شریعت اسلامی کی واضح تعلیمات اور مختلف تجربات و تحقیقات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بچوں کی تربیت کارِ زراعت کی طرح ہمہ وقتی اور تدریجی کام ہے۔ اس کی مثال کسی فیکٹری میں خام اشیاء سے تیار کی جانے والی چیزوں کی مانند نہیں ہے کہ یہاں سے ہم نے اس میں خام مال ڈال دیا اور وہاں سے بڑی تعداد میں چیزیں تیار ہوکر فوراََ نکل آئ۔ نہیں ایسا نہیں ہے، بلکہ بچوں کی تربیت کی مثال اس بیج کی سی ہے جسے کسان اپنی زمین میں بوتا ہے، پہلے وہ موزوں زمین اور مناسب مٹی کا انتخاب کرتا ہے، پھر صحیح بیج اکٹھے کرتا ہے اور ناکارہ بیج پھینک دیتا ہے، اس کے بعد فصل کی آبیاری کا بندوبست کرتا ہے، مضر کیڑوں اور جراثیم سے اس کی حفاظت کرتا ہے اور تب کہیں جا کر اپنی محنت کا صلہ پاتا ہے۔
ایک مسلمان کو چاہیے کہ ایسی نیک بیوی کا انتخاب کرے جو صالحیت اور تقویٰ کی بنیادوں پر اولاد کی تربیت میں اس کی معاونت کر سکتی ہو۔ ابتدا میں ان کی دیکھ بال کرے، انہیں برے ماحول سے محفوظ رکھے تاکہ ان کی شخصیت مثبت بنے، جو مستقبل کے چیلنجز کو قبول کرسکے اور بری عادات سے متاثر ہوئے بغیر لوگوں سے مل سکیں، بلکہ وہ دوسروں پر اچھائی کا اثر ڈال کر ان کے لیے رول ماڈل بنیں۔
بچوں کی تربیت کاشت کاری کی طرح کیسے؟
بچوں کی تربیت، کارِ زراعت (کاشت کاری) کی طرح سمجھی جاتی ہے جس میں کسان فصل کی نشوونما کے لیے ہر ممکن وسائل استعمال کرتا ہے۔ وہ کوئی بے کار، بنجر اراضی کا انتخاب نہیں کرتا ہے، بلکہ وہ موجودہ زمینوں میں سے بس زرخیز زمین کو منتخب کرتا ہے۔ اسی طرح ایک سمجھدار مسلم مرد ایک نیکوکار اور متقی عورت ہی کا انتخاب کرتا ہے، جس کے ذریعے اسے صالح اولاد عطا ہوں۔ جو بہترین اخلاق پر بچوں کی پرورش کرنے میں اس کی مدد کرے، جو اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔
جب کسان بیج بوتا ہے تو قوی اور مناسب بیج ہی منتخب کرتا ہے اور باقی بیج، جو بوائی کے لائق نہیں ہوتے، کو چارے کی طور پر جانوروں کو کھلاتا ہے۔ ان چنیندہ بیجوں کو آپ کار آمد بیج کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک مربی بڑی احتیاط سے دین دار بیوی کا انتخاب کرنے کے بعد بچے کی دیکھ بال شروع کرتا ہے جو ابھی رحم مادر ہی میں ہوتا ہے۔
کسان بیج زمین کے حوالے کر کے بھول نہیں جاتا بلکہ اس کی تمام غذائی ضروریات جیسے پانی، کھاد وغیرہ کا خیال رکھتا ہے۔ اسی طرح ایک باپ یا ایک مربی پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کی روحانی و جسمانی غذا کا اہتمام کرے۔ روحانی غذاؤں میں فہم، علم اور وعظ و نصیحت شامل ہیں۔ اسی طرح جسمانی صحت کا خیال بھی ضروری ہے۔
جیسے کسان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہر بیج جو وہ بوتا ہے ، ضروری نہیں کہ سب کے سب برگ و بار لائیں۔ پھر بھی وہ اپنی سی کوشش کرتا ہے اور پھر رب ارض و سما سے دعا گو رہتا ہے کہ اپنی رحمت سے زراعت میں خیر و برکت نازل کرے۔ اسی طرح ایک باپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سی کوشش کر لے اور پھر رب تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ غیب سے اس کے بیج کی پرورش کرے۔
یقیناً اولاد دنیا کی بہترین زینت اور عظیم تحفہ ہے۔ اور یہ اللہ کی امانت ہے جو اس نے ہمیں عطا کی ہے۔ لہٰذا صالحین کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ اولاد کی اصلاح کے لیے کوشش اور دعا سے مدد لیتے تھے۔ “اور میری اولاد کو میرے لیے اچھا بنا دے” [الاحقاف: 15]۔
اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ یوں تو اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں مگر ان میں اولاد سب سے بہتر نعمت ہے۔ اور نعمت کا شکر اسی نعمت سے ہوتا ہے یعنی اس کی حفاظت اور اس کی صحیح دیکھ بال کرکے۔ لہٰذا اس عظیم نعمت کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا خیال رکھا جائے اور عمدہ تربیت کی جائے۔

بچوں کی تربیت کے فطری مراحل:
بچے کی تربیت ایک تدریجی و فطری عمل ہے جو نہایت عرق ریزی سے ہوتی ہے تب جا کر ایک مکمل انسان تیار ہوتا ہے۔ یہ فیکٹری میں تیار کی جانے والی چیز نہیں یے اور یہ تربیت و پرورش دینی فریضہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
“اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے، جس کے محافظ نہایت سخت اور ترش رو فرشتے ہیں، جو کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں” [التحریم: 6]
حضرت علیؓ کہتے ہیں:
“اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ یعنی ان کو علم اور ادب سکھاؤ”
حضرت حسنؓ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں:
“ان کو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، اور حلال و حرام سکھاؤ اور گناہوں اور نافرمانیوں سے بچنے کی تلقین کرو”
سمرقندیؒ فرماتے ہیں کہ گھر والوں کو آگ سے بچاؤ، یعنی ان کو وہ باتیں بتاؤ جو ان کی نجات کے کام آئیں۔ بیضاویؒ کہتے ہیں کہ ان کو نصیحت اور تادیب کے ذریعے آگ سے بچانے کا سامان کرو۔
کئی ماں باپ ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش تو بہت ہوتے ہیں، ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں اور ان کی چھوٹی موٹی ضرورت کو پورا بھی کرتے ہیں، لیکن ان کی تربیت کی جانب تب تک توجہ نہیں دیتے جب تک کہ کوئی مشکل نہ آن پڑے۔ یہ پہلی مشکل جو 5، 7 یا 9 برس کی عمر میں پیش آتی ہے کچھ تو بسا اوقات سن بلوغت یعنی 12 برس تک پہنچنے کے بعد ہوش میں آتے ہیں یہاں تک بہت قیمتی وقت بغیر تربیت کے گذر چکا ہوتا ہے!
جب ایک شاخ سخت ہوتی ہے اور تناور درخت کی شکل اختیار کرتی ہے تو اسے سیدھا نہیں کیا جا سکتا، وہ ٹوٹ جائے گی۔
اسی طرح کاشت کا بھی موسم ہوتا ہے۔ جب موسم گذر جاتا ہے تو کاشت بے سود رہتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنانا چاہتے ہیں تو ان کی تربیت کا آغاز کب کریں؟ یہ چند نکات اور تجاویز ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے:
۱)۔ بیوی کا انتخاب:
چوں کہ ایک اچھا بیج ہی تناور درخت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی سے پھل اور بہار کی امید کی جاسکتی ہے۔ اسلام نے ابتدا سے انسان کی بہتری کا انتظام کیا ہے، بچپن نہیں بلکہ اس کے دنیا میں آنے سے پہلے کا مرحلہ یعنی خاندان کی بنیاد ڈالنے کے لیے شادی کا انتظام کرنے کے ساتھ ۔
اسلام عورت کو بھی یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ بہترین شوہر کا انتخاب کرے اور شوہر کو بھی کہ وہ اچھی بیوی پسند کرے۔ یہی وہ انتخاب ہے جو خاندان کی زندگی کا بنیادی ستون ہے۔ اسی سے ایک صحت مند ماحول، صالح گھرانہ اور درست عقائد پر مبنی خاندان کی بناء پڑتی ہے، جو کہ بچہ اپنی پیدائش کے موقع پر پاتا ہے۔ جب اس ایجابی ماحول میں وہ پروان چڑھے گا تو آگے بھی نیکی کی راہ آسان ہوگی۔
امام سھل التستری کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنی صلب کا بھی خیال رکھتے تھے اور عمل صالح کی طرف راغب ہوتے تھے، تاکہ اللہ مجھے نیک بچہ عطا کرے اور کہتے تھے کہ میں اپنی اولاد کا ذمہ دار ہوں خواہ اللہ نے اسے ابھی دنیا میں نہیں بھیجا۔
۲)۔ اللہ سے نیک اولاد کا سوال کرنا:
یہ انبیاء و صالحین کا طریقہ رہا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت زکریا علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا: “اے اللہ مجھے اپنے پاس سے پاک (نیک) اولاد سے نواز اور بے شک تو دعائیں سنتا ہے”۔ [آل عمران: 38]
متقین کے لیے قرآن میں آیا ہے کہ وہ کہتے ہیں، “اے ہمارے رب! ہمارے بچوں اور بیویوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں متقین کا امام بنا”۔ ([الفرقان: 74]
۳)۔ مستقل ذکر اور رزق حلال پر پرورش:
جونہی اللہ کے حکم سے استقرار حمل ہو، کوئی حرام چیز خون میں داخل نہ ہونے پائے۔ ماں خود کو دباؤ اور پریشانی سے دور رکھے۔ کیوں کہ یہ ثابت شدہ ہے کہ بچہ بھی ان چیزوں سے متاثر ہوتا ہے جن سے ماں ہوتی ہے۔
۴)۔ مرحلہ پیدائش:
پھر جب بچے کی پیدائش ہو جاتی ہے تو وہ تیزی سے چیزیں سیکھنا شروع کردیتا ہے۔ ہم اپنے رویوں سے اس کے مزاج، طبیعت اور عادات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ زیادہ تر عادات و اقدار ابتدائی پانچ سالوں میں بن جاتی ہیں۔ لہٰذا اس مرحلے میں توجہ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔
۵)۔ بچوں کی تربیت کے لیے اللہ سے دعا:
اگر اللہ اپنے بندے کی اس کام میں مدد کر دے تو وہ ضرور کامیاب ہوگا۔ بچہ بھی کامیاب اور مسرور رہے گا لیکن اگر اللہ نے اس کی مدد نہیں کی تو سوائے بربادی کے کچھ ہاتھ نہیں۔
۶)۔ بچوں کے لیے دعا کرنا اور بد دعا کرنے سے گریز کرنا:
اگر وہ اچھے ہیں تو ان کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کریں اور اگر وہ برے ہیں تو ان کے لیے ہدایت اور رہنمائی کی دعا کریں، اگر وہ خراب اور منحرف ہو جائیں تو اس کے لیے سب سے پہلے والدین کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
۷)۔ بچوں کی روحوں میں ایمان اور صحیح عقیدہ ڈالنا:
یہ ضروری ہے، اور یہ والدین کے لیے واجب ہے- اس معاملے میں بہت احتیاط کریں۔ جیسے کہ باپ اپنے بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔ چھوٹی عمر سے ہی ایمان کی دو شہادتیں سنائیں، ان کو یاد رکھیں، اور ان کے دلوں میں خدا کی محبت پیدا کریں- جو بھی نعمت ہمارے پاس ہے وہ صرف اللہ کی طرف سے ہے، وہ انہیں سکھاتا ہے- خدا ہی سب کچھ ہے۔ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے، اور اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایمان کے دوسرے معاملات بھی سکھائیں، اور ایمانی کتب بھی پڑھائیں۔
۸)۔ اوصافِ حمیدہ اور اخلاق کی تعلیم:
والد کو چاہیے کہ وہ تقویٰ، حلم، صداقت، امانت داری، حیا، صبر، نیکی، جہاد، اور علم کو بچوں میں منتقل کریں۔ ان پر ایسی محنت کریں کہ بچے اعلیٰ اخلاق کو پسند کرنے والے اور عمدہ انسان بنیں۔
۹)۔ بری صفات سے اجتناب اور کراہت:
والد کو چاہیے کہ وہ اوصاف غلیظہ کی قباحت بچوں کے دلوں میں ڈال دے تاکہ وہ فی نفسہ حسد، بغض، غیبت، جھوٹ، قطع رحمی، بزدلی، انانیت اور اس جیسی دیگر خرابیوں سے نفرت اور بے زاری محسوس کریں۔
۱۰)۔ انحراف اور نافرمانیوں کے اسباب سے بچاؤ:
والدین کو چاہیے کہ وہ ان وجوہات کا خاتمہ کریں جن سے بچوں میں انحراف پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لیے منکرات سے خود بھی بچیں اور اپنے ماحول کو بھی پاک رکھیں تاکہ بچہ اپنی فطرت یعنی نیکی پر قائم رہیں۔ اور ان کے عقائد اور اخلاق بھی محفوظ رہیں۔ اس سلسلے میں انہیں فضول قسم کے مطالعہ سے، فحش فلموں سے، اور غیر اخلاقی باتوں سے بچائیں کیوں کہ ان چیزوں سے اللہ کا غضب طاری ہوتا ہے۔
۱۱)۔ بچوں پر گہری نظر:
بچوں کو بتائے بغیر ان کی نگرانی کریں۔ ان کی عبادات پر اور معاملات پر نظر رکھیں۔ ان کے دوستوں سے ان کے امور دریافت کریں۔ اس کا بھی خیال رکھیں کہ بچے کیا پڑھ رہے ہیں اور کیا دیکھ رہے ہیں۔
۱۲)۔ بچوں کی صحت کا خیال:
کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو بچوں کی صحت کا خیال نہیں رکھتے۔ حالانکہ بچے تو امانت ہوتے ہیں۔ اس امانت میں سب سے زیادہ فکر ابتدائی عمر میں کرنی پڑتی ہے کیونکہ کئی ایک بیماریاں بچپن ہی میں لاحق ہوتی ہیں جو عمر بھر رہتی ہیں اور بعض اوقات موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔
۱۳)۔ تربیت میں جلد بازی سے گریز:
اگر آپ نے تربیت کی پوری کوشش کی ہے، تحذیر و نصیحت دونوں سے کام لیا ہے اور پورا زور لگایا ہے، تب بھی جلد بازی میں توقعات نہ لگائیں۔ بلکہ صبر سے کام لیں کیونکہ بعض اوقات پھل بہت دیر میں بار آور ہوتا ہے۔ اس کے لیے دعا اور محنت کریں۔
۱۴)۔ مربین اور اساتذہ سے رابطہ:
علماء، داعیان، اساتذہ اور ان لوگوں سے رابطہ رکھیں جو تربیت کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے نوجوانوں اور بچوں کی صورت حال کا پوچھتے رہیں تاکہ آپ کو اپنے بچوں کے لیے آسانی رہے۔

چند عام غلطیاں:
چوں کہ ہم نے تربیت کو کاشت کاری سے تشبیہ دی ہے، لہٰذا یہ ممکن ہے کہ آدمی سے اس میں اغلاط کا صدور ہو۔ جس طرح کسان سے کبھی پانی دینے اور کھاد ڈالنے میں غفلت ہو جاتی ہے، اسی طرح اولاد کی تربیت میں بھی کچھ باتیں نظر انداز ہو جاتی ہیں:
۱)۔ بچے کی ہمہ وقت تعریف:
بعض لوگ ہر وقت اپنے بچے کی تعریف کرتے رہتے ہیں خواہ اس کی کوئی بات قابل اصلاح کیوں نہ ہو۔ ہر وہ شے جو ضرورت سے زیادہ ہو، نقصان دہ ہوتی ہے۔ تعریف بھی اگر بے جا ہو تو ضرر پہنچاتی ہے۔ اور پھر بچہ اپنے ہر عمل پر یہی توقع کرتا ہے کہ اس کی تعریف کی جائے گی۔
۲)۔ موازنہ:
بچے کا دوسرے بچوں سے موازنہ، خواہ اس کے دوست، کلاس فیلو یا بھائی سے ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے بچے کی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے اور وہ خود کو کمتر محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ بچہ ہمیشہ خود کو سب سے آگے دیکھنا چاہتا ہے۔
۳)۔ ڈرانا اور ڈانٹنا:
بچوں میں یہ احساس منتقل نہیں ہونا چاہیے کہ والدین ان کی کسی بات کی وجہ سے ان سے محبت نہیں کرتے۔ ان کے کسی عمل کی وجہ سے ان سے بد ظن ہیں۔ ایسا کرنا ممکن ہے کہ اول اول فائدہ دے مگر دیرپا نہیں ہوتا بلکہ بچے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور آپ کی ناراضی کو اہمیت نہیں دیتے۔
۴)۔ ماں باپ کے درمیان اختلافات:
ماں باپ کے درمیان لڑائیوں اور اختلافات میں بچہ بہت سی خراب عادات اپنا لیتا ہے جن میں جھوٹ، دھوکا، اپنی غلطی پر اصرار وغیرہ ہیں۔ اس سے خاندان میں پھوٹ پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ان جھگڑوں میں بچہ اس فریق کا ساتھ دیتا ہے جو اس کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور دوسرے فریق سے متنفر ہو جاتا ہے۔ اور ان جھگڑوں سے اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
۵)۔ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا:
یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر اولاد نرینہ کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے اور ان کو الگ پروٹوکول ملتا ہے۔ یہ روش آگے چل کر بچوں میں تعصبات، اور احساس برتری یا احساس کمتری بھی ان کی زندگی میں شامل ہو جاتی ہیں۔ اس سے بہت پیچیدگیاں لاحق ہوتی ہیں۔
۶)۔ احساسات کا جمود:
یہ نہایت عام غلطی ہے جس کا شکار لڑکے ہوتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ بیٹے کو گلے لگانا اور لاڈ اٹھانا اس کی مردانگی کے لیے ضرر رساں ہے اس لیے ان سے سرد برتاؤ رکھا جاتا ہے۔ یہ رویہ محبت لطف اور کرم جیسے احساسات کے لیے مہلک ہے۔
۷)۔ کاملیت کا تقاضا:
فطری طور پر ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد دنیا میں زیادہ سے زیادہ کامیاب ہو۔ اس سلسلے میں بچوں سے توقعات وابستہ کرنا بھی اچھنبے کی بات نہیں۔ لیکن اس سب میں اگر بچے توقعات پر پورا نہ بھی اتر سکیں تو انھیں ناکام گرداننا درست طریقہ نہیں ہے۔ ہر بچے کی اپنی صلاحیتیں اور تقدیر ہوتی ہے۔

مربیین کے لیے نصائح:
جس طرح کاشتکار بعض اوقات پودوں کی دیکھ بھال اور تحفظ سے متعلق امور کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے زرعی رہنمائی کا سہارا لیتا ہے، اسی طرح بچوں کی پرورش کے لیے ماہرین تعلیم اور والدین کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱)۔ بچوں کے لیے رول ماڈل بہت اہم ہوتا ہے۔ رول ماڈل اپنے قول کی ترجمانی اپنے عمل کے ذریعے کرتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ خود سگریٹ پیتے ہوں اور بچوں کو اس سے روکیں۔
۲)۔ “یہ کرو اور یہ نہ کرو” کی پالیسی اختیار نہ کریں۔ اگر کوئی کام کروانا ہو تو عملاً اس میں شریک کرائیں۔ جیسے بچے کو تعاون اور مدد کرنا سکھانا ہے تو اس پہ لیکچر دینے کے بجائے گھر میں کوئی ایسا کام کریں جس میں اس کی مدد لینی ہو۔
۳)۔ ہفتے میں ایک دن بچوں کے ساتھ ان کی پسندیدہ جگہ سیر پر لے جائیں۔
۴)۔ بچوں کو بچپن سے ہی ذمہ داری اٹھانے کی حوصلہ افزائی کریں۔
۵)۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو سب کے سامنے نہ جھڑکیں بلکہ گھر واپس آ کر ان سے گفتگو کر لیں۔
۶)۔ بچوں کو محبت اور شفقت دیں خواہ صرف مسکراہٹ ہی کے ذریعہ ہو۔
۷)۔ تربیت کا رکن اعظم نبی مہربانؐ کی یہ حدیث ہے کہ “جس چیز میں نرمی ہوگی، وہ اسے خوبصورت بنا دے گی اور جس چیز میں سے نرمی کھینچ لی جائے وہ عیب دار ہو جاتی ہے”۔
۸)۔ بچوں کو مستقبل کے خوف سے بچانا، رزق کے خوف سے بچانا اور ان میں توکل علی الله پیدا کرنا۔ اور ان کے قول و فعل میں ایکا (ہم آہنگی) پیدا کرنا۔
۹)۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ نیک صحبت اختیار کریں۔
۱۰)۔ اپنے بچوں کو خوبصورت اور اچھے الفاظ میں نیند سے اٹھائیں تاکہ ان کی صبح کا آغاز نرمی سے ہو۔
۱۱)۔ بعض غلطیاں بچے بغیر برے ارادے کے کرتے ہیں لہٰذا سزا دینے سے قبل کئی بار وارننگ دینی چاہیے۔
۱۲)۔ شکوے شکایات سے گریز کریں اور نرمی سے اخلاقی اپیل کریں۔
۱۳)۔ ہر برا جملہ جو بچہ مربی یا والد کے منہ سے سنے گا وہ کئی سالوں تک اس کی زندگی کا حصہ رہے گا۔ سو اس پہ توجہ رہنی چاہیے۔
۱۴)۔ بچے کی چیخ کا جواب آپ چیخ کر نہ دیں۔ اس سے وہ یہی سمجھے گا کہ غصے کے وقت چیخنا ہی واحد حل ہے۔
۱۵)۔ اپنے بچوں کو گنجائش دیں کہ جو جھوٹ وہ آپ سے بول رہے ہیں اسے چھپا کر معاملہ درست کر لیں اور تفتیشی اپروچ نہ اپنائیں۔
۱۶)۔ بچوں کی پرائیویسی کا احترام کریں۔ ان کے رازوں کی حفاظت کریں۔ اور جو بات وہ آپ پر اعتماد کر کے کہہ رہے ہیں، اسے پورے خاندان کے سامنے نہ کہیں۔ کیوں کہ ان کے راز آپ کے رازوں کی طرح ہی قابل احترام ہیں۔
۱۷)۔ بچوں کو اسکول یا تقریبات میں وقت سے پہلے لے جانا ان کے لیے بہتر ہے۔ اس سے وہ ماحول سازی سیکھتے ہیں۔
۱۸)۔ اپنے بچے کا تمسخر مت اڑائیں اور اس کے دوستوں کے سامنے اس کی مذمت مت کریں۔
۱۹)۔ بچوں کی ذہانت پر ستائش کرنے کے بجائے اس کی کوششوں کی تحسین کیجیے۔ ہم جتنا اسے ذہین کہیں گے وہ اتنا ہی بے وقوف بنتا جائے گا۔
۲۰)۔ بچوں کو ان کے رشتہ داروں اور بزرگوں کا ادب کرنا سکھائیں۔ حتیٰ کہ اگر خاندانی نزاعات بھی ہوں تو انہیں اپنے تک محدود رکھیں۔
۲۱)۔ اپنے بچوں کو سچ بولنے والا بنائیں اور اس کے لیے خود بھی سچ بولیں۔ کبھی اگر وہ آپ سے جھوٹ بولیں تو ان کو جھوٹا کہہ کر مت جتائیں بلکہ یہ احساس دلائیں کہ انھوں نے کوئی غلطی کی ہے۔
۲۲)۔ دن کا اختتام اچھے نوٹ پر کیجیے تاکہ وہ تر و تازہ اٹھیں اور صحت مند اور پر سکون نیند لے سکیں۔
اسی لیے بچوں کی تربیت کاشت کاری کی طرح ہے جہاں اچھی فضا، صحیح تخم ریزی، اور حمل کے مرحلہ سے لے کر جوانی اور قوت کی منزل تک آبیاری کرنے کے بعد نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ ٹھیک جس طرح ایک کسان اپنی زمین اور زراعت کے ساتھ کرتا ہے جو ایک لمبی مدت تک اس کی دیکھ بال کرتا ہے۔
مصادر و مآخذ:
- تفسیر طبری
- تربیت کب شروع کریں از عماد حجازی
- ہمارے بچے ہماری متاع اور رعیت از ڈاکٹر زیاد مصطفی
- بچوں کی تربیت ، درختوں کی دیکھ بھال کی طرح از جمال حافظ
- تربیت کے دوران عام غلطیاں از الاء محمدی
- تربیت کے نصائح از صید الفوائد
مترجم: زعیم الرحمٰن