدان سے کنارہ کشی کے علاج کے لیے چند مؤثر تدابیر درج ذیل ہیں:
- داعی کے سامنے اس کی دعوت کا ہدف اور سمت واضح ہو تاکہ اس کا کام منظم، مقصد متعین، اور ترجیحات درست ہوں۔
- ہر مسلمان، بالخصوص نیک نوجوان، کو اپنی دینی اور اُمّتی ذمہ داری کا شدید احساس ہو؛ کیونکہ وہی امت کا بار اٹھانے، جہالت دور کرنے اور بیماریوں کا علاج کرنے کا زیادہ اہل ہے۔
- داعی ان وجوہات کو پہچانے جو اسے پیچھے ہٹا رہی ہیں، پھر ان سے نجات کی سنجیدہ کوشش کرے۔ ایسا بھرپور منصوبہ بندی سے کرے۔
- علاج کی تلخی پر صبر کرے، کام سے نہ رکے، اور دینی خدمت کی اہمیت کو دل سے تسلیم کرے۔
- داعی اس بات کو ہمیشہ محسوس کرے کہ وہ عام لوگوں سے مختلف ہے، اس کا کردار نمونہ ہے خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے، اور اس پر دعوت کی ذمے داری فرض ہے۔
- داعی دوسروں کے پیچھے ہٹنے کو اپنے لیے عذر نہ بنائے۔ پھر خواہ وہ دیگر علماء و مصلحین ہوں یا نوجوان۔
- داعی اللہ کے آگے جوابدہی کا احساس دل میں ہمہ وقت تازہ رکھے سورۃ مریم میں ارشاد ہے، “سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے” [آیت: 95]
- ایک اسلامی ٹی وی چینل یا ہفتہ وار یا ماہانہ آن لائن اسلامی مجلہ قائم کیا جائے، جہاں داعی شرکت کریں، تربیتی، علمی پروگرامز اور مفید مضامین پیش کریں۔
- دعوتی ذمہ داری، ذاتی ضروریات اور دیگر واجبات میں توازن قائم رکھے، اور وقت کی تنظیم کرے تاکہ دین کے کام کے ساتھ ساتھ گھریلو ضروریات بھی پوری ہوسکیں۔
- داعی تربیتی و اصلاحی پروگراموں میں حصہ لے، اہل علم، صالحین، اور تجربہ کار رہنماؤں کے قریب رہے تاکہ ان کے اثر سے خود بھی بہتر بنے۔
- دعوت اور خیر کے کام کو وسیع نظر سے سمجھے، اور گزشتہ دور کے علما و مصلحین کی سیرت و طریقہ کار پر غور کرے تاکہ عمل کے لیے روحانی ایندھن اور رہنمائی ملے۔
یقیناً، دینی کاموں سے داعیوں کی کنارہ کشی اسلام، مسلم معاشروں بلکہ غیر مسلم معاشروں پر بھی نہایت خطرناک اثر ڈالتی ہے۔ لوگ ایسے رہنما کے محتاج ہیں جو انہیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی دے اور اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے، لیکن جب داعی گوشہ نشینی اختیار کر لیتا ہے، صرف القابات پر قناعت کرتا ہے، صرف ان کانفرنسوں میں شرکت کرتا ہے جن سے عام لوگ واقف بھی نہیں ہوتے، یا عوام سے روبرو ہونے سے ڈرتا ہے تو یہ سب چیزیں داعی کے لیے بھی نقصان دہ ہوتی ہیں اور دعوت کے لیے بھی۔
یہ طرز عمل اسلام کی ایک غلط تصویر پیش کرتا ہے، کیونکہ جب میدان خالی چھوڑ دیا جائے تو لوگ دین کے بارے میں اپنی رائے ان لوگوں سے لیتے ہیں جو اس کے اہل نہیں ہوتے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں سے آنے والے افکار اور رسم و رواج کے خلاف کوئی مؤثر دفاعی دیوار بھی تشکیل نہیں پاتی۔
مترجم: زعیم الرحمان