سوال:
مجھے ایک تعلیمی اورتربیتی حلقے کا نگران مقرر کیا گیا ہے، لیکن میں نے دیکھا کہ حلقے کے اندر مختلف عمروں کے افراد موجود ہیں، کچھ پچاس سال کی عمر کے ہیں اور کچھ بیس سال کی عمر کے۔ مسئلہ یہ ہوا کہ کم عمر افراد اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ ایک ہی جگہ رہتے ہوئے بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ جس سےان کے مابین ناراضگی اور عدم اطمینان کی حالت پیدا ہوئی، یہاں تک کہ کم عمر بڑوں کے ساتھ توہین آمیز الفاظ کے استعمال میں بھی ملوث ہوئے۔ تو کیا نسلوں کے درمیان علیٰحدگی، ان کے درمیان سوچ کے اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایک تعلیمی ضرورت بن سکتی ہے؟ یا پھر نسلوں کے درمیان ملاقات کو فروغ دینے اور ان کے درمیان بڑھتی خلیج کو پر کرنے کے لیے تنوع مطلوب ہے؟
جواب:
یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ تعلیمی اور تربیتی حلقوں میں نسلوں کی علیٰحدگی درست ہے، یا ان کا امتزاج درست ہے۔ ان میں سے کوئی ایک صورت درست نہیں ہے، کیونکہ یہ معاملہ کئی عوامل پر منحصر ہے، جیسے: حلقے میں موجود افراد کی طبیعت اور ان کی لچک اور وسعت قلبی، ان کا تعلیمی معیار، حلقے کو چلانے والی شخصیت کی تاثیر اور قوت، حلقے کی اپنی نوعیت، کہ وہ خاص ہے یا عام، اس کے مقاصد، حاضرین کی تعداد، اس کی مدت میعاد اور منعقد ہونے کی جگہ وغیرہ، ان تمام عوامل کی بنیاد پر، کبھی امتزاج اور تنوع تجربات، تعلم اور وسعتِ معلومات سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہتر ہو سکتا ہے، اور کبھی مشترکہ دلچسپیوں، مشترکہ مسائل اور پریشانیوں کی نوعیت یا مشترک زبان کی بنا پر ان کے درمیان ہم آہنگی اور قربت زیادہ درست ہو سکتی ہے۔
مثال کے طور پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد نبوی کی مجالس سب کے لیے، چھوٹے ہوں یا بڑے، کھلی رہتی تھیں۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے بیٹے عبداللہ کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مجلس میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ یہ مجالس عمومی طور پر تمام مسلمانوں کے لیے ہوا کرتی تھیں، جہاں تمام مسلمان معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھتے تھے، اس صورت میں خصوصیت کے ساتھ کسی ایک ہی عمر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ اس مجلس کو منعقد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
ہمارا یہ ماننا ہے کہ جس ہم آہنگی کی ہم بات کر رہے ہیں، اس کے لیے عمر کی قربت ضروری شرط نہیں ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی ضروری نہیں کہ عمر کا فرق اس ہم آہنگی کو کمزور کرے۔ آپ کو کچھ تعلیمی حلقے مل جائیں گے جہاں افراد تقریباََ ہم عمر ہیں لیکن ان کے درمیان ماحول، پرورش، سوچنے کے طریقوں اور علمی اور سماجی معیارات کے اختلاف کی وجہ سے ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ جس سے دشمنی اور تناؤ کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اور آپ ایسے گروپس بھی دیکھ سکتے ہیں جو عمر کے فرق کے باوجود ہم آہنگ اور متوازن ہیں، لیکن افراد کی طبیعت اور دیگر عوامل نے ان کے درمیان اس ہم آہنگی کو قائم رکھنےمیں مدد کی۔
اور ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر اختلاف، چاہے وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، اورحلقے کے صاف و شفاف ماحول پر اثر انداز ہو، تو اس صورتحال کو تبدیل کیا جائے تاکہ حلقہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے اور توجہ ضمنی تنازعات کو حل کرنے کی بجائے اصل موضوع پر مرکوز رہے۔
لہٰذا یہ نہایت ضروری امر ہے کہ ان حالات میں ہم آہنگی اور صاف ماحول حلقے کا بنیادی مقصد رہے۔ اگر تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ امتزاج اور تنوع اپنے مطلوبہ نتائج نہیں دے رہا ہے، توپھر بھی اسی شکل کو برقراررکھنے پر مصر رہنا رکھنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے، کیونکہ پیغام پہنچانے سے زیادہ اہم اس ماحول کی صفائی ہے جس میں یہ پیغام پہنچایا جاتا ہے، جب تک کہ تبدیلی کی صلاحیت موجود ہو۔ اور اگر تجربہ ہم آہنگی اور موافقت ظاہر کرتا ہے تو یہ تو اس سے بھی بہتر ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ معاملے کو ابتداءََ تجربے کے حوالے نہ کیا جائے، بلکہ کچھ تعلیمی حلقوں، خاص طور پر خصوصی حلقوں، کی تشکیل کے وقت سے ہی اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس کے افراد کے درمیان کم از کم موافقت اور مشترکہ دلچسپیوں کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ بشرطیکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خیال رکھا جائے کہ ان میں موجود افراد کو تمام طرح کے لوگوں سے تعامل، ان کے فکری، عمری اور علمی اختلافات کے باوجود انہیں قبول کرنے، حکمت کو جہاں کہیں بھی پایا جائے اسے سیکھنے اور حاصل کرنے، بڑوں کی تعظیم اور ان کو ان کے مقام پر رکھنے، چھوٹوں کو سنبھالنے اور ان کی بات کو اچھی طرح سننے، مخالف کے ساتھ گفتگو کے آداب بلکہ عمومی طور پر اختلاف کے آداب کی تربیت دی جائے۔
حلقے کو ان اقدار اور اصولوں کی تعلیم مختلف طریقوں سے دینی چاہیے، جیسے متوازی سرگرمیوں کا انتظام، اجتماعات، مہمانوں کی میزبانی اور ملاقات کا انتظام، جو اس تنوع کے ساتھ تعامل کو یقینی بنائے جس کا سائل نے اپنے پیغام میں ذکر کیا ہے، اور ان اقدار کا جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں، اس کے ذریعے امتحان لیا جائے۔
مترجم: ڈاکٹر بہاء الدین