تعلیمی تشخیص تعلیمی وتربیتی عمل کا ایک لازمی حصہ ہے، بلکہ اگر اسے جزو لاینفک بھی کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ یہ ایک طرف سے خامیوں اور کوتاہیوں کا پتہ لگاتا ہے اور دوسری طرف تعلیم وتربیت کے عمل کے دوران پیدا ہونے والے عدم توازن اور اتار چڑھاؤ کی تشخیص میں بھی مدد دیتا ہے، اور پھر انہیں درست کرنے میں بھی معاونت کرتا ہے۔ اس عمل کی وساطت سے بچوں اور تربیت پانے والوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے تاکہ مناسب تعلیمی طریقہ کار کو بروئے کار لایا جاسکے جو ان خامیوں کا جائزہ لے اور پھر ان کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
البتہ تصحیح کے عمل کو بروئے کار لانے میں غلطیاں ہوتی ہیں۔ ہم اکثردیکھتے ہیں کہ امراض کے علاج کے نام پر یا اصلاح کے نام پرغلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ اور شاید اصلاح کا دعویٰ کرنے والے کی غلطی اس غلطی سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے جس کے علاج کا وہ دعویٰ کررہا ہوتا ہے۔ اب اس سے بھی بڑھ کر بری بات یہ ہے کہ جو لوگ غلطیوں کو سدھارنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ لوگوں کو بات چیت، مکالمے، خیالات کے تبادلے، نظریات کے باہمی تبادلے اور دوسروں کے ساتھ کھلے ذہن سے عام معاملات کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتے۔
تعلیمی و تربیتی تشخیص کا مفہوم:
تعلیمی تشخیص ایک منظم و مربوط عمل ہے جس کا مقصد تعلیمی اہداف کے حصول کا تعین کرنا اور ان کے بارے میں پالیسیز بنانے کی غرض سے مواد اکٹھا کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا ہے، تاکہ خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کیا جا سکے اور تعلیمی و تربیتی نظام کو بدل کرفرد، خاندان، یا اسکول کے لیے صحیح ترقی فراہم کی جا سکے۔
لہذا، اس تشخیصی عمل کا تعلیم و تربیت کے ضمن میں بنیادی اور اہم کردار ہے، کیونکہ اسے ایک کنٹرول اور رہنمائی کا آلہ شمار کیا جاتا ہے ، اور یہ کام تعلیمی عمل کا آغاز کرنے سے پہلے، اس کے دوران، یا اس کے مکمل ہونے کے بعد بھی ہوسکتا ہے۔ تاکہ اساتذہ کو تربیت پانے والے طلبہ کی سطح، تعلیمی ہدایات اور اقدار کے بارے میں ان کا فہم، اور ان کی اعلیٰ صلاحیتوں اور کمزوریوں کو جاننے کا موقع ملے کہ آیا وہ کس حد تک مقررہ اور طے شدہ اہداف کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کامیاب تشخیصی عمل اپنی اہمیت کو اپنے خصائص سے اخذ کرتا ہے، جس کا خلاصہ اس وقت تک تسلسل سے ہوتا ہے جب تک کہ تعلیمی عمل جاری رہتا ہے، اورایک جامع انداز میں یہ ترقی کے مختلف پہلوؤں – علمیت، تحرک اور جذبات وغیرہ کو مدنظر رکھتا ہے۔ ان سب چیزوں کا تعلق سیکھنے اور تربیت پانے والے کی شخصیت کی نشوونما میں توازن پیدا کرنے سے ہے جہاں استاد، سیکھنے والا، پرنسپل، سپروائزر، سرپرست، وغیرہ باہمی تعاون سے ہی تشخیصی عمل میں حصہ لیتے ہیں۔
بعض ماہرین تعلیم نے “تشخیص” کو تعلیمی عمل کی حفاظت کا ذریعہ اور اسے کنٹرول کرنے کا ایک آلہ قرار دیا ہے۔ اس کی وساطت سے معلم تربیتی عمل اور تربیت پانے والوں (متربیین) کیلئے پالیسیز ڈیزائن کرسکتا ہے اور تعلیم کے حوالے سے درست فیصلے لے سکتا ہے جو کہ بلاشبہ تربیت کا ایک لازمی ستون ہے۔
تشخیص ایک سائنٹفک عمل ہے جس کا تعلق کسی بھی ایسے مضمون یا موضوع کی درست تشخیص سے ہے جو تعلیمی عمل کے تمام عناصر کی کارکردگی کا تعین کرنے میں اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا استعمال پیمائش کے ذریعے فراہم کردہ ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ تعلیمی عمل کی کامیابی سے متعلق فیصلے کیے جا سکیں، اور اس طرح مظاہر کی مقداری اور معیاری تشخیص پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
تعلیمی تشخیص میں غلطیاں: چند وجوہات
تعلیمی تشخیص میں غلطیوں اور کوتاہیوں کی بہت سی وجوہات ہیں، اور اس کا ہرگز مطلب ناکامی یا برائی کا ارادہ نہیں ہے۔ غلطیوں کے بارے میں ہر بات کا تعلق برے ارادے سے نہیں ہوتا، بلکہ غلطیوں کا ہونا کسی عمل یا بیان کے وقوع پذیر ہونے کا ثبوت ہے۔ ایک غلطی کسی چیز کے واقع ہونے کی نشاندہی کرتی ہے جس میں وہ شخص مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا تھا۔ اور تعلیمی تشخیص کے عمل کے دوران غلطیوں کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:-
جہل یعنی لاعلمی: یہ علم کے خلاف ہے، جس کا مطلب بغیرعلم کے کوئی عمل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لاعلمی کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ صادر کرنے کے خطرے سے خبردار کیا ہے اور ارشاد فرمایا{کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقیناً آنکھ، کان اور دل سب کی بازپرس ہونی ہے۔ زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ (اسراء: 36-37 } اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قاضی ہیں: دو جہنم میں اور ایک جنت میں: وہ آدمی جو حق کو جانتا ہو اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو وہ جنت میں ہے، اور جو شخص حق کو جانتا تھا لیکن اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تھا، اور حکومت کرنے میں ناانصافی کرتا تھا، وہ جہنم میں جائے گا، اور وہ شخص جس نے حق کو نہیں جانا، لیکن جہالت پر مبنی لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے، تو وہ جہنم میں جائے گا۔ (صحیح ابن ماجہ)۔
غصہ: یہ رضا مندی کے خلاف ہے، اگر یہ رب العزت کی کسی حرمت کو پامال کرنے کا غصہ ہے تو قابل تعریف ہے، اور اگر یہ نفس کی خواہشات کو پورا کرنے اور سفلی میلانات کو پورا کرنے کے لئے ہے تو یہ قابل مذمت ہے۔ اسلام اس سے منع کرتا ہے۔
حسد: حسد ایک خواہش کا نام ہے جس میں حاسد چاہتا ہے کہ محسود (جس سے حسد کیا جاتا ہے) سے کوئی نعمت ہٹا دی جائے، یا یہ عہدوں، مراعات، تعلقات یا کسی اور نعمت پر ناراضگی کا احساس ہے جو دوسروں کو حاصل ہے۔ بہرحال اس کے سنگین نتائج ہیں اوراس کے پانچ بڑے نقصانات ایسے ہیں کہ حاسد کا حسد، حسد کئے جانے والے تک پہنچنے سے پہلے ہی حاسد ان کا شکار ہو جاتا ہے، وہ یوں ہیں: نہ ختم ہونے والا غم، اور وہ آفت کہ جس کا کوئی بدل نہیں، اور ایسا الزام جس کے لیے اس کی تعریف نہیں کی جاتی، اللہ تعالیٰ کا غضب، اور کامیابی کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔
میلانات: تمام میلانات قابل مذمت نہیں ہیں، ان میں سے کچھ قابل تعریف ہیں اور کچھ قابل مذمت ہیں۔ قابل تعریف میں جائز اور نیک اعمال شامل ہیں، اور قابل مذمت میں حرام اور ناجائز چیزیں شامل ہیں، لیکن عام طور پر جب نفس کے میلانات کا ذکر کیا جاتا ہے تو بالعموم اسے قابل مذمت میلانات کے مفہوم میں ہی لیا جاتا ہے۔ خواہشات نفس کا لفظ سن کر فورا ذہن میں مذمتی تصور آجاتا ہے اوراکثرو بیشتر یہ محرمات، شہوات اور مشتبہات جیسے معنی کے ساتھ مشترک ہوتا ہے۔
سہو، بھول جانا اورغفلت: بھول جانا ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ اسی لیے فقہاء کرام نے اہم عبادت یعنی “نماز” میں اس کے لیے ایک پورا باب الگ سے تشکیل دیا ہے جس میں وہ بھول چوک اور بھول جانے والے کے احکام کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ ان کوتاہیوں کو کیسے درست کیا جائے، کس طرح ایک مقررہ وقت کے اندر نماز میں بھول جانے کی غلطی کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اگر نماز جیسی اہم عبادت میں یہ سب ممکن ہے تو نماز کے علاوہ دیگر اعمال میں بھول جانے کو بھی انسان کے متفقہ کنٹرول کے مطابق مقررہ مدت کے اندر درست کیا جانا کیوں ممکن نہیں، لیکن کیا ایک غلطی کرنے والا کسی دوسرے کے بارے میں یہ سب تسلیم کرنے کیلئے تیار ہے؟
لاپرواہی اور سنجیدگی کا فقدان: تشخیصی عمل انجام دینے والوں میں سے بعض لوگ اس بہانے خود کو اس عمل کے لیے تیار نہیں کرتے کہ اس میں بغیر کسی نئی چیز کا اضافہ کیے ایک ہی عمل بار بار دہرانا پڑتا ہے ۔ بہر حال یہ ایک میکانیکی عمل ہے جیسے گاڑی چلانا جو کہ ایک ایسا عمل ہے جو بار بار دہرایا جاتا ہے اور یہاں اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اس نوعیت کے کاموں میں لاپرواہی کسی شخص کی قسمت یا زندگی پر منحصر ہو سکتی ہے، جیسے ایک ڈاکٹر کی لاپرواہی مریض کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے، معائنہ کمیٹی کی غیر سنجیدگی ایک شخص کی زندگی کو تباہ کر سکتی ہے، اور جنگ میں شامل افراد کی غلطی یا لاپرواہی لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے۔
بنیادی اپیشوز پر ثانوی چیزوں کو ترجیح دینا: جب لفظ انتخاب کی بات آتی ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سی متبادل آپشنز میں سے کافی غور و خوض اور چھان پھٹک کے بعد کسی ایک چیز کا انتخاب کیا گیا ہے۔ تاہم، ہو سکتا ہے کہ وہ ہدف کو نہ پہنچے، یا اسے کوئی ایسا شخص مل جائے جو اس کے انتخاب سے اتفاق نہ کرتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا انتخاب درست تو ہو، لیکن سب سے زیادہ درست ہوگا یہ بھی ممکن نہیں یا بذات خود انتخاب ہی دقت نظر پر مبنی نہ ہو!
تکبراور برتری کا زعم : یہ قابل مذمت خصلتوں میں سے ایک ہے اور اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں اس کی مذمت کی ہے، جن میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی شامل ہے: {پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا، وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا} [البقرہ: 34] اور ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ” تکبر کی علامت دل کا نفرت، جہالت اور ناانصافی سے بھرا ہوا ہونا ہے۔ یہ کہ بندگی کے آثار اس سے دور ہوگئےاور نفرت اس میں اترآئی۔ وہ لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے، زمین پر اس کا اکڑ کر چلنا اور لوگوں کے ساتھ اس کا سلوک پرہیزگاری کے بجائے رعب جمانے کے طور پر ہوتا ہے، اور وہ اپنے اوپر کسی کا کوئی حق نہ سمجھے بلکہ اپنے تئیں لوگوں پر اپنے حقوق دیکھتا ہے۔ وہ اپنے رب سے سوائے دور ہونے کے کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتا اور لوگوں سے سوائے نفرت اور حقارت کے کسی چیز میں زیادتی نہیں کر پاتا۔
عجلت اورجلد بازی: بعض اوقات غور و فکر اور احتیاط کی کمی کی وجہ سے غلطی ہو سکتی ہے۔ ایک شخص نیکی کی محبت میں غلط احکام جاری کرنے پر اکسا سکتا ہے اور دوسروں کو اس پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس کی مثال ایک بدوی کی ہے جس نے مسجد نبوی کے ایک کونے میں پیشاب کرنے کی کوشش کی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے یہ کہہ کر پیشاب کرنے سے روکا کہ مسجد نجس ہو جائے گی۔ لیکن پیشاب مکمل طور پر نہ کرپانےاور بدوی کا جسم پیشاب سے گندا ہونے کا نقصان مسجد نبوی کے ایک محدود حصے کو نجاست سے ناپاک کرنے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اسی لئے رسول اللہ نے صحابہ کو روکا اور بدوی کو پیشاب کرنے دیا۔
دلیل کی عدم موجودگی اور معلومات کا فقدان: بعض لوگ جو تشخیصی عمل انجام دیتے ہیں وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر بنا تحقیق یا احتیاط کیے معلومات اکٹھے کرکے نتائج نکالتے ہیں، لیکن اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ان کے فیصلے درستگی کے کتنے ہی قریب ہوں، وہ ناکافی ہوتے ہیں کیونکہ اس سے موضوع کی حق ادائی نہیں ہوتی۔ اور مناسب سائنسی طریقہ کار کا فقدان ہوتا ہے۔ یہ ان وجوہات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے ایک ہی طرح کے کام کو مختلف گریڈز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
تعلیم و تربیت میں عام غلطیاں
تربیت پانے والوں کے رویے کو کنٹرول کرنے کے لیے تعلیمی تشخیص کی اہمیت کے باوجود، اب بھی بعض عام غلطیاں ہیں جو تعلیمی عمل کے اہداف حاصل کرنے میں سد راہ ہیں، ان میں بعض یوں ہیں:-
والدین اور بچوں کے درمیان مکالمے کا فقدان: بہت سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ بات چیت کی اہمیت کو نہیں سمجھتے، بلکہ بات چیت کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ لیکن جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ گھر میں بچے کو سننے والے کان میسر نہ ہونا اسے آسانی سے برے ساتھیوں کا شکار بنا دیتی ہے۔
بچوں کی انفرادی صلاحیتوں اور مزاج کو مدنظر رکھنے میں ناکامی: اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ لوگ میلانات، صلاحیت اور مزاج میں فرق کے ساتھ پیدا کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ ھود میں ارشاد فرماتے ہیں: بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا مگر اب وہ مختلف طریقوں پر ہی چلتے رہیں گے [ہود: 118]، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم کسی قوم میں ایسی بات بیان کرو جسے ان کے ذہن سمجھ نہ سکیں تو وہ بعض کو فتنے میں ضرور ڈال دے گی۔ (رواہ مسلم)
بچے کی عمر کے مختلف مراحل کی رعایت نہ کرنا: والدین کو چاہیے کہ وہ ان مراحل کو مدنظر رکھیں جن سے ان کا بچہ گزر رہا ہے۔ وہ اپنے بچے کے ساتھ بچپن سے لے کر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے تک ایک ہی طرح کا برتاؤ نہ کریں، بلکہ ہر مرحلے پر اس کے ساتھ وہی سلوک کریں جو اس کے لیے مناسب ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بچوں کو نمازپڑھنے کاحکم دو جب وہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز نہ پڑھنے پر سزا دو اور ان کے بستروں کو الگ الگ کرو، اور جب تم میں سے کوئی اپنے غلام یا ملازم سے شادی کرے وہ اس کی شرمگاہ میں سے کسی کی طرف نہ دیکھے، کیونکہ جو چیز اس کی ناف سے گھٹنوں تک جاتی ہے وہ اس کی شرمگاہ کا حصہ ہے۔‘‘ (رواہ احمد و ابوداؤد)۔
حد سے زیادہ لاڈ پیار: یہ بچے کی نفسیات اور رویے کے لیے سنگین نتائج کا باعث بنتا ہے، اور اس کے اثرات یہ ہیں کہ بچہ بے شرم، منتشر الخیال، حد سے زیادہ ڈرپوک، خود اعتمادی کا فقدان، اوراپنے ساتھیوں، ہم سنوں سے پیچھے رہنا شامل ہے۔
حد سے زیادہ سختی: یہ بچے کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور اسے بزدل اور ڈرپوک بنا دیتا ہے۔ وہ مظلوم کے حقوق کیلئے آواز نہیں اٹھاتا اور اس کی حمایت کے لیے کھڑا ہونے سے قاصر رہتا ہے۔ یہ اس کے اندر بسا اوقات ضد اورانتقام کو جنم دیتا ہے۔ اس کا حل سختی نہیں ہے اور نہ ہی یہ بچوں کی اصلاح کا مناسب طریقہ ہے۔
دوسروں کے ساتھ موازنہ: یہ ان غلطیوں میں سے ایک ہے جو کچھ والدین بچوں کی پرورش کرتے وقت کرتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر بچے میں ایسی صلاحیتیں اور مہارتیں ہوتی ہیں جو دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں، اور اس کا دوسروں سے موازنہ کرنا اس کی مایوسی اور احساس کمتری کا باعث بن سکتا ہے، جو اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے اس میں ایک قسم کا تناؤ پیدا کرتا ہے۔
بچوں کے درمیان عدل نہ کرنا: یہ ایک تعلیمی تربیتی غلطی ہے جو حسد کا باعث بنتی ہے اور بچوں کے درمیان دشمنی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ نافرمانی اور ایک دوسرے سے نفرت کا سبب بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اللہ عدل اور احسان اور صلح رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی اور بے حیائی، اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔ [النحل:90]
بچوں پر ذمے داری نہ ڈالنا: اس سے ان کی شخصیت کمزور ہو جاتی ہے اور وہ اپنی قدر و منزلت کا احساس نہیں کر پاتے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی تربیت کے سلسلے میں انہیں مردانگی سکھانے اور ذمہ داری اٹھانے پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔
تعلیمی طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے تعلیمی تشخیص بہت ہی اہم ہے۔ یہ تعلیمی طریقوں کی تاثیر کا اندازہ لگانے، سیکھنے اور تربیت پانے والوں کی خوبیوں اور کمزوریوں کو ظاہر کرنے، کمزوریوں کے علاج اور قوتوں کو بڑھانے کے لیے کام کرتا ہے، خود تشخیص کی ہدایت اور تربیت کرتا ہے، اور سیکھنے والوں کی سطح کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مصادر و مراجع:
- الدكتور عمر إبرهيم عالم: دراسة بعنوان: “أخطاء التقويم التربوي.. رؤيـة تأصيلية”.
- أمجد قاسم: مفهوم التقويم التربوي ودوره في التعليم.
- ابن القيم: كتاب الروح، 2/662.
- عبد الصمد الأغبري: الإدارة المدرسية، البعد التخطيطي والتنظيمي المعاصر، ص: 17.
- الدكتور بدر عبد الحميد هميسه: أخطاء في تربية الأبناء