بیشک تعلیمی طور پہ پیچھے رہ جانا ایک تربیتی، نفسیاتی، سماجی اور اقتصادی مسئلہ ہے جس نے ماہرینِ تعلیم اور ماہرینِ نفسیات کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ہے، چنانچہ انہوں نے اس کے پہلوؤں، اسباب اورعلاج کے طریقوں کا مطالعہ کیا ہے، کیونکہ طلبہ کی ایک قابلِ ذکر تعداد اس میں مبتلا ہوتی ہے، جو تعلیمی عمل پر منفی اثر ڈالنے کا باعث بن سکتا ہے۔
جامعہ زیان عاشور الجلفہ کے شعبۂ نفسیات کی فیکلٹی آف آرٹس میں معلمہ اسماء خویلِد کی ایک تحقیق میں اس مسئلے کے مفہوم، اس کی مشکلات اور خاندان، اسکول اور معاشرے میں اختیار کردہ حل کے طریقے پیش کیے گئے ہیں۔
تعلیم میں پیچھے رہ جانا ہے کیا؟
ماہرِ تعلیم محمد صبحی عبد السلام تعلیم میں پیچھے رہ جانے کی تعریف یوں کرتے ہیں: امتحانی نتائج مطلوبہ نمبروں سے کم آنا، یا پچھلی درسی کارکردگی (یعنی گزشتہ رزلٹ) سے کم ہونا، یا ہم عمر اور ہم جماعت ساتھیوں کے مقابلے میں کم نمبرز ہونا۔
تاہم ماہرِ تعلیم تیسیر مفلح کوائفحہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں اس وقت محتاط ہونا چاہیے جب ہم طلبہ کے امتحانات میں حاصل کردہ نمبروں کو معیار بناتے ہیں، کیونکہ یہ نتائج ہمیشہ درست نہیں ہوتے، بلکہ ان پر نقل کے طریقوں، بچے کی نفسیاتی حالت، خاندانی تعلقات اور اسکول کے اندر سماجی تعلقات کا بھی اثر ہو سکتا ہے۔
اسی رُخ کو آگے بڑھاتے ہوئے ماہرِ تعلیم حمزہ جبالی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ درسی طور پر پیچھے رہ جانے والے طلبہ کی شناخت کے لیے سب سے مناسب اور درست طریقہ یہ ہے کہ تمام طلبہ پر انفرادی ذہانت کا ٹیسٹ کیا جائے، اگرچہ یہ طریقہ مہنگا اور وقت طلب ہے، لیکن مفید ہے، خاص طور پر جب بعض محققین تعلیمی پسماندگی اور ذہنی پسماندگی کی اصطلاحات میں فرق کرتے ہیں اور اسے ذہانت کے درجات کی بنیاد پر جانچتے ہیں۔
اسباب و عوامل:
تعلیمی پسماندگی کی وجوہات کئی باہمی عوامل کے یکجا ہونے پر سامنے آتی ہیں، جو نوعیت اور اثر کے اعتبار سے ہر طالب علم میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ ان وجوہات کو تین بنیادی محوروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اول: وہ اسباب جو خود طالب علم سے متعلق ہوتے ہیں:
الف) ذہنی عوامل:
تعلیمی کارکردگی میں پیچھے رہنے کے ساتھ کچھ ذہنی عوامل وابستہ ہوتے ہیں، جیسے ذہانت کی کمی یا خصوصی ذہنی صلاحیتوں میں کمزوری؛ جیسے ارتکاز کی صلاحیت یا وہ ذہنی صلاحیتیں جو کسی مخصوص تعلیمی مضمون میں بڑی حد تک درکار ہوتی ہیں، مثلاً لسانی صلاحیت، ہندسی یا ریاضیاتی صلاحیت۔ اس بات کی تائید مونی، فرنون اور شیلڈر(ماہرین تعلیم) نے بھی کی ہے کہ تعلیمی پسماندگی اکثر کمزور ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے ہوتی ہے، جو عموماً بچے کو جینز یعنی وراثت میں منتقل ہوتا ہے۔
جہاں تک ذہانت کا تعلق ہے، بیرٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سینکڑوں تعلیمی پسماندگی کے کیسز میں تقریباً 10 فیصد کیس کم ذہانت (غبی پن) کی بنا پر تھے، جو خود اس تاخیر کے لیے کافی وجہ تھی۔
ب) جسمانی عوامل:
نشو و نما میں تاخیر، جسمانی کمزوری، دماغی نقصان، سمع و بصری حواس کی کمزوری، عمومی صحت کی خرابی، اور گفتگو میں خلل — یہ وہ عوامل ہیں جنہیں اگر استاد نظر انداز کرے، اور ایسے طلبہ کو ایسی جگہ پر بٹھا دے جو اُن کی جسمانی صلاحیتوں کے مطابق نہ ہو، تو یہ ان پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ نیز، نظر اور سماعت کی کمزوری ان کے لیے اشکال اور آوازوں میں فرق کرنا مشکل بنا سکتی ہے، جس کا اثر ان کی تعلیمی کارکردگی پر پڑتا ہے۔
ج) جذباتی عوامل:
طالب علم کی نفسیاتی حالت اُس کی سرگرمی اور محنت کے درجے کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مزاج میں توازن، اضطراب، اور اعصابی بے چینی جیسے عوامل، اُن کاموں میں خاص طور پر متاثر کرتے ہیں جو دقّت اور توجہ طلب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بچے اکثر ریاضی میں پیچھے رہتے ہیں، اُن کی تحریر خراب ہوتی ہے، اور اُن کے کاموں میں ترتیب اور نظم کا فقدان ہوتا ہے۔
دوم: وہ اسباب جو خاندان سے متعلق ہوتے ہیں:
چونکہ خاندان بچے کی سماجی تربیت کے عمل میں پہلا اور سب سے اہم ذریعہ ہوتا ہے، اس لیے وہ اُس کی شخصیت، اقدار، کام کرنے اور کامیاب ہونے کے محرکات، اور خود اس کے اپنے بارے میں تصور کو بڑی حد تک تشکیل دیتا ہے — یہ سب اُس کی وراثتی صلاحیتوں اور خاندان کی سماجی و معاشی حیثیت کے دائرے میں ہوتا ہے۔
اسی طرح خاندان بچے کی جسمانی، ذہنی، جذباتی اور سماجی بلوغت کی سطح کو متعین کرتا ہے، کیونکہ وہ اُسے نشو و نما کے تقاضے پورا کرنے کے لیے ضروری وسائل فراہم کرتا ہے۔ نیز، خاندان ہی وہ بنیاد ہوتی ہے جس سے بچہ آگے دیگر سماجی اداروں کی طرف بڑھتا ہے
ان خاندانی عوامل کے اثرات کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
الف) خاندانی عدم استحکام:
اس سے مراد والدین کے درمیان عدم اتفاق، جھگڑوں اور لڑائیوں کی کثرت، گھریلو صورتحال کی بے ترتیبی، علیحدگی یا طلاق، والدین کی سختی یا حد سے زیادہ لاڈ پیار، یا رویے میں عدم استحکام جیسے عوامل ہیں۔ ایسا ماحول جہاں بچے کو تحفظ کا احساس نہ ہو، اُس کے جذباتی توازن میں خلل پیدا کرتا ہے، جو اُس کی تعلیمی حالت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
ب) خاندان کا معیار:
والدین کی تعلیمی سطح بچوں کی ترقی اور تعلیمی کارکردگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، کیونکہ بچے والدین کی تمام حرکات و سکنات کی نقل کرتے ہیں۔ اس بات کی تائید ڈگلس، وٹن، ہالس اور نسبت (ماہرین) کی تحقیقات نے بھی کی ہے، جنہوں نے اس امر پر زور دیا کہ خاندان کے حجم، والدین کے تعلیمی و ثقافتی معیار، اور خاندان کی سماجی حیثیت کے مابین باہمی تعلق بچوں کی تعلیمی پیش رفت اور مختلف تعلیمی مراحل میں اُن کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔
ایسے ماحول میں جہاں خاندان مثبت کردار ادا کرے، طالب علم کو محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی محنت اُس کے لیے اور اُس کے ارد گرد دوسروں کے لیے اہم ہے، اور اُسے اپنے خاندان کی توجہ اور حمایت حاصل ہے۔
ج) خاندان کا اقتصادی معیار:
خاندان کی معاشی حیثیت بچوں کی تعلیمی کارکردگی کے معیار کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے، کیونکہ درمیانے یا بلند آمدنی والے خاندان اپنے بچوں کو تعلیمی ترقی کے لیے ضروری وسائل فراہم کرتے ہیں، جو اُن کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
اس کے برعکس، غریب خاندانوں کے بچے اکثر ایسی سہولیات سے محروم رہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ تعلیمی طور پر پیچھے رہ سکتے ہیں۔
وجوہات جو اسکول سے متعلق ہوتی ہیں:
بسا اوقات تعلیمی معیار میں کمی کے اسباب خود اسکول سے جُڑے ہوتے ہیں، جیسے طالب علم کا باقاعدگی سے کلاسز میں شریک نہ ہونا، یا تدریس کا ناقص انداز، یا اساتذہ کی تدریسی ناکامی، یا عمومی طور پر اسکول کا ناقص انتظام۔ مجموعی طور پر اسکول سے وابستہ وہ عوامل جو طلبہ کے تعلیمی پسماندگی میں کردار ادا کرتے ہیں، درج ذیل عناصر میں بیان کیے جا سکتے ہیں:
مادی عناصر:
طالب علم کی وہ نشست جہاں وہ بیٹھتا ہے بعض اوقات اس کی توجہ بٹنے اور ذہنی انتشار کا باعث بن سکتی ہے، اگرچہ وہ ایسا نہ بھی چاہے۔ اس کے علاوہ تدریسی وسائل کا غیر مؤثر استعمال، اور تعلیمی عمل کے لیے ضروری طبعی حالات کی عدم فراہمی جیسے ناکافی ہوا، روشنی اور حرارت، اور کلاس رومز میں طلبہ کا حد سے زیادہ ہجوم بھی سیکھنے کے عمل پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
انسانی عناصر:
مارسل کَرَے (1996) اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ تعلیمی پسماندگی کی وجہ صرف طالب علم نہیں ہوتا، لہٰذا ضروری ہے کہ “ہم صرف طلبہ اور ان کی خصوصیات ہی پر توجہ مرکوز نہ کریں بلکہ ان اساتذہ پر بھی غور کریں جو نصاب پڑھاتے ہیں، اُن کی خصوصیات کو جانیں، اور اُن سماجی حالات کا جائزہ لیں جن میں وہ تدریسی عمل انجام دیتے ہیں۔”
تعلیمی پسماندگی کا علاج:
ہر چیز کا علاج مرض کی تشخیص اور اسباب کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر مطالعہ کے نتائج نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس مسئلے کا علاج چار بنیادی پہلوؤں کے گرد گھومتا ہے:
اوّل: طبی علاج: یہ طریقہ کار ان بہت سے معاملات کے علاج میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو جسمانی پہلوؤں سے متعلق ہوتے ہیں، جیسے سماعت یا بصارت کی کمی، ٹانسلز کی سوزش، غدود کی خرابی، اور ناقص غذا۔ اس میں طالب علم کو ان خوراکوں کے استعمال کی ہدایت دی جاتی ہے جن میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہو، جیسے دودھ، بالائی، مکھن اور انڈہ، اور دواخانوں میں دستیاب گلوکوز کی کوئی دوا بھی لی جا سکتی ہے، جو طالب علم کی جسمانی توانائی اور تعلیمی سرگرمیوں پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔
ثانيًا: نفسیاتی علاج، اور اس کا مقصد جیسا کہ سلمان خلف اللہ نے وضاحت کی:
طالب علم کی مدد کرنا تاکہ اگر علاج ناکام ہو جائے تو اُسے ایسے پیشے کی طرف رہنمائی دی جا سکے جو اُس کے رجحانات اور صلاحیتوں کے مطابق ہو۔
طالب علم کی ایسی سمت میں رہنمائی کرنا جو اُس کی صلاحیتوں اور رجحانات سے ہم آہنگ ہو، تاکہ اُس کی صلاحیتیں نشوونما پا سکیں۔
طالب علموں کو خدمات فراہم کرنا اور اُن کی مدد کرنا تاکہ وہ اپنی حالت کو ایک فرد اور ایک اجتماعی رکن کی حیثیت سے پہچان سکیں۔
طالب علم کو اُس کے لیے موزوں تعلیمی مواقع سے آگاہ کرنا اور اُس کے رجحانات اور تیاریوں کو دریافت کرنا۔
طالب علم کی مدد کرنا تاکہ وہ اپنے تعلیمی حصول کو بہتر بنانے کے لیے کوئی منصوبہ وضع کر سکے۔
ثالثًا: تعلیمی علاج، یہ طریقہ اُس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب طالب علم کی تعلیمی پسماندگی اسکول سے جُڑے اسباب کی بنا پر ہو، اور اس قسم کے مسئلے سے نمٹنے کی ذمہ داری ایک طرف نفسیاتی و سماجی رہنما پر اور دوسری طرف استاد پر ہوتی ہے، اور ان کی ذمہ داریاں، جیسا کہ فضة النعمة نے بیان کیا، درج ذیل اقدامات میں خلاصہ ہوتی ہیں:
تعلیمی طور پر پیچھے رہ جانے والے طالب علم کی رہنمائی کرنا اور اُسے عملاً مضامین کی دُہرائی کے طریقے سکھانا۔
طالب علم کی مدد کرنا تاکہ وہ اپنے وقت کو منظم کرنے اور یاد دہانی و تکرار میں استعمال کرنے کے لیے ایک عملی شیڈول تیار کرسکے۔
پسماندہ طالب علموں کے والدین کے ساتھ ملاقاتیں منعقد کرنا تاکہ اسباب اور علاج کی تدابیر پر گفتگو کی جا سکے، اور اس گفتگو کی رازداری کو یقینی بنانا۔
اگر وجہ یہ ہو کہ طالب علم کو کسی مضمون سے عدم دلچسپی ہے، تو مضمون کی تعلیم اُس کے لیے ابتدا سے دوبارہ دینا، تدریج کے ساتھ، قبولیت اور اطمینان کا احساس فراہم کرنا، اور کسی بھی نمایاں پیشرفت پر مناسب تحسین دینا۔
ایسے استاد سے ملاقات کرنا جس کے مضمون میں تلامیذ کی تعلیمی پسماندگی نمایاں ہو، اور اُس سے اس پسماندگی کی وجوہات (اُس کی رائے میں) اور علاج کے لیے اُس کی تجاویز جاننا۔
رابعًا: سماجی علاج، یہ طریقہ اُس ماحول کو تبدیل کرنے یا کم از کم اس میں ترمیم پر توجہ دیتا ہے، جس کی وجہ سے نفسیاتی اضطراب پیدا ہوا، تاکہ اُسے ایک ایسا سماجی ماحول فراہم کیا جا سکے جو نفسیاتی ہم آہنگی ممکن بنائے۔ اس طریقہ علاج میں پیش کی جانے والی تجاویز درج ذیل ہیں:
- گھریلو اور سماجی ہم آہنگی کو عمومی طور پر بہتر بنانا اور خاندان و اسکول کے درمیان تعاون کو فروغ دینا تاکہ مسئلہ حل کیا جا سکے۔
- والدین کا یہ رویہ ترک کرنا کہ وہ ہر وقت بچے کے سامنے اسکول میں کامیابی کی اہمیت کا ذکر کریں، بلکہ یہ شعور خود بخود ان میں پیدا ہونے دیا جائے۔
- طالب علم کی اسکول کے بارے میں مثبت رائے بنانے میں مدد دینا۔
- اگر طالب علم کے گھرانے کو اقتصادی یا مالی مشکلات کا سامنا ہے تو اسے تعلیمی مواد فراہم کرنے کے لیے کچھ مالی یا مادی امداد فراہم کرنا۔
- اگر طالب علم اپنی ساتھیوں کے ساتھ گھلنے ملنے میں ناکام ہو رہا ہو تو اُسے دوسرے ہم جماعتوں کے ساتھ منتقل کرنا یا اُسے دوسرے درجے میں منتقل کرنا۔
مترجم: زعیم الرحمان