عصر حاضر میں دعوت کی کامیابی کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ داعی کے پاس داعیانہ کلچر سے واقف ہونا ہے، خاص طور پر اس وقت جب زندگی کی وسعت اور پیچیدگی میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے دعوت کے علمبرداروں کے لیے مقامی و عالمی سطح پر حالات و واقعات کی واقفیت حاصل کرنا اور لوگوں کو جاننا اور زیادہ لازمی ہوگیا ہے۔
آج کا داعی ایک بہت وسیع اسلامی دنیا میں رہتا ہے، جس کے ہر ایک علاقے میں کوئی نہ کوئی مستقل مسئلہ موجود ہے، اس لیے اس دنیا کے بارے میں وسیع معلومات رکھنا ضروری ہے، اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تنازع کس طرح چل رہا ہے اور مختلف ممالک کے درمیان طاقت کیسے بٹی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ افکار، تحریکات اور مختلف فلسفوں کے درمیان کیسی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے دور کی نئی ایجادات سے وہ چیزیں حاصل کرے جو اس کے لیے فائدہ مند ہوں، اور ان چیزوں سے بچتا رہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہوں۔
قرآن وسنت کی نظر میں داعی کا علم:
داعیانہ کلچر اور دعوت میں اس کی اثر پذیری، دونوں کے بیچ میں ایک مثبت تعلق ہے، علم مومن کے لیے نورہے، جس سے وہ روشنی حاصل کرتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ اپنے رب کی عبادت کیسے کرے، اس کے بندوں کے ساتھ کیسا سلوک کرے، اسے خیر کے اسباب کی طرف بلاتا ہے، اور شر کے اسباب سے روکتا ہے۔ اسے دنیا اور آخرت میں اعلیٰ درجات عطا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند کرتا ہے [المجادلة: 11]۔
وہ داعی جو اپنے ارد گرد کے مقامی اور عالمی حالات سے باخبر ہوتا ہے لوگوں کے لیے اس روشنی کی مانند ہے جس کے ذریعے وہ اپنے دین و دنیا کے معاملات میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اور علم حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس مقصد کی تکمیل ہے جسے اللہ نے اپنے کلام میں یوں بیان کیا ہے: “مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبر دار کرتے تاکہ وہ غیر مسلمانہ روش سے باز آجائیں [التوبة: 122]، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “حالانکہ اگر یہ اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں” [ النساء]
اور جب داعی علم کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اسے رب کی حقیقی بھلائی حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص علم کی تلاش میں کوئی راستہ اختیار کرتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ آسان کر دیتا ہے” [سنن ابو داؤد]۔
داعیانہ کلچر سے واقفیت داعی کی ایک ضروری صفت ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالم باعمل اور معلم ہو، تاکہ اس پر علم سے ہدایت حاصل کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول صادق آئے: “اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو ایک زمین پر پڑی، تو اس میں سے ایک زمین کے پاک ٹکڑے نے پانی کو جذب کیا، تو اس میں گھاس اور بہت سا سبزہ اگ آیا ” [بخاری اور مسلم]۔
جب داعی کو علم و ثقافت میں کافی حصہ مل جائے اور وہ طلب علم کے حلقے میں شامل ہو جائے تو وہ اپنے معاشرے میں روشنی کا ایک مینار بن جائے گا جس سے رہنمائی کی جائے گی، جیسا کہ ابن قیم نے فقہاء کے بارے میں کہا “وہ زمین پراسی طرح ہوتے ہیں، جس طرح آسمان پر ستارے ہوتے ہیں، ان کی مدد سے تاریکی میں راستہ ڈھونڈا جاتا ہے، لوگوں کو ان کی ضرورت کھانے پینے کی ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے، اور ان کی اطاعت والدین کی اطاعت سےبڑھ کر واجب ہوتی ہے۔”
اور جب داعی اپنے علم کو پھیلانے، لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے اور انہیں غفلت اور فساد سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے امام احمد کے بیان کردہ وصف کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: “تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہر پیغمبر کے دور کے بعد کچھ اہل علم کو زندہ رکھا جو گمراہوں کو ہدایت کی طرف بلاتے ہیں اور ان کی طرف سے دی گئی تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں، وہ اللہ کی کتاب کے ذریعے مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور اللہ کے نور سے اندھوں کو بصیرت عطا کرتے ہیں، کتنے ہی ابلیس کے مارے ہوئے لوگوں کو انہوں نے زندہ کیا، اور کتنے ہی گمراہوں کو انہوں نے ہدایت دی، ان کا لوگوں پر کتنا اچھا اثرپڑا ہے اور لوگوں کا ان پر کتنا برا اثرپڑا۔”
علم و بصیرت رکھنے والے داعیوں کے بارے میں تاریخ گواہ ہے کہ “یہ وہ لوگ ہیں جن کی رہنمائی سے گمراہوں نے ہدایت پائی، پھنسے ہوئے قافلے چل نکلے، جو گمنام تھا وہ مقبول ہوگیا، جس میں نقص تھا اس نے کمال پایا، ان کے ذریعے معذور ٹھیک ہوا اور ان کے ساتھ کمزور طاقتور بن گیا۔”
داعیانہ کردار کے ثمرات:
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کا معاشرہ حقیقی داعیانہ تڑپ اور مزاج رکھنے والے داعی کو ترستا ہے۔ کیونکہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ذاتی اور گروہی مفادات کی کثرت ہو گئی ہے لیکن مؤثر داعیانہ ہنر غائب ہو چکا ہے ۔داعیانہ کردار کے ان گنت ثمرات میں سے چند درج ذیل ہیں:
- شرعی علم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے: اس علم کے ذریعے داعی نئے مسائل میں گم ہوئے بغیر ان سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے اور اس طرح دعوت کے پیغام کو کمزوری، دھندلاہٹ اور نعرے بازی سے محفوظ رکھتا ہے، اور اصول و قواعد اور بنیادوں کی حفاظت کرتا ہے۔
- داعیانہ بصیرت: یہ ہمہ جہت کارکردگی اور مسلسل مطالعے سے آتی ہے،جو سطحیت سے پاک گہرے یقین پر مبنی معرفت کی بنیاد بنتی ہے۔ جیسا کہ اللہ عز وجل نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیروکاروں کے لیے بیان کیا؛ فرمایا: “کہہ دیجیے یہ میرا راستہ ہے۔ میں اور میرے پیرو کار بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پاک ہے وہ ذات اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں” [یوسف: 108]، لہٰذا داعی کو اسلامی علوم کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد پر کھڑا ہونا ضروری ہے، یہ مطالعہ شعور، جذبہ اور ذائقہ کے ساتھ ہو، پھر اس سے مختلف رنگوں کا ایک مشروب نکالے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہو۔
- قائل کرنے کی صلاحیت: یہ وسعت علم کے اہم ترین ثمرات میں سے ایک ہے، اس کے ذریعے ایک داعی مسلمانوں اور دیگر لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ مختلف اسالیبِ کلام، دلیل و بیان کے مختلف طریقے اپنا کر انہیں اپنی طرف مائل کرنے اور قائل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، خاص طور پر اس دور میں جہاں مختلف آراء اور افکار میں آپسی کشمکش ہے، اور تہذیبوں اور ثقافتوں کا تنوع ہے، اور ہر صاحبِ فکر اپنی سوچ کو پھیلانے کی پوری کوشش کرتا ہے؛ چاہے وہ باطل یا منحرف ہی کیوں نہ ہو۔
- مدعوین کی حالت کا علم: ایک داعی اپنی ثقافت وعلم کے ذریعے مدعوین کی مختلف حالتوں کو جانتا ہے، اگرچہ ان سب میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں لیکن دعوتی کارکردگی میں بہتری کے لیے تفصیلات پر توجہ دینا، جزوی معلومات کا خیال رکھنا، اور الگ الگ خصوصیات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے؛ جیسے نوجوانوں کی دعوت، نوعمروں کی دعوت، خواتین کی دعوت، خاص افراد اور دانشوروں کی دعوت، مزدوروں کی دعوت، تاجروں کی دعوت، طبی میدان میں کام کرنے والوں کی دعوت، غیر مسلموں کی دعوت، انحراف کرنے والوں اور منشیات کے عادی افراد کی دعوت، قیدیوں کی دعوت، یونیورسٹی کے طلباء کی دعوت، معذوروں اور خصوصی ضروریات کے حامل افراد کی دعوت میں فرق ہے۔
- سابقین کے تجربات سے فائدہ اٹھانا: داعیانہ کردار میں یہ چیز نہایت ہی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے داعی کو وسیع مطالعہ کرنے والا، زیادہ پڑھنے والا ہونا چاہیے، جو ہر نئی چیز کی تلاش میں ہو، جن میں نئی کتابیں اور دعوت سے متعلق خصوصی نشریات شامل ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنی مطلوبہ چیز اور گمشدہ متاع تلاش کر سکتا ہے، اور اپنی بعض مشکلات اور سوالات کا حل نکال سکتا ہے، دعوت کا بہترین اور صحیح طریقہ جان سکتا ہے، خاص کر اگر یہ بات کسی معتبر عالم کی طرف سے ہو جس کے علم اور عقیدے پر آپ کو اعتماد ہو۔
- ترقی اور تجدید: یہ چیز بلاشبہ مختلف دعوتی وسائل، ہر زمان و مکان کی تاریخ اور تجربات پر مسلسل نظر رکھنے کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے، کیونکہ ہر جگہ کے مخصوص طریقے، وسائل اور اسالیب ہوتے ہیں، اور جو چیز ایک زمانے ممکن ہوتی ہے وہ دوسرے میں نہیں ہوتی، کیونکہ وسائل ایجادات اور نئی صنعتوں کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ اس لیے داعیوں کوچاہیے کہ وہ نئے تجربات اور تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہوں اور جدید وسائل کا استعمال کریں۔اور دعوت کی خاطر انہیں اپنے قابو میں کریں۔ جیسا کہ آجکل میڈیا کے وسائل، جدید ذرائع مواصلات اور سہولیات دستیاب ہیں۔
داعیوں کے پاس علم وثقافت کی کمی کے خطرات:
داعی کے علم اور دین و دنیا کے معاملات میں آگاہی کی اہمیت کے برعکس، علم و ثقافت کی کمی اس کی تخلیقی صلاحیتوں کی موت ہے، یہ فکر کو محدود کرنے، کام میں جدت ختم کرنے اور افکار میں افلاس پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے، اور یہ لازمی طور پر بڑی غلطیوں کا سبب بن سکتی ہے جن میں یہ ہیں:
- اللہ کی راہ میں آنے والی آزمائشوں پر صبر نہ کر پانا۔
- دعوت کے کام میں تدریج کا نہ ہونا؛ یعنی ایسے کاموں کا آغاز کرنا جن کے لیے وہ اہل نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے ان میں کچھ کمزوری آ جاتی ہے۔
- اپنے حالات کو منفی نقطۂ نظر سے دیکھنا داعی کو مایوس اور ناامید کر دیتا ہے، اور وہ دعوت کا راستہ چھوڑ دیتا ہے۔
- دعوت کے راستے پر خاطر خواہ اطمینان نہ ہونا۔
- نتائج کے لیے بے صبری اور اس کے قریب ہونے کا اعتقاد رکھنا، اللہ کی طرف سے مومنوں کو نصرت کے کیے گئے وعدے پر یقین کی کمی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “یقین جانو! کہ ہم اپنے رسولوں اور مومنین کی مدد دنیا میں لازماً کریں گے اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے” [غافر: 51]۔
- عبادت کے پہلو میں داعی کی کم دلچسپی؛ جیسے قیام اللیل اور یومیہ اذکار۔
- داعی کی شخصیت میں کمزوری؛ جس کی وجہ سے وہ ہر چیز سے مرعوب ہوجاتا ہے۔
- دعوتی کام کے لیے تنظیم اور صحیح منصوبہ بندی کی کمی۔
- زیادہ جذباتی ہونا اور بے انتہا جوش، جو افراط کی طرف لے جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ہر دعوتی عمل سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
- نفسیاتی بیماریوں کا ہونا؛ جیسے: خود پسندی، غرور، حسد وغیرہ۔
- نفسیاتی حیلے، جو کہ بہت سارے ہیں، جیسے: داعی کا خود کو حقیر سمجھنا، یا غیر حقیقی خوف، یا فضول شرمیلا پن وغیرہ۔
- اسلامی دعوت کے لیے بنیادی مقاصد کا غائب ہونا۔
- زمینی حقائق سے غافل ہونا اور حالات کو نہ سمجھنا، جس کی وجہ سے وہ اپنے معاشرے اور حقیقی مسائل کو سمجھ نہیں پاتا۔
- مفاد پرست لوگوں کے ساتھ بے کار بحث میں الجھنا، اور اس میں وقت ضائع کرنا؛ جو عزم کو کمزور کرتا ہے، اور ان سے متاثر ہو کر وہ بھی اس میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
- مصلحتوں اور مفاسد کے فہم میں کمی، اور دعوت کے موجودہ مرحلے کی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہونا، اور افضل چیز کے بجائے ادنی چیز کو ترجیح دینا۔
داعی کا علم اور ثقافت، دعوت کی کامیابی اور داعیوں کو ہر قسم کے فکری حملوں سے محفوظ رکھنے والے بنیادی عوامل میں سے ایک ہے، یہ عقل کی ترقی، خیالات کی غذا اور شخصیت کی تشکیل کے لیے ضروری ہے، اور اس کے ذریعے دعوت کا وہ مقصد حاصل ہوتا ہے جس کی بنیادیں اسلامی ثقافت کے اصلی مآخذ پر مبنی اور قائم ہیں، اور دوسری ثقافتوں میں گم ہوئے بغیرصرف استفادہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
مآخذ و حوالہ جات:
- ڈاکٹر ہمام سعید: دعوت کے اصول، ص 65-66
- محمد عبداللہ فضل اللہ: داعی کی ثقافت اور اس کی ذمہ داریاں
- ڈاکٹر علی عمر بادحدح: کامیاب داعی کے اوصاف، علمی اور ثقافتی ورثہ
- جمال بن احمد بادی: جماعت کی فرضیت اور ترک تفرقہ بازی، 329-341
- ابنِ قیم: علماء ربانیین کے لیے ضروری ہدایات
- الشيخ محمد بن احمد العثیمین: کتاب العلم، ص 16-20
- ابنِ قیم: سالکین کے مدارج، 3/341
مترجم: سجاد الحق