میں اپنے بچے میں خود اعتمادی کس طرح پیدا کروں جب کہ خود میرے اندر بھی خود اعتمادی نہیں پائی جاتی؟
سوال:
میں ایک جدید ماں ہوں۔ جب میں اپنے بچے کی طرف دیکھتی ہوں جو کہ میری ذمہ داری ہے تو مجھے شدید بے بسی کا احساس ہوتا ہے کہ اس کی تربیت ورہنمائی کیسے کروں۔ مجھے یاد آتا ہے، جب میں چھوٹی تھی تو میری امی ہر وقت مجھے حکم کرتی رہتی تھی۔ وہ میرے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں مداخلت کرتی تھی۔ میں جب بھی یاد کرتی ہوں کہ وہ کس طرح مجھ سے پیش آتی تھی تو مجھے کوفت ہوتی ہے، اسی دم مجھے اپنے ننھے سے بچے کے بارے میں ڈر ستانے لگتا ہے،اور میں بھی اپنی ماں کے نقش وقدم پر چل پڑتی ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ میں کس طرح ان دو چیزوں کے درمیان توازن قائم کرسکتی ہوں، کہ ایک طرف اپنے بچے کی نگرانی کروں اور خطرات سے محفوظ بھی رکھوں، اور دوسری جانب اس کے اندر خود اعتمادی بھی بڑھے اور اسے یہ سمجھ آجائے کہ کیسے میری بہت زیادہ مداخلت کے بغیر وہ خود بھی فیصلے کرسکتا ہے؟
جواب:
اللہ عزوجل فرماتا ہے۔ انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔ مگر وہ لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں جو نماز پڑھنے والے ہیں”۔ [معارج: 19-22]
یہ آیات ہمیں سہل الفاظ میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں اور ہم پر واضح کرتی ہیں کہ انسان کی سرشت میں خوف اور گھبراہٹ رکھ دی گئی ہے اور یہ دونوں چیزیں اس اطمینان وسکون کی ضد ثابت ہوئی ہیں جس کی بدولت خود اعتمادی حاصل ہوتی ہے۔ مگر نماز پڑھنے والا اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ جو اللہ پر توکل کرنے والا ہے۔ لوگوں کے بجائے اسباب پیدا کرنے والے رب پر بھروسہ کرتا ہے، اسی کے اسباب اختیار کرتا ہے۔ اسی کارساز کا سہارا لینے والا ہے۔ اس مضبوط سہارے پر اعتماد کے علاوہ سعی وعمل بھی کرتا ہے۔ مشہور کہاوت ہے۔ “توکل علی اللہ کے بغیر کوئی بھی عمل محض غرور ہے اور عمل کے بغیر توکل کرنا عقل کی کمی پر دلالت کرتا ہے۔”
مکرمی سائلہ:
ہم جانتے ہیں کہ بچپن میں والدین کی بے جا مداخلت سے آپ پر کیسے منفی اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ اسی مداخلت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بچے کا اعتماد ہل جاتا ہے۔ اور وہ خود سے کوئی معمولی فیصلہ کرنے میں بھی ہچکچاتا ہے۔
اب جب تک آپ ان احساسات سے اپنی جان چھڑاؤگی اور انہیں اپنے پاؤں کی بیڑیاں نہیں بننے دوگی اس وقت تک ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور چارا نہیں کہ ہم اپنے والدین کو اس میں معذور سمجھیں۔ جو کچھ انہوں نے کیا، یقیناً وہ کوئی غلط ارادہ نہیں رکھتے تھے۔
اور شعوری طور بڑھے ہونے کے ساتھ اب ہم یہ جان چکے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کیا وہ کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔ لہٰذا ہم نے ان کی بے جا مداخلت اور ڈر کو جی لیا ہے مگر ہم میں سے عقلمند وہی ہے جو اپنے اسلاف کے تجربے سے نصیحت حاصل کرے نہ کہ وہ جو ان کے جیسا بن جائے۔
اب جب کہ ہم نے اپنے والدین کی طرف سے معذرت قبول کرلی اور یہ تسلیم کرلیا کہ جو کچھ ان سے بن پڑا انہوں نے کیا۔ لہذا اب ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم تربیت کا صحیح وسالم طریقہ کار سیکھنے اور سمجھنے کے لیے اپنا تن من دھن لگا دیں۔ تاکہ ایسی نسل کی پرورش کرسکیں جو طاقتور، غیرمتزلزل اور پراعتماد ہو اور جو غلطیاں کرکے گھبرانے والی نہ ہو۔
اس لیے ایک پرعزم نسل تیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم مربیین ایک خاص درجہ تک اپنے اندر اعتماد پیدا کریں۔ اب سب سے پہلے ہمیں اپنا اعتماد بحال کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
- یہ کہ والدین ماضی کی غلطیوں پر اپنی اولاد سے معافی مانگیں۔ یہ معذرت ماضی کی کوتاہیوں کی بہت حد تک تلافی کرے گی۔ جو ایک طرف والدین میں خود اعتمادی کی نئی روح پھونک دے گی اور دوسری جانب بچوں کا اعتماد بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ کیونکہ حقیقت میں پراعتماد وہی ہوتا ہے جس میں معافی مانگنے کی جرأت ہوتی ہے، ایسے شخص کو کوئی حرج نہیں ہوتا اگر اس کی غلطیوں پر بات کی جائے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھ دار اور پڑھا لکھا بندہ ہے۔
- تعریف وستائش: ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے۔ ’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ بچے کو ایک طنز بھرا لفظ بولنے سے جو نقصان ہوتا ہے اس کی بھرپائی کرنے کے لیے بدلے میں چھ عبارتیں تعریف میں بولنے کی ضرورت ہوگی، تب جا کر کہیں وہ کسر پوری ہوگی جو تنقیصی کلمات سے بچے پر وارد ہوئی‘‘۔ ہم تو میچور ہیں پھر بھی ہم تعریفی کلمات سننے کے محتاج ہیں اور کتنی ہی مثبت باتیں ہیں جو ہمارے اندر بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں اور ہماری ہمتوں کو مہمیز دینے کا کام کرتی ہیں، تاکہ ہم مزید اچھا عمل کریں۔ اور ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے اور اس چیز کی رہنمائی ہے کہ وہ کس طرح صحابہ کرام کی مدح وثنا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ نے ابو موسیٰ اشعری کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا ۔ “تو نے جیسے داؤد کے سازوں میں سے ایک ساز چھیڑا ہے۔” بعض والدین بچوں کی تعریف اس لیے بھی نہیں کرتے کہ کہیں ان کی صلاحیتوں کے بارے میں کوئی حسد نہ پیدا ہو، لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں یا بھولنے کی نقل کرتے ہیں کہ مدح میں مثبت طرزِعمل کو ابھارنے کی کتنی طاقت ہے جس سے خود اعتمادی کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔
- ہم ان والدین کو صلاح دیتے ہیں جو اپنی پرورش کے زمانے میں تلخ تجربات سے گزرے ہیں کہ اپنا اعتماد بحال کریں۔ اس عمل کو امتحان میں کامیابی دہرانے کا عمل کہتے ہیں۔ پہلے کسی ہنر یا کوکنگ کا انتخاب کرو، اسے اچھی طرح سیکھ لو پھر اس پر بار بار عمل کرو۔ اس کے ساتھ اس بات کا خیال رکھو کہ تم اپنے اردگرد کے لوگوں سے اس کام کی تعریفیں سنو۔ ہوسکتا ہے تم یہ تعریف اپنے والدین سے سنو جنہوں نے تمہاری خود اعتمادی کو زک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کی تکرار سے انسان کی خود اعتمادی کو مدد ملتی ہے۔
- صحبت اور خود اعتمادی کو بحال کرنے میں اس کا اثر: کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ والدین بچے کے ساتھ محبت بھری باتیں کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں جب کہ دوست آپس میں یہی باتیں بالکل فری میں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی شکل وصورت، کپڑوں، ذہانت اور کوکنگ کی تعریف کرتے ہیں۔ اس لیے چاہیے کہ اپنے آپ کو ایک سچی مثبت صحبت سے محروم نہ کریں۔
یہ سب اولین اقدامات ہیں جن سے ہمارے بچوں میں خود اعتمادی بڑھے گی، کہ ہم پہلے اپنی خود اعتمادی کو بحال کریں۔ دوسری اہم بات جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارے بچے دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ ہماری ذات وہ ہے جس سے ہم جانے جاتے ہیں اور ان کی ذات وہ ہے جس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ اور جو چیز ہمیں اپنے بچپن میں حاصل نہ ہوسکی ہم ہرگز وہ چیز اپنے بچوں کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ اوپر سے اگر وہ ایسا چاہتے بھی نہیں ہیں اس لیے آپ اپنے بچپن کی شکست کا بدلہ بڑھاپے میں اپنے بچوں پر خیالی فتوحات کے جھنڈے گاڑ کر نہ لیں۔ ہم بس اللہ سے یہی امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں توفیق عطا کرے۔ اور ہمارے لیے وہ راستے اور دروازے کھول دے جس سے ہم ان کی ایسی پرورش کرسکیں کہ وہ ہم سے راضی ہو جائے اور اس کی شخصی آزادی ہم سے محفوظ رہ سکے۔
اب اگر ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنا ہو کہ ایک شخص پراعتماد ہے یا نہیں تو ہم کیسے معلوم کریں گے؟ خود اعتمادی سے بھرپور شخص کی کئی علامتیں ہیں جو ہم مختصراََ اس طرح بیان کرسکتے ہیں۔
- ظاہری رکھ رکھاؤ کا اہتمام کرنا: اس طرح وہ پہلے ہی لوگوں کے دلوں تک پہنچنے کا آدھا راستہ طے کرلیتا ہے اور اسلام نے ظاہری وضع قطع کا خیال رکھنے پر کافی زور دیا ہے۔ اللہ سبحانہ فرماتا ہے؛ ’’ہر مسجد میں اپنی زینت اختیار کرو‘‘۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ’’ جس کے سر پر بال ہیں اسے چاہیے کہ ان کو وقار سے رکھے۔‘‘ ظاہری شکل وصورت کے اہتمام سے مراد کبر وغرور نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے، جسے امام مسلم نے درج کیا ہے، ’’ایسا شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا‘‘۔ ایک آدمی نے کہا ؛ ’’لیکن انسان پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں‘‘۔ اس پر کہا گیا؛ بے شک اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی پسند کرتا ہے، اور کبر تو حق سے منہ موڑنےاور لوگوں کو حقارت سے دیکھنے کا نام ہے۔ کچھ زہد کے دعوے دار لاپرواہی کرتے ہیں اور پھٹا ہوا بوسیدہ لباس پہنتے پھرتے ہیں جس کے سبب لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی یہ عادات بچوں میں منتقل کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی اپنی حالت نہیں بدلتے۔ وہ ایسے دوستوں میں بڑے ہوتے ہیں جو ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کی خود اعتمادی کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔
- الفاظ اور جملوں کا انتخاب کرنا: اگر ہم بچوں کو بولنے کا موقع دیں گے اور ان کی گھبراہٹ دور کریں گے۔ پھر اگر ان سے غلطیاں ہوں تو ہم ٹھیک کریں گے اور انہیں سننے کی مہارت سکھائیں گے۔ انہیں بتائیں گے کہ بڑوں سے بات کرتے وقت کون سے الفاظ استعمال کریں اور دوستوں سے کن مختلف الفاظ میں بات کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ہرگز قرآن سے زیادہ خوبصورت خزانہ اور عربی زبان سے زیادہ میٹھا چشمہ نہ پائیں گے، جس سے ہمارے بچوں کی طاقت لسانی میں نکھار پیدا ہوگا اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ ہم موسیٰ علیہ السلام کے قصے سے طاقت لسانی کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت مضبوط ہونے کے باوجود ان کی زبان میں گرہ تھی۔ اس پر اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے یہ کہلوایا ۔ ’’میرا سینہ تنگ ہوا اور میری زبان رواں نہیں ہے اس لیے ہارون کو بھیج دو۔ ‘‘ اس نے اپنی زبان کی گرہ کے سبب اپنے بھائی کو طلب کیا۔ جب کہ بعض والدین بچپن میں اپنے بچے کی لکنت پر خوش ہوجاتے ہیں اور ان کے علاج میں جلدی نہیں کرتے جس سے آگے چل کر انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی خود اعتمادی ڈھ جاتی ہے۔
- آنکھ ملاکر بات کرنا: بچوں کا ہمارے ساتھ بات کرتے وقت باڈی لینگویج کا اہتمام کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بچہ طبعی طور شرمیلا ہوسکتا ہے لیکن اس کی تربیت اس طرح سے ہونی چاہیے کہ وہ دوسروں سے آنکھ ملا سکے۔چونکہ زبان کی طرح آنکھیں بھی بولتی ہیں اور وہ بڑی بات اشاروں میں کرتی ہیں۔ ان سے انسان کی ذہانت جھلکتی ہے اور اس کے اعتماد کی مضبوطی کا پتہ چلتا ہے۔
بچے کی خود اعتمادی بڑھانے کے لیے مندرجہ ذیل عملی اقدامات کی ضرورت ہے :
- گھر سے منفی ماحول کو دور کیا جائے اور امید وعمل اور مثبت روح پھونک دی جائے اور بچے کی تربیت کی جائے کہ وہ اپنے ڈر اور پریشانی کا اظہار پہلے ہی کرے۔ بچہ وہ دعائیں مانگنے کے قابل ہوسکے جن سے اس کا دل مضبوط ہو اور چاہے کوئی بھی مصیبت ہو ہمت نہ ہارے۔ جیسے کہ دعا ہے۔ ’’اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں،غم والم سے، بےبسی اور کاہلی سے‘‘ تاکہ وہ مصیبت میں اللہ کی طرف مائل ہو۔ اسے معلوم ہو کہ جو کچھ اسے پیش آیا ہے اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ اس لیے اسے پریشان ہونے یا ٹوٹنے کی ضرورت نہیں اور یقین رکھے کہ سب کچھ ٹھیک ہوگا۔
- اللہ تعالیٰ کے بہترین ناموں اور صفات کے پڑھنے سے بچے کو اس کی معیت حاصل ہوگی۔ وہ اللہ تعالیٰ کو سمجھے گا۔ اسے اللہ کی خوشنودی کے بارے میں معلوم ہوگا اور وہ اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرے گا۔ پھر وہ اللہ کی مشیت پر بھروسہ کرے گا، لوگوں کی تدابیر کی پرواہ نہیں کرے گا۔
- اس کو وقت پر نماز ادا کرنے کے لیے تربیت دینے کی کوشش کرنی چاہیے، جس کا حکم شریعت نے دیا ہے۔ اس سے بچے کے اندرون کو اطمینان نصیب ہوگا جو اس کی خود اعتمادی میں ظاہر ہوگا۔
- بچے کو اس کی صلاحیتوں کے بارے میں آگاہ کرنا اور ان کی نشوونما کرنا اور اس کی کمزوریوں پر پردہ نہ ڈالنا، کیونکہ اپنی کمزوریوں کو پہچاننے کے بعد ہی وہ ان کا اثر کم کرسکتا۔
- اسے اس کی عمر کے مطابق اہداف متعین کرنے کی تربیت دیں۔ اور پھر احتساب کریں کہ ان اہداف میں سے اس نے کتنی چیزوں میں کامیابی حاصل کی۔ ان (اہداف) کو حاصل کرنے میں سپورٹ کریں اور جو کمی رہ گئی ہو اس کو نظر انداز کریں۔ مثال کے طور پر ایک ماں اپنے بچے سے کمرہ صاف کرنے کو کہتی ہے۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوتی ہے بچے نے دو تہائی حصہ مکمل کرلیا ہے۔ ماں اس کام کی پرواہ نہیں کرتی جتنا بچے نے مکمل کرلیا ہے، بلکہ بچے کو اس کام پر ملامت کرتی ہے جو ادھورا رہ گیا ہے۔ اس طرح کے سلوک سے بچہ بنے گا نہیں بلکہ برباد ہو جائے گا۔ اس سے بچہ دل شکستہ ہوگا، خوش نہیں ہوگا۔
- بچے کی ایک مثبت رویے پر تربیت کریں، خاص کر اس کی ذاتی صلاحیتوں کو مثبت رخ دیں۔ مثال کے طور پر اگر وہ مسدس شکل بنانے میں ناکام ہوا تو آپ اس کے رنگ کرنے یا کسی دوسرے اچھے کام کی تعریف کریں۔
- اس کے صحت کا خیال رکھیں، نیند، کھانا، اور جسمانی ورزش۔ کیونکہ صحتمند جسم رکھنے والا اپنے اقدامات میں پراعتماد ہوتا ہے۔ اور یہ اس پر رب کی عنایت ہے، جس کی تلقین ہم اسے کرتے رہیں گے، تاکہ وہ اس پر غرور نہ کرے۔
- اپنی استطاعت کے مطابق اس کی تعلیم وتربیت کا خیال کریں اور جتنی زیادہ اس میں علوم کی وسعت بڑھے گی اتنی زیادہ خود اعتمادی بھی بڑھے گی۔
- معاشرتی تعلقات: اسے ملنے ملانے کے آداب سکھائیں۔ بڑوں سے بات کرنے کا طریقہ، اجنبیوں سے ملنے کا طریقہ۔ لیکن اگر بچے کے تعلقات بہت محدود ہیں اس کے لیے ہم جتنا زیادہ اسے رضا کارانہ کاموں میں ڈالیں گے اتنا اس کا دیگر سماجی کاموں میں حصہ لینے کا حوصلہ بڑھے گا۔
- اس سے غلطیاں سرزد ہونے دو۔ یہ بار بار ہوں گی، کیونکہ غلطیاں کر کر کے جو بھی ہم سیکھتے ہیں وہ زیادہ پکا ہوتا ہے۔ خبردار اسے غلطیاں دہرانے پر مت ٹوکو۔ لطیف جملوں کی سرزنش کافی ہوتی ہے۔
بچے کی خود اعتمادی کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کا موازنہ دوسرے بچوں سے نہ کریں۔ اسی طرح ہم سب لوگوں کو اس بند گلی سے خبردار کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم بڑے اپنے آس پاس ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر ہیں، جو ہمارے بچوں سے متعلق ہیں۔ اس طرح ہم اصحاب کہف والے بن گئے، لیکن چونکہ ہم زندہ ہیں اس لیے ان کی طرح بری الزمہ نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ کے پاس بیچ والا بچہ ہے تو یاد رکھیں اس نے ایک بڑی چیز کھو دی ہے جس کو بڑے اور چھوٹے بچے نے حاصل کیا ہے۔ یعنی جو بڑا ہے اس نے والدین کا سب سے زیادہ وقت ہڑپ لیا ہے اور جو چھوٹا ہوتا ہے وہ ماں باپ کے برخلاف بگڑ جاتا ہے۔ اکثر چھوٹے بچوں کا یہی حال ہے اور بیچ والا ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ پس ہوشیار رہیں، بیچ والے بچے کو نظر انداز کرکے اور اس پر توجہ نہ دے کر اس کی خود اعتمادی کو تباہ نہ کریں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مختلف کاموں میں اللہ سے مدد مانگنا نہ بھولیں۔ وہی پاک ذات ہے جو اپنی نظروں کے سامنے ہمارے بچوں کی پرورش کرتا ہے اور ہم سب ان کی زندگی میں محض اسباب کے سوا کچھ نہیں ہیں۔