امام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ اصولوں کے مطابق زیرتعلیم افراد کی دیکھ بھال اور نئی نسل کو اسلامی اقدار اور اخلاقیات پر تربیت دینے میں خصوصی توجہ دی۔ اسی طرح عقل کی تربیت پر بھی زور دیا، جو شعور کی بنیاد اورباہمت افراد تیار کرنے کی کان ہے۔ نیز ثقافتی ورثے کی تطہیر کر کے نئی نسل تک منتقل کرنے پر توجہ دی، تاکہ نئی نسل ایک خالص سرچشمے سے فیض یاب ہو جو ان کی روحانی بالیدگی کا سبب بنے۔
حضرت علی بن ابی طالبؓ کے اقوال، نصیحتوں، اور تربیتی ہدایات کا تجزیہ کرنے پر یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے ماضی، حال، اور مستقبل تینوں پہلوؤں پر توجہ دی ہے۔ یہ پہلو ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں بلکہ باہم منسلک اور ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں، جو آخر کار آپس میں مل کر انسانی زندگی کا زمانی پہلو تشکیل دیتے ہیں۔
امام علیؓ کا متعلم کے مزاج پر توجہ دینا:
امام علیؓ کی رائے میں ہر طالب علم کی فطرت اصلاََ خیر پہ ہے، شر اس پہ عارضی کیفیت ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: “پس (اے نبی ص! اور آپ کے پیرو) یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو۔ قائم ہو جاؤ اس فطرت پہ جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی”۔ [الروم : 43]
امام علی – کرم اللہ وجہہ – نے اپنے بیٹے حسن کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
بے شک تم جب پیدا ہوئے تو جاہل تھے، پھر تم نے علم حاصل کیا، اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں تم لاعلم ہو اور انہیں سن کر تمہاری عقل حیران رہ جاتی ہے، اور تم بھٹک جاتے ہو، پھر بعد میں اس کا ادراک کرتے ہو۔
اس قول سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ انسانی فطرت کی لچک اور پختگی کی جانب بڑھتی ہوئی تشکیل پذیری کو اہمیت دیتے تھے۔ ارشاد باری ہے:
“اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکرگزاری کرو” [النحل: 78]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد جنہوں نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا، یہ ضروری سمجھتے تھے کہ طالب علم (متعلم) کو خود اعتمادی اور اپنی ذات پر بھروسا ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرے اور لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرے جس کی وہ ان سے توقع کرتا ہے۔
امام علیؓ کے ہاں نسلِ نو کی تربیت کا اہتمام:
امام علیؓ نے کم عمری میں تعلیم و تربیت کی اہمیت پر زور دیا، کیونکہ اس عمر میں بچے میں لچک ہوتی ہے اور رہنمائی کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے۔ ایک طرف اس مرحلے پر اس کی رہنمائی اور تربیت ممکن ہوتی ہے، اور دوسری طرف بچہ متفرق اور جمع شدہ تربیتی تجربات میں سے انتخاب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
امام علیؓ نے فرمایا:
“اے میرے بیٹے! اگرچہ میں نے ان لوگوں جتنی عمر نہیں پائی جو مجھ سے پہلے تھے، لیکن میں نے ان کے اعمال پر غور کیا، ان کی حالات پڑھے اور ان کے نشانات پر چل کر ان کا مشاہدہ کیا، یہاں تک کہ میں نے ان کے کھرے اور کھوٹے کو پہچانا، اور ان کے نفع و نقصان کو سمجھا۔
چنانچہ میں نے ہر معاملے میں تمہارے لیے اس کا خلاصہ نکالا، اور خوبصورت باتوں کو تمہارے لیے منتخب کیا، اور تمہیں ان باتوں سے دور رکھا جو ناقابل فہم تھیں۔ میں نے تمہارے معاملے میں وہی کیا جو ایک مہربان والد کرتا ہے، اور تمہاری تربیت کے لیے وہ سب جمع کیا جو تمہارے حق میں بہتر ہو، جب کہ تم جوان ہو، عمر کے ابتدائی مرحلے میں ہو، اور تمہاری نیت نیک اور دل صاف ہے۔”
یہاں امام اشارہ کرتے ہیں کہ ثقافتی اور معاشرتی ورثہ میں نئی نسل کے لیے ہر چیز صالح اور مفید بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے اس ورثہ میں سے بھی اغلاط کو نکالنا، اور مختلف منابع سے بہترین متبادل کا انتخاب کر کے اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے جو موجودہ چیلنجز اور مسائل کے مطابق ہو۔ اس میں مسلم معلم اور مربی کا کردار نمایاں ہوتا ہے جو انسانی فطرت کو اچھائی یا برائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے اس کی درستگی، ترمیم اور اصلاح بہتر طریقے پرکی جاسکتی ہے۔
امام علی ؓ اپنی وصیت میں اپنے بیٹے حسنؓ کو فرماتے ہیں:
بچے کے دل کی حالت زمین کی طرح ہوتی ہے جو بالکل خالی ہوتی ہے، جس میں جو بھی چیز ڈالی جائے قبول کرلیتی ہے۔ اس سے پہلے کہ تمہارا دل سخت ہو جائے اور تمہارا دماغ مصروف ہو جائے، ادب کو فوراً قبول کر لو تاکہ تم تجربہ کار لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکو اور اپنی سوچ کو اچھے طریقے سے استعمال کرو، تاکہ تمہیں مزید تلاش و جستجو میں محنت نہ کرنی پڑے اور تجربے کی مشقت سے محفوظ رہو۔
یہ وصیت ظاہر کرتی ہے کہ بچے کا دوسرے افراد پر انحصار بہت طویل عرصے تک ہوتا ہے، خاص طور پر اس کے ابتدائی زندگی کے دنوں میں۔ اس دورانیے میں وہ کسب فیض کرنے اور ان کی وسیع معلومات سے مستفید ہونے کے لیے دوسروں کے ساتھ تعلق پیدا کرتا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی تصدیق ہوجاتی ہے کہ حضرت علیؓ کو جدید تعلیم کے تصور سےجو آج ریاستی تعلیم سے معروف ہے یا جسے تربیتی رہنمائی کہا جاتا ہے، کے معاملے میں بھی سبقت حاصل ہے۔
عقل کی تربیت:
امام علیؓ نے عقل کی تربیت کا انتہائی اہتمام کیا ہے اور اسے وہی مقام عطا کیا جو مقام اسے اسلام نے دیا ہے۔ آپ کے آثار اس اہتمام پر شاہد ہیں۔ بلکہ اس اعتبار سے اہتمام کہ یہ علمی سوچ کا مرکز ہے جو زندگیمیں ہر چیز کی بنیاد تصور کی جاتی ہے۔ ان کے نزدیک عقل کی تربیت کے چند طریقے یہ ہیں:
غور و فکر: عقل انسان کو خیر کے راستے پر رہنمائی اور شر کے راستے سے اجتناب کرنے میں رہنمائی کرتی ہے، کیونکہ اسلام کی نظر میں خیر اور شر کا مطلب دونوں کے آخری نتیجے پر واضح ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی۔ پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر چلنے کی۔ جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوا۔” [الشمس: 10-7]، تاکہ انسان کو مکمل انتخاب کی آزادی حاصل ہو۔
امام علیؓ کے نزدیک مال کثیر کا مالک ہونا غنی نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ انسان ایسی پختہ اور صائب عقل کا رکھتا ہو جو اسے درست رہنمائی کرنے کے قابل ہو۔ آپؓ نے فرمایا، “کوئی دولت عقل جیسی نہیں” اور حضرت حسنؓ کو نصیحت کی: سب سے بڑی دولت عقل ہے!
حضرت علیؓ کے نزدیک عقل تجربات کو محفوظ کرنے کی جگہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنی مشکلات حل کر سکتا ہے۔ امام علی نے فرمایا: “عقل تجربات کی محافظ ہے”، اور اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: “عاقل کی زبان دل کے پیچھے ہے، اور نادان کا دل زبان کے پیچھے ہے”، اور مزید کہا: “عقل جیسی کوئی دولت نہیں، جہل جیسی کوئی غربت نہیں، ادب جیسی کوئی وراثت نہیں، اور مشورہ جیسا کوئی مددگار نہیں”، اورآپ کا ایک حکیمانہ قول ہے:”جب عقل مکمل ہو جاتی ہے تو کلام کم ہو جاتا ہے۔”
علم: امام علی بن ابی طالبؓ نے علم کو انسانی زندگی میں اس کی اہمیت کے مطابق ایک خاص توجہ دی۔ آپ کے نزدیک علم مال سے بہتر ہے، انہوں نے اپنے شاگرد کمیل بن زیاد سے فرمایا: “اے کمیل! علم مال سے بہتر ہے، علم تمہاری حفاظت کرتا ہے جب کہ تم مال کی حفاظت کرتے ہو، مال خرچ ہونے سے کم ہوتا ہے، اور علم عطا کرنے سے بڑھتا ہے۔ کثرت علم میں تمام خیر پوشیدہ ہے۔” نیز فرمایا: “خیر زیادہ مال اور اولاد میں نہیں بلکہ خیر زیادہ علم میں ہے۔”
امامؓ کے نزدیک علم حاصل کرنے کا بہترین طریقہ علماء کی محفل میں بیٹھنا اور ان سے علمی گفتگو کرنا ہے، جو انسان کی تفکر، غور و فکر اور تنقیدی سوچ کو بڑھاتا ہے۔ علم کے اس سفر میں، علماء کی بات چیت کے ذریعے خیالات نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں۔ امام علیؓ نے مصر کے عامل مالک نخعی سے کہا: “حکیموں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تبادلہ خیال کرو”۔
تخلیق پہ غور و فکر:
امام علیؓ نے اپنے بہت سے خطبات میں حیوانات، نباتات، بادل، بارش، اور لوگوں کی حالات جیسے موضوعات پر گفتگو کی ہے، جو آج کے سائنسی طریقے سے قریب ہے جو مظاہر کو درست کرتا ہے۔ امام اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنی عقلی صلاحیتوں کو صحیح استعمال کرکے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ وہ وحیِ مسطور (کتاب اللہ) کے بیان کردہ حقائق کو قابل مشاہدہ کائنات کے ساتھ تقابل کرکے اس کی سچائی کا یقین کریں۔
ان مخلوقات میں چیونٹی اور چمگادڑ شامل ہیں جن کی امام علیؓ نے تمثیل دی۔ چمگادڑ کے بارے میں فرمایا: اس کی عجیب خلقت اور لطافت پہ ہم غور کرتے ہیں جو رات کے اندھیروں میں دیکھ پاتی ہے اور دن میں بند رہتی ہے۔
ہم امام علی بن ابی طالب – کرم اللہ وجهه – کے کلام سے درج ذیل امور کو سمجھتے ہیں:
- عقل کی تربیت اور اس کی نشوونما کی اہمیت، تجربات اور سیکھے گئے اسباق سے فائدہ اٹھانے کے ذریعے، کیونکہ عقل کی پختگی انسان اور معاشرے کی زندگی میں ایک مؤثر اثر رکھتی ہے۔
- عقل کی تربیت کی اہمیت اور شورائی اور عدالتی امور میں اس کی ضرورت، کیونکہ جہاں قرآن و نبوی منہج میں کوئی واضح حکم نہ ہو یا ائمہ کے فیصلے میں موجود نہ ہو، وہاں رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔
- عقل کو غور و فکر، تدبر، تفکر، اور حقیقت کی جانچ پڑتال کرنے اور اس کو اچھی طرح سمجھنے کی تربیت دینا۔
- عقل کی تربیت کے لیے اچھے انداز میں مباحثہ، سوال و جواب، تلقین، نسخ حفظ، اور روایت پر زور۔
یہ اسی بات کی تاکید ہے جس کی وصیت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت حسن سے کی تھی “اے میرے بیٹے، میری چار باتیں یاد رکھو، ان کے ساتھ جو بھی عمل کرو گے اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ سب سے بڑی دولت عقل ہے، حماقت سب سے بڑا فقر ہے، سب سے بری تنہائی تکبر ہے، اور سب سے بڑھ کر عزت اچھے اخلاق ہیں۔ اے میرے بیٹے، خبردار رہو، احمق کی دوستی سے بچو کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچائے گا، اور بخیل کی دوستی سے بچو کیونکہ وہ تمہیں اس وقت بھی دور کرے گا جب تمہیں اس کی ضرورت ہوگی۔ اور گناہگار کی دوستی سے بچو کیونکہ وہ تمہیں بے مقصد چیزوں کے بدلے فروخت کر دے گا، اور جھوٹے کی دوستی سے بچو کیونکہ وہ ایک سراب کی طرح ہے جو دور کو قریب اور قریب کو دور دکھاتا ہے۔”
ثقافتی ورثہ کی تطہیر:
امامؓ نرم دل اور نہایت مخلص انسان تھے۔ ارد گرد کی کوئی شخصیت آپ کے مثل نہ تھی۔ آپ کو تین ادبی قوتیں، جو دراصل جنت کے خزانوں میں سے تھیں، حاصل تھیں جن کی بنیاد پہ ہم ان کی عظمت سمجھ سکتے ہیں، وہ ہیں: عیب کو چھپانا، صدقہ کو چھپانا، اور مصیبت کو چھپانا۔
یہی کردار احساس، تخیل، اور عقل کی طاقتوں کے ذریعہ حضرت علی بن ابی طالبؓ کی تخلیق میں نمودار ہوتا ہے، اور یہ تینوں طاقتیں آپس میں مضبوطی سے جُڑی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ گہری وابستگی رکھتی ہیں۔ جب دل کسی چیز کا احساس کرتا ہے تو وہ ایک خوبصورت تصویر میں ظاہر ہوتی ہے، جسے عقل سادگی کے ساتھ مہر ثبت کرتی ہے، اور حکمت اسے ایک سکے کی طرح چھانتی ہے جو ذہنوں کے درمیان تبادلہ کی جاتی ہے، جو متاثر ہوتی اور فائدہ اٹھاتی ہے۔ جن کے اندر یہ صلاحیت ہو تو تعجب کی بات نہیں کہ کچھ لوگ ان کی محبت میں مبتلا ہوں، اور کچھ دوسرے لوگ ان کے حسد میں مبتلا ہوں اوران کے ساتھ بغض رکھیں، اور دونوں گروہ انتہا پسند ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ عامر شعبی نے کہا: “قوم انہیں محبت میں مبتلا ہو گئی تو ان کی محبت میں کفر کر دیا، اور قوم بغض میں مبتلا ہو گئی تو ان کے بغض میں کفر کر دیا”۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ماننا تھا کہ نئی نسل کو سب سے پہلے قرآن کریم اور اس کے تفسیر کی تعلیم دینی چاہیے، کیونکہ اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جو لوگوں کو اپنی دنیوی اور اخروی زندگی کے لیے درکار ہے، اور اس میں سابقہ اقوام کی حالات کی وضاحت بھی ہے۔ اپنے بیٹے حسن کے لیے اپنی وصیت میں فرمایا: “میں نے کتاب اللہ اور اس کی تفسیر، اسلام کی شریعت، اس کے احکام اور اس کے حلال سے تمہاری تعلیم کا آغاز کیا ، اور میں اس سے آگے تجاوز نہیں کروں گا”۔
اسی طرح، مربّی پر یہ واجب ہے کہ جب وہ اس تراثِ ثقافتی کو طلبہ کے سامنے پیش کرے، تو اسے کثافتوں سے پاک کرے۔ حضرت علی بن ابی طالب رض نے اپنی وصیت میں اپنے بیٹے حسن کو یہی بات سمجھائی: “پھر مجھے اندیشہ ہوا کہ تمہارے لیے مختلف لوگوں کے خیالات میں وہی گڑبڑ نہ ہو جو ان کے لیے گڑبڑ ہوئی تھی، اس لیے میں نے اسے اچھی طرح واضح کرنے کو ترجیح دی جو مجھے پسند نہیں تھا، تاکہ تم کسی ایسے معاملے میں نہ پھنس جاؤ جس میں میں تمہارے لیے نقصان کا خطرہ محسوس کرتا ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تمہیں ہدایت دے گا اور تمہیں راستہ دکھائے گا۔”
تربیتی آراء:
حضرت امام علی کرم اللہ وجہہ نے نبوی مدرسہ میں تربیت پائی اور اس کے اثرات ان کی شخصیت کے اندر رچ بس گئے تھے، جو ان کے رویے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ انہوں نے وہاں سے ایمان، اخلاص، اور صداقت سیکھی، نیز ذمہ داریوں کو اٹھانے اور اس کے لیے قربانی پیش کرنا سیکھا۔ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – کو اپنے لیے مثالی شخصیت اور رہنما بنایا، وہ اللہ کے احکامات کو عملانے میں وہ مضبوط اور انصاف پسند مربی تھے۔ ان کی تربیتی دلچسپیوں کا نقطہ آغاز یہی تھا کہ وہ اس تربیتی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے تیار تھے، اور ان کے مزاج اور صلاحیتوں نے بھی اس میں مدد فراہم کی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرنے والے منتخب افراد میں شامل تھے، اور اپنے وقت اور قوم میں عربی ثقافت کے ایک نمایاں فرد تھے۔
تاہم، ان کی شخصیت کا عملی پہلو نظریاتی پہلو سے زیادہ غالب اور نمایاں تھا، البتہ انہوں نے مختلف علوم میں علمی آثار چھوڑے، جنہیں ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، جو درج ذیل ہیں:
- ان کے نام سے ایک شاعری دیوان منسوب ہے جس میں تقریباً 1500 اشعار شامل ہیں، جو زہد، عبادات، اور اقوال پر مشتمل ہیں۔
- نثری طور پر، وہ اس میدان میں اپنی بصیرت کے ساتھ ممتاز ہیں، اور ان کے چھوڑے ہوئے آثار ایک مجموعہ کی صورت میں موجود ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بہت سے خطبات اور اقوال مختلف ادب کی کتابوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جیسے کہ “مخلاة” اور “کشكول” جیسی کتب میں، جو بہاءالدین عاملی نے مرتب کیں۔
حضرت علی بن ابی طالب – کرم اللہ وجہہ – کی تربیتی دلچسپی ان کے ذمہ داری کے بوجھ سے نکلتی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے حسین کو اپنی وصیت میں دی، جہاں انہوں نے کہا: “اپنے فیصلے کو سنجیدگی سے لو، کیونکہ تجربہ کار لوگوں کی خواہش اور تجربے کی روشنی میں تمہیں وہی سبق ملے گا جو ہمیں ملا تھا۔” اس بات کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے کہ انسان کی موجودگی یہاں دنیاوی زندگی میں محدود ہے، لہٰذا اسے پچھلے تجربات کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مطابق، تربیت ایک انسانی حق ہے، جس کی ادائیگی حاکم پر واجب ہے ۔ انہوں نے کہا: “مجھ پر تمھارے حقوق ہیں اور تم پر میرے۔ تمہارا حق میری نصیحت ہے، اور تمہارے مال کی ذمہ داری، اور تمہیں تعلیم دینا تاکہ تم جاہل نہ رہو۔” انہوں نے اس حق کو بہترین طریقے سے ادا کیا، جس کا واضح ثبوت مسجد کوفہ میں ان کی علمی مجلس ہے، جسے انہوں نے میدانِ جنگ تک میں قائم رکھا۔
اصبغ بن بناتہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت علی سے پوچھا جب وہ حضرت معاویہ سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بارے میں، تو حضرت علی نے پانی سے نصف بھرا ہوا ایک مشکیزہ منگوایا، اور کہا: “کون ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بارے میں پوچھ رہا ہے؟” تو وہ شخص اٹھا اور آپؓ نے تین بار وضو کیا اور ایک بار سر پر مسح کیا، اور کہا کہ میں نے ایسا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا۔”
امام علیؓ اپنے عاملین کو رعایا کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کیا کرتے۔ ایک گورنر کو انہوں نے خط میں لکھا، “حمد و ثناء کے بعد، لوگوں کو حج کی تربیت دو اور انہیں اللہ کے ایام یاد دلاؤ، دوپہر کے بعد ان کے درمیان بیٹھو تاکہ مسئلہ پوچھنے والوں کو فتویٰ دو اور جاہلوں کو علم دے دو۔”
حضرت علی بن ابی طالب کی تربیتی دلچسپی واقعی ہر فرد کے لیے تھی، چھوٹے ہوں یا بڑے، حتیٰ کہ جو میدانِ جنگ میں ہوتے تھے انہیں بھی تربیت دیتے۔ انہوں نے اپنے گورنروں کو خطوط کے ذریعے یہ تعلیم دی، جیسے کہ زیاد بن نضر کے نام لکھے گئے خط میں فرمایا: “میں نے تمہیں اس فوج کا ولی بنایا ہے، لہٰذا ان پر نخوت نہ کرو، اور اللہ کے ہاں تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ متقی ہو، اور ان کے عالم سے علم حاصل کرو اور جاہل کو تعلیم دو۔”
مترجم: زعیم الرحمان