جمال الدین افغانی انیسویں صدی کے نمایاں اسلامی مفکرین میں سے تھے، جنہوں نے اسلامی اصلاحی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اُنہوں نے تعلیم و تربیت کو خصوصی اہمیت دی اور بیداری و ترقی کا بنیادی ذریعہ قرار دیا۔
افغانی کے فکری تربیتی تصورات کا خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے: نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر زور دینا تاکہ وہ دنیا کے سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات میں بھرپور کردار ادا کرسکیں؛ عورتوں کی تعلیم کی حمایت تاکہ وہ معاشرتی تعمیر میں شریک ہو سکیں؛ تعلیم کو معاشرتی تبدیلی اور اصلاح کا وسیلہ بنانا؛ مسلمانوں کے درمیان تفریق کے تمام اسباب جیسے قوم پرستی، وطن پرستی اور قبائلیت کا خاتمہ؛ سیاسی گروہوں کے درمیان تعاون اور اتحاد پیدا کرنا؛ امتِ مسلمہ کو آزادی دلانا؛ اسلامی وحدت کا قیام؛ اور مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت کو منظم کرنا۔
ابتدائی زندگی اور جدوجہد:
جمال الدین افغانی 1838ء میں افغانستان کے قصبے اسد آباد میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد سید صفتر، سادات حسینی میں سے تھے، اور ان کا نسب امام زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب تک پہنچتا ہے۔
جمال الدین افغانی ایک تعلیم یافتہ اور دینی اقدار کی حامل گھرانے میں پروان چڑھے۔ بچپن ہی سے اُن میں ذہانت کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ کم سنی میں قرآنِ مجید حفظ کیا، اور دینی علوم، فلسفہ، تاریخ اور زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔ عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا۔
پندرہ برس کی عمر میں وہ افغانستان سے ایران گئے، جہاں مشہد اور قم کی جامعات میں تعلیم حاصل کی۔ 1857ء میں وہ جدید علوم کے مطالعے کے لیے ہندوستان چلے گئے، جہاں اُن کی ملاقات مختلف دینی، فکری اور سیاسی شخصیات سے ہوئی۔
1861ء میں وطن واپس لوٹے اور اعلیٰ سیاسی مناصب پر فائز ہوئے، حتیٰ کہ وزیرِاعظم بھی بنے، مگر 1868ء میں محمد اعظم خان کے اقتدار سنبھالنے پر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
بعد ازاں مصر پہنچے اور کچھ وقت وہاں قیام کیا، اس دوران جامعہ ازہر بھی جاتے رہے، اور اُن کا گھر علمی طلبہ، بالخصوص شامیوں، کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ پھر "الأستانة” (ترکی) گئے، جہاں اُنہیں عزت و مقبولیت ملی، اور ان کی اصلاحی دعوت کو بھی پذیرائی حاصل ہوئی۔
مگر جلد ہی وہاں مخالفت کا سامنا ہوا تو دوبارہ مصر لوٹ آئے۔ وہاں لوگوں نے اُنہیں بھرپور محبت و عزت دی، جس کی وجہ سے اُن کے گرد ایک بڑا حلقہ جمع ہو گیا۔ اُن کی شہرت اور اثرورسوخ پر بعض علما نے حسد کیا۔
انہوں نے مصر کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیا اور حکومت کے نظام میں اصلاح کی ضرورت پر زور دیا، جس کی وجہ سے حکمران طبقہ اُن سے بدظن ہو گیا، خاص طور پر انگریزوں کے خلاف اُن کی کھلی مخالفت کی وجہ سے۔
جب خدیوی توفیق پاشا مصر کا حکمران بنا تو جمال الدین افغانی کو ملک بدر کر دیا گیا۔ 1879ء میں وہ ہندوستان چلے گئے جہاں آٹھ سال قیام کیا، پھر لندن اور پیرس گئے۔ پیرس میں شیخ محمد عبدہ سے ملاقات ہوئی اور دونوں نے مل کر "العروة الوثقىٰ” اخبار جاری کیا۔
ایران کے شاہ ناصر الدین نے جمال الدین افغانی کو تہران آنے کی دعوت دی۔ وہاں اُنہیں عوامی محبت اور فکری اثر حاصل ہوا، مگر جب شاہ کو اُن کی فکر سے خطرہ محسوس ہوا تو رویہ بدل گیا۔ افغانی نے اجازت لے کر ایران چھوڑا، ماسکو اور پھر پیٹرز برگ گئے، مگر وہاں بھی حالات نہ بدلے، لہٰذا بصرہ ہوتے ہوئے لندن چلے گئے۔
تعلیمی افکار:
جمال الدین افغانی کے تعلیمی فکر کا انحصار کچھ بنیادی اصولوں پر ہے، جن میں سے نمایاں اصول ہمیں یہ ملتے ہیں:
اللہ کی مرضی ہر مرضی پر فوقیت رکھتی ہے: جمال الدین افغانی اپنی زندگی کے بارے میں کہتے ہیں کہ "بے شک میں نے اپنی روح کو دنیاوی بندھنوں سے آزاد کیا، اور اللہ تعالیٰ، جو مالکِ کائنات ہے، جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، جس کی مثال نہیں، سے تعلق قائم کیا، اس طرح میں نے تاریکیوں کی دنیا سے نجات پائی اور روحانی دنیا سے جڑ گیا، اور بندوں کے خالق کی اطاعت اور آخری نبی اور ان کے پرہیزگار صحابہ کی پیروی میں مشغول ہو گیا”۔
اسلام تربیت کی بنیاد ہے: جمال الدین افغانی کا خیال تھا کہ اسلامی تربیت ہی وہ ہے جو ایک صالح فرد تیار کرتی ہے جو اپنے دین اور وطن کی خدمت کرنے کے قابل ہو۔
تعلیم، انقلاب کی بنیاد ہے: جمال الدین افغانی کا خیال تھا کہ تعلیم انقلاب کی بنیاد ہے، جو فرد کو سوچنے، تجزیہ کرنے، فیصلے کرنے اور مسائل حل کرنے کی اہلیت دیتی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ تعلیم فرد کی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے تاکہ وہ معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں حصہ لے سکے۔ ان کا ماننا تھا کہ تعلیم فرد کو علم اور معرفت فراہم کرتی ہے، اور اس کی ذہنی، جذباتی اور سماجی صلاحیتوں کو فروغ دیتی ہے، جس سے شعور عام ہوتا ہے اور انقلاب و ترقی ممکن ہوتی ہے۔
جامع تربیت: جمال الدین افغانی جامع تربیت کے حق میں تھے جو فرد کی تمام شخصی پہلوؤں یعنی ذہنی، جذباتی اور سماجی پہلوؤں پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے نزدیک تربیت کو فرد کی تمام صلاحیتوں کو ترقی دینی چاہیے تاکہ وہ معاشرتی مشکلات کا مقابلہ کرسکے۔ یہ تربیت متوازن اور مکمل شخصیت بنانے میں مدد دیتی ہے، فرد کو بدلتی ہوئی صورتِ حال سے ہم آہنگ ہونے کے قابل بناتی ہے، اور انقلاب و ترقی میں فرد کا حصہ ڈالتی ہے۔
عملی تربیت: جمال الدین افغانی عملی تربیت کے حامی تھے جو طلباء کی عملی مہارتوں اور صلاحیتوں کو فروغ دیتی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ عملی تربیت فرد کو عملی زندگی کے لیے تیار کرتی ہے، اور اسے پیداوار اور ایجاد کی صلاحیت دیتی ہے، جو انقلاب کے حصول میں مددگار ہے۔
آزادانہ تربیت: جمال الدین افغانی نے آزادانہ تربیت کی حمایت کی، جو طلباء کو آزادانہ سوچ، تحقیق، بحث اور خیالات کے اظہار کی آزادی دیتی ہے، تاکہ وہ تخلیق اور جدت پیدا کرسکیں۔ ان کے مطابق، آزادانہ تربیت طلباء کی ذہنی اور فکری صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے، انہیں مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے، اور ترقی میں مدد دیتی ہے۔
مذہبی تعصب کو ترک کرنا اور اسلام کی اساس کی طرف واپسی کی دعوت دینا، جب کہ سابقہ علماء اور ان کے اجتہادات کا احترام کرنا۔
اجتہاد کے دروازے کو کھولنے کی دعوت اور اسے بند کرنے اور روکنے والوں کی مخالفت۔
اسلامی یونیورسٹی اور اس کے تصور کی بحالی کی دعوت تاکہ مسلمانوں کو متحد کیا جائے اور ان کی صفیں یکجا ہوں۔ وہ کہتے ہیں: "میں نے اپنے ذہن کو مشرق کی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کی تلاش کے لیے مخصوص کیا، اور پایا کہ اس کی سب سے مہلک بیماری اس کے لوگوں کا انتشار، ان کی رائے کا انتشار اور اتحاد پر اختلاف اور اختلاف پر اتحاد ہے، اس لیے میں نے ان کی زبان ایک کرنے اور انہیں ان کے قریبی خطرہ یعنی مغربی عزائم کے بارے میں خبردار کرنے کی کوشش کی”۔
عقل کو غلط عقائد سے آزاد کرنا: یعنی عوام کے ذہنوں سے مذہبی عقائد اور شرعی نصوص کی غلط تفہیم کو نکالنا۔
مغرب کی (اچھی باتوں میں) تقلید: جس میں مغربی تہذیب کی طاقت اور ترقی کی بہترین چیزیں اپنانا، اور جو چیزیں اسلام کے اصولوں، مسلمانوں کی ثقافت اور رواج سے مطابقت نہیں رکھتیں، انہیں مسترد کرنا۔
استبدادی حکومت کی مخالفت جو شوریٰ کے اصول پر قائم نہ ہو، اور استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد اور تقسیم کو ختم کرنے کے لیے اسلامی یونیورسٹی کی تحریک کے ذریعے اتحاد کی دعوت دینا۔
استعمار کے خلاف جدوجہد: لوگوں کو اس دشمن کے خطرے اور اس کے سبب ان کی پسماندگی اور تاخیر کے اثرات سے آگاہ کرنا، جس کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے گئے، جیسے صحافت، تعلیم، خفیہ اور علانیہ اجتماعات، اور مختلف سفر۔
جمال الدین افغانى کے خیالات نے احیائے اسلام کی تحریک پر کس طرح اثر ڈالا؟
جمال الدین افغانى کے خیالات نے اسلامی تحریکِ تجدید پر گہرا اثر ڈالا، جس سے مسلمانوں میں اسلامی شعور بیدار ہوا اور اپنی ترقی کے لیے کام کرنے کی تحریک ملی۔ یہ اثرات درج ذیل میدانوں میں واضح ہوئے:
فکری میدان: جمال الدین افغانى کے خیالات نے جدید اسلامی فکر کی تشکیل میں مدد کی ساتھ ہی جدید علوم اور سائنسز سے استفادہ کی اہمیت کو اجاگر کیا تاکہ اسلام کو بہتر طور پر سمجھا اور نافذ کیا جا سکے۔
سیاسی میدان: جمال الدین افغانى کے نظریات نے مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کیا، اور اسلامی اتحاد، آزادی اور انصاف کی تحریک کو فروغ دیا۔
معاشرتی میدان: جمال الدین افغانى کے خیالات نے سماجی شعور کو فروغ دیا، جس سے تعلیم کے پھیلاؤ اور جہالت و ناخواندگی کے خلاف جدوجہد کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
مفکرین اور اسلامی تحریکیں: محمد عبده، جو جمال الدین افغانى کے شاگرد تھے، ان کے خیالات سے بہت متاثر ہوئے اور مصر و عرب دنیا میں ان کا فروغ کیا۔ اسی طرح رشید رضا اور جماعتِ اخوان المسلمین بھی جمال الدین افغانى کے خیالات سے متاثر ہوکر انہیں پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔
جمال الدین افغانی کی تالیفات:
الی الامۃ الاسلامیہ: یہ رسالہ انھوں نے اتحاد امت کی خاطر لکھا
رسالۃ الی علماء المسلمین: تجدید دین کے لیے علمائے دین کے نام رسالہ
کتاب التوحید: توحید کے موضوع پہ
الحکمۃ فی التشریع الاسلامی: یہ کتاب اسلامی قوانین اور ان کی حکمتوں پہ لکھی
البيان فى الإنجليز والأفغان: یہ کتاب انگریزوں اور افغانوں کی تاریخ پہ لکھی جس میں انگریزوں اور افغان قوم کے درمیان جنگوں پر روشنی ڈالی۔
تتمة البيان فى تاريخ الأفغان: افغان تاریخ پر۔ ان کی رائے تھی کہ افغان قوم مختلف قبائل کا مجموعہ ہے جن کا مآخذ ایران ہے اگرچہ اس پہ اختلاف ہے۔
العروۃ الوثقیٰ: یہ رسالہ آپ نے محمد عبدہ کے ساتھ مل کر جاری کیا۔
التربیۃ والتعلیم: تعلیم و تربیت کے موضوع پر
الاخلاق الاسلامیہ
الدولۃ الاسلامیہ: ایک آزاد اور عدل پہ مبنی ریاست اسلامی کا تصور
الاصلاح الاجتماعی
جمال الدین افغانى نے اپنی زندگی اسلام کے بلند مقام کے لیے وقف کی، نوجوانوں کی تربیت اور مسلمانوں کی حالت زار کی اصلاح کے لیے کام کیا، تاکہ انہیں معاشرتی پسماندگی، سیاسی استبداد، اور تہذیبی زوال سے نکالا جا سکے، اور انہیں اپنے مذہب کے دشمنوں اور ان کے وجود کو مسخ کرنے والوں کے شکنجے سے آزاد کیا جاسکے۔ اسی وجہ سے وہ حکیم مشرق، فلسفی اسلام، اور جدید دور میں مسلمانوں کی تحریکِ نو کے بانی کہلائے۔
افغانى کے نظریات کے باعث دنیا بھر میں جدید اسلامی مدارس وجود میں آئے، جنہوں نے مسلمانوں میں علم و معرفت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی کے ساتھ اسلامی اصلاحی تحریک نے اسلام کی تجدید اور اس کے عملی نفاذ پر زور دیا، اور تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی، جس کے نتیجے میں کئی اسلامی ممالک میں تعلیمی ترقی اور تجدید عمل میں آئی۔
مصادر:
الدكتور محمد عبد العليم حسنين: حقيقة جمال الدين الأفغاني، ص 52
إسلام أون لاين: جمال الدين الأفغاني.. مصلح رغم الجدل.
جمال الدين الأفغاني، ومحمد عبده: العروة الوثقى ص 13.
محمد ألنتي: جمال الدين الأفغاني.. فيلسوف الشرق وموقظ الإسلام.
الدكتور علي محيي الدين القره داغي: حاجة الأمة الإسلامية إلى فكر جمال الدّين الأفغاني الحسيني للإصلاح.
مترجم: زعیم الرحمان