صفت رواداری کو پروان چڑھاتے ہوئے میں اپنے بیٹے کی تربیت میں کیسے توازن قائم رکھ سکتی ہوں تا کہ اس کے حقوق بھی ضائع نہ ہوں؟
ہم ایک نئے تعلیمی سال کے بالکل قریب ہیں براہ کرم ہماری مدد فرمائیں۔
میں نے اپنے بڑے بیٹے کی تربیت اس طرح کی کہ اسے برداشت کرنا اور دوسروں کو تکلیف نہ پہنچانا سکھایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے ساتھ کے دوسرے بچے اس کا مذاق اڑانے لگے اور اسے کمزور سمجھ کر اسے مارنے پیٹنے لگے۔ کبھی کبھار تو وہ اپنا دفاع کر لیتا ہے لیکن اکثر وہ اس حال میں گھر واپس آتا ہے کہ اس کے جسم پر مار پیٹ کے نشان ہوتے ہیں۔
میں نے اپنے درمیان والے بیٹے کی تربیت کا طریقہ بدلنے کا فیصلہ کیا اور اپنا دفاع کرنے کا طریقہ اسے بچپن سے ہی سکھایا۔ چنانچہ اسکول میں اس کے دوست اسے اس مشکل میں ڈالنے لگے کہ وہ ان کا دفاع کرے، جس پر اس کے اساتذہ نے یہ الزام لگایا کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں کا سبب بنتا ہے۔
آپ کے خیال میں اس طرح کے رویے اور برتاؤ سے ڈیل کرنے کا طریقہ اور اس کی وجہ سے اسکول میں برپا ہونے والے تشدد سے نمٹنے کا مؤثر طریقہ کیا ہے؟ تاکہ میں اپنے ہم جماعتوں کی طرف سے اپنے بڑے بیٹے کی توہین یا چھوٹے بیٹے کے مصیبت میں پڑنے سے بچ جاؤں۔
جواب:
یہ ایک اہم سوال ہے اور والدین کے لئے ان دونوں راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا بہت مشکل کام ہے۔ صرف برداشت اور رواداری فائدہ مند نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اپنا دفاع کرنے کی تربیت دینے سے ہمیشہ اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔
اس سے پہلے کہ ہم اسکول اور اساتذہ پر ذمہ داری ڈالیں، ہمیں والدین کو بچے کی ابتدائی عمر سے ہی پیار اور خود اعتمادی کے ساتھ پرورش کرنے کی ضرورت یاد دلانی چاہئے۔ تاکہ جب وہ چھ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کی نظر میں اس کی ایک مضبوط اور صحیح شخصیت قائم ہوچکی ہو۔ کچھ والدین اپنے بچوں کی تربیت اور رہنمائی کی طرف توجہ دینے میں دیر کر دیتے ہیں۔ بچے کو بچپن سے ہی اپنی حفاظت اور اپنا دفاع کرنے کے طریقے سکھانے سے غفلت برتتے ہوئے اسے اسکول جانے سے جوڑ دیتے ہیں۔
ہم اپنے گھر کے اندر ایک مضبوط شخصیت کے حامل بچے کی تربیت کیسے کریں، قبل اس کے کہ ہم باہر کی دنیا میں اسے اپنی حفاظت اور اپنا دفاع کرنا سکھائیں؟
1۔ اپنے بچے کے اندر خود اعتمادی پیدا کریں: اسے تصرف کرنے، اپنے کام کرنے کے لئے آزاد چھوڑیں اور اس کے معاملات میں جلدی مداخلت نہ کریں۔ اس سے اس کے اندر یہ خیال پیدا ہوگا کہ اس کے والدین اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس طرح اس کا اپنے اوپر اعتماد بڑھے گا۔
2۔ ہم دوسروں کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں پر بھروسہ کرتے ہیں: چنانچہ ہم دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کی جو ذہنی تصویر بناتے ہیں، وہ ہمارے بچوں کے ساتھ ان کے رویے کا اعلامیہ ہوتا ہے۔ لہذا اپنے بچوں پر یہ تنقید نہ کریں کہ انہیں مختلف حالات میں اپنا کام کرنا نہیں آتا ہے، بلکہ اس کے برعکس ان کی ہمت، حوصلے، بہادری اور دوسروں کے سامنے اچھے برتاؤ کی تعریف کریں۔
3۔ بچے کو “نا” کہنے کی عادت ڈالیں: بعض اوقات والدین اس بات سے ناراض ہوجاتے ہیں کہ ان کے بچے ان کے کسے خیال کو مسترد کردیں یا اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں، اس لئے وہ بچوں پر دباؤ ڈالتے ہیں، جس سے ان کی اظہار رائے کی آزادی متاثر ہوتی ہے، اور عملی زندگی میں یہی چیز انہیں توہین برداشت کرنے اور اسے رد نہ کر سکنے کی ہمت نہیں دیتا۔ کیونکہ انہیں “نا” کہنے کی تربیت نہیں دی گئی ہے۔
4 ۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے بچوں کی نقل و حرکت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے گھر کو ڈیزائن کرے۔ ہم اس میں ان کے کھیلنے اور گھومنے پھرنے کے لئے جگہ رکھتے ہیں، تاکہ وہ اپنی توانائی اور طاقت اس میں صرف کریں اور ان میں جلدی جلدی جھگڑے نہ ہوں۔
5۔ مسائل کا حل اور متبادل تلاش کرنا: بہت سے بچوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، جیسے (کاٹنا، چٹکی لینا، یا ہاتھ میں موجود کسی چیز سے مارنا)۔ ہمیں چاہئے کہ سب سے پہلے ہم ان کے رویے کو درست کریں اور ان کے لئے متبادل تیار کریں۔ جیسے کوئی تماشہ دے دیں جس کے ساتھ بچہ اپنی طاقت و توانائی صرف کرے۔ یا اسے کوئی پھل سیب وغیرہ دے دیں، تاکہ جب کبھی وہ کسی کو کاٹنے کے بارے میں سوچے تو وہ سیب کاٹے اور کھا لے۔ اس سے وہ یہ سیکھ لے گا کہ ہم اپنے رویے کو بدل سکتے ہیں۔ اسی طرح تربیت کے مشہور ومعروف قاعدے (منفی تکرار) کی پیروی کرنے سے بھی رویے کو بدلا جا سکتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس منفی رویے کو بار بار دہرایا جائے، تاکہ یہ اس کے اندر بجھ جائے اور وہ اسے بھول جائے۔ یہ کام گھر والوں کی نگرانی اور جیسا کہ ہم نے بتایا متبادل تلاش کرنے سے ہوتا ہے۔
بچے کو دفاع کرنے کی تربیت دینا : مارنے کی دو قسمیں ہوتی ہیں، دفاعی اورجارحانہ۔ اسے دفاعی مار سکھانے کی ضرورت ہے۔ اسے یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ کیسے ایک خاص طریقے سے سامنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اس کے حملے کو روکا جائے۔ اس سے وہ ان کھیلوں میں سیکھتا ہے جو مارشل آرٹ کے ذیل میں آتی ہیں۔ یہی بیچ کا راستہ ہے۔ آپ نے اپنے پہلے بچے کو صرف رواداری سکھائی اور اپنے دوسرے بچے کو دفاع کی تربیت دی ۔ ان دونوں میں بیچ کا راستہ اپنا دفاع کرنا اور غصے کے وقت اپنے اوپر قابو پانا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ ( طاقتور وہ نہیں جو پچھاڑ دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے)۔ لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ تربیت میں یہی ہمارا طریقہ ہو اور اسی کے مطابق ہم اپنے بچوں کی تربیت کریں۔ ہم اپنے پیارے حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و افعال پر بھروسہ کرتے ہیں، جن کے حسن سلوک کے حوالے سے انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ “میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کی۔ اللہ کی قسم انہوں نے مجھے کبھی کوئی گالی نہیں دی اور نہ ہی کبھی اف کہا اور نہ ہی انہوں نے مجھے کبھی یہ کہا کہ ایسا کیوں کیا اور نہ کبھی یہ کہا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا “۔ اس بارے میں بہت ساری احادیث ہیں۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ “مومن وہ نہیں جو بہتان لگائے، لعن طعن کرے، فحش ہو یا بیہودہ ہو”۔ جب ہمارے بچوں کی تربیت بہترین باتوں پہ ہو تو دسیوں برائیاں جنم لیتے ہی مرجاتی ہیں۔ ہر لڑائی جھگڑے سے پہلے گالم گلوچ ہوتا ہے اور اسے روکنا ہمیں بہت سی مشکلات اور خطرات میں پڑنے سے بچاتا ہے۔
اپنے بچوں کے رویے کو درست کرتے وقت تین بنیادی محوروں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
پہلا محور: چیخنے چلانے سے تربیت نہیں ہوتی ہے۔ بچے کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کی غرض سے گزشتہ نکات میں سے آپ نے جو کچھ بھی کیا ہوگا اور پھر آپ اس پر چیخیں گے تو یہ پوری عمارت گر جائے گی۔
دوسرا محور: بار بار بات چیت کرنا۔ اگر تمہیں اپنے بچے کے اندر جارحانہ قسم کا رویہ نظر آئے تو اس پر کسی قسم کا الزام لگانے سے پہلے اس کی بات سن لیں اور ان اسباب کا پتہ لگائیں جو اسے یہاں تک لے آئے ہیں۔ پھر اگر ضرورت ہو تو اس کے ساتھ مل کر اس کی سزا مقرر کریں۔ اپنے بچے سے پوچھو کہ جو معاملات بگڑ گئے ہیں ہم انہیں کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔ اسے یہ فیصلہ کرنے دیں۔
تیسرا محور: محبت اور شفقت کے ساتھ تربیت، چاہے ہم گھر پہ گھر والوں سے بات کررہے ہوں یا اسکول میں اساتذہ سے۔ آپ اپنے بچوں اور طلبہ کے ساتھ سچی محبت کئے بغیر اپنی محنت کا پھل نہیں چکھ سکتے۔
ہم آپ کے سامنے یہ حدیث پیش کر رہے ہیں تاکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بحیثیت استاد سیکھیں۔ رافع بن عمرو الغفاری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: “جب میں ایک چھوٹا لڑکا تھا تو اپنے کھجور کے درختوں پر پتھر پھینک رہا تھا، یا انصار کے کھجور کے درختوں پر- تو مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، انہوں نے مجھ سے کہا ، اے لڑکے، ابن کاسب کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا اے میرے بیٹے، تم کھجور کے درختوں پر پتھر کیوں پھینک رہے تھے؟ تو میں نے کہا، اس لئے پھینک رہا تھا تاکہ میں کھجور کھاؤں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کھجور کے درخت پر پتھر مت پھینکو، بلکہ جو کھجور نیچے گری ہوئی ہے اسے کھا لو۔ پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا ، “اے اللہ اس کا پیٹ بھر دے”۔
اس حدیث سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ڈانٹا نہیں، بلکہ اس سے پوچھا اور اس کے اس رویے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پھر اس کے بھوکے ہونے پر اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور اسے اس مسئلے کے حل کی طرف رہنمائی بھی کی ( جو نیچے گرا ہوا ہو اسے کھاؤ) اور پھرنبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مسئلہ کو محبت کی سب سے اعلی قدر ( جسمانی رابطے کی زبان ) کے ساتھ ختم کیا۔ یعنی اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے دعائیں دیں۔
تو کیا والدین اور اساتذہ طلبہ اور بچوں کی طرف سے اس قسم کے تشدد آمیز رویے کا مقابلہ کرنے کے لئے اس راستے (محبت اور شفقت کے ساتھ تربیت) پر نہیں چل سکتے؟
میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اساتذہ کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ وہ طلبہ اور استاد کے بیچ کے تعلقات کے بارے میں پڑھیں اور معلومات حاصل کریں۔ اور اس سلسلے میں امام شافعی کی سوانح حیات، استاد اورشاگرد کے بیچ رشتے کا ایک نمونہ اور مشعل راہ ہے۔ کیونکہ اس میں بہت سے فائدے ہیں۔
یہ بات ذہن میں آ سکتی ہے کہ اگرچہ ہم نے مذکورہ بالا تمام طریقوں کو مد نظر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود اسکولوں میں مار پیٹ کا رجحان والدین کو پریشان کرتا ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟
- مناسب وقت پر پڑھنے کے لئے اسکول پہنچنے کی تیاری میں ناکامی۔ رات کو جاگنا اور نیند کے اوقات میں کمی، غصے کی بیٹری کو چارج کرتی ہے، جس کے نتیجے میں طلبہ کے درمیان مسائل پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے جسم آرام کئے ہوئے نہیں ہوتے ہیں اور انہوں نے ضرورت بھر آرام نہیں کیا ہوتا ہے۔ لہذا جذبات میں پہلے ہی اشتعال کے ساتھ معاملات تیزی سے خراب ہو جاتے ہیں۔
- اچھی غذائیت کی کمی۔ جی ہاں، غصے کے تیزی سے شروع ہونے پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ لہذا بچوں کی غذائیت پر توجہ دینے سے ان کو خود پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ اس لئے کہ بھوک کی شدت غصے کو بھڑکاتی ہے۔
- گھر میں تناؤ کی موجودگی، یا طالب علم کے آس پاس کا ماحول۔ جب ہم پڑھنے کے لئے مناسب ماحول پیدا کریں گے اس کا اثر بچوں کی مستحکم نفسیات پر ظاہر ہوگا۔
- اسکولوں کا سخت قوانین بنانے میں ناکام ہونا، اسکول کے ملازمین کے بچوں اور باقی طلبہ کے ساتھ برتاؤ میں کوئی امتیاز کرنے سے بھی طلبہ کے درمیان دشمنی اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا قوانین کے نفاذ میں سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنے سے بہت سے مسائل کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔
- کچھ ایسی سرگرمیوں کا اہتمام نہ کرنا جن میں بچہ اپنی توانائی صرف کرے، اس لئے بچہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے شرارتی ہو جاتا ہے۔
- کھیل کود اور ڈرائنگ کی کلاسوں کو نظر انداز کرنا اور اس وقت کو نصابی مضامین کے وقت میں رہنے والی کمی کو پورا کرنے کے لئے استعمال میں لانا۔
- دینی تعلیم وتربیت پر توجہ کا فقدان، اور یہ سارے مسائل اسی کا فطری نتیجہ ہیں۔ دین کی غیرموجودگی کے نتائج پھر سب کو بھگتنے پڑتے ہیں۔
- ڈراموں اور فلموں میں ویلن کے کرداروں سے اثر انداز ہونا۔ طلبہ اسکول کے ماحول کو اپنے اندر کے پر تشدد جذبات نکالنے اور مصنوعی بہادری دکھانے کا میدان سمجھ لیتے ہیں۔
- مثالی رول ماڈل کا موجود نہ ہونا، بعض اوقات بحیثیت استاد یا والدین کے اپنے غصے کا اظہار بہتر طریقے سے نہیں ہو پاتا ہے۔ طلبہ برے رول ماڈل سے متاثر ہو جاتے ہیں اور پھر اسے ہی اپناتے اور دہراتے رہتے ہیں۔
- طلبہ کے درمیان پرانے تنازعات کو مناسب طریقے سے حل کرنے میں ناکامی، بہت سے لوگ ایک گروہ کو برا قرار دینے اور دوسرے گروہ کو بری کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ جب کہ درحقیقت کسی بھی تنازعے میں دو گروہوں کی برابر غلطی ہوتی ہے۔ لیکن بھائی چارے کو چھوڑ کر غلطی کرنے والے تک پہنچنے اور سزا دینے کی فکر طلبہ کے درمیان مزید نفرت بڑھا دیتی ہے۔ دشمنی ایک دائرہ ہے، اگر ہم اس کے حلقوں کو صحیح طریقے سے نہیں توڑیں گے تو جھگڑا بڑھ جاتا ہے اور بیشتر صورتوں میں پھر کوئی بڑا حادثہ ہو جاتا ہے۔
- استاد کے رول کو نظر انداز کرنا، اور بعض اوقات اس کے مقام و مرتبے کو پست کرنا۔ خاص طور پر وہ ڈرامے جو استاد کی ہیبت کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو تے ہیں جس کا طلبہ پر والدین کے بعد بڑا اثر ہوتا ہے۔ بلکہ والدین اگر کتنی بھی کوشش اور محنت کریں تو وہ استاد کی ذمہ داری نہیں نبھا سکتے۔ جب ہم بچوں کی تعلیم وتربیت میں استاد کے رول اور اس کے ادب و احترام، نیز اسکول کے قوانین کی پابندی کریں گے تو اس سے یہ معاملات بہت حد تک خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔
- سماجی کارکن کے کردار کا غائب ہونا، جس کے پاس بچوں کے نفساتی مسائل اور ان کو پیش آنے والے حادثات کا ریکارڈ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر ہم ان نفسیاتی کارکنوں کو بہتر طریقے سے ٹریننگ دیں تو وہ اس طرح کے مسائل واقع ہونے سے پہلے ہی انہیں روکنے میں بہت مدد کرسکتے ہیں۔
- والدین اور اسکول والوں کا ایک دوسرے کا ہاتھ نہ بٹانا۔ اسکول کو اپنا حریف سمجھنے یا اسے بچے کی تعلیم وتربیت میں والدین کا معاون و مدد گار سمجھنے میں بڑا فرق ہے۔
رویے کو بدلنے میں دو اصول بیان کرنا باقی ہیں:
پہلا اصول: بالواسطہ طریقے سے رہنمائی کرنا، براہ راست رہنمائی کرنے سے بہتر ہے۔ مثال کے طور پر اسکول ریڈیو کا استعمال کرنے سے بالواسطہ رہنمائی میں بہت سا وقت اور محنت بچ جاتی ہے۔ اگر ہم ان موضوعات کو الگ الگ کریں، جیسے غصے پر قابو پانا، جذبات کو نام دینا اور ان کا اظہار کرنا۔ یہ طلبہ کی مہارتوں کوچھوٹے چھوٹے ڈراموں اور خاکوں کے ذریعے بڑھانے میں مدد گار ہوں گے۔
دوسرا اصول: بچہ ہر حال میں غلطیاں دہراتا ہے، اس لئے نہیں کہ وہ لا پرواہ ہے، بلکہ اس لئے کہ یہ بھی سیکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ وہ غلطی کرتا ہے تو ہم اسے توجہ دلاتے ہیں۔ وہ پھر دوبارہ غلطی کرتا ہے، تو ہم اسے پھر دوبارہ توجہ دلاتے ہیں۔ ہم اسے اپنے لئے کوئی چیلنج یا بے ادبی نہیں سمجھتے۔ ہم معاملے کو بڑھا دیتے ہیں اور بچے کے ساتھ کسی جھگڑے میں پڑ جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم اس کی رہنمائی اور اصلاح کریں۔
عزیز سائلہ
ہم آپ کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ تربیت اصلاح کی کوششوں کا نام ہے۔ کوشش کے بعد کوشش۔ جو چیز کبھی ایک بیٹے کے ساتھ فائدہ مند ہوسکتی ہے ممکن ہے کہ وہ دوسرے بیٹے کے ساتھ فائدہ مند نہ ہو۔ ہماری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ہم کوشش کرتے رہیں اور اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ وہ ہمیں سیدھا راستہ دکھائے، ہماری غلطیوں کو سدھارے، ہمارے بچوں کے لئے تعلیم و تربیت کے راستے آسان فرمائے۔ نیا تعلیمی سال مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں کا گواہ ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے کاموں میں مزید خیر و برکت مانگتے ہیں۔