میری زندگی خود کو سزا دینے (خود بیزاری) کے سبب رک گئی ہے۔ کیا آپ میری کوئی مدد کر سکتے ہیں؟
میں غصے کی حالت میں تھا اور میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ لکھی، جو ایک مخصوص پارٹی کے لیے توہین آمیز ہے۔ اس کے بارے میں اس پارٹی کے لوگ ایسا دعویٰ کرتے ہیں، پھر میں نے اسے تھوڑی دیر بعد ڈیلیٹ کر دیا، کچھ فتنہ پرور اور دھوکے بازوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور اس پوسٹ کو اس پارٹی کے ساتھ شیئر کیا، جسے انہوں نے توہین آمیز سمجھا اور اب وہ مجھے بری نظروں سے دیکھتے ہیں۔
میں ہروقت خود کو بہت زیادہ مجرم محسوس کرتا ہوں اور خود کوکوسنا شروع کردیتا ہوں اور اس مسئلے کے بارے میں ایک لامتناہی سوچ شروع کرتا ہوں کہ میں نے غلطی کیوں کی اور یہ عمل کیوں کیا! میں نفسیاتی اور جسمانی طور پر افسردہ ہوں، جیسے میرے لئے زندگی رک سی گئی ہو، کہ میں نے یہ غلطی کیوں کی اور یہ عمل کیوں کیا!؟
اگرچہ میں پرائمری اسکول ٹیچر کے طور پر کام کرتا ہوں اور راستے میں ان سے ملاقات ہوتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھے انڈراسٹیمیٹ کر رہے ہیں۔ اگرتاریخ پیچھے کی طرف لوٹ جاتی ہے تو میں یہ کام کبھی نہ کرتا اور خدا کی قسم میں تم سے جھوٹ نہیں بولتا، مجھے اس پر بہت افسوس ہے اور اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ میں نے یہ کام کیوں کیا؟!
محترم سائل!
اس میں کوئی شک نہیں کہ فیس بک منفی اثرات کے ساتھ ساتھ اپنے اندر مثبت اثرات بھی رکھتا ہے، اور ہمیں اپنے امتیازات اور خصائص کو، خاص طور پر غصے کی حالت میں، تمام لوگوں کے سامنے مشتہر کرنےسے بچنا چاہئے، کیونکہ اس کا نقصان اُس کے فائدے سے کہیں زیادہ ہے۔ چاہے وہ فرد کی سطح پر ہو یا خاندان کی سطح پر، یا دوستوں اور جاننے والوں کی سطح پر۔
میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں: بھائی ! اپنے آپ کے ساتھ انصاف اور نرمی کا معاملہ کریں، اس لیے کہ ہر انسان خطاکار ہے اور بہترین خطاکار وہ ہے جو خوب توبہ کرنے والا ہو۔
آپ اپنی غلطی کے بارے میں اس طرح بات کرتے ہیں جیسے آپ فرشتوں کے درمیان رہ رہے ہوں جو گناہ نہیں کرتے ہیں: “جو کوئی گناہ سے پاک ہے وہ مجھ پر پتھر پھینک دے”، ڈھائی سال سے آپ اپنے اس عمل پر افسردہ ہیں، جس کی وجہ سے آپ جسمانی اور نفسیاتی طور پر تکلیف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
یہ حقیقت میں غلط رویہ ہے کہ آپ اس سارے دورانیےمیں اپنے آپ کو الزام تراشی اور ملامت کا ہدف بناتے رہے۔ مختلف خیالات آپ کو پریشان کرتے ہیں اور لوگوں کی نظریں آپ کو بدلی بدلی سی لگتی ہیں، گویا کہ وہ تحقیرانہ ہیں اور وہ آپ کے اندر عیب ڈھونڈنے میں لگی ہوئی ہیں۔ کبھی کبھی ان کی نظریں نارمل ہوسکتی ہیں، لیکن آپ اپنے رویے کی وجہ سے ان کو ایسا سمجھتے ہیں۔
آپ کو چاہیے تھا کہ لوگوں کے درمیان تمہاری باتیں چلانے والوں کو چھوڑ دیتے جب کہ آپ نے اپنی غلطی کو درست کر لیا تھا اور اسے مٹا دیا تھا۔ اس لیے کہ یہ چغل خوری ہے۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ “چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا” اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ، فرمایا: “کیا میں تمہیں بہترین لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں کہ وہ کون ہیں،؟ انہوں نے کہا، ضرور بتائیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،! آپ نے کہا کہ وہ لوگ جنہیں آپ جب دیکھیں، تو تمہیں اللہ عزوجل یاد آجائے۔ اور پھر پوچھا: کیا میں آپ کو، آپ میں سے برے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں، وہ لوگ جو چغل خوری میں پسش پیش رہتے ہیں، پیاروں میں فساد پھیلاتے ہیں اور پاک لوگوں میں عیب تلاش کرتے ہیں۔
چغل خوری کے سنگین نتائج ہوتے ہیں؛ یہ پیاروں کو الگ کرتی ہے، رشتوں کو کاٹ ڈالتی ہے، بات چیت کو روکتی ہے، اور گھروں کو اجاڑدیتی ہے۔ آپ کی پوسٹ پھیلانے والے نے بہت برا کیا، اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کا انجام بہت برا ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ آپ اپنے رویے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو کسی مجلس صلح میں جہاں ایک حکیم ودانش وبینش رکھنے والا بھی موجود ہو، جو آپ کو جانتا بھی ہو اور آپ کے مقام کا قدرداں بھی ہو، نیز وہ پارٹی بھی جس کی آپ نے اہانت کی ہے۔ اور وہ شخص بھی موجود ہو جس نے آپ کا پوسٹ چوری کرکے ذاتی مفاد کی خاطر مشتہر کیا ہو۔
آپ کے لئے یہ بات کافی ہے کہ آپ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، اور یہ کہ آپ نے فوراً اس پوسٹ کو مٹا دیا۔ اور پوسٹ کی تشہیرکا گناہ اور دلوں کو مجروح کرنے کا گناہ اسی کی گردن پراُس وقت تک ہے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے اور آپ کو راضی نہ کرے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ احساس ندامت اور ضمیر کی ملامت چغلی کھانے والا محسوس کرے، جو تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ وہ جس نے کچھ لکھا اور پھر اپنی غلطی سے رجوع کیا، ہم سب غصے کے دوران کمی کوتاہی کا شکار ہوتے رہتے ہیں، اور دانا وہی ہے جس نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا، نہ کہ کسی اور کی غلطیوں سے۔
جی ہاں! زندگی کے اسباق اکثر سخت ہوتے ہیں، لیکن وہ بہت مفید ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
غصہ کنٹرول کرنے کے بارے میں مزید جاننے کا ایک موقع اور کیا ہی اچھا ہو کہ آپ اپنے شاگردوں کو (غصہ اور اس کے متعلقات اور نقصانات کے بارے میں ( یہ سکھائیں۔
فیس بک کی حقیقت کو مزید سمجھنے کا موقع: ہم اسے افکار کے اظہار کی جگہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن اتنے آزادانہ طور پر نہیں جتنا کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔ اور پوسٹس شیئر کرنے کوہلکا لیتے ہے۔ واضح رہے الفاظ کی اپنی تاثیر ہوتی ہے جن کی طرف لوگ توجہ نہیں دیتے، جس کی وجہ سے بعد میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اسی لیے کہتے ہیں: کہ بولنے سے پہلےتولو، اور کہتے ہیں کہ جو کچھ معلوم ہے وہ سب بیان نہیں کیا جاتا اور جس بات کے کہنے کا وقت آیا ہے، ضروری نہیں اس کا ذکر کرنا بھی صحیح ہو۔ اور کہا جاتا ہے کہ انسان کی شخصیت دو چیزوں کا مرکب ہے (دل اور زبان)۔ اور کتنے ہی لوگوں کی زبان نے اپنے ساتھیوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتارا ہے۔ تو ذرا رکو میرے پیارے بھائی! اس سے پہلے کہ آپ لوگوں کے ساتھ کچھ شیئر کریں، کیونکہ کوئی اس انتظار میں ہے کہ آپ کب غلطی کریں اور آپ نہیں جانتے، ان میں سے کوئی ایک دوستوں کی فہرست میں آپ کے ساتھ ہے، اور وہ بدترین دشمنوں میں سے ایک ہوسکتا ہے۔
آئیے ہم ہمیشہ اپنے اوپر خدا کی نگرانی کو محسوس کریں، جو سب سے اہم سبق ہے ۔ اللہ فرماتا ہے:
“کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔”
ہماری حرکات و سکنات کو فرشتے دیکھتے ہیں جو انہیں لکھتے اور ریکارڈ کرتے ہیں۔ اس بات کا یقین کرنا از حد ضروری ہے کہ خدا ہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہمیں لوگوں کو رہنے دینا چاہیے )کہ وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور کہتے ہیں؟)، جب تک ہم اچھا کرتے ہیں اورہماری نیت صاف ہے۔
میرے پیارے بھائی! یہ معاملہ اپنے آپ کو اس معاملے میں الجھا دینے سے کہیں زیادہ آسان ہے کہ آپ ان تمام منفی جذبات کے ساتھ زندگی بسر کریں۔
پہلی شرط: اخلاص، یعنی بندہ اپنی توبہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔
دوسرا: گناہوں سے مکمل دست برداری۔
تیسرا:گناہوں پر ندامت و شرم ساری۔
چوتھا: اس پر واپس نہ آنے کا عزم۔
پانچواں: توبہ اس سے پہلے ہونی چاہیے کہ بندہ حالت نزع کو پہنچ جائے۔
توبہ کے ذریعے اپنے بوجھ کو ہلکا کرو، اور خدا اسے اپنے اذن سے قبول کرے گا، اور تمہاری روح کو آرام نصیب ہو گا، بھلے ہی لوگ آپ کو مختلف نظروں سے دیکھتے رہیں۔ اس سے وہ گنہگار ہو جاتے ہیں اور تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اور زمانہ گردش میں ہے، میرے پیارے بھائی! اورگردش ایام حیرت انگیز طور پر مخلوق پر گھومتے ہیں۔ کیا وہ شخص مامون ہوسکتا ہے جو اپنے )برے( معاملات کے نتائج پھیلا رہا ہے اور ہو سکتا ہے، اس کے نتیجے میں اسے ایسے لوگ ملیں، جو اس پر رحم نہ کریں۔ جیسا کہ اس نے آپ کی کمزوری پر رحم نہیں کیا۔
اللہ ہم سب کی مغفرت فرمائے۔ اور جو کچھ اس کی رضا ہے اسے ہمارے لئے مقدر کرے۔
مترجم : ڈاکٹر بہاء الدین