نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہت سی تربیتی کہانیاں اور واقعات ہیں جن کے ذریعے آپ نے اپنے صحابہ کرامؓ اور پوری امت کو سکھایا۔ ان ہی واقعات میں وہ پہلو بھی شامل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اولاد کے درمیان تھا، کیونکہ آپ صحیح اسلامی تعلیمات کی طرف تربیت، رہنمائی اور نصیحت کرنے میں بہترین باپ تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دلوں میں محبت، نرمی، اور عظیم اسلامی اقدار کی معنی خیز روح کو جاگزیں کیا جو انہیں اطاعت اور اچھے سلوک میں مددگار ثابت ہوئی۔
جو کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرے گا وہ دیکھے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام اولاد سے بلا استثناء بہت محبت کرتے تھے، اور آپ بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان فرق نہیں کرتے تھے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے معاشرے میں رہتے تھے جو بیٹیوں کو کوئی حق نہیں دیتا تھا اور نہ ان کے لیے کوئی مقام جانتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں پدری شفقت کے گہرے جذبات کو ابھارا اور ان کی فطرت میں موجود سب سے اعلیٰ خوبیوں کو نشو ونما دی جو باپ کے احترام اور اولاد کی نگہداشت پر قائم ہے۔
نبیؐ کا اپنی اولاد کے ساتھ طریقہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی اولاد کے ساتھ طریقہ تربیت اور نگہداشت سب سے بہترین مثال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آپ کی اولاد چھوٹی عمر میں رحمت اور محبت کے سایے اور مکمل دیکھ بھال کے ساتھ رہتی تھی، حتیٰ کہ مشکل اور سخت حالات میں بھی یہ برقرار رہا۔ بخاری میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے لیے نکلنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے عثمان بن عفانؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنی زوجہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی رقیہؓ کے پاس رہیں، کیونکہ وہ بیمار تھیں۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ عثمان بن عفانؓ کا بدر سے پیچھے رہنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی رقیہؓ تھیں اور وہ بیمار تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: تمہیں اس شخص کا اجر اور حصہ ملے گا جو بدر میں شریک ہوا۔ [بخاری]
یقیناً یہ حقیقی ذمہ داری ہے جس کو وضاحت کی نہیں بلکہ اتباع اور عمل کی ضرورت ہے۔ جو شخص اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کا طریقہ، جدید تعلیمی نفسیات کی کتابوں کے صفحات میں تلاش کرتا ہے — جن کے اکثر مصادر معاملے کو مزید پیچیدہ ہی کرتے ہیں — کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اپنے دین کے سرچشموں کی طرف لوٹے، سنت اور اس کی تشریح میں وہ سب کچھ موجود ہے جو کافی اور بھرپور ہے، بلکہ وہاں صفائی، پاکیزگی، سچائی، خوشی، راحت اور سعادت بھی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کو لیا، انہیں چوما اور سونگھا، حتیٰ کہ بعض لوگوں کو چھوٹے بچوں کے ساتھ سختی کرنے پر متنبہ بھی کیا، جیسا کہ اقرع بن حابس کے ساتھ کیا۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حسنؓ کو چومتے دیکھا تو کہا: میرے دس بیٹے ہیں، میں نے ان میں سے کسی کو نہیں چوما۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں اس بات کا ذمہ دار ہوں کہ اللہ نے تیرے دل سے رحمت نکال دی ہے! جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ [بخاری و مسلم]
بعض والدین اپنے بچوں کے ساتھ سخت اور درشت ہوتے ہیں، نہ ان پر رحم کرتے ہیں نہ شفقت، وہ انہیں معمولی غلطیوں پر بھی سخت مارتے ہیں جن سے درگزر کیا جا سکتا ہے، حالانکہ انہیں سمجھانے اور بات واضح کرنے کے ذریعے درست کیا جا سکتا ہے، وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے۔
بچہ جس زبان کو سمجھتا ہے وہ محبت کی زبان ہے، جس کا ترجمہ بوسہ اور آغوش کرتی ہے۔ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے ایک حصے میں نکلے یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار تک پہنچے، پھر فاطمہؓ کے گھر کے صحن میں آئے اور فرمایا: کیا لکع یہاں ہے؟ کیا لکع یہاں ہے؟ (یعنی: چھوٹا کہاں ہے؟ اور اس سے مراد حسن تھا) تو اس کی ماں نے اسے تھوڑی دیر روکے رکھا۔ میرا خیال ہوا کہ وہ اسے کوئی ہار پہنا رہی ہیں یا اسے دھو رہی ہیں۔ پھر حسن دوڑتے ہوئے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لپٹا لیا اور چوما اور فرمایا: اے اللہ! اسے محبوب بنا اور جو اسے محبت کرے اس سے محبت فرما۔
امام مسلم نے انس بن مالکؓ سے روایت کیا جو دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے، انہوں نے کہا: میں نے عیال والوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ رحم کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹیوں سے بھی بہت محبت کرتے تھے، خصوصاً سب سے چھوٹی فاطمہؓ سے۔ عائشہؓ کہتی ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے پاس بیٹھی تھیں، ان میں سے کوئی بھی غیر حاضر نہ تھی، کہ فاطمہؓ آئیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے ذرا بھی مختلف نہ تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو خوشی کے ساتھ فرمایا: میری بیٹی خوش آمدید۔ پھر آپ نے انہیں دائیں یا بائیں بٹھایا، پھر چپکے سے کچھ فرمایا تو وہ بہت رو دیں۔ جب ان کا غم دیکھا تو پھر چپکے سے کچھ فرمایا تو وہ ہنس دیں۔ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر تمہیں خاص طور پر راز کی بات کے لیے چنا اور تم روئیں؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش نہیں کرتی۔
عائشہؓ کہتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتی ہوں، میرے حق کے واسطے، مجھے بتاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا فرمایا تھا۔ فاطمہؓ نے کہا: اب ہاں۔ پہلی بار جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے سرگوشی کی تو فرمایا: جبرئیل ہر سال میرے ساتھ قرآن کا دور ایک یا دو بار کیا کرتے تھے، اور اب انہوں نے دو بار کیا ہے، اور مجھے نہیں لگتا کہ میرا وقت دور ہے، تو اللہ سے ڈرو اور صبر کرو، میں تمہارے لیے بہترین پیش رو ہوں۔ یہ سن کر میں روئی جیسا تم نے دیکھا۔ پھر جب انہوں نے میرے اضطراب کو دیکھا تو دوسری بار چپکے سے فرمایا: اے فاطمہ! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟ تو میں ہنس پڑی جیسا تم نے دیکھا۔ [مسلم]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں اور اقربا کو نرمی سے اسلام کی طرف بلایا اور ان پر رحم کیا۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے قریش کے گروہ (یا اس کے مانند بات)! اپنے آپ کو (اللہ سے) بچاؤ، میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے بنی عبد مناف! میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے عباس بن عبد المطلب! میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اور اے فاطمہ بنت محمد! مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہو مانگو، لیکن میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ [بخاری و مسلم]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسیوں اور نواسوں کے عقیقہ میں بھی شریک ہوتے تھے۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین کے لیے ایک ایک مینڈھا عقیقہ کے طور پر ذبح کیا۔ [ابو داؤد]
بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیٹیوں کے ساتھ شفقت اور نگہداشت ان کی وفات کے بعد بھی ختم نہ ہوئی۔ اس کا اظہار ان کے غسل کے اہتمام اور ان میں سے ایک کے ساتھ اپنے کپڑے کا ٹکڑا رکھنے میں ہوا۔ ام عطیہ انصاریہؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے جب آپ کی بیٹی کا انتقال ہوا تو فرمایا: اسے تین یا پانچ مرتبہ یا اس سے زیادہ اگر مناسب سمجھو، بیری کے پانی سے غسل دو، اور آخر میں کافور یا کچھ کافور لگا دو۔ جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر کرنا۔ جب ہم فارغ ہوئیں تو ہم نے آپ کو خبر دی، پھر آپ نے اپنا ازار ہمیں دیا اور فرمایا: اسے اس کا لپیٹ (اندرونی کپڑا) بنا دو۔ [بخاری و مسلم]
اولاد کی تربیت کے لیے نبوی وصیتیں:
اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی اولاد کے ساتھ طریقہ والد اور اولاد کے حسنِ تعلق کے بیان کے لیے ایک مکمل منهج ہے، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے مواقع پر باپوں کو وصیت کی کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور انہیں صحیح اسلام پر تربیت دیں۔ ان میں یہ شامل ہیں:
باپ ذمہ دار ہے: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے: حاکم نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے، اور مرد اپنے گھر والوں میں نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ [متفق علیہ]
عقیدے کو مضبوط کرنا: باپ پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کا عقیدہ، اقدار اور خیالات کی تشکیل کا اہتمام کرے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ [بخاری]
نماز کا حکم: ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بچوں کو سات برس کی عمر میں نماز سکھاؤ، اور دس برس کے ہوں تو اس پر (ادائیگی نہ کریں تو) سزا دو، اور ان کے بستر الگ کر دو۔[ابن حبان]
اولاد میں انصاف: نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں کچھ مال عطیہ کیا تو ان کی والدہ عمرة بنت رواحہ نے کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بناؤ۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تاکہ آپ اس عطیہ پر گواہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنی تمام اولاد کے ساتھ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔ چنانچہ وہ لوٹ آئے اور اس عطیہ کو واپس لے لیا۔ [مسلم]
نیک دوست کا انتخاب: ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر ایک تم میں سے دیکھے کہ وہ کس کو دوست بنا رہا ہے۔ (ترمذی) اور ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صالح ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال مشک والے اور لوہار کی بھٹی والے کی سی ہے؛ مشک والے سے یا تو مشک خریدو گے یا اس کی خوشبو پاؤ گے، اور بھٹی والا یا تو تمہارے بدن یا کپڑے کو جلا دے گا یا اس سے بدبو آئے گی۔ [بخاری] لہٰذا لڑکے کے ماں باپ دونوں کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو نیک رفاقت سے جوڑیں اور برے دوستوں سے دور رکھیں۔
بچوں کے لیے مسکرانا اور استقبال کرنا: جریر بن عبداللہؓ کہتے ہیں: جب سے میں مسلمان ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی دربان کے بعد روک کر نہیں رکھا اور جب کبھی مجھے دیکھا تو میرے چہرے پر مسکرائے۔ [مسلم]
چہرے پر نہ مارنا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا ہے؛ ابو ہریرہؓ کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مارے تو چہرے سے پرہیز کرے۔ [مسلم]
یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی اولاد کے ساتھ طریقہ اور مسلمانوں کے لیے آپ کی وصیتیں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مربی ہیں جو نرمی، رحمت، حلم اور حکمت کی صفات سے مزین تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ بچے کو اس کا بچپن جینا چاہیے، کھیلنا، چیخنا اور رونا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اولاد اور مسلمانوں کی اولاد کے ساتھ معاملات میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو اولاد کی صحیح روش پر تربیت کے لیے قابلِ اقتداء نمونہ ہیں۔
مترجم: سجاد الحق