بقلمِ: محمد حامد عليوة
تمام تر حمد و ثنا اس خدا کے لیے جو عظمت و بزرگی کا مالک ہے، جس کی رحمت ہر چیز پر محیط ہے، اور جس کی مرضی ہر چیز پر چلتی ہے۔ درود و سلام ہوں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر جو رحمۃََ للعالمین، خاتم الانبیاء و المرسلین اور تمام بنی آدم کے آقا اور سردار ہیں۔ سلام ہو اُن کے آل پر اور صحابہ کرام پر اور ان پر جو قیامت تک ان کی اطاعت و اتباع میں زندگی گزاریں گے۔
جس شخص نے شہید امام حسن البنا رحمہ اللّٰہ کی تحریروں پر غور کیا ہو، اور ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارا ہو جو امام حسن البنا کے معاصر تھے، وہ ضرور اپنے دین اور اس کی دعوت کے تئیں اللہ کی فتح و نصرت کی امید کی کیفیت ان میں محسوس کرے گا۔ اُن کے الفاظ اور زندہ تحریریں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور قوم و ملت پر چھائی ہوئی پژ مردگی، افتراق و انتشار، سخت حالات، زوال، مایوسی اور نا امیدی کے باوجود وہ دلوں کے اندر اُمید اور یقین کی شمع جلائے رکھتے ہیں۔ اور وہ اسلام کی دعوت اور اس کی اقامت کے تئیں اللہ کی نصرت و حمایت پر پختہ یقین کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ ان حالات میں جب کہ کافی سارے مصلحین اصلاح کے عمل سے نا امید ہوکر بیٹھ گئے، لیکن امام حسن البنا اپنے عزم اور اللہ کی ذات پر پختہ یقین کے ساتھ ڈٹے رہے اور ان لوگوں کے دلوں اور روحوں میں اُمید پیدا کی جو آپ کے قافلے میں شامل ہوئے۔ انہوں نے ہمیشہ اپمید اور ایمان کو نا امیدی، مایوسی اور کفر سے جوڑا۔
امام حسن البناؒ نے یہ سبق کلام اللہ پر مسلسل غور و فکر کرنے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت طیبہ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اور انبیاء و مرسلین کے قصص کو پڑھنے سے حاصل کیا ہے۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اپنے کمزور ساتھی (خباب بن الارت رضی اللہ عنہ) کو بشارت نہیں دی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کام کی تکمیل کرے گا اور اس کو غالب کرے گا!
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ) کو ہجرت کے راستے میں خسرو کے کنگن پہنائے جانے کا وعدہ نہیں کیا تھا، باوجود اس کے کہ مکہ والوں نے انہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا تعاقب کرنے کیلئے بھیجا تھا۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے دن اس وقت مسلمانوں کو روم فتح کرنے کی بشارت نہیں دی تھی جب آپ کو صحابہ سمیت مدینہ میں محصور کرلیا گیا تھا اور ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں اور جان حلق تک آگئی تھی!
یہ اور اس طرح کے بہت سارے سبق آموز واقعات امام حسن البناؒ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور انبیاء اور رسولوں کی سوانح سے مطالعہ کر رکھے تھے لہذا، اللہ کی طرف سے فتح و نصرت کی امید نے انہیں کبھی مایوس ہونے نہیں دیا اور اللہ پر یقین نے ان کے پایۂ استقامت کو متزلزل نہیں ہونے دیا۔
اللہ کی فتح و نصرت کی امید اور اس کا یقین:
یہ ایک امید اور احساس ہے جو خدائے بزرگ و برتر پر سچے یقین اور بھروسے سے پیدا ہوتا ہے کہ اللہ اپنے دین اور اپنی دعوت کا حامی ہے اور اپنے بندوں اور دوستوں کا سہارا ہے۔ لیکن یہ صرف اس راستے کا فطری تقاضا ہے کہ حق و باطل کے درمیان پیہم کشمکش برپا رہے، لیکن فتح آخرکار حق اور اس کے پیروکاروں کی ہی ہوگی۔ جب کہ شکست اور ہزیمت باطل اور اس کے پیروکاروں کا مقدر ہے۔ “اور اعلان کر دو کہ “حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے” [الاسراء: 81]، (مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مِٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو ۔) [الانبیاء: 18]۔
جو شخص خدا کے سچے وعدے پر یقین رکھتا ہے اور اس راہ کی نوعیت اور اس کے لیے جدوجہد کی حقیقت سے واقف ہو وہ مایوسی اور نا امیدی کو اپنے دل کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتا، بلکہ وہ ہمیشہ عمل اور جدوجہد پر کاربند ہو کر پراُمید رہتا ہے۔
امام حسن البناؒ نے اپنے پیغام (ہماری دعوت) میں اس کا تذکرہ اس عنوان کے تحت کیا: (اُمید اور احساس)، جب انہوں نے اس لاعلاج بیماری کی تشخیص کی جس نے ملت اسلامیہ کو کئی صدیوں سے لاعلاج کر رکھا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ:
“میرے بھائی: میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے آپ سے مایوس نہیں ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ صرف یہ مایوسی ہمیں کامیابی سے روکتی ہے، اگر ہمارے دلوں میں امید مضبوط ہو تو ہم بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، انشاءاللہ– لہٰذا ہم مایوس نہیں ہیں، اور مایوسی ہمارے دلوں کو نہیں چھوتی، الحمد للہ۔ مایوسیوں کے اس بھنور کے باوجود ہمارے ارد گرد کی ہر چیز امید کا پیغام دیتی ہے” [ہمارا پیغام: اپریل 1935]
انہوں نے اپنے پہلے پیغامِ عام میں یہ کہا کہ: “بھائیو: مجھے فتح کی قوی امید ہے، انشاء اللہ – کیونکہ ہم سچائی پر ہیں، اور سچائی کو خدا کی حمایت حاصل ہے، اور ہماری قوم متحرک اور بیدار ہوئی ہے، لہٰذا آج کے بعد ہم دھوکے میں نہیں آئیں گے، اور مصر میں پوری قوت کے ساتھ آئیں گے تاکہ ہمارا راستہ کوئی نہ روک پائے۔ اس لیے کام کریں، اللہ آپ کے ساتھ ہے اور وہ آپ کی کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا- [پہلا پیغامِ عام: اکتوبر 1945]
جی ہاں، یہ اللہ کے وعدے اور اس کی قدرتِ کاملہ پر یقین ہے۔ وہ پاک اور منزہ ہے۔ قوموں کو منظم کرنے اور ان کے حالات بدلنے میں وہ پاک ہے۔ وہ قوموں کے حالات بدلتا رہتا ہے۔ یقیناً حالات کے بدلنے کا امر اللہ رب العالمین کے پاس ہے۔
اُمید اور یقین کی ضرورت ہے:
ہماری دعوت جن حالات سے گزر رہی ہے، دن رات اس کے خلاف چلنے والی سازشیں، ہر طرف سے اس کی جانب برسائے جانے والے زہر آلود تیر، اور رات دن کا فریب جو اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے، یہ سب کچھ ہمیں اللہ کے وعدے کے برحق ہونے پر غیر متزلزل یقین کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے کہ وہ ضرور اپنے دین، اس کی دعوت اور اپنے دوستوں کی حفاظت کرے گا۔ یہ اس لئے کہ اُمید، یقین اور جہدِ مسلسل کے بغیر خیالات دھندلا جاتے ہیں اور مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئے ہمتیں پست ہوتی ہیں۔
اس بات کا ذکر شہید امام حسن البناؒ نے اس تناظر میں کیا ہے:
“اور تم سورۃ القصص کی ابتدائی آیات میں پڑھو گے کہ: (ط س م ۔ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔ ہم موسیٰؑ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سُناتے ہیں، ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا، ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا،فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں۔ اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا)۔ [القصص: 1-6]۔
آپ اس عظیم آیت کو پڑھتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ باطل کس طرح اپنی طاقت پر اِتراتا رہتا ہے، اس پر فخر کرتا ہے، وہ اپنے جبر و قہر سے مطمئن ہوتا ہے، اور حق کی آنکھ کو نظر انداز کرتا ہے جو اس کا تعاقب کر رہی ہوتی ہے، یہاں تک کہ جب اس کی مہلت ختم ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دبوچ لیتا ہے۔ کیونکہ اس کی پکڑ سخت ہوتی ہے۔ اور اللہ کی رضا مظلوموں اور مستضعفین کی حمایت کرنے میں ہے۔ پس باطل اپنی بنیادوں سمیت منہدم ہو جاتا ہے لیکن حق پرست جب غالب آتے ہیں تو حق اور انصاف کی بنیادیں مضبوط ہو جاتی ہیں۔
اللہ کی کتاب کی اس عظیم آیت اور اس جیسی آیات کے بعد اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والی مسلم امت کے لئے مایوسی اور نا اُمیدی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن مسلمان کتاب اللہ پر کب متفق ہوں گے؟
اس طرح کے کاموں کے لیے میرے بھائی جو کہ اللہ کے دین میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، ان امور کے حوالے سے اخوان المسلمین نے قوم کو اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونے دیا، چاہے کتنی ہی رکاوٹیں، مشکلات اور آزمائشیں در آئیں۔ اخوان اسی امید کے سہارے اب بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اللہ بزرگ و برتر یقیناً ہماری مدد اور نصرت فرمائے گا۔ [ہماری دعوت]
مایوسی مسلمانوں کے اخلاقیات میں سے نہیں ہے:
امام حسن البناؒ نے اُمید اور مایوسی کی کیفیت کو ایمان سے جوڑتے ہوئے اس معنی کو کتاب اللہ سے اخذ کیا ہے جس کے اندر اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہونے کو کفر سے جوڑا گیا ہے، کیونکہ رب کی رحمت کی اُمید اور اس کا یقین ہی ایمان کا تقاضا ہے: “اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں” [یوسف: 87]۔
اس باب میں شہید امام فرماتے ہیں: مایوس نہ ہوں کیونکہ مایوسی مسلمانوں کے اخلاقیات میں سے نہیں۔ آج کے حقائق مستقبل کے خوابوں کی نوید اور آج کے خواب بہتر مستقل کا پیغام ہیں۔ اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی، اور آپ کے مومن بھائیوں میں ایمانداری اور وفاداری کے عناصر تمام تر بدعنوانیوں کے باوجود اب بھی موجود ہیں۔ اور ظاہر ہے بدعنوانی پر مبنی یہ اندھیرا دائمی نہیں ہے: “اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں۔ اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں” [القصص: 5-6] (پانچویں اجتماعِ عام کا پیغام: فروری 1939)۔
امید؛ قوموں کی ترقی اور دعوتِ حق کی کامیابی پر اس کے اثرات:
وسیع تر اُمید اور مایوسی کا نہ ہونا ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے، یہ ایک جذباتی کیفیت ہے جو دعوت اور اصلاح کے راستے پر چلنے والوں میں موجود ہونی چاہیے، کیونکہ رکاوٹیں اور فتنے اس راستے کی خصوصیات میں سے ہیں، اس لیے عمل کے ساتھ امید بھی ضروری ہے۔ شہید امام حسن البناؒ نے اپنے بیان (روشنی کا پیغام) میں اس چیز کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
“ایک انقلابی قوم کو وسیع تر اُمید کی ضرورت ہوتی ہے، قرآن نے اپنے نزول کے ساتھ ہی قوموں کے اندر یہ شعور اس طرح جاگزیں کیا ہے کہ ایک مردہ قوم میں سے زندہ قوم عزم، حوصلہ سمیت نکھر کر وجود میں آتی ہے۔ تمہارے فہم کے لیے یہی کافی ہے کہ مایوسی کو کفر کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے اور اسے گمراہی کا سبب بتایا گیا ہے۔ اور سب سے کمزور قوم جانتے ہو کون سی ہے؟ سنیے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: “اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں۔ اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں۔” [القصص: 5-6]۔
اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: “دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اِس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔” [آل عمران: 139-140]۔
اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے: “وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے میں اُن کے گھروں سے نکال باہر کیا تمہیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اُن کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی مگر اللہ ایسے رخ سے اُن پر آیا جدھر اُن کا خیال بھی نہ گیا تھا، اُس نے اُن کے دلوں میں رعب ڈال دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے تھے، پس عبرت حاصل کرو اے دیدۂ بینا رکھنے والو!” [الحشر: 2]۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی اُس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے” [البقرہ: 214]۔
اگر کمزور ترین قومیں ان تمام بشارتوں کو سنیں اور اس کے پس پردہ عملی واقعات کو پڑھیں تو ضرور وہ مضبوط ایمان اور قوت ارادی کے ساتھ ابھر کر سامنے آئیں گی۔ یہ اُمید انہیں مشکلات کا سامنا کرنے کی ترغیب دیتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی سخت کیوں نہ ہوں، اور رکاوٹوں کو عبور کرنے کا سہارا دیتی ہیں، خواہ وہ کتنے ہی کٹھن ہوں، جب تک کہ وہ اس کمال کو حاصل نہ کر لے جس کی وہ خواہش رکھتی ہے۔ [روشنی کا پیغام: اکتوبر 1936]۔
اُمید اور یقین کامیابی کی کنجی:
حق کے متوالوں کے دل اس یقین سے لبریز ہونے چاہئیں کہ ہر مصیبت ختم ہونے والی ہے، اور ہر وہ مصیبت جو شدت اختیار کرے گی تو ختم ہو جائے گی۔ اور یہ کہ خدا ظالموں کے کرتوتوں سے ناواقف نہیں ہے۔ اور یہ کہ ہر مصیبت کے بعد راحت اور ہر سختی کے بعد آسانی ہے۔ یہ سارے شواہد تمام عقل مندوں کے لیے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم فتح کے راستے پر ہیں، انشاء اللہ۔
ایک ایسے وقت میں جب دعوتِ اسلامی اپنی تاریخ کی سخت ترین آزمائش سے دوچار ہے، اور مخالفین اور دشمن ہر طرف سے اس پر حملہ آور ہیں، اس کے لیڈروں پر حملہ کر رہے ہیں، اس کے بہترین اور تربیت یافتہ نوجوانوں کو قتل کر رہے ہیں، اس کی خواتین کو گرفتار کر رہے ہیں، اس کے ہیڈ کوارٹرز اور مراکز کو بند کر رہے ہیں، اس کے اداروں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ اس تحریک سے وابستہ لوگوں کا پیسہ ضبط کر رہے ہیں، اور اس کی تاریخ اور نظریے کے ساتھ جھوٹے الزامات اور گمراہ کن شکوک و شبہات کو نتھی کر رہے ہیں، ہمیں اپنے راستے پر ثابت قدم رہنا چاہیے، اور اللہ کی طرف سے نصرت پر کامل یقین رکھنا چاہیے، اور یہ کہ مایوسی ہمارے قریب بھی نہ پھٹکنے پائے۔ اپنے دلوں میں ہم مایوسی کو جگہ نہ دیں، ہم آخری دم تک اپنے اللہ کے لیے مخلص رہیں گے، اور اس کے سوا کسی سے اپنی امید وابستہ نہیں رکھیں گے، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں گے اور اس کے نبی برحق صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلیں گے۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک ہم اپنے رب کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں گے ہمیں یا ہماری دعوت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے احوال و اعمال سے واقف ہے، لیکن دعوت کے حوالے سے یہ سنت اللہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں حق پرستوں کی تربیت کرتا ہے، انہیں آزمائش میں ڈالتا ہے، ان کے درجات بلند کرتا ہے اور ان میں سے شہداء اٹھاتا ہے تاکہ ان کا پاکیزہ خون فتح اور طاقت کا انعام بن جائے۔ لہٰذا مایوس نہ ہوں اور جان لو کہ فتح صبر کے ساتھ ملتی ہے اور یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے: “اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے” [الحج: 40]، “اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں” [یوسف: 21]۔
والحمد لله رب العالمين۔
مترجِم: عاشق حسین پیر زادہ