ایمان افروز راتوں میں فرد اور مربی کی ذمہ داریاں
عام طور پر ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر عمل میں اللہ عزوجل کی عبادت کی نیت کرے، اور اپنے نفس، دل اورتمام اعضاء بدن کو اس عبادت میں شریک کرے۔ اسے چاہیے کہ اس عمل کے ذریعے اللہ عزوجل کی قربت حاصل کرنے کی نیت کرے، کیونکہ اس میں دنیا و آخرت کی بھلائیاں ہیں اور اللہ کے ہاں اجر و ثواب کی امید ہے۔ پس وہ اپنے کام کی طرف توبہ کرتے ہوئے، خلوص کے ساتھ، جہاد کرتے ہوئے اور ثواب کی نیت سے رجوع کرے۔ نیز اسے چاہیے کہ عمل کی سلامتی، امن اور امانت کا خیال رکھے۔ اسی طرح اسے کام کی مسلسل بہتری، ترقی اور نقائص و کمیوں کی تلافی کے لیے مستقل سوچ و فکر کرتے رہنا چاہیے۔
فرائض اور ذمہ داریوں کی تقسیم کی اولین ترجیحات میں سے ہے کہ انہیں متعدد افراد میں تقسیم کیا جائے تاکہ ہر ایک کی ذمہ داری اس کے حصے کے مطابق متعین ہو۔ یہ صلاحیتوں، سرگرمیوں، مقامات اور اوقات کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی فرد کو کوئی خاص ذمہ داری سونپی جاتی ہے جس کا وہ ذاتی طور پر ذمہ دار ہوتا ہے، جیسے: رابطہ کاری کے بعض کام۔ اور کبھی فرد کو کوئی اجتماعی ذمہ داری سونپی جاتی ہے جو باہمی تعاون پر مبنی ہوتی ہے، یہ ایک ٹیم ورک کے ذریعے ہوتا ہے، خواہ وہ اس میں رکن کی حیثیت سے ہو یا ذمہ دار کی حیثیت سے۔
سیرت ابن ہشام میں آیا ہے کہ جب لوگوں پر مصیبت سخت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیینہ بن حفص اور حارث بن عمر کی طرف (پیغام) بھیجا، جو غطفان کے سردار تھے۔ آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ کے پھلوں کا تیسرا حصہ دینے کی پیشکش کی، اس شرط پر کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے پیچھے ہٹ جائیں۔ پس ان کے درمیان صلح کی بات چلی، یہاں تک کہ انہوں نے معاہدہ لکھ لیا لیکن ابھی گواہی نہیں ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ سے ذکر کی اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ انہوں نے کہا: “یا رسول اللہ! کیا یہ وہ چیز ہے جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے جسے ہمیں لازماً کرنا ہے، یا یہ وہ چیز ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں، یا یہ وہ چیز ہے جو آپ ہمارے لیے کر رہے ہیں؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “نہیں، بلکہ یہ وہ چیز ہے جو میں تمہارے لیے کر رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں یہ اس لیے کر رہا ہوں کہ میں نے دیکھا کہ عرب نے تم پر ایک ہی کمان سے تیر چلائے ہیں اور ہر طرف سے تم پر حملہ آور ہیں، تو میں نے چاہا کہ تم سے ان کی قوت کو توڑ دوں۔” سعد بن معاذ نے کہا: “یا رسول اللہ! ہم اور یہ لوگ اللہ کے ساتھ شرک اور بتوں کی عبادت پر تھے، ہم نہ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور نہ اسے پہچانتے تھے، اور یہ لوگ یہاں کا ایک پھل بھی نہیں کھا سکتے تھے سوائے مہمان بن کر یا خرید و فروخت کے بعد۔ پھر جب اللہ نے ہمیں اسلام سے نوازا اور آپ کے ذریعے ہمیں عزت بخشی تو کیا اب ہم انہیں اپنا مال دیں؟ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ کی قسم! ہم انہیں تلوار کے سوا کچھ نہیں دیں گے، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یہ تم اور تمہاری بات ہے۔” پھر سعد نے صحیفہ لیا اور اس میں لکھی ہوئی تحریر کو مٹا دیا، پھر کہا: “اب وہ ہم پر زور آزمائی کریں۔”
ٹیم ورک افراد کے ایک گروہ سے تشکیل پاتا ہے جو کسی خاص کام کی انجام دہی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر ان ٹیموں کو نفاذی اختیارات حاصل ہوں تو ان کے فیصلے اور احکام اپنے ماتحتوں کے لیے لازمی ہوتے ہیں، اور اگر یہ تجاویز اور سفارشات پیش کرنے کے لیے ہوں تو یہ مشاورتی اور اجتماعی سوچ و فکر کے لیے ہوتی ہیں۔
ٹیم ورک یا تو مستقل ہوتا ہے جس کی مسلسل ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ تنظیمی ڈھانچے کی اصل میں ہوتا ہے، یا پھر عارضی ہوتا ہے جو اپنے کام اور وقت کے اختتام پر ختم ہو جاتا ہے (جیسے کانفرنس ٹیم، تقریب کی ٹیم، وغیرہ…)۔
کسی بھی ٹیم کی کارکردگی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے:
- اس کی ذمہ داریوں اور اختیارات کی کھلی وضاحت ہو۔
- اس کے فرائض کے پیش نظر تعداد اور مقصد کی مناسبت سے اس کے ارکان کا انتخاب
- مادی، معنوی اور معلوماتی تمام مطلوبہ طریقوں سے اس کی حمایت
- اس کے اندر کام کرنے کے طریقے کی وضاحت (کام کے طریقہ کار)
- اس کے لیے مناسب ذمہ دار کا انتخاب
اس کے کام کے طریقہ کار کی منظم کاری کے لیے ضروری ہے:
- مقصد کی معرفت، کیونکہ یہی کام کی بنیادی ضروریات کو متعین کرتا ہے۔
- کام کو جزوی سرگرمیوں میں تقسیم کرنا تاکہ سرگرمیوں کی ایک جامع اور تفصیلی فہرست موجود ہو۔
- ہر سرگرمی کے لیے ذمہ داریوں کا تعیین: شروعات سے پہلے – دوران کار – اختتام پزیری کے بعد۔
- افراد کو ذمہ داریاں سونپنا۔
- مقررہ کام کی انجام دہی کے لیے ضروری اختیارات کی تفویض۔
فرائض اور کردار تین قسم کے ہو سکتے ہیں:
انتظامی
تربیتی
عام
انتظامی فرائض: انتظامی ٹیم کا رکن یا ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے ہدایات اور پالیسیوں پر عمل درآمد کرتا ہے اور کسی مخصوص منصوبے کی تکمیل میں حصہ لیتا ہے اور انتظامی نظام کے تحت اور کام کی عام اور داخلی ضوابط کے مطابق اس کے نفاذ میں حصہ لیتا ہے۔
تربیتی فرائض: یہاں ہم اس کے بعض فرائض اور کرداروں کا ذکر کریں گے بطور ذمہ دار (تربیتی حلقہ – ایمان افروز راتیں، سفر – تربیتی کیمپ)۔
لیکن ہم پہلے ان وسائل میں اس کے بطور فرد فرائض کی طرف اشارہ کریں گے، پھر بطور ذمہ دار، کیونکہ یہ معاملہ اہم ہے۔ فرد کامیاب ذمہ دار نہیں بن سکتا جب تک وہ کامیاب سپاہی اور ٹیم کا رکن نہ ہو۔
عام طور پر ایسے کاموں کے ذمہ دار کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری ایک فعال اورمشترکہ ٹیم ورک کے ذریعے انجام دے اور اسے ضروری مشاورت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ کام اجتماعی طور پر اور ٹیم اسپرٹ کے ساتھ انجام پائے۔ فرائض کی تقسیم اور ذمہ داریوں کی تفویض کے وقت مناسب اہلیت اور قابلیت کو اس کی مناسب جگہ پر رکھنے کا خیال رکھنا چاہیے۔
تربیتی حلقہ
پہلا: تربیتی حلقے میں بطور فرد اس کی ذمہ داریاں:
تربیتی حلقے کے ہر فرد پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں جن میں سے ہم اجتماعی فرائض اور حلقے کے مستقل فرائض کا ذکر کرتے ہیں۔
اجتماعی فرائض، جن میں سے چندیہ ہیں:
١۔ اپنے ساتھی کے ساتھ حلقے کے اوقات کے علاوہ، گھر یا جہاں وہ کام کرتا ہو ، ملاقات کرنا۔
٢۔ فجر، جمعہ اور دیگر نمازوں میں اپنے بھائیوں سے ملنے کے مواقع تلاش کرنا۔
٣۔ بیماری میں عیادت کرنا اورساتھی کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں حال احوال پوچھنا۔
٤۔ ضرورت کے وقت ساتھی کی مدد کے لیے حاضر ہونا۔
٥۔ کسی خاص موقع پر یا ویسے ہی اپنے ساتھی کے گھر خاندانی دورہ کا اہتمام کرنا۔
٦۔ خوشی کے مواقع پر تہنیت پیش کرنا۔
٧۔ اللہ عزوجل کی اطاعت میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا۔
٨۔ بوجھ اٹھانے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ باہمی کفالت کرنا۔
٩۔ اپنی زندگی کی نئی صورت حال سے بھائیوں کو آگاہ کرنا اور ان سے مشورہ کرنا۔
باقاعدہ حلقے کے فرائض:
1۔ ملاقات سے پہلے:
روحانی، نفسیاتی، ذہنی اور جسمانی تیاری ضروری ہے۔ یہ اپنی روح کو پاک کر کے اور شوق و ترقب کے ساتھ اپنے نفس کو آمادہ کرکے حاصل ہوتی ہے۔ اس کی روح ایمانی عناصر سے خالی نہ ہو، اور اس کا نفس دوسری فکروں میں مشغول و پریشان نہ ہو۔
نیز مناسب علمی زادِ راہ، بیدار ذہن اور فعال شرکت کے ساتھ اپنے دماغ کو تیار کرنا چاہیے۔ پھر پاکیزہ جسم کے ساتھ نشاط و توانائی سے حاضر ہونا چاہیے۔
٢۔ حلقے کے دوران:
یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ حلقے سے متعلق ہر معاملے میں نظم و ضبط کا مظاہرہ کرے یعنی، وقت کی پابندی- مجلس کے آداب کا التزام- اور اس سے متعلقہ کسی بھی کوتاہی سے اجتناب۔
٣۔ حلقے کے بعد:
تمام ذمہ داریوں کو مکمل طور پر نبھانا چاہیے اور ایسی کوتاہی کے لیے معذرت نہ کرنا جو ٹالی جا سکتی تھی۔ یہ عمل ذمہ داری نبھانے کے طور پر ہونا چاہیے، نہ کہ محض ذمہ داری سے بری ہونے کے لیے۔
دوسرا: تربیتی حلقے کے ذمہ دار کی حیثیت سے اس کی ذمہ داریاں:
اپنا کردار بہترین انداز میں ادا کرنے کے لیے درج ذیل مقاصد کی تکمیل کی کوشش کرنی چاہیے:
١۔ اپنے رویے اورطرز عمل سے نمونہ پیش کرے۔
٢۔ وہ اس بات پر قادر ہو کہ وہ افراد کے اندر دعوت سے وفاداری اور اعتماد پیدا کرے۔
٣۔ تربیتی حلقے کی کامیابی اور اس کے ارکان کی تکمیل کے لیے کام کرے۔
٤۔ افراد کے اندر ذاتی نشوونما کی صلاحیت کو پیدا کرنے پر قادر ہو۔
٥۔ افراد کے اندر یہ جذبہ پیدا کرے کہ وہ قولاََ، عملاََ اور سلوکاََ ارکان کے التزام کا اہتمام کریں روایتی طور بھی اور دلائل کے ساتھ بھی۔
٦۔ صف کے اندر رہتے ہوئے وہ ان کے ساتھ ضوابط عمل کا التزام کرے۔
٧۔ مربی اس بات کی صلاحیت رکھتا ہو کہ وہ افراد کو کنٹرول کرسکے اور ان کی حرکات و سکنات کا شریعت سے تابع رکھے۔
٨۔ یہ کہ وہ سماجی پہلو کو مستحکم کرنے اور تربیت کے لیے صحت مند ماحول تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
نیز اسے سخت کوشش کرنی چاہیے اور اسباب اختیار کرنے چاہئیں تاکہ وہ اعتماد کا اہل ہو، اپنے بھائیوں کے درمیان قلبی تعلق سے والد کا حق، علمی افادیت سے استاد کا حق، روحانی تربیت سے شیخ کا حق، اور دعوت کی عام پالیسی کے لحاظ سے قائد کا حق رکھتا ہو۔
نیز اسے سخت کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ان وسائل کو اپنائے جو پچھلے مذکورہ مقاصد کو پورا کریں اور اپنے بھائیوں کے درمیان اخوت اور محبت کے معانی کی تکمیل کا حریص ہو، اور یہ کہ تربیتی حلقہ صرف ہفتہ وار ملاقات تک محدود نہیں ہے، اور دستیاب تربیتی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جامع عملی تربیت پر ان کے ساتھ توجہ مرکوز کرے اور اس کے مقاصد کی تکمیل کرے۔
ایمان افروز نشست:
پہلا: ایمان افروز نشست میں بطور فرد اس کی ذمہ داریاں: (اس کا شعار: سیر ہو کر کھائیں اور بیدار رہ کر سوئیں)۔
١۔ کام کی تکمیل کے لیے تیاریوں، ضروریات اور مطلوبہ نکات کی تیاری سمیت ہر ذمہ داری کی تعمیل کرنا۔
٢۔ اجتماع سے لے کر تمام کام مکمل ہونے کے بعد رخصت ہونے تک اس کے تمام کاموں میں انضباط، بشمول: نیند، بیداری، کھانا، پینا، جگہ کی تیاری، فرائض و ذمہ داریوں کی ادائیگی۔
٣۔ ایمان افزا نشست کے کاموں میں سنجیدگی، اور ہر نصیحت، رہنمائی یا درخواست کو قبول کرنے میں جہاد اور مجاہدہ کے معنی کو پیش نظر رکھنا، حسن قبول کے ساتھ اور اللہ کے ہاں اجر کی نیت سے، عبادت اور ذکر سے معمور روحانی ماحول کی حفاظت کے لیے مذاق اور فضول گوئی سے بچنا۔
٤۔ ایمانی نشست کی سلامتی، امن اور امان کا خیال رکھنا اور اس کے لیے روحانی اسباب “دعا” اور عملی اسباب دونوں کو برابر اختیار کرنا۔
٥۔ کام کی بہتری اور منفی پہلوؤں کی تلافی کے لیے اپنے بھائیوں کو نصیحت کے آداب کے ساتھ نصیحت کرنا۔
٦۔ ایمان افزوز نشست کی وصیت پر عمل کرنا اور اس میں اپنے بھائیوں کے ساتھ تعاون کرنا۔
دوسرا: ایمان افزا نشست کے ذمہ دار کی حیثیت سے اس کے فرائض:
اس سے پہلے ضروری ہے:
١۔ فرائض اور نکات کے تعیین اور ان کی شرکاء میں تقسیم، مثلاً: جگہ کی خصوصی تیاریاں، کھانا پینا، ایمانی نشست کا درس، حفاظت و سکیورٹی اور امن، روحانی اور عبادتی پہلو جیسے: نمازوں کی امامت اور خواطر… وغیرہ، عالم اسلام کے بارے میں خبروں کا نشریہ تیار کرنا، ماہ بھر عمل کرنے کے لیے ایمان افروز نشست کا تذکرہ۔
٢۔ پروگرام کے مواد اور ہر نکتے کے لیے درکار اوقات کی تیاری اور ترتیب
٣۔ وقت اور جگہ کا انتخاب
اس کے دوران ضروری ہے:
١۔ برداشت سے باہر بوجھ ڈالے بغیر محبت، الفت اور اللہ کی قربت کی روح کا اضافہ۔
٢۔ کشادہ دلی سے نصیحت قبول کرنا اور بہتری کے حصول اور اپنے کاموں میں شوریٰ کی تکمیل اور اس کے مقاصد کے حصول کے لیے نصائح پر عمل کرنا۔
٣۔ گفتگو، بات چیت اور سننے کے آداب کی حفاظت اور رخصت ہونے سے پہلے کام اور اس میں شریک افراد کی تقویم کرنا ضروری ہے۔
مترجِم: عاشق حسین پیرزادہ