بقلم: محمد حامد عليوة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله، وعلى آله وصحبه، وبعد
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا ہے ، اور ان کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے”۔ [الجمعہ: 2]
مربی وہ بنیاد ہے جس پر پورا نظامِ تربیت قائم ہوتا ہے، یہ دعوت کی عمارت کی پہلی اینٹ ہے۔ جیسا کہ امام حسن البنّا شہید رحمہ اللہ نے فرمایا: خاندان ہماری دعوت کی عمارت کی بنیاد ہے، اور اس کا ذمےدار اس عمارت کا مرکزی پتھرہے۔
امام حسن البنّاؒ کے اس بلیغ کلام میں غور طلب بات یہ ہے کہ عمارت میں مرکزی پتھر ہی اصل پتھر ہوتا ہے، جسے معمار پوری احتیاط اور درستگی کے ساتھ رکھتا ہے، پھر اسی پر رسی کھینچ کر باقی اینٹیں ترتیب دیتا ہے، کیونکہ اسی کی سیدھ و توازن پر باقی دیوار کی سیدھ قائم رہتی ہے۔ اگر وہ ذرا سا بھی ٹیڑھا ہو جائے تو اس کا اثر پوری دیوار پر پڑتا ہے، اور بعض اوقات ساری عمارت متاثر ہو جاتی ہے۔
عمارت میں اس کی اہمیت کے باعث مصر کے بعض علاقوں میں معمار اسے “الحجر الإمام” (امام پتھر) کہتے ہیں، کیونکہ وہ دوسرے پتھروں سے پہلے اور ان کی رہنمائی کے لیے رکھا جاتا ہے۔ یہی وصف مربی میں بھی پایا جانا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کا امام اور رہنما ہوتا ہے۔
اللہ کی رحمتیں ہوں اس شخص پہ جس نے قائدین، علمبرداروں اور مربین کے لیے کہا اور بالکل درست کہا: “جب تم میرے امام ہو تو مجھ سے آگے رہو”۔
یعنی اگر تم نے امامت و قیادت قبول کر ہی لی ہے، تو تمہیں عبادت، اخلاق، قربانی، خدمت اور ہر حالت میں دوسروں سے آگے ہونا چاہیے۔
یہیں سے مربی کا کردار تربیتی عمل میں نمایاں ہوتا ہے، بلکہ پوری دعوت کی تعمیر میں بھی، کیونکہ اُمت کی نسلیں تیار کرنے اور مردانِ کار کی تربیت کرنے کی بڑی امید اسی سے وابستہ ہوتی ہے۔ جتنا مربی اپنے مرتبے، مقام، ذمہ داری اور نتائج کو سمجھتا ہے، اتنا ہی اس کا اثر اور عمل مضبوط و کامیاب ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ، اللہ کی توفیق سے۔
دعوت کے راستے میں مربی کی ذمہ داریاں:
- اپنے قول سے بھی اور اپنے عمل سے بھی عبادات، اخلاق اور سلوک میں اپنے بھائیوں کے لیے رہنما ہو۔ سب سے مؤثر نمونہ عملی نمونہ ہے، کیونکہ “ہزار آدمیوں میں ایک شخص کا حال (عمل) ان پر زیادہ اثر پذیر ہے بہ نسبت ہزار افراد کے سامنے گفتگو کے”۔ اس لیے قول کا آدمی اور ہوتا ہے، اور عمل کا آدمی اور۔
- اپنے بھائیوں کو منہج اور اصول و مقاصدِ دعوت سے جوڑے رکھے، ان کے تعلق کو قرآن و سنت کے صاف سرچشمے سے مضبوط کرے، اور صالحین و مجاہد داعیان کی سیرتوں سے ان کے دل وابستہ کرے۔
مربی کی اساسی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کو کتابِ الٰہی سے جوڑے رکھے: تلاوت، تدبر، فہم، اور عمل کے ذریعے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، سنتِ قولی و عملی، اور صالحین و مجاہدین کے حالات سے ان کا تعلق استوار رکھے، تاکہ ان کے دلوں میں ربانیّت کے معانی راسخ ہوں، اور ایسا تب ہوگا جب ان کے عقل و قلب اور عمل سب قرآن و سنت اور صلحائے امت کی سیرتوں سے جڑ جائیں۔
- اپنے بھائیوں کو شخصیات سے نہیں بلکہ فکر، منہج اور اصول سے وابستہ کرے۔ دعوت باقی رہتی ہے، داعی فنا ہو جاتے ہیں۔ اصول قائم رہتے ہیں، افراد چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا حق جہاں بھی ہو، اہلِ دعوت اسی کے ساتھ ہوں۔ مربی کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر اور اپنے ساتھیوں میں ہمیشہ حق کی تلاش، حق کی پیروی اور اپنے انجام کو اس سے وابستہ رکھنے کی صفت پیدا کرے، مگر ساتھ ہی اشخاص پر انحصار سے بچائے۔
- اپنے بھائیوں کے دلوں میں شریعت کے اصول راسخ کرے، اور انہیں اس کا عادی بنائے کہ ہر معاملہ شرع کے میزان پر پرکھیں۔ وہ ہر دینی و دنیاوی مسئلے میں شریعت کو معیار بنائیں۔ اس طرح وہ ہمیشہ صراطِ مستقیم پر رہیں گے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَدًا، كِتَابَ اللهِ وَسُنَّتِي
ترجمہ: میں تمہارے لیے ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ جن کو تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ کتاب اللہ اور میری سنت۔
- اپنے بھائیوں کے درمیان اخوت اور اللہ کے لیے محبت کے جذبات گہرے کرے، کیونکہ یہی قوت کا راز ہے۔ امام حسن البنّاؒ نے فرمایا: “تمہارا رشتہ ہی تمہاری قوت کا راز ہے”۔ یہی جماعت کی مضبوطی اور وابستگی کی بنیاد ہے، اور یہی رضائے الٰہی اور اجرِ عظیم کا ذریعہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلالِي۔ الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي [رواہ مسلم]
ترجمہ: “بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے میری شان کے لیے ایک دوسرے سے محبت کی؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں اس دن سایہ دوں گا جس دن میرے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا”۔
- اپنے بھائیوں کو قریب سے جانے، ان کی حالت، مشکلات اور کیفیت سے واقف ہو۔ ان کے ساتھ رہ کر، ان کی زندگی میں شریک ہو کر ان کی تربیت کرے، کیونکہ حقیقی تربیت کا دارومدار اسی قرب اور تعاون پر ہے۔ اس طرح وہ ان کے مسائل کو صحیح طور پر سمجھے گا اور بہتر رہنمائی کرسکے گا، نیز ان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو پہچان کر ان کی نشوونما میں مدد دے گا۔
- اپنے بھائیوں کی خبرگیری کرے، ان کی مشکلات کے حل میں دلچسپی لے، خاص طور پر جب وہ پریشانیاں چھوٹی ہوں، تاکہ بڑھ کر ان کے لیے بوجھ نہ بن جائیں۔ جلد توجہ دے، نرمی سے اصلاح کرے، اور بھائیوں میں باہمی تعاون کی فضا قائم کرے۔ یہی تعاون دلوں کو جوڑتا ہے۔ بعض اوقات کسی فرد کے ذاتی مسئلے کے حل کے لیے انفرادی کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔
بہترین مربی وہ ہے جو انفرادی اور اجتماعی دونوں طرزِ تربیت کو جمع کرے۔ یعنی ایک طرف وہ سب کی اجتماعی تربیت کرے، دوسری طرف ہر فرد کو اس کی خصوصیات، صلاحیتوں اور حالات کے مطابق الگ رہنمائی دے، کیونکہ تربیت میں انفرادی فرق فطری حقیقت ہے۔
- اپنے بھائیوں کے دلوں میں منہج، راستے اور قیادت پر اعتماد پیدا کرے، مگر ساتھ ہی انہیں نصیحت اور خیرخواہی کا خوگر بنائے، بشرطیکہ وہ نصیحت شرعی آداب اور مقررہ طریقوں کے مطابق ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قُلْنَا: لِمَنْ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ [رواہ مسلم]۔
ترجمہ: “دین سراسر خیر خواہی ہے”
ہم (صحابہ) نے پوچھا: “کس کے لیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟”
فرمایا: “اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے اور مسلمانوں کے آئمہ اور عامۃ المسلین کے لیے۔”
- اپنے بھائیوں میں گفتگو، تبادلۂ خیال اور مشاورت کا ذوق پیدا کرے، تاکہ وہ یہ سمجھیں کہ یہ دعوت ان سب کی ہے، وہ اس میں اضافی نہیں ہیں۔ انہیں سوچنے، رائے دینے اور تجاویز پیش کرنے کی تربیت دے۔ ان کے دلوں میں یہ احساس بٹھائے کہ یہ ہم سب کی دعوت ہے، ہم سب کو اس کی حفاظت، ترقی اور خدمت کی فکر ہونی چاہیے۔ جو کسی چیز کا مالک ہوتا ہے، وہ اس کی زیادہ پروا کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اخوت، اعتماد، اور اجتماعی آداب کے دائرے میں ہونا چاہیے۔
- اپنے بھائیوں میں منہجِ تربیت کو عملی طور پر نافذ کرے اور اس کے علمی، جذباتی اور عملی اہداف کو حاصل کرے۔ اس منہج کے ذریعے نمایاں افراد کی رہنمائی کرے، انہیں آگے بڑھائے، اور کمزوروں کو سہارا دے۔ اس طرح تربیت کے اثرات ظاہر ہوں گے ، اور معاملہ صرف کتابوں اور یاد کردہ نصوص تک محدود نہ رہے گا۔ یہی اصول ہے: “تربیت نتائج سے پہچانی جاتی ہے”۔
- مربی اپنے بھائیوں اور قیادت کے درمیان ایک مخلص رابطہ ہو، دوطرفہ امانت داری کے ساتھ۔ قیادت کے احکام اور رہنمائی کو پورے اخلاص، وضاحت اور حرارت کے ساتھ بھائیوں تک پہنچائے، اور بھائیوں کے سوالات، آراء اور گزارشات کو امانت کے ساتھ قیادت تک پہنچائے، اور انہیں جواب سے مطلع کرے۔ یہی اعتماد اور محبت کا رشتہ قائم رکھتا ہے۔
- اپنے بھائیوں کا ایک ایک فرد خیال رکھے، ان کی ضرورتوں، مصالح اور احوال پر غور کرے، دل سے، خوشی کے ساتھ، اور اکتاہٹ کے بغیر۔ ہمیشہ امام حسن البنّاؒ کی یہ ہدایت سامنے رکھے:
“اخوان کی دعوت میں قیادت کا حق ایسا ہے جیسے والد جیسا روحانی تعلق، استاد کا سا علمی فائدہ، شیخ کی روحانی تربیت، اور قائد کا سیاسی نظم و نسق۔ ہماری دعوت ان تمام معانی کو جمع کرتی ہے۔” [رسالۃ التعالیم]۔
صبح کے داعی، شب کے عابد:
داعیانِ حق کی صفات میں سے، اور سچے مربیوں کا وصف یہ رہا ہے کہ وہ اپنی دعوت کے مخاطبین اور اپنے زیرِ تربیت افراد سے سچی دل چسپی رکھتے ہیں۔ ان کی فلاح و اصلاح کے لیے اپنا وقت، محنت اور دعا صرف کرتے ہیں، اور ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہیں۔
اسی حقیقت کو امام حسن البنّاؒ نے یوں بیان فرمایا:
“اے میرے بھائی! جہاں تک ہوسکے رات کے ذخیرے سے وہ کچھ حاصل کر لے جو دن میں اپنے بھائیوں پر تقسیم کرے”۔
ایک بار امام البنّاؒ سے پوچھا گیا کہ لوگ آپ سے اس قدر متاثر کیوں ہیں اور آپ کی طرف عجب کشش کیوں محسوس کرتے ہیں؟
تو انہوں نے فرمایا: “میں دن میں ان کو دعوت دیتا ہوں اور رات میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں”۔
قرآن و سنت میں اس اخلاقِ عالیہ کی بے شمار شہادتیں اور ترغیبات موجود ہیں:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ترجمہ: (اور وہ ان لوگوں کے لیۓ بھی ہے ) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہر بان اور رحیم۔ [الحشر: 10]
اور فرمایا:
وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ترجمہ: “اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے بھی”۔ [محمد: 19]
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ترجمہ: پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کر دیجیو جب کہ حساب قائم ہوگا۔ [ابراھیم]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دُعَاءُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابٌ، عِندَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ، كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ: آمِينَ، وَلَكَ بِمِثْلٍ ترجمہ: “مسلمان کی دعا اس کے بھائی کے حق میں اس کی غیر موجودگی میں قبول کی جاتی ہے۔ اس پہ ایک فرشتہ نگران مقرر ہے، جب وہ اپنے بھائی کے لے دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے آمین، اور تیرے لیے بھی” [مسلم]
قرآن و سنت کے اسی ہدایت نامے پر صحابۂ کرامؓ اور ان کے بعد آنے والے صالحین ہمیشہ عمل پیرا رہے، اور ہمیں اس کی کئی روشن مثالیں ان کی زندگیوں میں ملتی ہیں۔
امام ابن ابی شیبہؒ نے اپنی “مصنف” میں حضرت ابوالدرداءؓ کا قول نقل کیا ہے:
“میں سجدے میں اپنے ستر بھائیوں کے لیے دعا کرتا ہوں۔”
اور ایک روایت میں ہے:
“میں سجدے میں اپنے ستر بھائیوں کے لیے ان کے نام لے کر دعا کرتا ہوں۔”
امام احمد بن حنبلؒ فرمایا کرتے تھے:
“میں چالیس برس سے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں میں امام شافعیؒ کے لیے دعا نہ کرتا رہا ہوں۔”
ابو حمدون القصاصؒ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے پاس ایک فہرست تھی جس میں تین سو دوستوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ وہ ہر رات ان سب کے لیے دعا کرتے تھے۔ ایک رات دعا نہ کر سکے تو خواب میں کسی نے کہا: “اے ابو حمدون! آج تم نے اپنے چراغ کیوں نہیں جلائے؟” وہ فوراً اٹھے، چراغ جلایا، فہرست کھولی اور ایک ایک کا نام لے کر ان کے لیے دعا کی۔
بعض اہلِ اخلاص کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حج یا عمرہ کے دوران ان مقدس مقامات اور مبارک اوقات میں اپنے شاگردوں اور ساتھیوں کے لیے دعا کے اوقات مخصوص کرتے، ان کی ضروریات کی فہرست بناتے، اور قبولیت کے اوقات میں ان کے لیے دستِ دعا بلند کرتے۔ اس کا اثر ان کے درمیان محبت، قربت اور باہمی اعتماد کی صورت میں ظاہر ہوتا۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی آزمایا کہ جن بھائیوں کے ساتھ وہ کسی اصلاحی یا تربیتی معاملے میں شریک رہے، ان کے لیے خلوت میں دعائیں کیں، تو ان دعاؤں کے اثر سے اللہ تعالیٰ نے ان کے حالات درست کر دیے اور مشکلات آسان فرما دیں۔
استفادہ:
اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو ہم دعوت دیتے ہیں، انہیں صرف نصیحت اور رہنمائی کے کلمات سنا دینا کافی نہیں، بلکہ ان کے لیے دعا کرنا اور ان کی فکری و روحانی حالت سے دل چسپی رکھنا بھی ضروری ہے، خصوصاً رات کے قیمتی اوقات میں، کیونکہ بندے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع ہی قبولیتِ عامہ کا راز ہے۔ جو بندہ دل سے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ بندوں کے دلوں کو اس کی طرف متوجہ فرما دیتا ہے۔ یہی چیز دعوت کی قبولیت اور اس کے اثر پذیری میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
امام ابن القیمؒ فرماتے ہیں
“اللہ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہونے کا ایک فوری صلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دل بھی اس شخص کی طرف پھیر دیتا ہے جو اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور جو بندہ اللہ سے منہ موڑ لیتا ہے، اللہ بندوں کے دلوں کو بھی اس سے پھیر دیتا ہے، کیونکہ بندوں کے دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں، ان کے اپنے اختیار میں نہیں”۔
اور ہُرم بن حیّانؒ کا قول ہے:
“جو بندہ اپنے دل کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، اللہ عزوجل ایمان والوں کے دلوں کو اس کی طرف مائل کر دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس سے محبت اور شفقت کرنے لگتے ہیں”۔
یہ چند فرائض و ذمہ داریاں ہیں جو مربی پر اس مبارک دعوت کے راستے میں عائد ہوتی ہیں۔
موضوع باقی ہے، جسے ان شاء اللہ ہم آئندہ مضمون میں مکمل کریں گے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کے نیک اعمال قبول فرمائے، ہمیں قول و عمل میں اور خلوت و جلوت میں اخلاص نصیب کرے۔
وصل الله وسلم على رسولنا وقدوتنا محمد بن عبد الله ﷺ، وعلى آله وأصحابه ومن والاه. والحمد لله رب العالمين
مصنف: محمد حامد عليوة
مترجم: زعیم الرحمان