تقویٰ ایک عظیم خزانہ ہے، جو مسلمان کو مل جائے تو وہ اس میں گوہرنایاب، بے شمار بھلائیاں، پاکیزہ رزق، بڑی کامیابی، عظیم فائدہ اور اعلیٰ سلطنت پاتا ہے۔ گویا دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں اس ایک صفت کے تحت جمع ہو جاتی ہیں۔
یہ آخرت کے لیے بہترین توشہ ہے، انسانوں کے درمیان فضیلت کا معیار ہے، خوبیوں کا سرچشمہ ہے اور اعلیٰ اخلاق و اوصاف کا خزینہ ہے۔ رحمت، وفا، صدق، عدل، پرہیزگاری، سخاوت اور عطا جیسے اوصاف اسی کی دَین ہیں۔ تقویٰ تنہائی میں بہترین ساتھی ہے اور ہلاکت سے بچانے والا ذریعہ ہے۔
تقویٰ: معانی و مفہوم شرعی
تقویٰ کا مفہوم سمجھنے کے لیے ابن منظور نے اپنی مشہور کتاب لسان العرب میں ابن الاعرابی سے جو نقل کیا ہے، وہ روشنی ڈالتا ہے کہ “التُّقاة، التَّقيَّة، التقوى، اور الاتِّقاء” ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ ابن منظور کے مطابق “وقاه الله” کا مطلب ہے اللہ نے اسے محفوظ رکھا یا بچایا۔ آپ “وقیت الشيء” اس وقت بولتے ہیں جب تم اس کو محفوظ رکھتے ہو اور نقصان سے بچا کر اسے ڈھانکتے ہو۔
اسی طرح “توقَّى” اور “اتقى” بھی اسی معنی میں آتے ہیں۔ “وقاء” اور “وقاية” ہر وہ چیز ہے جو کسی چیز کو نقصان سے محفوظ رکھے۔ اگر کہا جائے کہ “وقاك الله شر فلان وقاية”، اس کا مطلب ہے اللہ نے تمہیں فلاں کے شر سے محفوظ رکھا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ تقی کی جمع اتقیاء ہے۔ یعنی ایک شخص “تقی” اس وقت کہلاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو نیک اعمال کے ذریعے عذاب اور گناہوں سے بچاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے:
“كنا إذا احمرَّ البأس اتقينا برسول الله – صلى الله عليه وسلم”
(جب جنگ کے دوران شدت آتی تو ہم رسول اللہ ﷺ کو اپنی ڈھال بنا لیتے تھے)۔
یعنی ہم آپ ﷺ کو دشمن کے سامنے رکھتے اور خود آپ کے پیچھے ہوتے۔
تقویٰ کی بہترین اصطلاحی تعریف امام راغب اصفہانی نے پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا:
“تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو اس چیز سے محفوظ رکھے جس سے ڈر ہو۔”
بعض اوقات خوف بھی تقویٰ کے لیے بولا جاتا ہے اور تقویٰ کو خوف، کیونکہ کسی چیز کے سبب کو اس کے مسبب کے نام سے اور مسبب کو سبب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ شرعی طور پر تقویٰ کا مطلب ہے:
“نفس کو ہر اس چیز سے بچانا جو گناہ کا باعث بنے، اور یہ محظورات (گناہ) کو ترک کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔”
تابعی طلق بن حبیب نے تقویٰ کی ایک نہایت جامع اورعمدہ تعریف کی ہے۔ انہوں نے فرمایا:
“تقویٰ یہ ہے کہ ثواب کی امید رکھتے ہوئے اللہ کی بخشے ہوئے نور بصیرت کی بنیاد پر اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے عمل کرنا اور اسی بصیرت کی بنیاد پراللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اللہ کی نافرمانی سے اجتناب کرنا۔“
تقویٰ اور اس کے مشتقات قرآن مجید میں کثرت سے ذکر کیے گئے الفاظ میں سے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ تقویٰ کی قدر و قیمت اور اس پر قرآن کا زور کس حد تک ہے۔ اس لیے کہ تقویٰ اس دین کا مرکزی محور ہے اور وہ اصل بنیاد ہے جس پر اس کے تمام احکام اور تشریعات قائم ہیں۔ حقیقت میں، تقویٰ ہر اس دین کی اساس ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا، اور ہر نبی کی وصیت کا مرکزی مضمون رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
“آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو نہ مانو، آسمانوں اور زمین کو ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے اور وہ بے نیاز ہے، ہر تعریف کا مستحق۔” [النساء: 131]
قرآن مجید نے تقویٰ کے بارے میں مختلف انداز میں گفتگو کی ہے، تاکہ اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے اور لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو۔ کبھی قرآن تقویٰ کا حکم دیتا ہے، کہیں انداز ترغیب کا ہوتا ہے، کبھی متقین کی صفات بیان کرتا ہے تاکہ انہیں اختیار کیا جائے اور کبھی تقویٰ کے نتیجے میں ملنے والے اجر و ثواب کا ذکر کرتا ہے۔
مثال کے طور پر، قرآن تمام انسانوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
“لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے” [النساء :1]
اور اللہ مومنوں کو بھی حکم دیتا ہے:
“اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، الله سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو” [آل عمران: 102]
اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم دیا:
“اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! الله سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو الله ہی ہے” [احزاب: 1]
اور اللہ نے سابقہ امتوں کو بھی تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ان کے انبیاء کی زبانی دیا۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی آیا:
“قوم نوح نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب ان کے بھائی نوح (علیہ السلام) نے ان سے کہا تھا: کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم الله سے ڈرو اور میری اطاعت کرو” [الشعراء: 105-108]
اسی طرح حضرت ھود علیہ السلام کی زبانی حکم دیا:
“قوم عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب ان کے بھائی ھود علیہ السلام نے ان سے کہا: کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمھاری طرف ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم الله سے ڈرو اور میری اطاعت کرو” [الشعراء: 124-126]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ تقویٰ یہ ہے کہ ہم اپنے اور اللہ کے عذاب کے درمیان ایک ڈھال بنائیں، اور یہ نیک اعمال کرنے اور گناہوں سے بچنے کے ذریعے ممکن ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے جسے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا:
“میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: “آگ سے بچو، چاہے ایک کھجور کے ٹکڑے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔” [بخاری و مسلم]
نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچا، اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کر لیا۔” [صحیح بخاری اور صحیح مسلم]
اسی طرح، ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اور اللہ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا تاکہ دیکھے تم کیسے عمل کرتے ہو۔ پس دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل کی پہلی آزمائش عورتوں کے ذریعے ہی ہوئی” [صحیح مسلم]
نبی اکرم ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ تقویٰ کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دعا میں فرمایا کرتے تھے: “اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاکدامنی اور غنا (قناعت) کا سوال کرتا ہوں۔” [صحیح مسلم]
اسی طرح ابو امامہ صدی بن عجلان الباہلیؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع کے خطبے میں فرماتے ہوئے سنا: “اللہ سے ڈرو، اپنی پانچ نمازیں ادا کرو، اپنے رمضان کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو، تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے” [سنن ترمذی]
نبی اکرم ﷺ سب سے زیادہ متقی اور اللہ سے ڈرنے والے تھے۔
انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ تین آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: “میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔” دوسرے نے کہا: “میں کبھی روزہ چھوڑوں گا نہیں (ہمیشہ روزے رکھوں گا)۔ “اور تیسرے نے کہا: میں کبھی نہیں سوؤں گا (ہمیشہ عبادت کروں گا)”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں، لیکن میں روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، قیام (عبادت) بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، اور میں شادی بھی کرتا ہوں۔ جو میری سنت سے منہ موڑے، وہ مجھ سے نہیں” [صحیح بخاری اور صحیح مسلم]
نبی اکرم ﷺ نے مختلف مواقع پر اپنے صحابہ کو تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔ ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو ابو داؤد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
“کیا تم میری سنت سے منہ موڑنا چاہتے ہو؟”
حضرت عثمانؓ نے جواب دیا:
“نہیں، اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! بلکہ میں آپ کی سنت کی طلب کرتا ہوں۔”
اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
میں سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس، اے عثمان! اللہ سے ڈرو۔” [سنن ابو داؤد]
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امان کے ذریعے حاصل کیا ہے۔” [صحیح مسلم]
اسی طرح، ابو داؤد نے حضرت سہل بن الحنظلیہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر اس کے پیٹ سے لگی ہوئی تھی (کمزوری کے باعث)، تو آپ ﷺ نے فرمایا: “ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان پر اس حالت میں سواری کرو جب یہ صحیح حالت میں ہوں، اور ان کو اس وقت کھاؤ جب یہ صحیح حالت میں ہوں۔” [سنن ابو داؤد]
صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین اور نیک لوگ اللہ سے تقویٰ اختیار کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی خطبہ میں فرمایا کرتے تھے: “میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، اور یہ کہ اللہ کی اس طرح تعریف کرو جس کا وہ اہل ہے، اور اپنی امید اور خوف کو آپس میں شامل کرو، اور اللہ سے مانگنے میں عاجزی اور اصرار کو یکجا کرو”۔
حضرت ابوبکرؓ نے اس پر حضرت زکریا اور ان کے اہل خانہ کی تعریف والی آیت تلاوت کی: “بے شک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے، اور ہمیں امید اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے”۔ [سورہ الانبیاء: 90]
وفات کے وقت حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا، تو انہیں نصیحت کی اس میں سب سے پہلے فرمایا: اے عمر! اللہ سے ڈرو۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نےاپنے بیٹے عبد اللہ کو لکھا! اما بعد،
“میں تمہیں اللہ عزوجل سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں،پس جواللہ کا تقویٰ اختیار کرے اللہ اُس کی حفاظت کرے گا، جو اُسے قرض دے، اللہ اسے بہترین بدلہ دے گا، جو اس کا شکر ادا کرے گا، اللہ اُسے مزید اپنی نعمتیں دے گا۔ اس لے تقویٰ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھ اور اپنے دل کے میل کو اسے دور کر۔
حضرت علیؓ نے ایک شخص کو ایک سریہ کا کمانڈر بنایا اور اُسے فرمایا: “میں تمہیں اللہ عزوجل سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں،جس کے ساتھ تمہیں ضرور ملاقات کرنی ہے، اور اس کے بغیر تمہارا کوئی انجام نہیں۔ وہ دنیا اور آخرت کا مالک ہے۔”
امام سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابو ہریرةؓ سے تقویٰ کے بارے میں سوال کیا؟ ابوہریرہ نے اُسے پوچھا، کہ کیا آپ کا گزر کبھی کسی کانٹے دار اور جھاڑیوں کے راستے سے ہوا ہے؟ اس نے جواب دیا، ہاں! آپؓ نے پوچھا: آپ پھر کیا کرتےہو؟ اس نے کہا: میں انہیں چھوڑ کر ہٹ کر چلتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا: یہی تقویٰ ہے۔ اسی جیسا سوال حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے جو انہوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔
حضرت عمر بن عبد العزیز نے ایک شخص کو لکھا کہ میں تجھے اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں۔ جسے اللہ کے سوا کوئی قبول نہیں کرتا، اور جس کے بغیر کسی پر رحم نہیں کرتا، اور جس کے بغیر کسی کو جزا نہیں دیتا۔ یقیناً اس کی نصیحت کرنے والے بہت ہیں، لیکن اس پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں۔ اللہ ہمیں اور تمہیں پرہیزگاروں میں شامل کرے۔”
جب انہیں (خلافت کی) ذمہ داری دی گئی، تو انہوں نے خطبہ دیا، اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: میں تم سب کو اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، اس لیے کہ اللہ کا تقویٰ ہر چیز کے پیچھے ہے اور تقویٰ کے پیچھے کوئی چیز نہیں۔
حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
“اے ابن آدم! عمل کر، عمل کر، کیوں کہ عمل ہی تیرا گوشت اور خون ہے، لہٰذا دیکھ کہ تُو کس حالت میں اپنےعمل کے ساتھ رب سے ملاقات کرے گا۔ بے شک اہلِ تقویٰ کی کچھ نشانیاں ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں: سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، کمزوروں پر رحم کرنا، تکبر اور فخر سے پرہیز کرنا، نیکی کے کام کرنا، لوگوں کے سامنے نمود و نمائش سے بچنا، اور اچھے اخلاق اپنانا۔”
تقویٰ کا حصول کیسے؟
بذریعہ عبادت: “لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالِق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اِسی صورت سے ہو سکتی ہے۔” [البقرة: 21]
اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مضبوطی سے تھامنا اور ان پر عمل کرنا: “یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طور کو تم پر اُٹھا کر تم سے پُختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا کہ “جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اُسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں اُنہیں یاد رکھنا۔ اسی ذریعے سے توقع کی جاسکتی ہےکہ تم تقوٰی کی روش پر چل سکو گے”۔
اللہ کی ہدایت پر چلنا: “رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔” [محمد : 17]
قصاص کے ذریعے عدل کا قیام: “عقل و خردر کھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔” [یا ترجمہ یوں زیادہ مناسب ہے کہ “امید ہے کہ (قصاص قائم کرکے) تم تقویٰ پا لو گے”۔ مترجم]
روزے کی حفاظت سے: “اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔” [البقرة]
حدود اللہ اور حرمتوں کی حفاظت: “یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویےّ سے بچیں گے [یعنی تقویٰ اختیار کریں گے۔ مترجم]۔”
صراط مستقیم کی اتباع اور شیطان کے رستے سے بچنا: “نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اِسی پر چلو اور دُوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹاکر تمہیں پراگندہ کردیں گے۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم کَج روی سے بچو۔ (تقویٰ اختیار کرو)” [الانعام: 153]
اللہ سے خوف اور گناہگاروں کے لیے اس کی وعید کو جاننا تاکہ ہم اس سے ڈریں اور اس کے عذاب سے بچیں: “اور اے محمدؐ، اِسی طرح ہم نے اِسے قرآنِ عربی بنا کر نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح سے تنبیہات کی ہیں شاید کہ یہ لوگ کج روی سے بچیں یا ان میں کچھ ہوش کے آثار اِس کی بدولت پیدا ہوں۔” [طٰہٰ: 113]
تقویٰ کے ثمرات:
تقویٰ کے ذریعے مسلمان جو ثمرات حاصل کرتا ہے وہ اعمال اور اقوال میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
1۔ دنیا و آخرت کی فلاح: البتہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہو جائے۔
2۔ مسلمان مقام شاکرین کو پہنچتا ہے: اور اللہ جنگ بدر میں تمہاری مدد کر چکا ہے، حالاں کہ تم اس وقت بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو۔ امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔
3۔ اللہ کی رحمت کا حصول: “اور اسی طرح یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے، ایک برکت والی کتاب۔ پس تم اِس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو”۔ [الانعام: 155]
4۔ نیکوکاروں میں شمار: “نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے۔” [البقرة: 189]
5۔ بروز قیامت خوف و دہشت اور غم سے حفاظت: “تو جو کوئی نا فرمانی سے بچے گا اور اپنے رویّہ کی اصلاح کر لے گا اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے” [الاعراف: 35]
6۔ بھر پور ثواب کا حق دار: اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے، تو اللہ کے ہاں اس کا جو بدلہ ملتا وہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا۔ کاش انہیں خبر ہوتی۔ [البقرۃ: 103]
7۔ اجر عظیم کا حصول: “جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا ان میں جو اشخاص نیکو کار اور پرہیز گار (متقی) ہیں ان کے لیے اجر عظیم ہے۔” [آل عمران: 172]
8۔ برائیوں اور گناہوں سے نجات: “اگر (اِس سرکشی کے بجائے) یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور تقوی کی رَوش اختیار کرتے تو ہم اِن کی بُرائیاں اِن سے دُور کردیتے اور ان کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔” [المائدۃ 165:]
9۔ اللہ کی تائید و نصرت: “اور اللہ سے ڈرو اور خوب جان رکھو کہ اللہ متقین کے ساتھ ہے”۔ [البقرة: 194]
10۔ اللہ تمہیں وہ باتیں سکھائے گا جو تم نہیں جانتے تھے: “اور اللہ سے ڈرو! اللہ تمہیں تمہیں علم سے نوازے گا، وہ ہر شے کا جاننے والا ہے”۔ [البقرۃ 282:]
11۔ رزق میں اضافہ: “اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر اُنہوں نے تو جُھٹلایا، لہٰذا ہم نے اُس بُری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے” [الاعراف: 96]
12۔ اللہ کے نزدیک مقام بلند: “اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادا متقی ہے”۔ [الحجرات: 13]
13۔ اللہ کی محبت کا سزاوار: “جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنےگا، کیونکہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔” [آل عمران: 76]
14۔ اعمال کی مقبولیت: “اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے” [المائدة: 27]
15۔ اللہ کی ولایت کا ملنا: “اللہ متقیوں کا ولی (کارساز) ہے” [الجاثیہ]
16۔ قیامت کے روز خوبصورت اور پرشکوہ مقام پراستقبال: “وہ دن آنے والا ہے جب متقی لوگوں کو ہم مہمانوں کی طرح رحمٰن کے حضور پیش کریں گے” [مریم: 85]
17۔ دشمن کی چالوں سے بچاؤ: “مگر ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس پر حاوی ہے” [آل عمران: 120]
18۔ شدید مشکلات میں اللہ کی مدد: “بے شک، اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جس آن دشمن تمہارے اوپر چڑھ کر آئیں گے اُسی آن تمہارا رب (تین ہزار نہیں) پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔” [آل عمران: 125]
19۔ دل کا نور جو حق و باطل کی تمیز کرے: “اے ایمان لانے والو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمہاری بُرائیوں کو تم سے دور کرے گا، اور تمہارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔” [الانفال: 29]
20۔ درجہ احسان تک رسائی: “تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ ایسے محسنوں کا اجر ضائع نہیں کرے گا”۔ [یوسف]
21۔ نیک انجام: “عاقبت تو متقیوں ہی کے لیے ہے”۔ [اعراف: 128]
22۔ جنت اور اس کی نعمتوں سے فیضیابی: “خدا ترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں” [الدخان: 52]
23۔ ہرتنگی سے خلاصی: “جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیۓ مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا، اور اپسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو” [الطلاق: 2]
24۔ کاموں میں آسانی: “پس جو بھی اللہ سے ڈرے گا تو اللہ اس کے کاموں میں آسانی فرما دے گا”۔ [الطلاق: 4]
25۔ اولاد کی حفاظت بعد از مرگ: “لوگوں کو اس بات کا خیال کرکے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچّوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں” [النساء: 9]
خلاصہ کلام:
تقویٰ مسلمانوں کی زندگی پر عظیم اثرات مرتب کرتا ہے، کیونکہ یہ اس کے اور اللہ کےعذاب کے درمیان احکام کو ماننے اور اس کی نافرمانی سے بچنے کی بنیاد پر ایک ڈھال کا کام کرتا ہے۔ تقویٰ کی بدولت، انسان مسلمانوں کے خون، مال اور عزت کی عزت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ نے ان تمام چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔
تقویٰ انسان کو ظلم سے بچاتا ہے، حق ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے، اور ایسا شخص امانت، صداقت، ایفائے عہد اور معاہدوں کی پاسداری کرتا ہے۔ اور ان عہود و عقود کی رعایت کرواتا ہے جو اس کے اور اللہ کے بندوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ مختصراً تقویٰ انسان کو ہر بھلے کام کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور اسے ہر برے کام سے دور رکھتا ہے۔
مصادر و مراجع:
- ابن منظور: لسان العرب: 3/ 971 – 973
- الراغب الأصفهاني: المفردات، ص 530
- عبد الله بن المبارك: كتاب الزهد ص 473.
- السيوطي: الدر المنثور 1 /61.
- ابن الأثير: جامع الأصول 11/ 703 ـ 704.
- أبو نعيم: الحلية 2 /143.
- ابن رجب: جامع العلوم والحكم، 2/ 475-476.
مترجم: زعیم الرحمان