میرا سب سے بڑا بیٹا ہائی اسکول کا طالب علم ہے، مجھے حال ہی میں معلوم ہوا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کے باہر سگریٹ پیتا (سگریٹ نوشی) ہے، حالانکہ ہمارے گھر میں کوئی بھی سگریٹ نہیں پیتا ہے۔ اب تک میں نے اپنے آپ پر قابو رکھا تھا اور اسے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا تاکہ میں پہلے اس چیز کی پوری تصدیق کرا لوں اور اب مجھے یقین ہوگیا ہے۔ اس لیے میں نے اسے اس کے دوستوں کے سامنے مارنے کی کوشش کی جو اس کے ساتھ سگریٹ نوشی کرتے تھے حتیٰ کہ اسے گھر پر بھی مارا۔ لیکن پھر میں یہ سوچ کر رک گیا کہ کہیں میں کچھ ایسا نہ کر بیٹھوں جس پر بعد میں مجھے پچھتانا پڑے۔
میں اورمیری بیوی نے اس پر بہت سوچا، لیکن ہمیں اس طرح کی مشکلات کے ساتھ پہلے کبھی سابقہ پیش نہیں آیا ہے اس لیے ہم آپ سے مشورہ طلب کرتے ہیں ؟
جواب : بچوں کو سگریٹ نوشی سے کیسے دور رکھیں
یہ ایک سیدھی سی بات ہے اور ہر کوئی سمجھتا ہے کہ بچوں کا سگریٹ نوشی میں مبتلا ہونا، والدین میں کس قدر مایوسی اور غصے کا باعث بنتا ہے اور خاص کر جب یہ عادت انہیں اس مرحلے میں لگتی ہے جس مرحلے میں ہم ان کے تربیتی سفر کا اچھا خاصا حصہ گذار چکے ہوتے ہیں، اور ہمیں اندازہ ہونے لگتا ہے کہ اب وہ اپنی زندگی میں صحیح ڈگر پر آگے بڑھنے کے لیے تیار کھڑے بیٹھے ہیں۔
یہ بات بھی معلوم ہے کہ ہمارے بچوں کا ایک خاص عمر میں سگریٹ نوشی کے خطرے سے دوچار ہونا ایک ایسی چیز ہے جس کا خیال بچوں کی ابتدائی عمر ہی سے رکھا جا سکتا ہے تاکہ پہلے ہی مرحلے میں اس پر قابو پایا جاسکے اور جب بچے سگریٹ نوشی کے بارے میں پوچھیں تو والدین اولین موقعہ کا فائدہ اٹھا کر بچوں کو سگریٹ نوشی کے بارے میں متنبہ کریں، اور انہیں اس موضوع پر معلومات کا ایک ناقابلِ تسخیر ذخیرہ فراہم کریں جس کے لیے وہ سیدھا انٹرنیٹ پر جاکر ایسا گرافک تصویری مواد تلاش کر سکتے ہیں جو جسمانی اعضاء پر سگریٹ نوشی کے تباہ کن اثرات کو بیان کرتی ہوں جن کا مناسب مشاہدہ کرکے بچے کے اندر ایک عمومی صحت مند ثقافت کی بنیاد پڑ جائے، جو اس کے جسم اور اس کی امانتوں کا تحفظ یقینی بنائے اور بچوں میں ایسی اقدار اور عادات کو پروان چڑھائے جو انہیں بڑا ہونے کے بعد اس میں گرنے سے بچا سکے۔ مثال کے طور پر بچوں کے ذہن میں خدا کی دائمی نگرانی کا تصور بٹھائے اور وہ حرام کی حدود سے پہلے پہلے اپنے آپ کو روکیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی کردار سازی بھی کریں اور انہیں ہمیشہ خاندان سے جوڑنے اور اس کے ساتھ تعلق کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
لیکن اب جب کہ معاملہ پیش آچکا ہے، تو ہمیں اس تصویر کے دوسرے پہلو پر بھی نظر ڈالنی چاہیے وہ یہ کہ عام طور پر ہمارے بچوں کو مختلف خاندانی اور سماجی وجوہات اس چیز کو اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جیسا کہ ہمارے بچوں کو اس مرحلے پر اپنے ماحول سے بہت زیادہ توقعات اور تقاضوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اکثر ان کی قابلیت اور استطاعت پر بھاری پڑتی ہیں، اس لیے وہ اس دباؤ سے بچنے کے لیے سگریٹ نوشی جیسی چیز کا سہارا لیتے ہیں۔ اور اسی طرح اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے شدید اثر و رسوخ میں آکر وہ اس میں گر جاتے ہیں کیونکہ ان میں اپنے معاشرے اور اس میں موجود ہر چیز کو بلا امتیاز قبول کرنے کی مکمل استعداد ہوتی ہے، انہیں گھریلو مسائل، اختلافات، خاندانی لڑائی جھگڑے اور گھر والوں کی غفلتیں اس طرف دھکیلتی ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو اس مرحلے کی منفرد خصوصیات ایسا کرنے کی طرف رغبت دلاتی ہیں جیسے کہ آزادی یا خود کو ثابت کرنے کی خواہش، جرأت، جوش اور نئے تجربات کرنے کی خواہش۔
یہ ایسی خصوصیات ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھے اور ان کا ادرک کیے بغیر والدین کو اس مرحلے پر اپنے بچوں کے ساتھ معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔
اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ پر غصہ کئے بغیر اور بچوں پر کی گئی محنت کے ضائع ہونے پر رونے اورافسوس کئے بغیر اپنے بچوں کے سگریٹ نوشی میں مبتلا ہونے کے پیچھے اصل وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کریں، کیونکہ مسائل کے ظاہری اسباب اور علامتیں اکثر ہماری توجہ حقیقی مسائل اور اصل وجوہات سے ہٹا دیتی ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ والدین کو اس طرح برتاؤ کرنا چاہئے جیسے انہیں اس بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے بچوں کا سامنا کرنے کے لیے کھڑے ہوں، انہیں چاہیے کہ پہلے کچھ وقت اپنے بچوں کی سگریٹ نوشی کی اصل وجوہات کو سمجھنے میں لگائیں جن میں کم سے کم بچوں کے اس مرحلے کی خصوصیات اور اپنوں کی طرف سے ان پر دباؤ ضرور شامل ہوگا پھر ان وجوہات کو ٹھیک کرنے یا ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جہاں تک اس معاملے میں بچوں کا سامنا کرنے کا تعلق ہے، بعض اوقات اگر یہ سامنا صحیح طریقے سے نہ ہو تو اس تصادم سے بچوں کے دل میں موجود اپنے والدین کا کھٹکا بھی جاتا رہے گا، اور پھر یہ معاملہ ان کے لیے معمول بن جاتا ہے اور وہ یہ کام ضمیر کی ملامت کے بغیر کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا مشورہ یہ ہے کہ ان کو بتانے میں اس وقت تک جلدی نہیں کرنی چاہیے، جب تک کہ والدین اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اس کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں۔
اس بات سے ہمیں زیادہ خوشی نہیں ملے گی اگر ہمارے بچے اس عادت کو محض اس لیے ترک کرتے ہیں کیونکہ ہمیں پتہ چل گیا ہے بلکہ ہم چاہیں گے کہ وہ یہ فیصلہ اپنی مرضی سے، دل سے مطمئن ہوکر کریں۔ کیوں کہ بحیثیت والدین ہم ہمیشہ اپنے بچوں کے پیچھے سائے کی طرح نہیں چل سکتے ہیں بلکہ ہمیں چاہیے کہ ان کے لیے زندہ ضمیر، مضبوط دین اور ٹھوس اقدار بن کر ان کے ساتھ چلیں۔
والدین کی حیثیت سے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ باہر ایک ایسی دنیا ہے جو ہمارے بچوں کے لیے بہت پرکشش ہے، اور جس میں اترنا بہت ہی آسان ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے آپ سے ان حفاظتی جیکٹس کے بارے میں سوال کریں جو ہم اپنے بچوں کی طرف پھینکتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس طاقتور پہاڑ پر چڑھ کر ہماری طرف آئیں لیکن وہ ان لہروں سے مزاحمت کرکے تمہاری طرف تب تک ہرگز نہیں آئیں گے جب تک کہ تم انہیں کوسو گے، ان پر چیخو اور چلاؤ گے، ان کی بے عزتی کرو گے، یہاں تک کہ ان کی مار پیٹ کرو گے۔ یہ دنیا ہمیں بتاتی ہے کہ اپنے بچوں کے لیے حتی الوسع بانہیں کھول کے رکھیں، ان کا سامنا کرنے سے پہلے اپنے سامنے کھڑے ہوجائیں کیونکہ انہیں قبول کرنا اور محبت کرنا، اس کا ان کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ کہ “نرمی جس کسی چیز میں ہوتی ہے وہ اسے خوبصورت بناتی ہے، اور جس چیز میں نرمی ختم ہو جاتی ہے وہ اسے بگاڈ دیتی ہے۔” ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی میں حاصل کی ہوئی عقلی پختگی اور تجربے پر خدا کا شکر ادا کریں، تاکہ ہم اپنے بچوں کی نادانیوں، خوابوں اور الجھنوں پر انہیں معذور سمجھ کر رحم کریں۔ اپنی ذات کو سزا دینے، اس پر غفلت یا ناکامی کا الزام لگانا چھوڑ دیں جس طرح ہم اپنے بچوں پر ناکامی اور نقصان زدہ قرار دینے سے باز رہتے ہیں۔
یہ سب کچھ کرنے کے بعد، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب ہم اس معاملے سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار ہیں، کوئی چیخ و پکار یا غصہ نہیں کرنا ہے۔ بہت پیار، دیکھ بھال، اور ہمدردی لے کر ان کے ساتھ تفصیلی بحث، ایسی بحث جس میں والدین کے فیصلے شامل نہ ہوں، بلکہ ایسی بحث جس میں وہ خود اس فیصلے پر پہنچ جائے کہ وہ یہ عادت جلد از جلد چھوڑیں گے، ہم انہیں اپنے احساسات کے بارے میں بھی بتا سکتے ہیں جو ہم نے ان کے رویے کی وجہ سے محسوس کیے تھے۔ میں جذبات کی بات کر رہا ہوں، نہ کہ ہمارے فیصلوں کی۔ ہم ایسی بحث کریں جس میں ان کے لیے بہت سے سوالات ہوں، میرا مطلب تفتیش (انویسٹی گیشن) نہیں ہے۔ بلکہ ایسے منظم سوالات جو انہیں اپنے آپ کو ظاہر کرنے میں مدد دیں گے، اور انہیں صحیح فیصلے تک پہنچنے میں مدد کریں گے، اور اس مسئلے میں معافی مانگنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جہاں کوتاہی برتنے کی ذمہ داری بحیثیت والدین ہم پر عائد ہوتی ہے تاکہ اس طرح وہ بھی اس کی ذمہ داری اٹھانا سیکھیں، ان کو شرمندہ یا بے وقار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی ناقابل معافی جرم کیا ہے، یا انہوں نے ہمیں مایوس کیا ہے۔ جتنا ہوسکے ہمیں مثبت الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ معاملہ قابل قبول اور معمول بن گیا ہے، ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم پورے زور سے یہ بات کریں کہ اس کی عادت چھوٹنے تک گھر میں اور سب کے درمیان اسے اس کی اجازت نہیں ہوگی ۔ آپ کو اس سے یہ مطالبہ کرنے کا حق ہے کہ وہ آپ سے لی ہوئی رقم سگریٹ نوشی پر خرچ نہ کرے یا آپ اس کے ذاتی اخراجات پر نظرِ ثانی کرسکتے ہیں۔
ہمیں انہیں بتانا ہوگا کہ ہم ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم انہیں سپورٹ کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ہم انہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔
اس عمر میں عام طور پر بہت زیادہ محبت، دوستی، مشورہ، گفتگو، خاموشی، اپنے بچوں کے ساتھ جھگڑوں سے اجتناب کرنا، اس کے علاوہ چھوٹی عمر سے ہی کھیلوں کی مشق کرانے کی طرف رغبت دلانا اور مفید کاموں میں وقت گزارنے میں ان کی مدد کرنا، وقت کے ضیاع کو ممکنہ حد تک کم سے کم کرکے اسے کامیابی کے ساتھ گزرانے کی کوشش ہونی چاہیے۔
ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہدایت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے: {تم جسے چاہو، اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے } اس لیے ہمیں کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہی اچھائی کی طرف پھیرنے والا ہے۔ اور اسی سے دلوں کی اصلاح بھی ہے نیز فرماں برداری کی کثرت کے ذریعے بچوں کی اصلاح اور حفاظت کی امید رکھیں۔