اللہ کے بہترین دنوں میں ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان ایام سے ایسا زادِ راہ حاصل کرے جو اسے رب العالمین کے طریقے کی مکمل پیروی کرنے میں مدد دے، جہاں تنہائی میں اس کی بارگاہ میں حاضر ہو جانا ہے، اور راستے کی دشواریوں میں اپنی کمزوری اور عاجزی کا اظہار کرنا ہے۔ خاص طور پر ذی الحجہ کے وہ دن اور راتیں اپنے دامن میں رحمتوں اور برکتوں کو لے کر آتی ہیں، جس کے اندر حج کا عظیم فریضہ بھی شامل ہے۔
ہر سال جب ذی الحجہ کا مہینہ آتا ہے تو دل قرار پاتے ہیں اور آنکھیں اس شہر (مکہ) کی طرف اٹھتی ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے، جس کے گوشہ و کنار میں قرآن کی آیات نازل ہوئیں۔ دل تکبیر و تہلیل میں مست ہوتے ہیں، دنیا کی آرائش و آلائش کے بوجھ سے ہلکے ہو جاتے ہیں اور اپنے رب سے ملاقات کے شوق سے لبریز ہوتے ہیں، آنکھیں روتی ہیں اور اپنے رب کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرتی ہیں۔ انہیں امید ہوتی ہے کہ جب وہ واپس لوٹیں گے تو اللہ نے انہیں بخش دیا ہوگا۔
سورہ حج، جس کی تعلیمات سے قرآن کو زینت بخشی گئی ہے، پر غور کرنے والا شخص اس کی ابتدا میں ایک ایسی شدت اور انسان کے وجود کو ہلا دینے والا احساس پاتا ہے کہ جو دلوں کو خوفزدہ کرتا ہے۔ قیامت کے ایسے ہولناک مناظر جنہیں سوچ کر عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں کہ انسان اس دن اپنے رب کے سامنے کس طرح کھڑا ہوگا۔ گویا یہ سورت حج کے فریضہ کی ادائیگی کی تیاری سے پہلے دلوں کو جھنجھوڑنے اور پاک کرنے کا کام کرتی ہے۔ حج کا وقفہ (عرفات) قیامت عظمیٰ کے وقفہ سے مشابہت رکھتی ہے۔ پھر مؤمنین کو حکم آتا ہے کہ وہ رکوع و سجود، عبادت اور نیکیاں اچھے طریقے سے کریں تاکہ وہ کامیاب ہو سکیں۔
اللہ نے حج کیوں فرض کیا؟
حج صرف ایک فریضہ نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سبق آموز باتیں پوشیدہ ہیں جو انسان کو صحیح راستہ جاننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس میں اس دن کی یاد دہانی ہے جس میں بچے بوڑھے ہو جائیں گے، اور ساتھ ہی انسان اپنے اللہ تعالیٰ کے سامنے مکمل بندگی کا اظہار کرتا ہے۔
قرآنی آیات اور احادیث نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حج اپنے بندوں کو تھکانے یا کسی جگہ کی تقدیس کے لیے فرض نہیں کیا، بلکہ اسے انسان کے لیے انفرادی مقاصد اور مسلمانوں کے سماجی مصالح حاصل کرنے کے لیے فرض کیا ہے۔ یہ صرف اس شخص پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، ترجمہ: “اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر (کعبہ) کا حج (کرنا) فرض ہے، جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔” [آل عمران: 97]
وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ، ترجمہ: “اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو، وہ تمہارے پاس پیدل اور دبلے پتلے اونٹوں پر سوار ہو کر دور دراز راستوں سے آئیں گے۔” [الحج: 27]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“بُنِيَ الإسْلَامُ علَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وأنَّ مُحَمَّدًا رَسولُ اللَّهِ، وإقَامِ الصَّلَاةِ، وإيتَاءِ الزَّكَاةِ، والحَجِّ، وصَوْمِ رَمَضَانَ” ترجمہ: “اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکواة دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔” [بخاری]
شریعت نے فرد پر پڑنے والے اثرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے ذریعے واضح کیا ہے:
مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، ترجمہ: “جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے کوئی فحش بات نہیں کی اور نہ کوئی گناہ کا کام کیا، تو وہ (حج سے) اس دن کی طرح لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا (یعنی گناہوں سے پاک ہو کر)۔” [بخاری]
جس طرح ہر عبادت کا مسلمان پر اپنا اثر ہے، اسی طرح حج بھی گویا اس کے تمام گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے، بشرطیکہ وہ خالصتاً اللہ کے لیے ہو، حلال مال سے ہو، اور اس دوران کوئی گناہ یا نافرمانی نہ کی گئی ہو۔
مسلمان کے لیے حج کی اہمیت
حج کا معاملہ دیگر فرائض کی طرح ہے جنہیں اللہ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔ اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں جو مسلمان کی دنیاوی زندگی اور آخرت میں اس کے کام آتے ہیں۔
حج ایک ربانی تربیتی مدرسہ ہے جو مسلمان کو اپنے رب کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم ہونے اور اس کے شعائر کی تعظیم کو جلا بخشتا ہے۔ یہ مسلمان کو اخلاص، بے نیازی، عاجزی، باہمی تعاون و ہمدردی، نفس کی پاکیزگی، نفس کے ساتھ جہاد کی مشق، اور اللہ سے ڈر (یہ خوف کہ کہیں اللہ اس کا حج رد نہ کرے) کی تربیت دیتا ہے۔ نیز اللہ کی ان گنت نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
انسانی نفس کی تربیت اور تزکیہ، ایمان کی تجدید، اللہ کے ساتھ عہد کی تجدید، اللہ کی بندگی کے معنی کو پورا کرنے اور اس کے احکام کی تعمیل کے علاوہ، حج گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ حج سے واپسی اس دن کی طرح ہوتی ہے جس دن ماں نے جنا تھا، اور دنیا کی لالچ اور اس کی بیماریوں سے جو کچھ آلائش نفس پر چڑھ گئی تھی، اسے دور کرتا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: أمَا عَلِمْتَ أنَّ الإسْلامَ يَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَهُ؟ وأنَّ الهِجْرَةَ تَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَها؟ وأنَّ الحَجَّ يَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَهُ؟، ترجمہ: “کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام اس سے پہلے کی (کفر کی) باتوں کو مٹا دیتا ہے؟ اور ہجرت اس سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتی ہے؟ اور حج اس سے پہلے کی (گناہوں کی) باتوں کو مٹا دیتا ہے؟” [مسلم]
سورۃ الحج اور متکبرین و متشککین کا انجام:
سورۃ الحج ان سورتوں میں سے ہے جس میں مکی اور مدنی دونوں حصے جمع ہیں، کیونکہ اس کی بعض آیات مکہ میں اور بعض مدینہ میں نازل ہوئیں۔ اس میں حج کے حوالے سے تعلیمات و احکام ربانی کا ایک عجیب و غریب مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ اس میں بہت سے مقاصد جمع ہیں۔
ہیۃ اللہ بن سلامہ (بغدادی مفسر) کہتے ہیں: یہ قرآن کی عجیب سورتوں میں سے ہے؛ کیونکہ اس میں مکی اور مدنی، شہری اور سفری، جنگ اور امن، رات اور دن، ناسخ اور منسوخ سب کچھ شامل ہے۔
اس سورت نے بہت سے مقاصد کو جمع کیا ہے جیسے لوگوں کو تقویٰ اختیار کرنے اور جزا کے دن اور اس کی ہولناکیوں سے ڈرانے کی بات کی گئی ہے جن سے بچوں کے بال سفید ہو جائیں گے۔ نیز متکبرین، شک کرنے والوں اور گھات لگانے والوں کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی حالت اور کمزوری کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور انہیں عقیدے کی آزادی اور عبادت کی حفاظت کے لیے کسی بھی ظلم کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سورت یہ بات بھی نہیں بھولی کہ ہر اس بدبخت شخص کا انجام واضح کرے جو اللہ کے مقابلے میں تکبر کرتا ہے، اور جو شخص اللہ کی عبادت کنارے پر (غیر یقینی کی حالت میں) رہ کر کرتا ہے، اس کے لیے ذلت اور بے قدری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ثَانِيَ عِطْفِهِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۖ لَهُ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَنُذِيقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَذَابَ الْحَرِيقِ، ترجمہ: “وہ اپنی گردن اکڑ کر (تکبر کرتے ہوئے) چلتا ہے تاکہ اللہ کے راستے سے گمراہ کرے، اس کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور ہم اسے قیامت کے دن جھلسا دینے والا عذاب چکھائیں گے۔” [الحج: 9]
یہ تعبیر اس قسم کے لوگوں کی تصویر کھینچتی ہے، ایک ایسی تصویر جس میں متکبرانہ غرور (“ثانی عطفہ” – گردن اکڑا کر) پایا جاتا ہے۔ یہ گمراہ کن تکبر ضرور کچلا جائے گا اور ضرور ٹوٹے گا۔
پھر آیات ایک اور مقصد اور لوگوں کی ایک اور قسم کی طرف منتقل ہوتی ہیں، وہ شخص جو عقیدے کو نفع اور نقصان کے ترازو میں تولتا ہے، اور اسے تجارت کے بازار میں ایک سودا سمجھتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ، ترجمہ: “اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی عبادت کنارے پر (غیر یقینی کی حالت میں) کرتے ہیں۔” [الحج: 11]
حج اور ضمیر کی تربیت:
حج نے مومن دلوں میں ضمیر کی تربیت اور مراقبہ (اللہ کی نگرانی کا احساس) پیدا کیا۔ اگرچہ عرفات کے میدان میں لاکھوں لوگ کھڑے ہوتے ہیں، لیکن اس میں نگاہیں نیچی رکھنے اور ضمیر کی زندگی کی تربیت دی جاتی ہے۔ مرد، عورتوں کو نہیں دیکھتے اور نہ ہی عورتیں، مردوں کو دیکھتی ہیں۔ بلکہ دل اللہ کی نگرانی کی عظمت میں ڈوب جاتے ہیں۔ حج ہر اس شخص کے ضمیر کو بیدار کرنے کا بھی ذریعہ ہے جس کے دل میں کسی کا سامان چرانے یا کسی پر ظلم کرنے کا خیال آئے۔
ڈاکٹر محمد راشد المرّی (قطر میں کلیۃ الشریعۃ والدراسات الاسلامیہ کے پروفیسر) کہتے ہیں:
“ضمیر وہ خفیہ خزانہ ہے جو دل میں پوشیدہ ہوتا ہے، اور وہ خیال جو نفس میں بسا ہوتا ہے جو اس کی تاریکیوں کو روشن کرتا ہے اور اس کے گوشوں کو منور کرتا ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو نیکیوں کی طرف راغب کرتی ہے، برائیوں کو چھوڑنے اور اچھی چیزوں سے محبت کرنے پر ابھارتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفس کو “لوامہ” (ملامت کرنے والی) کہا جاتا ہے۔”
اگر انسان کا ضمیر اللہ سے نہیں جڑا ہوا ہے تو ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ ضمیر زندگی کے بازار میں فروخت ہو جائے گا۔ اور جب ضمیر فروخت ہو جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ دوست اپنے دوست سے خیانت کرتا ہے، ملازم ہاتھ پھیلاتا ہے، عالم اپنا دین بیچ دیتا ہے، قاضی اپنے حاکم کی خوشامد کرتا ہے… حج میں ان ضمیروں کی تربیت ہوتی ہے تاکہ وہ جاگیں اور اپنی غفلت سے بیدار ہوں۔
بنیادی تربیتی باتیں (ابجديات):
شریعت اسلامیہ ایک تربیتی مدرسہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اس سے سیراب ہونا چاہتا ہو اور جو اس نے دیا ہے اسے قبول کرنا چاہے۔ حج ان اہم ارکان میں سے ایک ہے جس نے بہت سی تربیتی بنیادی باتیں تحریر کی ہیں، جن میں یہ شامل ہیں:
- اللہ کے شعائر کی تعظیم: مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اللہ کے تمام شعائر کی تعظیم کرے اور انہیں لوگوں میں زندہ کرے۔ جو شخص حج کے لیے آتا ہے وہ اس کے ہر شعار کی تعظیم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ واپس لوٹتا ہے تو اس کا حج قبول ہو جاتا ہے۔
- اخلاص: جو شخص اللہ کے لیے حج پر نکلا ہے وہ اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ سفر کی تیاری سے لے کر واپسی تک ہر کام میں اخلاص ہو۔ اس کا حج صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کے لیے ہو۔ یہ حج کی بنیادی تربیتی باتوں میں سے ایک ہے۔ سفیان الثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: “میں نے نیت سے زیادہ سخت چیز کا علاج نہیں کیا کیونکہ یہ مجھ پر الٹ پلٹ کرتی رہتی ہے۔”
- نظم و ضبط: حج میں فرد اور اجتماعیت کی سطح پر حجاج کی نقل و حرکت میں نظم و ضبط کی پابندی کے ذریعے نفس کو نظم و ضبط کی تربیت دی جاتی ہے۔
- ایمان و امن پسندی کی تربیت: انسان کے بیت اللہ الحرام کی طرف حج کرنے اور اس کے شعائر و مناسک کی صحیح ادائیگی میں ایک صحیح تربیت پوشیدہ ہے۔
حج اور امت کی وحدت:
حج ہر سال امت کی وحدت اور یکجہتی کو تازہ دم کرنے کے لیے آتا ہے، چاہے اسے کمزور کرنے کے لیے کتنی ہی سازشیں کی گئی ہوں۔ اس بات کو مشنری “ولیم گفورڈ پالگریو” کے الفاظ میں واضح کیا جا سکتا ہے:
“جب قرآن اور مکہ عرب کی سرزمین سے غائب ہو جائیں گے، تب ہم عرب کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کی کتاب سے دور، مغربی تہذیب کے راستے پر قدم بڑھاتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔”
حج کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مسلمانوں کے درمیان باہمی تعارف، تعاون اور یکجہتی کو بڑھانا اور تجدید کرنا ہے۔ یہ وہ وحدت ہے جسے امت کو حج کی رسومات مکمل ہونے کے بعد عملانا چاہیے۔ حجاج کرام اس پاک مقام پر اپنے اپنے ملکوں کے سفیر ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں الفت و محبت اور قوم یا فرد کے مفاد پر امت کی مصلحت کو ترجیح دیتے ہوئے اسلامی ممالک کے درمیان بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
حج ایک عظیم موقع ہے اگر مشرق سے مغرب تک امت تعاون، باہمی مدد اور وحدت میں اس سے فائدہ اٹھا سکے۔
حج کی تیاری کے عملی ذرائع:
اگرچہ حج صرف ان مسلمانوں پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں، لیکن ایک مسلمان اپنے لیے ایک منصوبہ بندی کرسکتا ہے اور ایک ایسی پلاننگ کر سکتا ہے جو شاید اس کے لیے حج کے اخراجات کو پورا کرنے میں مددگار اور آسان ثابت ہوں۔
- بچت: اپنے مال میں سے ایک حصہ، چاہے اپنے مالی حالات کے مطابق تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، الگ رکھ کر محفوظ جگہ (صندوق) میں جمع کرنا۔
- علم حاصل کرنا: حج کے صحیح شعائر سیکھنے پر کام کرنا تاکہ کوئی شرعی ممنوعہ کام نہ ہو یا حج کا کوئی رکن بھول نہ جائے۔
- اجتماعی سفر: ساتھیوں کے گروپ کے ساتھ سفر کا بندوبست کرنا۔ یہ آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے، سفر اور کھانے کے اخراجات بچاتا ہے، اور نقل و حرکت اور رہائش کے عمل کو آسان بناتا ہے۔
میں حج کا ثواب کیسے حاصل کروں؟
بہت سے مسلمانوں کے دل بیت اللہ الحرام کی طرف کھنچتے ہیں لیکن حالات انہیں روک لیتے ہیں۔ تاہم، شریعت نے حاجیوں کے حج کے ثواب میں شریک ہونے کے لیے بہت سے اعمال کا دروازہ کھول دیا ہے، جیسے:
- دلوں کو جوڑنا اور لوگوں کے کام آنا: حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “میں کسی مسلمان کی حاجت روائی کو ایک ہزار رکعت نماز پڑھنے سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔”
- والدین کی خدمت اور نیک اعمال کی پابندی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ، ترجمہ: “کوئی بھی ایسے دن نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دس دنوں (ذوالحجہ) کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہوں۔” [ابو داؤد]۔
- غریب و مسکین کی خبر گیری اور انہیں صدقہ دینا: کیونکہ صدقہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور خطاؤں کو مٹاتا ہے۔
- قرآن کریم سے تعلق: جو کچھ قرآن کریم کی تعلیمات میں، حج کے احکام اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکام میں آیا ہے، اس پر غور و فکر کرنا۔
- کثرت سے تسبیحات، نمازوں کی پابندی، اچھی بات کہنا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
- قربانی کرنا: جو استطاعت رکھتا ہو۔
حج کے بعد کیا؟
حج کے بعد کیا؟ جیسے رمضان کے بعد کیا؟ جس مسلمان کو اللہ نے بیت اللہ الحرام کے حج کی توفیق دی ہے، اسے چاہیے کہ اپنے رب کے ساتھ تعلق کو اسی طرح برقرار رکھے جس طرح وہ اپنے کپڑے اور چہرے کو صاف رکھتا ہے جیسا کہ وہ حج سے واپس آیا تھا۔ اسے گناہوں اور کبیرہ گناہوں سے اسے سیاہ نہیں کرنا چاہیے۔ بیت اللہ کی زیارت ایک امتیازی لکیر ہے جس کے بعد کا دور اس سے پہلے کے دور جیسا نہیں ہونا چاہیے۔
اور جس نے حج نہیں کیا، اسے چاہیے کہ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں ہونے والی عبادتوں کی حفاظت کرے: قرآن کی تلاوت، جماعت کے ساتھ نمازوں کی پابندی، غریبوں اور مسکینوں پر رحم کرنا، صف کی وحدت قائم رکھنا اور فتنے نہ اٹھانا، اور لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنا۔
اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنَّا صَالِحَ الأَعْمَالِ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الحُجَّاجِ المَبْرُورِينَ، وَارْزُقْنَا زِيَارَةَ بَيْتِكَ الحَرَامِ فِي عَامِنَا هَذَا أَوْ فِيمَا بَعْدَهُ، وَأَعِدْ عَلَى أُمَّةِ الإِسْلَامِ بِالْعِزَّةِ وَالاِتِّحَادِ. آمِين.
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے نیک اعمال کو قبول فرما، ہمیں مقبول حاجیوں میں شامل فرما، اور ہمیں اسی سال یا آئندہ سال اپنے حرم کی زیارت کی توفیق عطا فرما، اور امتِ مسلمہ کو دوبارہ عزت اور اتحاد سے نواز۔ آمین۔
مترجم: سجاد الحق