بقلم: ڈاکٹر مخلص برزق
یہ میرا ہفتہ وار آرام کا دن تھا، اور چونکہ یہ صحت کے حوالے سے ہفتہ وار لاک ڈاؤن کا دن بھی تھا، اس لیے میرے اندر گھر میں رہنے اور ایسی مصروفیت میں وقت گزارنے کی خواہش دو گنا ہو گئی تھی جس کا میرے عام روزمرہ کے کاموں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ انہی مشغلوں میں سے ایک اپنے گھر کی بالکونی میں لگائے ہوئے پودوں کی دیکھ بھال ہے، جیسے شامی یاسمین، گارڈینیا کا پھول، عطر کی پتی، اور بوڑھا مرجھایا ہوا مرچ کا پودا۔ مجھے ہمیشہ یہ احساس رہتا کہ میں نے اِن پودوں پر ظلم کیا ہے کیونکہ یہ ایک ایسے شخص کے زیرِ نگرانی ہیں جسے باغبانی میں کوئی خاص تجربہ نہیں۔ چنانچہ ان کے ساتھ میرا سارا معاملہ یہ ہے کہ بس انہیں زندہ رکھنے کی کوشش کروں، اگرچہ زندگی کی دہلیز پر ہی موت مختلف صورتوں میں ان کی تاک میں رہتی ہے؛ کبھی بہت چھوٹے مکڑی کے بچوں کی شکل میں آتی ہے جو انتہائی سفاکی کے ساتھ نئی کونپلوں پر حملہ کر کے اپنی موت کا جال بُنتی ہیں، کبھی سیاہ یا سفید فنگس کی صورت میں، جو نہ چھوڑتی ہے نہ باقی رکھتی ہے۔ کبھی سرد برفانی آندھی میں یا جھلسا دینے والی گرمی کی لہر میں، یا کبھی پانی کی زیادتی یا کمی میں موت ان کا پیچھا کرتی ہے۔ میں بار بار کوشش کرتا ہوں، لیکن موت اکثر میری کوششوں پر ہنستی ہے اور میری محنت، امیدوں اور خیالی خوبصورت تصویروں کے باوجود وقتاً فوقتاً میرے لگائے ہوئے پودے اچانک ختم ہو جاتے ہیں۔ میرا واحد سہارا یہ ہے کہ میں نے سارے اسباب بروئے کار لائے، اور موت ایک پیالہ ہے جسے ہر کسی نے پینا ہے، قبر ایک دروازہ ہے جس میں ہر فرد کو داخل ہونا ہے، اگر یہی حال انسان کا ہے تو میں پودوں یا کسی اور شے پر کیوں افسوس کروں!
عام دنوں کے برعکس، آج میرے موبائل نے زور سے وائبریٹ کیا اور متعدد فوری پیغامات موصول ہوئے۔ یہ سب ایک ایسے شخص کے جنازے میں شرکت اور کفن و دفن کے انتظامات سے متعلق تھے جو کورونا وائرس کا شکار ہوا تھا، وہ شخص زیادہ دیر بیمار نہ رہا اور اس کی روح اپنے رب کے پاس منتقل ہو گئی۔ میرے منہ سے بے اختیار آہ نکلی! سوچا، کیا میں اس دن جنازے میں شرکت کا اجر لے سکوں گا؟ جب کہ اس دن صرف خاص اجازت والے لوگوں کو باہر نکلنے کی اجازت تھی۔ جلد ہی ایک پیغام آیا کہ شرکت کرنے والوں کے لیے گنجائش ہے۔ میں نے فوراً اپنے کام چھوڑے اور جنازے کے جلوس میں شامل ہو گیا۔ معاملہ دو قیراط اجر کا تھا جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: “جو شخص جنازے کی نماز میں شریک ہو اس کو ایک قیراط ملتا ہے، اور جو دفن ہونے تک ساتھ رہے اس کو دو قیراط ثواب ملتا ہے۔ پوچھا گیا: دو قیراط کیا ہے؟ فرمایا: جیسے دو بڑے پہاڑ۔” [صحیح بخاری]
ہم سب سے پہلے غسل خانے پر رکے، جہاں میت کو غسل دیا گیا تھا۔ ہمارا آنا اس وقت ہوا جب میت تابوت سے نکالی گئی اور نماز جنازہ کے لیے عارضی طور پر ایک جگہ رکھی گئی، اور پھر اسے بلدیہ کی خصوصی گاڑی میں منتقل کیا گیا۔
ہم قطار میں کھڑے ہونے والے ہی تھے کہ ایک سات سالہ بچہ میت کے تابوت کے قریب آیا اور حیرت و استفسار سے ہم سب سے مخاطب ہوکر بولا: “یہ بابا ہیں … مر گئے نا؟ نکالو مجھے دیکھنے دو!” ہم میں سے کوئی بھی جواب دینے کی ہمت نہیں کر سکا، اور جب اس نے ہمارے چہروں پر خاموشی دیکھی تو وہ ہمیں چھوڑ کر تابوت کے گرد معصومیت سے چکر لگاتا رہا، اس کی معصومیت نے ہماری آنکھیں نم کر دیں۔ موت کا رعب اور ہول اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جب ایک بچہ، جو نہ اس کا درد جانتا ہے نہ حقیقت سمجھتا ہے، کھلی آنکھوں سے اس سانحے کا سامنا کرے۔ میں نے خود پر قابو پایا اور آنسو پونچھے، مگر یہ منظر میرے ذہن میں محتضر تھا جب ہم نے نماز جنازہ پڑھا۔ مجھے اس وقت حبیبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و مہربانی یاد آئی، جو مشکل اوقات میں بھی بچوں کو نظر انداز نہیں فرماتے تھے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی اور دعا کی:
“اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اللّهم من أحييتَه منَّا فأحيِهِ علی الإیمان، و من توفّیتَه منّا فتوفّه على الإسلام، اللَّهم لا تحرمنا أجرَه ولا تضلنا بعده۔” [صحیح ابی داؤد]
وہ ہمارا چھوٹا سا بچہ تھا، جس کی معصومیت نے سب کو رُلا دیا، اور ہمارا بڑا، یعنی مرنے والے کا بوڑھا والد جس پر بڑھاپا طاری تھا، اس نے ہمارے دلوں اور روحوں کے زخموں کو ہرا کر دیا، جب اس نے اپنے آپ کو بمشکل دو افراد کے سہارے قبر کے کنارے پہنچایا اور خاک پر سوتے اپنے بیٹے سے، گویا صرف وہ دونوں وہاں ہوں، باتیں کرنے لگا۔
وہ گریہ و زاری کے ساتھ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتا رہا، “اے میرے بٹے! اگر فرشتہ تجھ سے پوچھے کہ تیرا رب کون ہے تو کہہ دینا: میرا رب اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور اگر تجھ سے تیرے نبی کے بارے میں پوچھے تو کہہ دینا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔”
وہ رویا اور دوسروں کو بھی رُلایا اور باپ اپنے بیٹے پر شفقت و محبت کا اظہار کرتا رہا جس کا جسم مٹی میں دفن تھا۔ اس کا یہ دوسرا بیٹا نہیں تھا جسے وہ دفن کر رہا تھا، ایک کو سڑک حادثے میں اور دوسرے کو ڈوب کر کھو چکا تھا۔
قبر کے کنارے خود بخود ایک دل پگھلانے والی نصیحت جاری ہوئی، جو اس وقت کے لحاظ سے فطری تھی کہ کتنے ہی فلسطینیوں کو استنبول نے زندگی میں بھی اپنی چھت دی اور موت کے بعد بھی اپنی زمین عطا کی۔ ہم نے اس فراق و خوف کی زبان واضح طور پر سنی کہ کہیں ہر وہ شخص جو یہاں اپنی سرزمین کو واپس لوٹنے کی امید میں رکا وہ ہمیشہ یہیں نہ رہ جائے۔ اسی کیفیت میں میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ میں اپنی مٹی میں گہرائی تک دفن ہونے کی تمنا نہ پا سکوں۔ یہ سب اچنبھے کی بات نہیں، یہاں تک کہ حضرت موسیٰؑ نے دنیا کی آخری دعا یہی مانگی تھی کہ “اے اللہ! مجھے مقدس سرزمین کے اتنا قریب کر دے جتنا دور تیر چلا جاتا ہو۔ اور اللہ نے ایسا ہی کیا۔”
یہ سن کر کوئی عجیب نہیں لگا جب میں نے خود سنا کہ “اگر ہمیں واپسی کا حق صرف اس بات پر مل جائے کہ کم از کم اپنی پاک سرزمین میں دفن ہو جائیں تو وہی کافی ہے” یہ جملہ میں نے اپنے بچوں، اہل و عیال اور احباب سب کو بار بار سنایا اور اسے شعار بنایا ہے۔
یہ مصرع میں نے ان سب لوگوں سے بھی سنا، جنہیں جبراً اپنے وطن سے نکال دیا گیا، وہ جسمانی طور پر وطن سے نکل گئے لیکن دل وہیں چھوڑ آئے، اور کیوں نہ ہو، روحیں آج بھی اسی آسمان پر پرواز کرتی ہیں۔
ان سب نے مختلف ممالک میں وقت گزارا، مگر ان کے دل میں واحد اصل وطن فلسطین ہی باقی رہا، جو اب بھی ان کے اندر بستا ہے۔ فلسطین وہ جنت تھی جس کی نہریں، درخت، خوشبو اور ہوا انہوں نے دیکھی، سونگھی، اور کبھی اس کا متبادل نہ پایا۔ اسے ان کے چہروں کے نقوش میں، لبوں کی جنبش میں اور آنکھوں کے آنسوؤں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انہی میں میرے والد مرحوم بھی ہیں جس نے کہا:
“برغمیَ ذلك الوطنُ الذي قد كانَ يسكُنُني، برغمي صار يسكُنُني!”
ہم نے اپنی تھکی ہاری روحوں کے ٹکڑے سمیٹے، قبروں کے باسیوں کو الوداع کہا اور دل میں یہ بات رکھی کہ شاید جلد دوبارہ ان کی زیارت کو آ جائیں، کیونکہ موت کسی موسمی مہمان کی طرح نہیں رہی بلکہ اب ہمارے معاشرے کی سب سے زیادہ ملاقاتیں یا تو قبروں پر ہوتی ہیں یا تعزیتی مجالس میں۔ پہلے یہ ملاقاتیں شادی ہالز میں ہوتیں، وہ بھی کورونا کی وجہ سے بند ہیں۔ اب جب کہ موت آس پاس میں زیادہ سے زیادہ اپنوں کو ہم سے جدا کر رہی ہے، اب اتنے سارے جنازے دیکھ کر ہمیں خوف ہے کہ شاید یہ موسم ہمارے دوستوں اور پیاروں کے الوداع کا موسم ہی نہ بن جائے، اب تو ہمارے سوشل میڈیا پیجز بھی تعزیت اور اعلان وفات کے اعلانات سے بھر گئے ہیں۔
قبرستان کے دروازے سے نکلتے ہی حیرانی ہوئی کہ اس کے بالکل ساتھ گندم کا ایک بڑا کھیت تھا۔ اب پتہ چلا کہ میں اب تک ایک دوسری دنیا میں تھا جس نے مجھے آس پاس کے مناظر سے بےخبر کر دیا تھا۔ میت کو غسل دینے اور کفنانے کے وقت سے لے کر یہاں تک ایک ڈیڑھ گھنٹہ طویل سفر رہا، اس پورے دورانیے میں دل و دماغ بس مرنے والے، اس کے والدین، اس کے گھر اور اس کی آخرت کی رہائش پر مرکوز رہا۔
میری نگاہ گندم کی طلائی سنہری بالیوں پر ٹھہری جن کا رنگ چمکتا تھا، دل کو بھلا معلوم ہوتا تھا۔ اچانک سورۃ البقرہ کی آیت یاد آ گئی: ” جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے جس میں سے سات بالیں نکلتی ہیں اور ہر بال میں سو دانے ہوتے ہیں۔ اور اللہ جس کے لیے چاہے بڑھا دیتا ہے، اور اللہ وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔” البقرة: 261] میں نے غور کیا کہ ان قبروں میں اہل قبور اور ان سنہری بالیوں کے درمیان کیسی گہری مناسبت ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے اسی مقام پر جمع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “اور ہماری طرف سے جو روزی ملی ہے اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے پھر وہ کہے: اے رب! مجھے تھوڑی مہلت دے دے کہ میں صدقہ دوں اور نیکوں میں شامل ہو جاؤں۔ لیکن جب کسی کی مدت پوری ہو جاتی ہے تو اللہ ہرگز مہلت نہیں دیتا، اور جو تم کرتے ہو اللہ خوب جاننے والا ہے۔ [سورۃ المنافقون: 10-11]
یہ آیت ہر اس شخص کو متوجہ کرتی ہے جو کلام اللہ میں تدبر کرتا ہے کہ موت کے وقت انسان کو سب سے زیادہ کس چیز کی حسرت ہوتی ہے؟ اس وقت خاص طور پر صدقے کی آرزو ہوتی ہے؟ حدیثیں صدقہ کی فضیلتوں سے بھری پڑی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مردے دنیا میں لوٹنا چاہتے ہیں تاکہ صدقے کا موقع نہ گنوا دیں، مگر دنیا میں واپسی ممکن نہیں۔
میں قبرستان کے ویران کنارے، سنہری گندم کی لہراتی فصل کے کنارے کافی دیر کھڑا رہا۔ قبروں کو دیکھتے ہوئے گویا محسوس ہوا کہ وہاں مدفون لوگ مٹی کے بوجھ تلے بند پڑے ہیں، اور وہ سب جیسے میرے ساتھ یہی منظر دیکھ رہے ہوں۔ گویا ان میں سے کوئی اپنے دل میں آرزو کر رہا ہو کہ کاش قریب کی یہ بالیاں اس کے لیے صدقۂ جاریہ بن جائیں، یا کوئی اس کے نام پر مرنے کے بعد صدقہ کر دے۔
لوگ مجھے سنہری بالیوں میں کھونے اور ان کی تصویر بنانے میں چھوڑ گئے، ایک لمحے کے لیے میں نے اپنے جسم کو بھلا دیا اور اپنی روح کو ان سنہری بالیوں کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا۔
مترجم: سجاد الحق