اگرچہ صہیونی دشمن دہائیوں سے فلسطینی مسئلہ کے نقوش مٹانے، اس کے بارے میں جہالت پھیلانے اور اس کے لیے کام کرنے والے ہر فرد میں خوف پیدا کرنے کے لیے کام کر رہا ہے، لیکن قدس میں فلسطینی مسئلہ کے مصلحین اور مزاحمت کرنے والوں اور پوری دنیا کے علماء اور مبلغین کی کوششیں کو بھرپور تحسین اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ خاص طور پر ان کی شعور بیدار کرنے کی مہم نہ صرف بڑوں کو مخاطب کرتی ہے، بلکہ بچوں اور کم عمروں تک کو بھی اپنا پیغام پہنچاتی ہے تاکہ وہ اس مسئلے سے محبت اور اس کے لیے کام کرنے کے جذبے کے ساتھ پروان چڑھیں۔
مسجد اقصیٰ کے محافظوں اور مختلف ممالک میں مصلحین، کبھی بھی اس مقصد کو پھیلانے اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کا دفاع کرنے سے باز نہیں آئے: سیاسی طور پر، میڈیا کے ذریعے اور تربیتی سطح پر۔ والدین، اساتذہ، مبلغین اور مربیوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطین، بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور اقصیٰ کے بارے میں بچوں کے تصور کو درست کریں ( تعارف کروائیں) اور ان کے دلوں میں ان کے لیے محبت اور ان کے دفاع کا جذبہ پیدا کریں۔
فلسطینی مسئلہ سے محبت کرنے کے لیے بچوں کی پرورش کرنا:
تاکہ صہیونی دشمن اور اس کے معاونین عرب و اسلامی ممالک کے بچوں کے ذہنوں میں مسئلۂ فلسطین کو مسخ اور مائع نہ کرسکیں۔ والدین اور مربّیوں پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلے کو بچوں کے قلوب و اذہان میں زندہ رکھنے کے لیے درج ذیل عملی اقدامات کریں:
- بچوں کو فلسطین کے مسئلے کی اسلامی نوعیت سے متعارف کرانا، اور کسی ایسے حل کو مسترد کرنا جس سے مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچے (ضائع ہو) یا معاہدوں اور دستاویزات کے ذریعے یہودیوں کو اس کی سرپرستی دی جائے۔
- اس مسئلے، اس کی تاریخ اور اہم مقامات (یادگاروں) کے بارے میں روزانہ اسکول کی ریڈیو نشریات میں ایک مختصر پروگرام مختص کرنا۔
- مسئلۂ فلسطین کا درد اپنے دل میں رکھنا، اس میں دلچسپی لینا، اس کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرنا، اور اس سے متعلق حدیث اور آثار جاننا۔
- بچوں کے لیے ایسی اسلامی کارٹون شخصیات (کردار) کو شائع کرنا جو بیت المقدس کا دفاع کرتی ہوں، تاکہ ان کے لیے مسئلہ فلسطین کو سمجھنا اور اور اس سے تعلق رکھنے میں آسانی ہو۔
- انہیں یہودیوں کی حقیقت سے متعارف کرانا (ان کی کہانیاں قرآنِ کریم اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں) اور ان کے منصوبوں، عقائد، تاریخ اور مقاصد سے مکمل واقفیت حاصل کرنا۔
- بچوں کی ایسی تربیت کرنا کہ وہ اپنی جیب خرچ میں سے فلسطین کے بچوں، یتیموں اور بے گھر افراد کی مدد کے لیے کچھ حصہ نکالیں۔
- انہیں فلسطینی عوام، مرابطین، اور صہیونی جارحیت سے سرزمین کا دفاع کرنے والوں کے لیے رات کے آخری پہر میں دعا کرنے کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا، تاکہ اللہ ان کی تکالیف دور کرے اور انھیں فتح و نصرت عطا فرمائے۔
- بچوں کو سمجھانا کہ اللہ عزّ و جل نے مسجد الحرام اور مسجدِ اقصیٰ کے درمیان کس طرح ربط قائم فرمایا ہے۔
- اپنے گھر کو مسجد اقصیٰ کی تصاویر اور ماڈلز سے سجانا۔
- بچوں کے ساتھ بیٹھ کر فلسطین کی تاریخ اور جغرافیہ پڑھنا، اور اس کے مجاہدین و ہیروز کی سیرت پر گفتگو کرنا۔
- ایسے نغمے اور ترانے سننا جو مسئلۂ فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ سے متعلق ہوں۔
- بچوں کے لیے ایسے رنگ بھرنے والے کتابچے لانا جن میں بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ کی تصاویر ہوں۔
ہم اپنے بچوں میں مسجد اقصیٰ کی محبت کیسے پیدا کریں؟
مسجد اقصیٰ کسی بھی صورت میں فلسطینی مسئلے سے جدا نہیں ہو سکتے، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس کی اہمیت کو جانے، اس کی حفاظت اور دفاع کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ شعور اور وابستگی بچپن ہی سے گھر، مدرسہ اور مسجد کے ماحول میں عزم کے ساتھ درج ذیل طریقوں سے پروان چڑھائی جا سکتی ہے:
- مسجد اقصیٰ کی محبت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے جوڑنا، کیونکہ اس جگہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک خاص اہمیت ہے۔
- بچوں کے ساتھ دلچسپ کہانی کے انداز میں باقاعدہ اجلاس منعقد کریں اور ان عظیم رہنماؤں کی سیرت سے روشناس کرایا جائے جن کا تعلق مسجدِ اقصیٰ سے رہا، مثلاً: خلیفۂ راشد حضرت عمر بن خطابؓ، اور رہنما عماد الدین زنگی، نور الدین محمود، سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان عبد الحمید ثانی، عزالدین القسام، امین الحسینی، حسن البنّا، اور شیخ احمد یاسین رحمہم اللہ اور دیگر۔
- آپ انہیں بیت المقدس کے مخصوص مقامات سے منسلک تاریخی بہادری کی کہانیاں بھی سنا سکتے ہیں، تاکہ بچوں کے دلوں میں بیت المقدس، مسلمانوں اور ان کی تاریخ سے تعلق گہرا ہو۔
- قبة الصخرہ، مسجد اقصیٰ اور یروشلم کے ماڈلز خریدے جا سکتے ہیں ، تاکہ وہ بچے کی نظر کے سامنے رہیں اور وہ بڑے ہوتے ہوئے جان سکے کہ اس جگہ کی کتنی حرمت اور اہمیت ہے۔
- گھر میں ایک گللک رکھا جائے تاکہ بچہ اپنی جیب خرچ سے مسجد اقصیٰ کی حمایت میں بچت اور خرچ کرنا سیکھے۔
- مسجد اقصیٰ کے بارے میں گھریلو مقابلے منعقد کرنا۔
- اسکول میں، درسی نصاب میں القدس اور مسجدِ اقصیٰ کی اہمیت، مقام (حیثیت) اور تاریخ کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
- اسکول کی ریڈیو نشریات میں مسجد اقصیٰ کے بارے میں روزانہ ایک مختصر معلوماتی سیگمنٹ شامل کیا جائے۔
- باقاعدہ ایک وال میگزین تیار کیا جائے جس میں القدس ، مسجد اقصیٰ، ان کی تاریخ اور ان سے متعلقہ مسائل پر معلومات شامل ہوں۔
- اسکول میں مسجد اقصیٰ کے بارے میں مختلف مقابلوں کا انعقاد کرنا۔، جیسے کہ ادب، مصوری، ڈرامہ، کھیل، معلومات وغیرہ۔
- مسجد اقصیٰ کے خلاف تاریخ سے لے کر آج تک رچی جانے والی سازشوں کے بارے میں آگاہی کی مہمات چلانا۔
- کلاس میں فلسطین اور بیت المقدس کا نقشہ کسی نمایاں جگہ پر رکھیں تاکہ طلباء اچھی طرح پڑھ سکیں۔
- ایسے اسکولی نمائشوں کا اہتمام کرنا جن میں مسجد اقصیٰ اور القدس سے متعلقہ کتب، معلوماتی پمفلٹس، اور اقصیٰ کی تصویر والے تعلیمی سامان شامل ہوں۔
- مسجد کے ذریعے: ان مواقع پر خصوصی خطبات دیے جا سکتے ہیں جو مسجد اقصیٰ سے متعلق ہوں، جن میں اس کی اسلام میں اہمیت، اس کا آغاز اور تاریخ بیان کی جائے۔
- قرآن، حدیث، سیرت، تفسیر، فقہ اور دیگر اسلامی علوم میں مسجد اقصیٰ کے بارے میں باقاعدہ دروس (اسباق) کا اہتمام کیا جائے۔
- بچوں کو اُن کی استطاعت کے مطابق مسجدِ اقصیٰ کی مدد کرنے کی ترغیب دینا۔
- اسی طرح بچوں کے لیے ان آیات، احادیث اور اسلامی معلومات پر مبنی مقابلے منعقد کیے جا سکتے ہیں جو مسجد اقصیٰ سے متعلق ہوں۔
عملی اور مثبت اقدامات:
نوجوانوں کے دلوں میں مسئلہ فلسطین کی محبت پیدا کرنا صرف زبانی گفتگو، نظریاتی درس یا محض وعظ و نصیحت تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کے لیے کچھ عملی اور مثبت اقدامات بھی ناگزیر ہیں جن پر والدین اور مربّیان کو خاص توجہ دینی چاہیے۔ ان میں سے چند اہم اقدامات یہ ہیں:
- ہر جگہ مسلمانوں کے مسائل میں، خاص طور پر فلسطین کے بارے میں سنجیدگی اور دلچسپی کا عملی نمونہ بننا، اور یہ ایک انتہائی اہم عملی سبق ہے جو بچے سیکھ سکتے ہیں۔
- فلسطین میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو بچوں کی آگاہی اور شمولیت کے لیے استعمال کرنا، تاکہ وہ حالاتِ حاضرہ سے جڑ جائیں۔
- مسئلہ فلسطین اور اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے قصے اور کہانی کا طریقہ استعمال کریں۔
- فلسطین کی مدد کے لیے گھر میں ایک گللک مختص کرنا اور بچوں کو اس مقصد کے لیے عطیہ کرنے کی ترغیب دینا۔
- بچوں کو اس بات کی عادت ڈالنا کہ وہ ان ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں جو صہیونیوں کی حمایت کرتے ہیں۔
- بچوں کو فلسطین سےمتعلق تقریبات میں شرکت کی اجازت دینا۔
- ہم انہیں تصاویر جمع کرنے، معلومات اکٹھی کرنے یا مسئلے پر ایک چھوٹا سا تحقیقی کام تیار کرنے کو کہہ سکتے ہیں۔
- بچوں کو اس بات کی ہدایت دینا کہ وہ فلسطین کے بارے میں تصاویر جمع کریں، معلومات اکٹھی کریں یا ایک مختصر تحقیقی مقالہ تیار کریں۔
- بچوں کو ڈرائنگ، کہانیوں یا شاعری کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی ترغیب دیں اور انہیں اسکول کے کلاس رومز یا فیملی روم میں کسی نمایاں جگہ پر وال میگزین میں شائع کریں۔
- اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے ایک دن کا روزہ رکھنا، اس امید پر کہ وہ فلسطین میں ہمارے بھائیوں کی فتح کے لیے روزہ دار کی دعا قبول کرے گا۔
- مسئلہ فلسطین سے متعلق پھیلائے جانے والے شبہات کا رد کرنا، انہیں دلائل سے باطل ثابت کرنا، اور ان میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو واضح کرنا۔
فلسطین اور بیت المقدس کے بارے میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں:
مسئلۂ فلسطین، صہیونی ریاست اور اس کے حامی ممالک کی جانب سے مستقل کوششوں کے ذریعے مٹانے کی سازشوں کا شکار ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کو مسمار کر کے وہاں نام نہاد “ہیکلِ سلیمانی” تعمیر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ لہٰذا دنیا بھر کے مسلمانوں پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن پر توجہ دینا ضروری ہے، اور وہ یہ ہیں:
- ایمانی و تربیتی شعور بیدار کرنا اور اس مسئلے کی ہمارے دین میں اہمیت اور ہمارے ذمے اس کے حقوق کو جاننا۔
- علمی، تربیتی اور دعوتی تحریک کو زندہ کرنا، اور علم و تربیت کی مجالس کے کردار کو دوبارہ فعال کرنا تاکہ مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا جا سکے اور اس کے بارے میں شعور بیدار کیا جا سکے۔
- کانفرنسوں، سیمینارز، سیٹلائٹ ٹیلی ویژن، ریڈیو، اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ سےمتعلق مسائل اور مشکلات کی یاد دہانی کرانا۔
- مسلمانوں کا اندرون و بیرون ملک ایک دل اور ایک صف میں متحد ہونا، تاکہ صہیونیوں کی جانب سے القدس اور مسجد اقصیٰ کے مسئلے کو مٹانے اور اس کی حقیقت کو مسخ کرنے کی کوششوں کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔
- مبلغین، خطباء اور مربیوں کو چاہیے کہ وہ مسئلہ الاقصیٰ پر توجہ دیں، لوگوں کو اس کی یاد دلائیں، اس کی حقیقت بیان کریں، اور ان شکوک و شبہات اور سوالات کا جواب دیں جو اس مسئلے کو مٹانے یا مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
آخری کلمات:
مسئلۂ فلسطین کسی بھی صورت میں سودے بازی یا سمجھوتہ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مسجدِ اقصیٰ تمام مسلمانوں کی مشترکہ امانت ہے جس کا کسی کو بھی حق نہیں کہ اس سے دستبردار ہو۔ بلکہ اسے صہیونیوں کے قبضے سے آزاد کرانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ، یہاں تک کہ وہ دوبارہ مسلمانوں کی آغوش میں واپس نہ آجائے۔
سلطانِ عثمانی عبد الحمید ثانیؒ نے اس باب میں تاریخ ساز مثال قائم کی، جب انہوں نے اپنے دوست “نیوزلنسکی” کی درخواست کو ٹھکرا دیا اور 1896ء میں ہرزل کی پیشکش کے جواب میں اس سے کہا:
“تم اپنے دوست ہرزل سے کہہ دو کہ میں ملک کا ایک انچ بھی فروخت نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ میری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ میری قوم کی امانت ہے۔ میری قوم نے یہ زمین جنگ اور خون کے نذرانے کے ذریعے حاصل کی ہے۔ ہم اسے اپنے خون سے ڈھانپیں گے، اس سے پہلے کہ کسی کو اجازت دیں کہ وہ اسے ہم سے زبردستی چھین لے۔ یہود اپنے اربوں پیسے بچائیں۔ اگر میری سلطنت تقسیم ہو گئی تو شاید یہودی بغیر قیمت کے فلسطین حاصل کرلیں، لیکن یہ تقسیم ہماری لاشوں پر ہی ممکن ہے۔ میں زندہ رہتے ہوئے ہمارے جسموں کی کھال اتارنے کو قبول نہیں کروں گا۔”
مترجم: ڈاکٹر بہاء الدین