فتحی یکن: لبنان میں تحریکِ اسلامی کے بانی اور ان کے تربیتی نقوش
فتحی یکن لبنان کے ایک مشہور اسلامی اسکالر، معروف مبلغ اور قد آور سیاسی رہنما ہیں، وہ لبنان میں اسلامی تحریک کی بنیاد رکھنے والے اولین رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے شیعہ سنی ہم آہنگی پر زور دیا۔ وہ تحریکاتِ اسلامی کے سیاسی کام کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت پر زور دینے کے حامی تھے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے وافر مقدار میں لٹریچر مرتب کیا، جو کہ عرب دنیا کے ساتھ ساتھ پوری مسلم دنیا میں پھیل گیا اور ان کے کام کو خوب پزیرائی ملی، اور بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کی 76 سالہ زندگی میں ہی اس سے استفادہ کیا اور آج تک اسلامی تحریکوں کے ارکان و وابستگان ان کے علمی کام سے استفادہ کر رہے ہیں۔
فتحی یکن کی پرورش:
فتحی یکن کا تعلق طرابلس کے شہر الفیحہ کے الرفاعیہ علاقے کے ایک ایسے خاندان سے ہے جس کی جڑیں ترکی سے ہیں اور بعد میں شمالی لبنان کے طرابلس میں آباد ہوئے تھے۔ فتحی محمد عنایت یکن جنہیں اپنے دادا کے بعد فتحی یکن کے نام سے جانا جاتا تھا، 9 فروری 1933 عیسوی، مطابق 15 شوال 1351 ہجری کو ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے، جو اپنے دینی شعائر و احکامات کی پابندی کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ اس خاندان کا طرابلس شہر کی سنی آبادی پر کافی اثر و رسوخ تھا۔
اپنی زندگی کے بالکل ابتدائی مراحل میں، فتحی یکن نے 1946 میں امریکی اسکول برائے طلبہ میں داخلہ لینے سے پہلے النجاہ نیشنل اسکول، پھر ماڈل پبلک اسکول میں تعلیم حاصل کی، جس میں طرابلس اور شمالی گھرانوں کے نامی گرامی خاندانوں کے بچے زیر تعلیم تھے۔
اس کے بعد انہوں نے سول ریڈیو کالج میں داخلہ لیا اور بیروت کے سول وائرلیس کالج سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا، جو کہ بعد میں اسلامی تحریک میں مفت ریڈیو اسٹیشنوں کی تشکیل کا محرک بنا۔
انہوں نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا، یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کی کراچی یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز اور عربی زبان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ علم حاصل کرنے اور پھر اس کے پھیلاؤ کیلئے انہوں نے اپنی زوجہ ڈاکٹر منی حدود کے ساتھ مل کر روضۃ الجنان نامی ایک پرائمری سکول کی بنیاد ڈالی، جو کہ بعد میں الجنان ہائی اسکول، اور آخرِکار ایک کثیر الشعبہ یونیورسٹی میں تبدیل ہوا، جو کہ آج بھی قائم ہے اور علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔
فتحی یکن کی تربیت میں ان کی دادی کا بہت بڑا کردار ہے، وہ اسے اسلام کے حقیقی تصورات: جیسے، عقائد، اورعبادات سکھاتیں اور اسی طرح دیگر اسلامی طرز حیات جیسے: صفائی، نظم و ضبط، وقت کی پابندی، شجاعت و بہادری اور غریبوں سے محبت کے بارے میں ہمیشہ تلقین کرتی رہتی۔ ان کے والد نے بھی اپنے بچوں کی زندگیوں اور معاملات کو منظم کرنے کے لیے ان کی پرورش میں اپنی ماں کی نقش قدم کی پیروی کی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کے لیے چھوٹی عمر سے ہی ایک تربیتی چارٹ ترتیب دیا، مثلاََ:
شام کو وقتِ مقررہ پر گھر کی طرف واپسی۔
دوپہر اور رات کے کھانے کیلئے مقررہ اوقات کا تعیین۔
غسل کرنے یا نہانے کیلئے مقررہ اوقات کا تعیین۔
صفائی ستھرائی اور متعلقہ امور کے حوالے سے ضروری ہدایات۔
مطالعہ سے متعلق انتباہات کے ساتھ ساتھ دیگر امور کے سلسلے میں ضروری ہدایات۔
ان کے نانا، عالم شریف حکمت یکن نے ان کی اچھی پرورش کی اور انہیں اپنی لائبریری عنایت کی تاکہ وہ کم عمری سے ہی علم دوست ماحول میں پروان چڑھیں اور وہ علم اور مطالعہ سے محبت کرنے والے بن جائیں۔
وہ آخری عمر تک دینِ اسلام کے باعمل عالم رہے، یہاں تک کہ وہ بیمار ہو گئے اور انہیں بیروت کے ہوٹل ڈیو ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ آپ کا انتقال بروز ہفتہ 13 جون 2009ء بمطابق 20 جمادی الآخرۃ 1430 ہجری کو 76 سال کی عمر میں ہوا۔ ان کا جسد خاکی شمالی لبنان کے شہر طرابلس میں ان کی جائے پیدائش پر پہنچایا گیا جہاں انہیں باب الرمل قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
فتحی یکن کا دعوتی اور سیاسی کام:
فتحی یکن اپنے اردگرد کے ماحول، خاص طور پر استعمار کے نوآبادیاتی نظام سے بہت متاثر تھے، جس نے ان کے اندر مذہبیت کے ساتھ ساتھ جذبہ حب الوطنی کا شعلہ بھی بھڑکا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 1942ء میں فرانسیسی قبضے کے خلاف سب سے پہلے طلبہ کے مظاہرے میں شریک ہوئے، جس میں فرانسیسی جبر کی مذمت کے ساتھ ساتھ ان کی بے دخلی کا بھی مطالبہ کیا۔ جس نے طلباء کے احتجاج پر اپنی ٹینکوں سے حملہ کرکے قتل عام کیا تھا اور لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسائی تھیں۔
“فتحی یکن” اپنے ملک میں ہونے والی حیرت انگیز تبدیلیوں سے کبھی لاتعلق نہیں رہے، بالخصوص فرانسیسی استعمار کی وجہ سے پیدا ہونے والی فرقہ واریت سے وہ کافی پریشان تھے۔ وہ اپنے اردگرد کی حقیقت سے آشنا تھے اور ان کے ساتھ ساتھ زندگی گزارتے تھے، کبھی تماشائی کے طور پر، کبھی ایک شریک کے طور پر، اور کبھی ایک مظاہرہ کرنے والے اور لوگوں کو استعمار کے خلاف ایک شہہ دینے والے کے طور پر۔
یہ وہ نوجوان تھا جو نہ صرف مسجد کے ممبر پر تقاریر کرتا، نہ صرف اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کی فکر تبدیل کرتا، بلکہ یہ تحریک اسلامی کے ان بانی رہنماؤں میں سے ایک تھا، جس نے بلادِ شام کے اندر سیاست اور دعوت کو باہم یکجا کیا۔
فتحی یکن جس ماحول میں پلا بڑھا اور جس خاندان نے چھوٹی عمر سے ہی اس کی اچھی تربیت کی اس کا ان کی شخصیت کی تشکیل میں اور اس کے بعد کے رجحانات پر گہرا اثر مرتب ہوا، اس کے علاوہ وہ بیروت میں اپنی تعلیم کے دوران اچھے لوگوں کی صحبت میں رہے۔
اس عرصے کے دوران، لبنان کی تحریک اسلامی کی فکر سے غیر متعلق نہیں رہا۔ انہوں نے دمشق سے اس فکر کے بنیادی تصورات اخذ کئے، جو کہ بلاد الشام میں علم و تحقیق کا گڑھ اور اخوان المسلمین کی دعوت کا مرکز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مصری الدعوۃ میگزین 1950 کی دہائی کے اوائل میں اپنے آغاز کے بعد سے ہی ان تک پہنچا۔
اس ماحول کے علاوہ جس میں فتحی یکن نے پرورش پائی، ان کی ملاقات الازہر کے سفیر شیخ صلاح الدین ابوعلی سے ہوئی، جو مکارم الاخلاق اسلامک سوسائٹی کے بانی تھے۔ یہ ان کے اسلامی تحریک کیلئے کام کا پہلا مرکز تھا، لیکن بدقسمتی سے یہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔
فتحی یکن نے اپنے دین کے لیے کام کرنے کے مواقع تلاش کرنے میں ہمت نہیں ہاری، اسی سلسلے میں ان کی ملاقات بیروت میں عباد الرحمٰن تنظیم کے بانی شیخ عمر الداعوق سے ہوئی، جہاں وہ بہت سارے ایسے نوجوانوں سے ملاقی ہوئے جو انہیں کی طرح اللہ کے دین کا کام کر رہے تھے۔ یہ سب لوگ اخوان المسلمین سے وابستہ تھے اور انہیں کے منہجِ دعوت کے پیروکار تھے۔ اور اسی دوران 1954ء میں شام اور لبنان کے دورے میں ان کی ملاقات اخوان المسلمین کے مرشدِ عام حسن الہضیبی سے ہوئی۔
تاہم، مصر میں جمال عبدالناصر اور اخوان المسلمین کے درمیان مخاصمت کا اثر عباد الرحمٰن سے وابستہ نوجوانوں پر پڑا، چنانچہ ان تمام اصولوں، منہج اور پالیسیز کو لے کر شدید اختلافات ہوئے، جن کی یہ لوگ پیروی کر رہے تھے۔ چنانچہ عباد الرحمٰن کے بانی جناب شیخ الداعوق نے فیصلہ کیا کہ عباد الرحمٰن ہر طرح کی سیاسی سرگرمی سے اجتناب کرے گی اور اپنی دعوت کو مسجد تک محدود رکھے گی۔ یہ چیز بعض نامی گرامی شخصیات جیسے فتحی یکن، ابراہیم المصری، فیصل مولوی کو پسند نہیں آئی کیونکہ یہ ان کے وژن اور فکر سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔
فتحی یکن اس پورے عرصے کے بارے میں لکھتے ہیں: ناصری سازشیوں نے سیاسی طور سے اس تنظیم پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہمارے تعلقات پر اس وقت منفی اثرات مرتب ہوئے جب کیملی چمون (اس وقت جمہوریہ لبنان کے صدر) کے خلاف جو 1958 کی مشہور انقلابی بغاوت ہوئی، جب اس نے آئزن ہاور پراجیکٹ، بغداد معاہدہ، کو قبول کیا۔ اور چوتھا نکتہ یہ کہ: ہم نے طرابلس شہر میں عوام کو آئندہ خطرے کے بارے میں آگاہ کر کے اپنا فرض نبھایا، اور ہم نے ایک ریڈیو سٹیشن قائم کیا جسے فری وائس آف لبنان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہمارے جوانوں نے اپنے شہر کے دفاع میں حصہ لیا تھا، جسے فوج، چھاپہ مار ملیشیا اور شامی قوم پرستوں نے گھیر لیا تھا، ہماری اس طرح کی سرگرمیوں نے عباد الرحمٰن کی قیادت کو ناراض کیا، جس نے واضح طور پر اس قسم کے کام کو مسترد کر دیا، جو بالآخر طرابلس کے مرکز کی عباد الرحمٰن تنظیم سے علیحدگی کا باعث بنا۔
شام میں اخوان کے مرشدِ عام ڈاکٹر مصطفی السباعی کی شام سے لبنان جلاوطنی نے نوجوانوں کے دلوں میں ان کی محبت، ان سے قربت اور ان کے علم و فضل سے استفادہ کرنے کا شوق پیدا کیا۔ اس طرح اخوان المسلمین کی فکر اور طریقۂ کار کے حوالے سے ان کی سوچ پر کافی اثر پڑا، لیکن یہ نیا گروپ جن حالات میں کام کر رہا تھا، ان کو دیکھ کر انہوں نے تہیہ کرلیا کہ ہم اس پر براہِ راست اخوان کا ٹیگ لگنے نہیں دیں گے۔ تاکہ اسے ناصری ہراسانی سے بچایا جاسکے۔ اس لیے انہوں نے اس کے لیے اسلامی جماعت کا نام تجویز کیا، لہذا 18 جون 1964 کو باضابطہ طور پر اسے قائم کیا گیا۔ اور ڈاکٹر فتحی یکن کو پہلا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا اور وہ 1992ء تک اپنے اس عہدے پر فائز رہے جب کہ ان کے بعد شیخ فیصل مولوی مقرر ہوئے۔
فتحی یکن نے وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک منظم اور اعتدال پسند دعوت اسلامی کے نقطہ نظر سے سیاست کی، کیونکہ وہ دعوت دین اور سیاسی کام کے درمیان تفریق نہیں کرتے تھے، اور وہ 1950 کی دہائی سے ہی لبنان میں دعوتِ اسلامی اور سیاسی کام میں مصروف تھے۔
ان کی زندگی میں بہت سارے ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے اوپر ان کی تحریروں اور تقریروں کا براہِ راست اثر تھا۔ خاص طور پر شامی حکومت، جو اپنے عوام پر ظلم و ستم کر رہی تھی اور لبنانی عوام پر اس کی سرپرستی میں جو کچھ ہو رہا تھا ان چیزوں کو انہوں نے طشت از بام کیا۔ نتیجتاً اکتوبر 1979 ء میں حافظ الاسد کی حکومت سے وابستہ بندوق برداروں نے آخرکار انہیں اغوا کیا، اور بہت بڑی شخصیات کی سخت کوششوں اور مداخلت کے بعد ہی انہیں رہا کیا گیا۔
1992ء میں لبنانی پارلیمنٹ کے انتخابات میں، اسلامک جماعت نے شمال سے اپنی سربراہی میں فتحی یکن کو بطورِ امیدوار کھڑا کیا۔ انہوں نے رکنیت حاصل کی اور فعال ترین پارلیمنٹیرینز میں سے ایک بن گئے۔ جولائی 2006 ء میں لبنان پر صہیونی حملے کے دوران، اس نے اسلامک ایکشن فرنٹ کی تشکیل کی صورت میں ایک ایسا اقدام کیا جس سے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ جو کہ اسرائیلی جارحیت اور بربریت کے خلاف ایک اسلامی اور قومی مزاحمت کے جذبے کے ساتھ کھڑا ہوا۔
یہ ان کی فکر اور نقطہ نظر میں اعتدال اور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے فواد سینیورۃ کی سربراہی 2006ء میں لبنانی حکومت اور اس کے اتحادیوں اور حسن نصر اللہ، مشیل عون اور حزب اختلاف کے درمیان موجودہ بجلی کے بحران سے نکلنے کے لیے ایک سیاسی اقدام شروع کیا۔ اس طرح انہوں لبنان کے اسلامی اور سیاسی حلقوں میں عام احترام حاصل کیا۔
1960ء میں انہوں نے مسئلہ فلسطین پر توجہ دینے اور صہیونی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے جنرل اسلامی کانفرنس میں شرکت کی، جو مسجد اقصیٰ کے صحن میں مسجد قبۃ الصخرۃ کے ساتھ واقع “عمریہ اسکول” میں منعقد ہوئی تھی، جس میں انہوں نے لبنان کا مؤقف بیان کیا اور امت مسلمہ کی شکست اور ہزیمت کے اسباب پر بھی بات کی۔
اس کانفرنس میں ان کے حوالے سے ایک یادگار واقعہ ہے کہ جب وہ قبة الصخرة کے پاس سے گزرے تو گنبد کے اوپر نقش و نگاری کا کام ہو رہا تھا، جب آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا وہ قبۃ کے اوپر (سنہری تختیاں) لگا رہے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا یہ ہمارے لیے جائز ہے کہ ایک طرف مسجد اقصیٰ، یروشلم اور پورا فلسطین خطرے میں ہے اور دوسری طرف لوگ اس طرح کے کاموں میں مشغول ہوں؟!
فتحی یکن کا فکری اور علمی کارنامہ :
فتحی یکان نے معاصر اسلامی بیداری کو بنیاد فراہم کرنے اور نظریہ سازی میں اہم کردار ادا کیا اور ان کی تحریریں اور فکری پیغامات پورے عرب اور اسلامی دنیا میں پھیل گئے۔ ان کا خیال تھا کہ اسلامی فکر تقلیدِ جامد، روایت پسندی، یکجہتی اور اسلامی سیاسی گفتگو کے حوالے سے جمود کی شکار ہو چکی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اسلام بدلتے حالات اور تقاضوں کو ایڈریس کرتا ہے، انہیں نظر انداز نہیں کرتا، بلکہ مسائل کو حل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ لہذا وہ سمجھتے تھے کہ مطلوبہ اسلامی بیداری اسی سطح پر ہونی چاہیے جس میں وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابوں کے اندر ہمیں تغیرات زمانہ کے ساتھ ساتھ نئے چلینجز سے ہم آہنگ ہونے، اور حقیقت پسندانہ سوچ پر مبنی آراء ملتی ہیں۔ اس طرح انہوں نے دینی لٹریچر کے ذخیرے کے اندر بعض نادر اور انتہائی اہم چیزوں کا اضافہ کیا جو کہ وقت کی اہم ترین ضرورت کے ساتھ ساتھ انتہائی ناگزیر تھیں۔ جن میں سے بعض کتابیں یہ ہیں:
ماذا يعني انتمائي للإسلام؟
(میری اسلام سے وابستگی کا کیا مطلب ہے؟)
قوارب النجاة في حياة الدعاة
(داعی کی زندگی میں کامیابی کا راز)
المتساقطون على طريق الدعوة
(وہ جو دعوت دین کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں)
مشكلات الدعوة والداعية
(دعوت اور داعی کے مسائل)
كيف ندعو إلى الإسلام؟
( ہم اسلام کی دعوت کیسے دیں؟)
نحو حركة إسلامية عالمية واحدة
(ایک عالمی اسلامی تحریک کی طرف پیش قدمی)
الموسوعة الحركية (1) حركات إسلامية من القرن الرابع عشر هجري.
(تحریکِ اسلامی انسائیکلو پیڈیا: چودھویں صدی ہجری کی اسلامی تحریکات)
الموسوعة الحركية (2) تراجم إسلامية من القرن الرابع عشر هجري.
(تحریک اسلامی انسائیکلو پیڈیا: چودھویں صدی ہجری کی اسلامی سوانح)
المسألة اللبنانية من منظور إسلامي۔
(مسئلہ لبنان اور اسلامی نقطہ نظر)
حركات ومذاهب في ميزان الإسلام.
(تحریکات اسلامی اور فقہی مذاہب)
أضواء على التجربة النيابية الإسلامية في لبنان.
(لبنان میں اسلامی پارلیمان کی چند جھلکیاں)
نحو صحوة إسلامية في مستوى العصر.
(معاصر دنیا میں اسلامی بیداری)
المناهج التغييرية الإسلامية خلال القرن العشرين.
(بیسویں صدی میں اسلامی انقلاب کا منہج)
الإسلام فكرة وحركة وانقلاب.
(اسلام: ایک نظریہ، ایک تحریک، ایک انقلاب)
تحديات القرن الحادي والعشرين في ضوء فقه الفطرة.
(اکیسویں صدی کے فکری اور عقلی چیلنج)
الشباب والتغيير۔
(“نوجوان اور انقلاب”)
القضية الفلسطينية من منظور إسلامي.
(مسئلہ فلسطین: اسلامی شریعت کی روشنی میں)
قطوف شائكة من حقل التجارب الإسلامية.
(اسلامی تجربات کی راہ میں حائل رکاوٹیں)
العولمة ومستقبل العالم الإسلامي.
(گلوبلائزیشن اور عالم اسلام کا مستقبل)
خصائص الشخصية الحركية للإخوان المسلمين.
(اخوان المسلمین سے وابستہ شخصیات کی خصوصیات)
فقه السياحة في الإسلام۔
(اسلام میں سیاحت کا مفہوم)
حكم الإسلام في السحر ومشتقاته۔
(جادو اور اس کے متعلقات کے بارے میں اسلام کا حکم)
العالم الإسلامي والمكائد الدولية خلال القرن العشرين.
(بیسویں صدی کا عالمِ اسلام اور بین الاقوامی سازشیں)
المتغيرات الدولية والدور الإسلامي المنشود.
( بین اقوامی تغیرات اور مطلوبہ اسلامی کردار)
منهجية الإمام الشهيد حسن البنا ومدارس الإخوان المسلمين.
( شہید امام حسن البنا اور اخوان المسلمین کا منہج اور طریقہ کار)
الخصائص الحركية لمنهجية الإمام البنا.
(امام حسن البناء شہید کے منہج کی تحریکی خصوصیات)
نظرة في تطوير الحركة الإسلامية.
تحریکِ اسلامی کی اٹھان پر ایک نظر
الأولويات الحركية في أعقاب تداعيات 11 أيلول.
11 ستمبر کے اثرات کے تناظر میں تحریکِ اسلامی کی ترجیحات
ليت قومي يعلمون. وقد طبع مباشرة بعد وفاته۔
(کاش میری قوم جان لیتی)،، یہ کتاب ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئی۔
انہوں نے جنان یونیورسٹی کے شعبہء میڈیا سے اپنی ماسٹرز کا مقالہ الجزائر کے ممتاز محقق بدر الدین زواقہ کی نگرانی میں لکھا، جس کا عنوان: “رائے عامہ کا نظریہ اور اسلامی فکر میں اس کا اطلاق” تھا، جو کہ انہوں نے نمایاں گریڈز کے ساتھ پاس پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔
فتحی یکن کی فکر ان کی متعدد تحریروں کے ذریعے سامنے آئی، جس میں ان کی تحریکی سرگرمیاں، دعوت، سیاسی اور فکری چیزیں شامل ہیں۔ جیسے کہ وہ اپنی مشہور کتاب ” میری اسلام سے وابستگی کا کیا مطلب ہے؟” میں فرماتے ہیں: اگر اسلام طبیعیات کے میدان میں ہماری تمام ضرورتوں یا مسائل کا حل پیش کرتا ہے تو اسی طرح دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی میں بھی وہ ہمارے مسائل کو حل کرتا ہے۔ پھر چاہےعقائد کا شعبہ ہو یا کوئی اور شعبہ۔ چنانچہ دلوں کی تسکین اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر کے ثمرات میں سے ایک ہے، اور وہ دل جو خدا سے جڑے ہوئے ہوں اور خدا کو یاد کرتے ہوں، اس بے اطمینانی اور اضطراب کا شکار نہیں ہوتے، جو کہ غیروں کے ہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس نے انہیں مختلف اعصابی بیماریوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جہاں خودکشی اور باقی جرائم کی انتہا ہے اور انسان اسفل السافلین کے درجے تک پہنچ چکا ہے۔
وہ ایک اور اہم چیز کی طرف ہماری توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: عبادت کا مقصد اگرچہ اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ اپنے معبود کی طرف رجوع کرنا، اس کے حکم کی تعمیل اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، جیسا کہ امام شاطبی کہتے ہیں: “نماز کی شرعی اور قانونی حیثیت خدا تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، اس کی طرف مخلصانہ رجوع کرنا، عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا ہونا، اس کے سامنے چھوٹا ہوکر رہنا، اور اس کے ذریعے سے اپنے نفس کو پاک کرنا ہے۔” لیکن اس کے علاؤہ فرد اور معاشرے کی تعمیر کے حوالے سے نماز کے اور بھی مقاصد ہیں جو اس کے جڑے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر فتحی یکن کی اسلامی اور تحریکی فکر نے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے، یہاں تک کہ حازم سعید ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں ہوں، یعنی مجھ سے وابستہ دو تین نسلیں ہیں جو ڈاکٹر یکن کی تحریروں کو پڑھ کر جوان ہوئی ہیں۔ میں ایسے بہت سارے لوگوں اور داعیانِ حق کو جانتا ہوں جو پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں ہیں اور ڈاکٹر یکن سے متاثر ہیں۔ بہت سارے نوجوان جنہوں نے ہوش سنبھالنے کے بعد ہی ڈاکٹر یکن کی تحریروں کو پڑھ کر پرورش پائی، جو متاثر ہوکر ان کے قائل تھے۔ پروفیسر یکن کی تحریروں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مشکل اور پیچیدہ مسائل کو عام فہم انداز میں حل کرتے ہیں.. ان کی تحریروں میں بیک وقت ایک طرف فکری گہرائی دیکھی جاسکتی ہے تو دوسری طرف وہ دعوت دین کے راستے کی پیچیدگیوں کو حل کرکے ایک واضح روڈ میپ دیتے ہیں۔ جو نہ صرف اخوان المسلمین کو بلکہ عالمی اسلامی تحریک کو دنیا میں ممتاز کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ان سے تحریکِ اسلامی کے طریقہ کار اور منہج کے بارے میں سوال کرتا تو وہ اسے کہتے، یہ لیجیے میری کتاب:”نحو حركة إسلامية عالمية واحدة” اور یہ پڑھیں “میری اسلام سے وابستگی کا کیا مطلب ہے؟” یا کہتے کہ میری کتاب “الاستيعاب في حياة الدعوة والدعاة” کا مطالعہ کریں۔
ڈاکٹر یکن کی تحریروں میں اہم موضوعات:
ڈاکٹر فتحی یکن کی تحریروں میں ہمیں متنوع موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان میں نوجوانوں کی روحانی، فکری اور علمی تربیت کے حوالے سے بھی مواد موجود ہے، تاکہ وہ اسلام کی حقانیت کو سمجھیں اور نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو جائے جو فکری طور پر مضبوط ہوں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے اہم موضوعات ہیں جو ان کی تحریروں میں بکھرے پڑے ہیں۔
معاشرے اور سماج کی تبدیلی کے حوالے سے ڈاکٹر فتحی یکن نے نوجوانوں پر بطور خاص توجہ دی ہے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ نوجوان ہی ایک قوم کا اہم ترین اثاثہ ہوتے ہیں اور یہ کسی بھی تبدیلی کیلئے ہراول دستہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ دشمن کا بھی اہم ٹارگیٹ ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ نے ان صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے جو کسی بھی تبدیلی کیلئے بطور ایندھن کام دیتی ہیں۔
ڈاکٹر فتحی یکن اپنی تحریرات میں مسلمان نوجوانوں کو اسلامی تبدیلی کیلئے تیار کرتے ہیں اور ان تصورات اور عوامل سے انہیں آگاہ کرتے ہیں جن تصورات کی بنیاد قرآن و سنت کی تعلیمات پر ہے اور پھر جن کی تشریح علماء اور فقہاء کرام نے ہر دور میں اپنی فقہی بصیرت اور اجتہادات کی روشنی میں کی ہے۔
ڈاکٹر فتحی یکن کا ماننا ہے کہ جہاد کی تعلیم امت کی سلامتی اور استحکام کا اہم ترین عنصر ہے۔ کیونکہ یہ تصور فرد اور قوم کی روح میں جہاد اور مزاحمت کے جذبے کو گہرا کر دیتا ہے۔ اور اسے تصورِ آخرت کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ اور انہیں آخرت میں اجرِ عظیم کے حصول کیلئے بے تاب رکھتا ہے۔ اور انہیں اس عظیم نعرے کا مصداق بناتا ہے کہ “اللہ کی راہ میں جان دینا ہماری سب سے بڑی آرزو ہے۔”
ان کا خیال ہے کہ نصاب اور معلم کی ناکامی کے نتیجے میں ہمارا تعلیمی اور تدریسی نظام جس غیر یقینی صورتحال اور تنزلی کا شکار ہوگیا ہے اس سے نکلنے کے لیے ایک حفاظتی اور مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ہر مسلمان فرد کو تشخیصی عمل سے گزار کر ہی اس کی پروموشن عمل میں لائی جائے۔
وہ شخصی اور بنیادی اوصاف جو ایک داعی کو لوگوں کے دل فتح کرنے اور ان پر اثر انداز ہونے میں مدد دیتے ہیں اور اس کے مشن کو کامیابی سے ہم کنار کرتے ہیں، ان میں عاجزی، انکساری، تحمل، بردباری، نرمی، سخاوت، گفتگو میں روانی اور شیرینی، خدمت خلق، دوسروں کی ضروریات کو پورا کرنا اور اپنے دین کا گہرا فہم حاصل کرنا ہے۔
اس طرح ڈاکٹر فتحی یکن کی زندگی دعوت، علمی اور فکری کارناموں سے بھری ہوئی ہے۔ مختلف نسلوں نے انہیں پڑھا، ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان سے دین کا فہم حاصل کیا۔ جس نے ان سے بطورِ معلم و مربی استفادہ کیا اس نے اسلام کی سربلندی کیلئے اپنے آپ کو وقف کیا۔
مصادر و مراجع:
- موقع عيون: فتحي يكن..تأريخ التكوين كما خطته يداه.
- موقع اعتدال: د. فتحي يكن .. شيخ الدعاة.
- ويكيبيديا الإخوان المسلمين: الداعية الدكتور فتحي يكن .. المراقب العام الأسبق للإخوان في لبنان.
- موقع الخنادق: الدكتور فتحي يكن: الوحدة درع المقاومة.
- ماجد درويش: غاية السكن وإظهار المنن في ترجمة الداعية فتحي يكن.
- فتحي يكن: ماذا يعني انتمائي للإسلام، مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2004م.
- حازم سعيد: فتحى يكن.. أستاذ الفكر والدعوة.
- زياد الصيفي: المضامين التربوية في كتابات فتحي يكن، كلية التربية، الجامعة الإسلامية بغزة، رسالة مقدمة لنيل درجة الماجستير، 2008م۔
مُترجِم: عاشق حُسین پیر زادہ