امر باالمعروف و نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اسلام کی اساسی اقدار میں سے ہے۔ اسی لیے بعض علما نے اسے اسلام کا چھٹا ستون قرار دیا ہے، کیونکہ اس کا اثر فرد اور معاشرے دونوں پر پڑتا ہے، اسے قائم کیا جائے تو بھلائی اور اصلاح عام ہوتی ہے، اور ترک کر دیا جائے تو فساد اور برائی کا نفوذ ہوتا ہے۔
اسی لیے اسلام کے دشمنوں اور ان کے مددگاروں نے اس عظیم قدر کو نشانہ بنایا، تاکہ باقی اقدار پر حملہ کرنا آسان ہو جائے، لوگوں کا شعور ماند پڑ جائے، اور معاملات خلط ملط ہو جائیں، یہاں تک کہ نیکی منکر اور منکر نیکی بن جائے۔
ڈاکٹر معاذ الخن، صدر مجلسِ افتاء شام، فرماتے ہیں:
“اس عظیم دین کی سب سے اہم ذمہ داریوں میں سے ایک نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے، اور یہ امتِ مسلمہ کی امتیازی خصوصیت ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حصار میں کسی کو اجازت نہیں کہ وہ اسلامی معاشرے کی قدروں کے خلاف اعلانیہ بغاوت کرے، کیونکہ اس سے اسلامی اقدار کی مطلق بالادستی قائم رہتی ہے، اور مسلمانوں کی کشتی گناہوں اور اخلاقی و سماجی فساد کے طوفان میں غرق ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔ وہ اس عذابِ الٰہی سے بھی بچی رہتی ہے جو اس وقت نازل ہوتا ہے جب امت اس اجتماعی فرض سے غفلت برتتی ہے۔”
قرآن و سنت میں نیکی کا حکم:
قرآن کریم میں کئی آیات نیکی کے حکم اور برائی کو روکنے کی تاکید میں نازل ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی ان امتوں کے لیے وعیدیں بھی ہیں جنہوں نے اسے ترک کیا اور غفلت برتتے رہے۔ ان آیات میں دراصل اللہ رب العالمین نے ہمیں، اس عمل کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں سمجھایا ہے جس کے نہ کرنے والے تباہ و برباد ہوئے۔
“اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔” [آل عمران: 110]
اسی طرح امت کو حکم دیا:
“تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔” [آل عمران: 104]
جن لوگوں نے اس عمل کو ترک کیا ان کے بارے میں ارشاد ہے:
“آخر کا ر جب اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو بُرائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا” [اعراف: 165]
اسی طرح فرمایا:
“مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور اس کے رسُولؐ کی اطاعت کرتے ہیں”۔ [التوبہ: 71]
جیسا کہ سورہ توبہ ہی میں آگے فرمایا:
“اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبر دار کرتے تاکہ وہ پرہیز کرتے” [التوبہ: 122]۔
اسی طرح سنتِ نبویہ مطہرہ نے بھی اس عظیم قدر کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
“قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور ضرور برائی سے روکو گے، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب نازل کرے، پھر تم اس سے دعا کرو گے تو تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی” [ترمذی]۔
اور ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“تم میں سے ہر ایک کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے، ہر تسبیح ایک صدقہ ہے، ہر تحمید ایک صدقہ ہے، ہر تہلیل ایک صدقہ ہے، ہر تکبیر ایک صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا ایک صدقہ ہے، اور برائی سے روکنا ایک صدقہ ہے، اور ان سب کی جگہ دو رکعت نمازِ ضحیٰ (چاشت) کافی ہے (یعنی وہ بھی صدقہ ہے)” [مسلم]۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لوگ اُس وقت تک ہلاک نہیں ہوں گے جب تک وہ اپنے آپ پر عذر(یعنی حجت) قائم نہ کر لیں یا اپنے آپ سے عذر قائم نہ کر لیں” [ابو داؤد]۔
اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: “سب سے افضل جہاد کون سا ہے”؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا” [نسائی]۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اپنے دل سے (برائی کو برا جانے)، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے” [مسلم]۔
امر بالمعروف صحابہ و تابعین کی زندگیوں میں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے لوگوں کی، پھر اُن کے بعد آنے والوں کی تعریف و توصیف فرمائی:
“بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے” [بخاری و مسلم]
اسی لیے کہ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ نے اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا، اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو خاص اہمیت دی۔
چنانچہ عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
“نیکی کرنے والا آدمی نہیں گرتا، اور اگر کبھی گر بھی جائے تو اسے سہارا مل جاتا ہے، میں نے کبھی کسی شخص پر احسان کیا تو دیکھا کہ میرے اور اس کے درمیان کی فضا روشن ہو گئی، اور جب کسی پر برائی کی تو میرے اور اس کے درمیان کی فضا اندھیری ہو گئی۔”
حضرت عمر بن خطابؓ نے اسے اس امت میں شامل ہونے کی ایک لازمی شرط قرار دیا، فرمایا:
“اے لوگو! جسے یہ خوشی ہو کہ وہ اس امت میں شامل ہو، تو وہ اللہ کی اس شرط کو پورا کرے جو اس نے اس امت میں شامل ہونے پہ رکھی ہے۔”
اور ابن جریرؒ نے جُبَیر بن نُفَیر سے روایت کیا:
“میں ایک مجلس میں موجود تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ تھے، اور میں ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر گفتگو کر رہے تھے۔ میں نے کہا: “کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا:
اے لوگو !جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو [المائدہ: 105]؟”
تو وہ سب میری طرف متوجہ ہوئے اور ایک آواز میں بولے: “تُو قرآن کی ایک آیت نکال لایا ہے جسے تُو جانتا نہیں اور نہ اس کی تفسیر سمجھتا ہے!”
کاش میں بات نہ کرتا۔ پھر وہ گفتگو کرتے رہے، جب جانے لگے تو کہنے لگے: “تم ایک کم عمر لڑکے ہو، تم نے ایک ایسی آیت پیش کی ہے جسے تم نہیں سمجھتے، لیکن ممکن ہے تم وہ زمانہ دیکھو جب بخل عام ہو جائے گا، خواہشات کی پیروی کی جائے گی، اور ہر شخص اپنی رائے پر ناز کرے گا۔ تب اپنے آپ کی فکر کرنا، اس وقت گمراہ ہونے والا تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا اگر تم خود ہدایت پر ہو۔”
امام ابن جنیدؒ سے منقول ہے کہ انہوں نے خالد بن یزید بن معاویہ کو ریشمی جبہ پہنے دیکھا تو کہا:
“کیا تم خز (ریشم) پہنتے ہو؟”
تو خالد نے معذرت کرتے ہوئے کہا: “میں یہ ان لوگوں کے لیے پہنتا ہوں” اور خلیفہ کی طرف اشارہ کیا
اس پر ابن جنیدؒ ناراض ہوئے اور کہا:
“تجھے زیب نہیں دیتا کہ تو اللہ کے خوف کو مخلوق کے خوف پر قربان کرے۔”
معاشرے پہ نصیحت کے اثرات:
ابن منظور لسان العرب میں لکھتے ہیں:
“معروف” ہر اس چیز کا جامع نام ہے جو اللہ کی اطاعت، اس کا قرب حاصل کرنے اور لوگوں کے ساتھ احسان سے متعلق ہو، اور وہ تمام امور جو شریعت نے پسند فرمائے ہوں اور برے کاموں سے منع کیا ہو۔ اور “منکر” وہ قبیح چیز ہے جسے شریعت نے ناپسند کیا، حرام قرار دیا اور اس سے روکا۔
نصیحت کرنے اور برائی سے روکنے کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے، کہ یہ انبیاء، رسولوں اور ہر دور کے مصلحین کا مشن رہا ہے۔ اسی کے ذریعے لوگ اچھے اور برے میں تمیز کرتے ہیں، اور یہی امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھلائی کی علامت ہے۔
علاء احمد، (ایم۔ اے، فقہ۔ جامعہ یرموک) کہتے ہیں:
“امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا معاشرے میں ایک اجتماعی رائے پیدا کرتا ہے جو برائیوں کے خلاف کھڑی ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں گناہ گار لوگ کم از کم اس خوف سے برائیوں کو ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ معاشرہ ان کے خلاف ردِعمل دکھائے گا۔”
یہ قدر ایک محسوس حقیقت ہے، جو مسلمانوں کے درمیان وحدت پیدا کرتی ہے، کیونکہ اس پہ عمل کرنے والا ہر شخص نیکیوں میں اضافہ اور برائیوں میں کمی کی فکر کرتا ہے، اس سے عدل و مساوات قائم ہوتی ہے، طاقتور اور کمزور کے درمیان رحمت اور تعاون بڑھتا ہے، ظالم کا ہاتھ روکا جاتا ہے، کمزور کو مدد ملتی ہے، اور غریب کو رزق پہنچتا ہے۔
اسی طرح اس کے ذریعے اللہ کی حقیقی بندگی کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے، جو معاشرے سے فساد کو مٹاتا ہے، مفسدوں کا ہاتھ روکتا ہے، زمین کو بھلائی سے آباد کرتا ہے، اور معاشرے کی حفاظت اور افراد میں امن و امان کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ اس قدر (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کے پھیلاؤ سے لوگوں کے درمیان اخوت و بھائی چارہ پروان چڑھتا ہے، کیونکہ اس میں ایک دوسرے کے لیے سچی خیر خواہی اور حقیقی فکر شامل ہوتی ہے۔
اچھا مشورہ، خیر کے کاموں میں تعاون، اور تقویٰ کا حصول بھی امر بالمعروف سے بڑھتا ہے۔ جس سے منافقین اور افواہیں پھیلانے والوں کی سازشیں کمزور پڑتی ہیں، فتنوں کے دروازے بند ہوتے ہیں، عقیدہ مضبوط ہوتا ہے، صفیں متحد ہوتی ہیں، اور امت کے افراد کے حوصلے بلند رہتے ہیں، جو دشمنوں کے مقابلے میں ایک مضبوط دیوار بن جاتے ہیں، اور یہی کامیابی و نصرت کا سبب بنتی ہے۔
اور حضرت حذیفہؓ سے موقوف روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اسلام کے آٹھ حصے ہیں: اسلام ایک حصہ ہے، نماز ایک حصہ ہے، زکوٰۃ ایک حصہ ہے، حج ایک حصہ ہے، رمضان کے روزے ایک حصہ ہیں، امر بالمعروف ایک حصہ ہے، نہی عن المنکر ایک حصہ ہے، اور اللہ کے راستے میں جہاد ایک حصہ ہے، اور جس کا ان میں کوئی حصہ نہیں، وہ ناکام ہوا۔”
[اس کی سند صحیح موقوف ہے۔ یعنی حضرت حذیفہؓ تک ثابت ہے]۔عدم نصیحت کے اسباب:
امتِ مسلمہ اس وقت کمزوری اور ذلت کی حالت میں جی رہی ہے، کیونکہ اللہ کی حدود اور اس کی ممانعتوں کو پامال کرنے کی جرأت عام ہو گئی ہے، اور یہ اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ مفقود نہ ہوا ہوتا۔ تاہم اس فریضہ کے غائب ہوجانے کے چند اہم اسباب یہ ہیں:
- حکمرانوں اور ان کے کارندوں کا ظلم و جبر، عوام پر تسلط، عدل، آزادی اور انسانی حقوق کا فقدان، جس نے لوگوں کو خوف اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے کہ کہیں حق بات کہنے کی پاداش میں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
- اسی طرح ایک سبب یہ بھی ہے کہ لوگ اس قدر کی حقیقت، اہمیت اور شرعی حیثیت سے ناواقف ہیں۔
- لوگ گناہ کرنے والے کی ردِ عمل سے ڈرتے ہیں، اس لیے حق بات یا برائی سے روکنے کی بجائے خاموشی کو سلامتی سمجھ لیتے ہیں۔
- سماجی تعلقات بھی اس میں کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ بعض اوقات کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کی برائی پر مروّت یا ناراضی کے خوف سے چشم پوشی کر لی جاتی ہے۔
- بہت سے لوگ اس خوف سے بھی خاموش رہتے ہیں کہ امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کرنے سے کہیں ان کا روزگار یا نوکری ختم نہ ہو جائے، یا کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں، خاص طور پر جب جسے نصیحت کی جا رہی ہو وہ صاحبِ اختیار یا دولت مند ہو۔
- بعض لوگوں کا یہ عقیدہ بن گیا ہے کہ نصیحت صرف علما اور داعیوں کی ذمہ داری ہے، دوسروں کی نہیں۔
- لوگوں کے ذہنوں میں ان داعیانِ خیر کی ایک منفی تصویر بن چکی ہے جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں کہ وہ سخت مزاج اور ترش رو ہوتے ہیں۔
- بہت سے لوگ اس وجہ سے بھی نصیحت کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں کہ اگر کوئی برائی دیکھیں تو اپنی کمزور شخصیت یا طریقۂ کار سے ناواقفیت کے باعث نہیں جانتے کہ اس موقع پر کس طرح مؤثر انداز میں بات کی جائے۔
فریضۂ نصیحت کے اصول و ضوابط:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فقدان سے معاشرتی توازن بگڑ جاتا ہے، لہٰذا حکومتوں اور عوام دونوں پر لازم ہے کہ وہ اس قدر کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کے فروغ کے لیے سنجیدگی سے کام کریں، تاکہ امت قوت و اتحاد کے اسباب حاصل کرسکے۔ اس کے لیے درج ذیل اصولوں کی رعایت ضروری ہے:
- داعیوں پر لازم ہے کہ وہ نصیحت کی حقیقت، اسے ترک کرنے کی سزا، اور اس کے درست طریقۂ ادائیگی کو واضح کریں۔
- داعی حضرات کو چاہیے کہ وہ علمِ شرعی سے مسلح ہوں، منکر کو دور کرنے کے طریقوں سے واقف ہوں، اور لوگوں کو نصیحت قبول کرنے کی ترغیب دیں۔
- لوگوں کے دلوں میں ایمان کو مضبوط کیا جائے، اور نصیحت کو عقیدۂ اسلامی سے جوڑا جائے، تاکہ واضح ہو کہ امت کی اصلاح اور قوت کے لیے یہ لازم ہے۔
- داعیوں اور طلبۂ علم کی تربیت اور عملی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے، نصیحت کی قدر کو عملی طور پر مضبوط کیا جائے، اور خوف، جھجک یا ہراس کی رکاوٹ کو دور کیا جائے۔
- ان اہم افکار میں سے ایک جنہیں بعض حکمرانوں نے مٹا دیا ہے، یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت مقرر کی جائے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انجام دے، انہیں اس مقصد کے لیے تربیت دی جائے اور مناسب اختیارات دیے جائیں، تاکہ وہ نرمی اور حسنِ سلوک کے ساتھ اس قدر کو معاشرے میں عام کر سکیں۔
حرفِ آخر:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی ان اہم قدروں میں سے ہے جن سے حاکم اور رعایا دونوں کی اصلاح ہوتی ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا: “تم میں کوئی بھلائی نہیں اگر تم (حق بات) نہ کہو، اور ہم میں بھی کوئی بھلائی نہیں اگر ہم اسے تم سے قبول نہ کریں”۔
ہم سب پر لازم ہے کہ نصیحت کی قدر کو سمجھیں اور یہ یقین رکھیں کہ جب کوئی شخص کسی منکر کو دیکھے تو اپنی استطاعت کے مطابق اور بہترین طریقے سے اسے بدلنے کی کوشش کرے۔
امام سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں: “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وہی شخص کر سکتا ہے جس میں تین صفات ہوں: جو جس بات کا حکم دے اس میں نرمی کرے، جس سے روکے اس میں بھی نرمی کرے؛ جو جس بات کا حکم دے اس میں عدل سے کام لے، اور جس سے روکے اس میں بھی عدل برتے؛ اور جس بات کا حکم دے یا روکے اس کا علم رکھتا ہو”۔
مترجم: زعیم الرحمان