ہر قوم اور ملک کا تعلیمی نظام اس کی تہذیب کی بنیاد ہوتا ہے، خواہ قدیم ہو یا جدید۔ اندلس کے دور میں تعلیم وسیع تراسلامی تعلیمی نظام کا حصہ تھی جس کی جڑیں قرآن، ایمان اور اخلاقیات کے سرچشمے میں تھیں، تجربے اور غور و فکر کے ذریعے عقل کی رہنمائی ہوتی تھی، اور اس کا مقصد انسان کی مکمل روحانی و جسمانی ترقی تھا۔
اندلسی تہذیب نے اسلامی دنیا کو جدید شاعروں، سائنسدانوں، فلسفیوں، اور محنتی فقہاء کا تحفہ دیا۔ یہ وہ راستہ بنا جس کے ذریعے اسلامی تہذیب یورپ تک پہنچی، جب اس کا اس زمانے کی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ شاید یورپ کو جو سب سے بڑا ورثہ اندلس سے ملا وہ سائنسی تحقیق کا طریقہ کار تھا۔ یہ مضمون اس تہذیبی اور تعلیمی تجربے کے پہلوؤں کو تلاش کرتا ہے اور اس کے پائیدار سبق کو بیان کرتا ہے۔
اندلس میں تعلیم کے سرچشمے:
اندلس کی فتح سے لے کر پانچویں صدی ہجری کے آخر تک، اندلس میں تعلیم مختلف ذرائع سے پھیلی۔ یہ اموی دور طاقت کا زمانہ تھا، جو امیرعبدالرحمن اوّل (عبدالرحمن الداخل) نے 138 ہجری میں ریاست کی بنیاد رکھنے سے شروع کیا۔ حتیٰ کہ المستنصر باللہ، عبدالرحمن الناصر (جو 350 ہجری میں اقتدار میں آیا) کے بعد دوسرے حکمران اپنے فارغ وقت میں علمی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے اور انہوں نے قرطبہ کے قریب مدینۃ الزہراء میں اپنے محل میں 4 لاکھ سے زائد کتابوں کی لائبریری جمع کی۔
ابتدائی فاتحین نے زبردستی کے بغیر اصل ایمان پھیلانے کو ترجیح دی، قرآن کے حکم "اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلاؤ” [قرآن 16:125] پر عمل کرتے ہوئے یہ طریقہ اندلسیوں کے دل میں اتر گیا، جنہوں نے قرآن کو شوق سے اپنایا، اپنے بچوں کو کم عمری سے ہی سکھایا، اور اس کی مسلسل تلاوت اور تحفظ کو یقینی بنایا۔ قرآن کی نسخہ نویسی صرف مردوں تک محدود نہیں تھی؛ خواتین نے بھی فعال طور پر حصہ لیا۔ مثال کے طور پر صرف قرطبہ کے مشرقی مضافات میں 170 خواتین کو کوفی خط میں قرآن لکھنے کے لیے جانا جاتا تھا۔
نبی کریم ﷺ کی سنت بھی ایک اہم سرچشمہ تھی، جو محبت، بھائی چارے، رواداری، نظم و ضبط، اور علم و محنت کی اقدار کو پروان چڑھاتی تھی۔ ان اصولوں نے ایک منفرد اندلسی معاشرے کو تشکیل دیا جو کچھ رسوم میں مشرق سے مختلف تھا، لیکن اپنے بنیادی مقاصد اور جوہر میں اس کے ساتھ مشترک تھا۔
اندلسیوں نے اپنے تعلیمی نظام کو مختلف علوم میں ترقی، تصنیف، اور ترجمہ کے نئے کارناموں سے مزید مالا مال کیا۔ جن میں ابن رشد جیسے فلسفی اور ابن حزم الاندلسی جیسے فقیہ نمایاں ہیں۔ ابن حزم کی زندگی علمی عظمت، سیاسی جلاوطنی، اور انجام کار موت اس خطے کی خوشحالی، تنوع، فکری زرخیزی، اور قسمت کے اتار چڑھاؤ کی عکاس تھی۔
تاہم، پانچویں صدی ہجری کے آغاز تک سیاسی عدم استحکام نے اندلس کو بیس سے زائد حریف ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم اتحاد اس وقت تحلیل ہوگیا جب حکمرانوں نے الہٰی رہنمائی کو ترک کر دیا، دنیاوی عیش پر توجہ دی، اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف بیرونی دشمنوں سے اتحاد کیا۔ تعلیم اختلاف کے بیانیے میں بدل گئی، جس میں عیاشی، حکومت میں خواتین کی مداخلت، اور اندرونی کشمکش نمایاں تھی۔
اندلسی تعلیم کے بنیادی اصول:
اپنے عروج کے دور میں، اندلسی تعلیم نے ایک فکری اور سائنسی ڈھانچہ قائم کیا جس نے عالمی تہذیب کو متاثر کیا، اور سائنس، ادب، اور فنون پر گہرے نقوش چھوڑے۔ اس کے کلیدی اصولوں میں یہ چیزیں شامل تھیں۔
- خدا پر ایمان اور عقیدے میں استقامت: اندلسی تعلیم کی بنیاد مخلص ایمان تھا، جسے ایک ناقابل تقسیم اکائی سمجھا جاتا تھا۔ اس نے عاجزی اور لچک کو پروان چڑھایا، یہ یاد دہانی کراتے ہوئے کہ طاقت اور دولت صرف خدا کی طرف سے ہے۔ ایسا ایمان مسلمانوں کوعزم کے ساتھ زندگی گزارنے کی طاقت دیتا تھا، خوشی اور مصیبت دونوں میں الہی حکمت پر بھروسہ سکھاتا تھا۔
- علم اور عمل کا مربوط رشتہ: اندلس میں اسلام صرف رسومات تک محدود نہیں تھا، بلکہ یہ مومن اور خالق کے گہرے تعلق پر زور دیتا تھا۔ یہ نیک اعمال کا تقاضا کرتا تھا جو خدائی اخلاقیات کے مطابق ہوں، یعنی روحانی عبادت کو عملی زندگی کے ساتھ جوڑتا تھا۔
- فائدہ مند علم کی تلاش: اسلام نے علم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ اسکول اور مدارس ثقافتی ورثے کو منتقل کرنے اور صحیح عقیدے کی حفاظت کا ذریعہ بنے۔ اندلسیوں نے دوسری تہذیبوں سے سائنس اور علم سیکھا، بشرطیکہ یہ امت کو معاشی، فوجی، اور نظریاتی طور پر مضبوط بنائے۔ قرآن کا نظریہ کہتا ہے کہ کائنات بے مقصد نہیں بنائی گئی: "ہم نے آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، کو کھیل کے طور پر نہیں بنایا۔ اگر ہم تفریح کرنا چاہتے تو اپنے پاس سے ہی کر لیتے، لیکن ہم ایسا نہیں کرتے ہیں” [قرآن 21:16-17]۔
- فکری اور ایمانی اتحاد:خدا کے بنائے نظام پر یقین نے معاشرے کو جوڑے رکھا۔ فتح کے دور میں اندلسی معاشرہ نفسیاتی ہم آہنگی اور مشترکہ مقصد رکھتا تھا، جہاں ہر فرد ایمان اور معاشرے کی خدمت کے لیے کوشاں تھا۔
- ثقافتی ورثے کی حفاظت: اندلسی حکمرانوں نے علماء اور ان کی کتابوں کی سرپرستی کی، تاکہ اسلام کی معتدل اور آفاقی ثقافت باقی رہے۔ ہر علاقے کے نامور علماء اور ماہرین نے ایک ایسی تہذیب بنائی جو فن، سائنس اور حکومت داری میں ممتاز تھی۔
ورثہ اور سبق:
اندلس کے زوال کے باوجود، اس کا سنہری دور ثابت کرتا ہے کہ "خدائی رہنمائی پر مبنی تعلیم” کتنی تبدیلی لا سکتی ہے۔ جب اندلسیوں نے اسلام کے اصولوں پر عمل کیا، تو انہوں نے ایسی نسل تیار کی جس کے تعمیراتی، فلسفیانہ اور سائنسی کارنامے آج بھی موجود ہیں۔ یہ ورثہ سکھاتا ہے کہ عقل، تجسس اور کائنات کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ ہر چیز خدا کی عظمت کی نشانی ہے۔
اندلس کا زوال ایک اور سبق دیتا ہے کہ اگر اخلاقی اور فکری اصولوں سے انحراف کیا جائے، تو معاشرہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے، ہمیں ایسی تعلیم کی طرف واپس جانا ہوگا جو ایمان، علم اور عمل کو یکجا کرے۔ یہی کسی بھی تہذیب کو دوبارہ زندہ کرنے کا راستہ ہے۔
مترجم: سجاد االحق