بچوں کو پڑھنا سکھانا علم و معرفت اور ترقی و کمال کی کنجی ہے۔ اسی لیے سب سے پہلا کلمہ جو آسمان سے نازل ہوا وہ “اقراء” تھا، تاکہ زمین پر روشنی پھیلے، جہالت کی تاریکیاں دور ہوں، لوگوں کے لیے علم و معرفت کے دروازے کھل جائیں اور وہ حقیقی معنوں میں اللہ کی عبادت کا حق ادا کر سکیں۔
نامور محقق احمد حسن الخمیسی کے نزدیک پڑھنا ایک تربیتی مہارت ہے جس کی ابتدا سب سے پہلے گھر اور خاندان سے ہوتی ہے۔ یہ بچے کو پڑھائی کی طرف دعوت دے کر، مناسب ماحول فراہم کر کے، ضروری وسائل بہم پہنچاکر، اور ایک مثالی نمونہ پیش کرکے ممکن ہوتا ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے بچہ خود بہ خود پڑھنے اور سیکھنے لگ جاتا ہے۔
بچوں کی تعلیم اور اسلام:
اسلام میں بچوں کو پڑھنے کی تعلیم کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ ہمارے دین کا آغاز ہی اس کلام (اقْرَأْ) سے ہوا ہے۔ یہی وہ پہلا پیغام تھا جس کو لے کر حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے پڑھنے کا حکم عام طور پر دیا، کسی خاص قسم، وقت یا جگہ کی قید کے بغیر۔ جیسا کہ فرمایا: “پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ۞ جس نے انسان کی تخلیق جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے کی ۞ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے ۞ جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ۞ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا” ۞ [العلق: 1-5]۔ یہ پیغام اسلامی تعلیمات کی آفاقیت کا ثبوت ہے۔
اسلام میں علم کا مقام عمل سے پہلے ہے اور کوئی بھی عمل علم کے بغیر ممکن نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “پس اے نبیؐ، خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی۔ اللہ تمہاری سرگرمیوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے”۞ [محمد: 19]۔
او اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایمان لانے والے کو بغیر علم کےکوئی رائے قائم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ” کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے” ۞ [الاسراء: 36]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے بھی ہمیں پڑھنے کی اہمیت کے حوالے سے متعدد واقعات اور شواہد ملتے ہیں۔ چنانچہ جنگ بدر کے مشرک قیدیوں کا واقعہ اس کی ایک بہترین مثال ہے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کو آزادی کے بدلے دس دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا حکم دیا۔
حالانکہ اُس زمانے میں مسلمانوں کو مال کی شدید ضرورت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں قریش پر شدید دباؤ بنا سکتے تھے۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لکھنے پڑھنے کو مقدم رکھا۔ کیونکہ رسول اللہ جانتے تھے کہ امت مسلمہ کی حقیقی طاقت اور قوت علم سے ہی ممکن ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں متعدد روایات نقل کی گئی ہیں۔ چنانچہ ابو اُمامہ الباہلی سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ “قرآن پڑھو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا”۔ اور اس کے علاوہ قرآن پڑھنے کی فضیلت کے سلسلے میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کل روز محشر صاحبِ قرآن سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ اور درجہ بدرجہ بلند ہوتے جاؤ، اسی طرح پڑھو جیسے دنیا میں پڑھتے تھے، کیونکہ آپ کا مقام آخری آیت کے مطابق ہوگا جو آپ پڑھیں گے”۔
چنانچہ پڑھائی انسان کے افق کو وسیع کرتی ہے اور لوگوں کے درمیان اس کی قدر و منزلت بڑھاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ اور سلف صالحین نے اس حقیقت کو بھانپ لیا تھا۔ چنانچہ حسن بن علیؓ نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو مخاطب کرکے کہا: “علم سیکھو، اس لئے کہ اگر آج تم اپنی قوم کے کم تر لوگوں میں شمار ہوتے ہو تو کل تم ان کے بڑے بن جاؤ گے۔ تو لہٰذا جو یاد نہیں رکھ سکتا وہ لکھ لیا کرے”۔ مبارک بن فضالہ نے ہشام بن عروہ سے اور وہ اپنے باپ سے روایت کیا کہ وہ کہتے تھے: “تم کیوں نہیں سیکھتے؟ اگر آج تم اپنی قوم کے کم حیثیت لوگوں میں سے ہو تو جلد ہی تم ان کے بڑے بن سکتے ہو، اور ایک ادھیڑ عمر جاہل انسان کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے!”
بچوں کو پڑھائی سکھانے میں ایک خاندان کیسے کامیاب ہوسکتا ہے؟
بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کی مہارت گھر سے شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم یہاں کچھ آزمودہ تربیتی طریقے بیان کرتے ہیں جن سے مستقل طور پر استفادہ کیا جاسکتا ہے: مثلاََ
پہلا: پڑھنے کی دعوت
فرد اور معاشرے کی زندگی میں پڑھنے لکھنے کی اہمیت کو ان کے دل و ذہن میں اجاگر کرنا، خاص طور پر انہیں اسکولی نصاب کے علاوہ آزادانہ مطالعہ کی ترغیب دینا۔ یہ ایک طرف تو نصابی تعلیم کو مضبوط کرتا ہے اور طالب علم کو اپنے عقیدے، عبادات اور اخلاقیات میں مزید گہرائی عطا کرتا ہے تو دوسری طرف اسے دنیا کو وسیع تر نظریے سے دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔
یہ دعوت گھر کے اندر یا باہر گھریلو اجتماعات کے موقعوں پر والدین اور بچوں کے درمیان پرسکون گفتگو کے ذریعے دی جاسکتی ہے۔ خاندان کو مفید آزادانہ مطالعے کی طرف رہنمائی کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کرنا چاہیے۔
گفتگو کے دوران، پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے کے درمیان فرق کو واضح کرنے والی مثالیں دی جائیں، اور بچوں کے ٹی وی پروگراموں پر بات چیت کی جائے جو پڑھائی، لکھائی اور تہذیب و ثقافت سے متعلق ہوں۔
انہیں روزانہ، بھلے تھوڑا سا بھی ہو، مطالعہ کی عادت ڈالنے کی ترغیب دی جائے تاکہ ان کا علم بڑھے۔ ہمارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں، اپنے رب سے علم حاصل کرنے اور زندگی میں مشاہدے اور تجربے کے ذریعے سیکھنے پر بہت زور دیتے تھے۔
بچوں کو پڑھائی پر قائم رکھنے کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ انعامات اور حوصلہ افزائی کا اہتمام کرنا چاہئے، قرآنی کوئز اور مقابلہ جات کروائیں تاکہ معلوم ہو کہ کون زیادہ پڑھتا ہے اور کون گہری سمجھ رکھتا ہے۔ والدین (بالخصوص والد) کو چاہیے کہ ایک مخصوص نشست میں گھر والوں، بشمول بچوں کے ساتھ قرآن پڑھنے کا خصوصی اہتمام کرے، اور پھر ایک اور نشست مفید کتب کے مطالعے کے لیے رکھی جائے۔
دوسرا: وسائل کی فراہمی
جب بچہ پڑھنے کی طرف مائل ہو جائے تو اس کے لیے مناسب کتابیں فراہم کی جائیں جو اس کی عمر اور دلچسپی کے مطابق ہوں۔ چھوٹے بچوں کی کہانیاں دس سال سے بڑے بچوں کی کہانیوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ ہر عمر کے لیے موزوں کتابیں ہونی چاہئیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو ایسی کتابیں اور کہانیاں فراہم کریں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھائیں، تاکہ ہم دوسروں کی ایجادات پر منحصر نہ رہیں۔ اور ہم لینے والے نہیں، دینے والے بن جائیں۔
کتابیں خریدنے یا ادھار لینے کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ یہ بہت اچھا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو لائبریری یا کتاب میلوں میں اپنے ساتھ لے جائیں اور ان کے ساتھ مل کر کتابیں منتخب کریں۔ اور پھر جب وہ بڑے ہوجائیں تو انہیں خود کتابیں خریدنے دیں، لیکن نصیحت اور رہنمائی جاری رکھیں۔
ہمیں چاہئے کہ بچوں کو ثقافتی مراکز اور اسکول کی لائبریری کی زیارت کرنے کی ترغیب دیں، جہاں وہ اپنے لیے مناسب کتابیں چن سکیں اور پڑھ سکیں۔ ہم انہیں بچوں کے رسالوں کو پڑھنے اور ان کے ساتھ مکاتبہ کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔ ان کی کتابوں کے لیے ایک خوبصورت لائبریری بنا کر، اس میں دلکش رنگ رکھ کر انہیں اس کو ترتیب دینے اور منظم کرنے کے لیے مدعو کریں، اور اسی طرح بچوں کو بڑوں کی لائبریری دیکھنے سے بھی نہیں روکنا چاہئے۔
تیسرا: مثالی قاری
یہ شاید سب سے اہم قدم ہے جو ہم اپنے بچوں کو پڑھنے کی ترغیب دینے کے لیے اٹھا سکتے ہیں۔ انہیں ہمیں کتاب پڑھتے دیکھنا چاہیے۔ جب بچہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو پڑھتے دیکھتا ہے تو وہ ان کی تقلید کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے والدین کو مثالی نمونہ سمجھتا ہے۔ اگر والد خود نہیں پڑھتا تو وہ بلاشبہ اپنے بچوں کو پڑھنے کی ترغیب دینے میں ناکام رہے گا۔
پڑھنے کے فوائد:
بچوں کو پڑھنا سکھانے کے بہت سے فوائد اور عظیم منافع ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1. انسان کو اپنے خالق سبحانہ و تعالیٰ کی صحیح معرفت حاصل ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں آسانی ہوتی ہے۔
2. اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوتی ہیں اور اس پر یقین مضبوط ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کفار، ملحدین اور گمراہ فرقوں کے طریقوں کی پہچان ہوتی ہے، تاکہ ان سے بچا جا سکے۔
3. پڑھنے والے کا مقام و مرتبہ دنیا اور آخرت میں بلند ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا ۔” [المجادلۃ: 11]
4. پڑھنا علم حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے جو اس کے بغیر ممکن نہیں۔
5. یہ انسان کو زمین کی آبادکاری کی ذمہ داری نبھانے اور مختلف علوم سیکھنے کی ترغیب دیتا ہے، جو اس کے اور دوسروں کے لیے بڑے فائدے کا باعث بنتے ہیں۔
6. فارغ اوقات کو مفید کاموں میں گزارنے، دماغی نشوونما، اور مسائل کے حل کے لیے ذہنی افق کو وسیع کرنے میں مدد کرتی ہے۔
7. یہ پچھلی قوموں کی تاریخ اور ان کے احوال جاننے اور ان سے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
8. مختلف مہارتیں سیکھنے اور انہیں عملی طور پر استعمال کرنے میں مدد کرتی ہے، جس سے تمام لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
9. یہ انسان کے لیے نفع اور نقصان کی پہچان کا دروازہ ہے۔
10. یہ عظیم اجر اور بڑے ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے۔
مصادر و مراجع:
– العجلونی: کشف الخفاء، 2/24
– اسلام میں پڑھنے کی اہمیت
– پڑھنے کے متعلق احادیث
مترجِم: عاشق حسین پیرزادہ