سوال:
میرا بیٹا مڈل اسکول میں ہے، جب وہ پرائمری اسکول میں زیر تعلیم تھا تو اس کا شمار ٹھیک ٹھاک قابل طلبہ میں ہوتا تھا۔ لیکن مڈل اسکول کے مرحلے میں جانے کے بعد، اس کی تعلیمی سطح میں نمایاں کمی واقع ہوئی، یہاں تک کہ کچھ مضامین میں فیل تک ہوا، اس وجہ سے انہیں موسم گرما میں مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور دوبارہ امتحان دینا ہے۔ میرا بیٹا تمام مضامین میں پرائیویٹ ٹیوشن لیتا ہے، لیکن وہ ترقی نہیں کرتا ہے، آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ اب مجھے ڈر ہے کہ وہ اسی قابلیت کے ساتھ ثانوی سطح تک پہنچ جائے گا اور اپنا مستقبل کھو دے گا، برباد کر دے گا، مجھے بتائیں میں کیا کروں؟!
جواب:
ایسا لگتا ہے جیسے آپ نے نوعمری کی کتاب کھولی اور ہمارے بچوں کی تعلیمی سطح پر جوانی کے اثرات کے بارے والا حصہ پڑھ رہی ہیں۔ آپ کے بیٹے کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ کتابوں میں درج ہے۔ یہ نوعمر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہوتا ہے، اور اس کی وجوہات ایک نوعمر سے دوسرے نوعمر میں مختلف ہوتی ہیں۔
نوعمری میں نفسیاتی تبدیلیاں، جسمانی تبدیلیاں، اپنی شناخت کے بارے میں اس کے فہم میں تبدیلیاں، اور اس کی خواہشات اور دوستیوں میں تبدیلیاں ہوتی ہیں، یہ قدرتی تبدیلیاں نوعمر کو غیر معمولی طور پر متاثر کرتی ہیں، اور جس طرح سے اس نے اس مدت کے بارے میں معلومات حاصل کیں وہ ان کی قبولیت اور ان متغیرات سے نمٹنے پر اثر انداز ہوتی ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے اس مرحلے میں اس کے لئے راستہ کیسے ہموار کیا؟
کیا اس کے والد نے اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے ہونے والی جسمانی اور نفسیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بتایا، اور اس سے بلوغت کے بارے میں بات کی، یا اسے اس مرحلے کے بارے میں اپنے آس پاس کے لوگوں سے معلومات ملیں، یا کیا وہ بغیر کسی تعارف کے اس حقیقت سے ٹکرا گیا؟!
کبھی بچہ اپنے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں سے پریشان ہوسکتا ہے اور اسے اس کی وجوہات کا علم نہیں ہوتا ہے ، خاص طور پر اگر اس کو اپنے دوستوں، ہم عمروں سے پہلے کچھ علامات ظاہر ہوں، تو ان علامتوں کا ظہور اس پر مختلف ہونے کا دباؤ ڈال سکتا ہے ، لہٰذا وہ خود سے پوچھتا ہے کہ میں ہی کیوں؟! کیا مجھ میں کوئی خرابی یا نقص ہے؟!
بلوغت بلا تمہید کے – خاص طور پر والدین کی طرف سے نہ بتایا جائے – ہر بچے کو اپنی آواز، شکل، اور خاص طور پر اپنی مونچھوں کی وجہ سے اپنے ساتھیوں کی طرف سے ٹیزنگ کا شکار بنا دیتی ہے، لہٰذا وہ پریشان ہوتا ہے اور اس کی خود اعتمادی کمزور ہو جاتی ہے،اور ہو سکتا ہے کہ وہ تنہا رہنے لگ جائے اور اسے اسکول، پڑھائی لکھائی میں دلچسپی نہیں رہتی ہے۔
اپنے جسم میں کیا ہو رہا ہے، اور دوسرے کے بارے میں اس کے احساسات کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں کبھی کبھی وہ اسسے بھی مزید آگے بڑھ سکتا ہے اور خود کو مجرم و گنہگار محسوس کر سکتا ہے، اور سوچ سکتا ہے کہ وہ ایک برا شخص ہے، کیونکہ کسی نے بھی اس مرحلے کے لئے تیاری کرنے کی راہ ہموار نہیں کی ہے، اور اس بارے میں نہیں بتایا ہے۔
لہٰذا اس کی تعلیمی سطح میں کمی کے بارے میں تمہاری تشویش سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان وجوہات پر تحقیق کریں جو اس کی خرابی کا سبب بنی ہیں اور ان کا علاج کریں، ہم یہ نہیں کہتے کہ تربیت میں تاخیر ہوئی ہے اور اب وقت نہیں رہا جو اس کو پورے وقت میں محسوس نہیں ہوا، اس میں سے پورے کو نہ چھوڑیں، والد کو اپنے بیٹے کے دوست کے طور پر اس کے ساتھ بیٹھنے دیں، اور اسے یقین دلائیں کہ اس کی تعلیمی سطح میں گراوٹ اتنی پریشانی والی بات نہیں جتنا کہ اس کی نفسیاتی صحت کی حفاظت ہے۔
اپنے بچے سے ان وجوہات کے بارے میں سنیں جن کی وجہ سے اس کی تعلیمی سطح، اس کے نقطہ نظر سے کمی واقع ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو کچھ نہ بتا سکتا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ مکالمے کے اسلوب میں کمفرٹ محسوس کرے اور اپنے نقطہ نظر سے وجوہات کی تردید کرنا شروع کرسکتا ہے، لہٰذا ہم اس کی بات غور سے سنیں اور اس پر فیصلے نہ کریں۔
بہتر یہ ہے کہ یہ سیشن گھر سے باہر کسی ایسی جگہ پر ہو جہاں آپ اپنے بچے کو آرام دہ ماحول میں دوپہر کا کھانا کھانے کی دعوت دیں، اور پھر مسئلے کی وجوہات کی تفنید کے لئے اس کے ساتھ بات چیت کریں۔
اگر بلوغت، اس کے انداز اور مظاہر کے بارے میں اس وقت سے پہلے کوئی مکالمہ نہیں ہوا ہے، تو یہ وقت بات کرنے کا وقت ہے، تاکہ اس کے اگر کوئی سوالات، ہوں تو وہ تھم جائیں، اسے علم ودلیل کے ساتھ اپنے آپ پر اعتماد بحال ہو، اور اگر کوئی جرم کا احساس ہو تو وہ چلا جائے۔
خدا سے مدد طلب کرنے کے بعد مکالمہ ہی تمام مسائل حل کرنے کی کلید ہے،
غیر مشروط بات چیت،
بات چیت جو اسے قبولیت کا احساس دلائے،
وہ مکالمہ جس کے بعد افسوس نہیں ہوتا کہ اس نے اپنے اندر جو کچھ ہے اسے کیوں دوسروں کو بتایا۔
بلوغت تبدیلیوں، توانائی اور سوالات سے بھری ہوتی ہے، اسی کے ذریعے انسان پختگی کی طرف بڑھتا ہے، اگر وہ اس پر توجہ نہ دے تو یہ مرحلہ انسان کے بھٹکنے، الجھنے اور وجود ہلا دینے میں تبدیل ہوسکتا ہے، اور پھر اس طرح کے نتائج دیکھنا فطری بات ہے، جو ہمارے بچوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔ ان کی زندگی میں اسکول کا ایک سال ضائع ہونا ایک ایسی چیز ہے جس کی تلافی کی جا سکتی ہے، لیکن ان کی شناخت کا نقصان اور ان کے وجود کا انحراف ایسی چیز ہے جسے ہم اس طرح اپنے ہاتھوں سے نہیں جانے دے سکتے ہیں۔
مندرجہ بالا کے علاوہ، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ:
مطالعہ اور پڑھنے کی رکاوٹوں سے اس کی صحت کی حفاظت، جیسے بصارت کی خرابی، سماعت، یا ہائپوتھائیرائڈزم، لہٰذا ڈاکٹر کو دیکھانا بھی دوسری چیزوں کی طرح اہم ہے۔
اس کی نفسیاتی تندرستی بھی ایک اہم عنصر ہے، لہٰذا آئیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ متوازن ذہنی حالت کا حامل ہے اور وہ کسی ایسی خرابی کا شکار نہیں ہے جو مطالعہ کے لئے اس کے استقبال و دلچسپی میں خلل ڈالتا ہے۔
اس مرحلے پر دوستوں کا بہت اثر ہوتا ہے، یہ بات صحیح ہے کہ ہم کچھ دوستیاں مسلط نہیں کر سکیں گے، یا دوسروں کو روک نہیں سکیں گے، لیکن ہم جو کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس کی بات سنیں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کے آس پاس اچھے لوگ ہیں اور ان گھروں سے ہیں، جنہیں آپ جانتے ہیں، اپنے بچے کے دوستوں کو گھر مدعو کریں اور ان کے ساتھ بیٹھیں، اگر کوئی بات ہو تو انہیں نرمی سے بتا دیں۔
آپ کو اسکول کی تمام چیزوں کو دیکھنا پڑے گا، کلاسوں، اساتذہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوسکتی ہے، اور یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ آپ کے بچے کے لئے ایک مناسب ماحول ہے، جو معاملات میں آرام دہ ہے اور اس پر کسی بھی قسم کا جسمانی یا نفسیاتی استحصال نہیں کرتا ہے۔
بچوں کی زندگی میں والد کے علاوہ کسی نیک شیخ یا معلم کا ہونا ضروری ہے جس کا سینہ ان سوالات اور استفسارات سے وسیع ہو جائے جن کو والدین قبول نہیں کرتے اور بعض اوقات الزامات بھی لگائے جاتے ہیں لہٰذا وہ اس مرحلے کی رکاوٹوں پر قابو پانے میں والدین کی مدد کرتا ہے۔
تعلیمی پہلو کے علاوہ اپنے بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں دیگر پہلوؤں پر بھی توجہ دینا ضروری ہے، بعض اوقات والدین پڑھائی کے معاملے میں اپنی تمام قوت صرف کر دیتے ہیں، اور کھیلوں کے پہلو جیسے اہم پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اگر بیٹا کسی وجہ سے پڑھائی میں پیچھے رہ جاتا ہے، تو وہ خود کو ایک ناکام شخص کے طور پر دیکھتا ہے- دوسروں سے پہلے – اسے ایک ناکام شخص کے طور پر دیکھتا ہے، جب کہ اگر وہ کسی کھیل، یا فن میں مہارت حاصل کرتا ہے، اور کسی حد تک پڑھائی کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ تو وہ خود کو ناکام نہیں سمجھتا ہے اور یہ چیز اپنے آپ میں اہم ہے۔
اس نسل کو درپیش سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک، ان کا مطالعہ و پڑھائی کے لئے اپنا شوق اور جوش کھو دینا ہے، کیونکہ تیزی سے افزودگی و امیر ہونا ہر ایک کے لئے ایک خواب ہے، اور سوشل میڈیا پر انفلوئنسرز کے طور پر جانے جانے والے لوگوں کی طرف جانا کچھ آسان ہے، حالانکہ ان میں سے بہت سے تعلیمی طور پر ناکام ہیں، بعض اوقات جاہل بھی ہوتے ہیں، جب کہ ستم ظریفی دیکھئے، وہ جدید ترین گاڑیوں کی سواری کرتے ہیں اور بہترین جگہوں پر رہتے ہیں، ہمارے بچوں کی مایوسی اور پڑھائی کے امکان کے بارے میں ان کے شکوک و شبہات پر ان انفلوئنسرز کےاثرات کو نظر انداز نہ کریں!
اس کا حل مکالمے اور حقیقی طور پر بااثر نمونے فراہم کرنے میں مضمر ہے، جو فائدہ مند علم فراہم کرتے ہیں، اور یہ صرف سیکھنے کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے، شاعر احمد شوکی کہتے ہیں:
علم و اخلاق سے لوگوں نے بادشاہتیں قائم کیں، بادشاہتیں جہل و علمی پسماندگی پر قائم نہیں رہتی ہیں ۔
آئیے ہم علم وتعلیم کی اہمیت کو قائم کریں اور یاد رکھیں کہ وہ تمام لوگ جو مشاہدات جمع کرکے مالا مال ہوئے ہیں وہ ایک عارضی جھوٹ اور بیکار کام ہے جس پر توجہ نہیں دی جانی چاہئے اور نہ ہی اس سے متاثر ہونا چاہئے، جب کہ علم اور اخلاقیات کا مالک زمین پر خدا کا حقیقی خلیفہ ہے۔ وہ یہاں تعمیر کرتا ہے اور زندگی بسر کرتا ہے۔
محترمہ سائلہ:
جب ہم یہ صورتحال پیدا کرتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ اپنی ترجیحات کا انتظام کرنا پڑتا ہے، تاکہ وہ اب اپنی غفلت سے نکل کر کامیاب ہو جائیں، اور اپنی خود اعتمادی کو دوبارہ حاصل کرنا، اعلیٰ ترین گریڈ حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہے۔
اس کے علاوہ، مستقبل میں اس کی ناکامی کے ہمارے خوف کو اس وقتی ناکامی سے جوڑنا ایک عارضی خوف ہے، اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے، جس حالت میں وہ ابھی ہے، وہ باقی زندگی اس کے ساتھ جاری رہے گا، کتنے ناکام لوگوں نے اپنی حالت میں اصلاح کی، اور اس کے برعکس بھی شواہد موجود ہیں، انشاء اللہ اس موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنا محال ہے۔
آئیے ہم اس کی حالت کی اصلاح کے اسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش کریں، نماز پڑھنا، دعا کرنا اور صدقہ دینا بند نہ کریں، امید ہے کہ خدا آپ کی دعا و صدقہ قبول کرے گا اور اس کی حالت ٹھیک کر دے گا۔
ہم آپ کو یہ بھی مشورہ دیتے ہیں اسباب کو اختیار کرتے ہوئے کہ اس کو رقیہ شرعییہ پڑھیں کہ خدا انہیں تمام برائیوں اور نفرتوں سے بچائے اور اس کی توانائی اور سیکھنے کی خواہش کو دوبارہ واپس لوٹا دے اور اسے آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے، آمین یا رب۔
مترجم: ڈاکٹر بہاء الدین