اگرچہ امام محمد عبده جدید دور میں اسلامی قانون کے سب سے اہم مصلحین میں سے ایک تھے، لیکن تعلیم کے میدان میں ان کا بہت گہرا اثر رہا ہے۔ انہوں نے عرب دنیا اور خاص کر مصر میں تعلیم کو بہتر بنانے کی طرف دعوت دی۔ انہوں نے تعلیم کو عام کرنے اور اس تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے تگ و دو کی، جس میں اسکولوں کے نصاب کی تجدید، روحانی و اخلاقی اقدار پر توجہ مرکوز کرنا، اور الازہر یونیورسٹی میں اصلاحات نافذ کرنا شامل ہے۔ انہی کوششوں کی وجہ سے انہیں "مصلحین” میں شمار کیا جاتا ہے۔
امام محمد عبده نے اپنے تعلیمی اور مذہبی افکار کو پھیلانے کے لیے بے پناہ محنت کی۔ ان کے خیالات نے نہ صرف مصر بلکہ دیگر ممالک کے لوگوں کو بھی متاثر کیا۔ ان کا ایک مثالی نظریہ تھا، جس کا مطمح نظر کمال اور مثبت تبدیلی تھا۔ تعلیم کے بارے میں ان کے خیالات ان کی اپنی زندگی کےعملی تجربات سے معرض وجود میں آئے۔
امام محمد عبدہ کی پرورش اور تعلیم:
امام محمد عبده 1849 عیسوی (1266 ہجری) میں مصر کے بحیرہ گورنوریٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں "محلة نصر” میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کی معاشی حالت معتدل تھی۔ دوسرے دیہاتی بچوں کی طرح، ان کے والد نے انہیں مقامی مذہبی اسکول (کتاب) میں داخل کرا دیا، جہاں انہوں نے گاؤں کے استاد سے بنیادی تعلیم، پڑھنا، لکھنا، اور قرآنی علوم سیکھے۔ بڑے ہونے پر، ان کے والد نے انہیں قرآن کی گہری تعلیم، تلاوت میں مہارت، اور فقه اور عربی زبان سیکھنے کے لیے طنطا (ان کے آبائی علاقے کے قریب) میں واقع احمدی مسجد (سید البدوی سے منسلک) میں بھیج دیا۔
سن 1865 عیسوی (1282 ہجری) میں، محمد عبدہ قاہرہ کے الازہر مسجد (یونیورسٹی) منتقل ہو گئے، جو اس وقت مذہبی تعلیم کا سب سے معتبر ادارہ تھا۔ وہاں انہوں نے 12 سال تک فقہ (اسلامی قانون)، حدیث (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات)، تفسیر قرآن، عربی گرامر، اور بلاغت جیسے اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے 1877 عیسوی (1294 ہجری) میں عالمیت کی سند کے ساتھ گریجویشن کی۔
اس وقت الازہر کا نصاب صرف مذہبی اور عربی زبان کی تعلیم پر مرکوز تھا۔ اس میں تاریخ، جغرافیہ، طبعی علوم، کیمیا، یا ریاضی جیسے جدید مضامین شامل نہیں تھے۔ یہ شعبے اس دور میں "دنیاوی علوم” سمجھے جاتے تھے۔ یہ محدود طرزِ تعلیم الازہر کی تعلیم کو فرسودہ اور جامد بنا دیتا تھا، جہاں تدریسی طریقے گہرے تنقیدی سوچ کے بجائے ظاہری مفاہیم تک محدود رہ گئے تھے۔
اس کے بعد، شیخ محمد عبدہ نے اپنی تعلیم اپنے زمانے کے کئی معروف علماء کے تحت جاری رکھی جنہوں نے ان پر گہرا اثر ڈالا۔ ان میں شیخ درویش خضر شامل تھے، جنہوں نے انہیں فقہ کے ساتھ ساتھ دیگر علوم پڑھنے کی ہدایت کی۔ پھر وہ شیخ حسن الطویل سے ملے، جو ریاضی اور فلسفہ کے ماہر تھے۔ آخر میں ان کا رابطہ شیخ جمال الدین افغانی سے ہوا، جنہیں شیخ عبدہ بہت عزت و احترام کرتے تھے، اور دونوں کے درمیان اصلاحات کے مشترکہ مقصد کی بنیاد پر ایک مضبوط دوستی قائم ہوئی۔
جب عربی انقلاب کی چنگاری 1299ھ (1882ء) میں بھڑک اٹھی تو بہت سے قوم پرست لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے۔ اگرچہ "محمد عبده” تیز انقلابی تبدیلی کے حامی نہیں تھے، لیکن انہوں نے انقلاب کے حامیوں میں شامل ہو کر اس کے رہنماؤں میں جگہ بنالی۔ نتیجتاً، انہیں گرفتار کر کے تین ماہ قید میں رکھا گیا، اور پھر تین سال کے لیے جلاوطنی کی سزا سنائی گئی جو انہوں نے بیروت اور پیرس میں گذاری۔
جب وہ مصر واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ سب کچھ برطانوی کنٹرول میں چلا گیا ہے۔ ان کے بنیادی مقاصد مذہبی نظریات اور اسلامی اداروں جیسے الازہر، اوقاف، اور شرعی عدالتوں میں اصلاحات تھے۔ انہوں نے خدیو حکمران کے ساتھ پرامن تعلقات قائم رکھنے کا فیصلہ کیا، بشرطیکہ یہ ان کے اصلاحی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مددگار ہو یہاں تک کہ ضرورت پڑنے پر خود انگریزوں سے بھی مدد طلب کی۔
انہیں بنہا میں سول جج مقرر کیا گیا، پھر زقازیق اور اس کے بعد عابدین میں۔ 1313ھ (1895ء) میں وہ اپیل کورٹ کے مشیر بن گئے۔ عابدین میں جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے تقریباً چالیس سال کی عمر تک پہنچتے ہوئے انہوں نے فرانسیسی زبان سیکھنا شروع کی۔ انہوں نے اس زبان میں مہارت حاصل کی، فرانسیسی قوانین اور ان کی تشریحات کا مطالعہ کیا، اور تعلیم کے موضوع پر ایک کتاب فرانسیسی سے عربی میں ترجمہ کی۔
خدیو عباس نے 1310 ہجری (1892ء) میں خدیو توفیق کی وفات کے بعد اقتدار سنبھالا تو شیخ عبدہ نے ان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ وہ خدیو کو اپنی اصلاحی اسکیم پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس کا ہدف الازہر، اوقاف اور شرعی عدالتوں کو جدید بنانا تھا۔ 1317 ہجری (1899ء) میں انہیں مصر کا مفتی مقرر کیا گیا۔
تاہم جب خدیو عباس کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہوئے تو ان کے خلاف سازشیں اور منصوبے بننے لگے۔ اخبارات نے انہیں کم تر اور کمزور دکھانے کے لیے سخت حملے شروع کیے، جس پر انہوں نے 1323 ہجری (1905ء) میں الازہر سے استعفیٰ دے دیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد وہ بیمار پڑ گئے، جس کی تشخیص بعد میں کینسر کے طور پر ہوئی۔ وہ 8 جمادی الاول 1323 ہجری (11 جولائی 1905ء) کو اسکندریہ میں 56 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

تعلیمی اصلاحات میں امام محمد عبدہ کا کردار:
امام محمد عبدہ کی زندگی میں خاص اہمیت مصر اور عرب دنیا میں تعلیمی اصلاحات میں ان کے نمایاں کردار کی ہے۔ ان کا سفر الازہر الشریف کی اصلاح کی وکالت سے شروع ہوا، جس میں قدیم نصاب کو جدید بنانا، مختلف علوم کو متعارف کروانا اور مطالعہ کو صرف کلاسیکی کتابوں تک محدود نہ رکھنا شامل تھا۔ یہ ان کے اس عقیدے سے ماخوذ تھا کہ الازہر، جو اسلامی دنیا کی ممتاز مذہبی اور علمی درس گاہ ہے، اس کو جدید سائنسی اور فکری ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت پیدا ہونی چاہیے۔
امام نے الازہر کی اصلاح کے لیے متعدد تجاویز پیش کیں، جن میں تعلیمی نصاب کی تجدید، طبعی علوم، سماجی علوم، اور انسانیات جیسے نئے علوم کا اضافہ، روحانی اور اخلاقی تعلیم کو تعلیمی عمل کا لازمی حصہ بنانا، الازہر کو تنگ نظری سے آزاد کرنا، اور اسے ایک آزاد سائنسی ادارے میں تبدیل کرنا شامل تھا۔ ان میں سے کچھ تجاویز پر عمل درآمد بھی ہوا، جس میں قانون اور طب کے نئے کالجوں کا قیام شامل ہے۔
الازہر الشریف کی اصلاح کی کوششوں کے علاوہ، امام نے مصری عوام میں تعلیم کو عام کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی، اور اسے سماجی طبقات کے درمیان امتیاز کے بغیر سب کے لیے قابل رسائی بنایا۔ ان کا یقین تھا کہ تعلیم ہی اقوام اور عوام کی ترقی کی بنیاد ہے، اور عوام میں تعلیمی عدم مساوات سماجی امتیاز اور ناانصافی کو جنم دیتی ہے۔
امام نے مصر میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ملک بھر میں جدید اسکول قائم کیے، لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی، اور دیہی اور دور دراز علاقوں میں تعلیم کے پھیلاؤ کو خاص توجہ دی۔
امام عبدہ نے تعلیمی نصاب کی ترقی اور اسے جدید بنانے کی وکالت کی، تاکہ وہ معاصر سائنسی اور فکری ترقیوں کے مطابق ہو۔ ان کا خیال تھا کہ موجودہ نصاب جدید معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہے اور طلباء کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا ہے۔
امام نے ان نصابوں کی اصلاح کے لیے کام کیا اور نئے تعلیمی شعبوں کو متعارف کرانے، انہیں جدید سائنسی اور فکری تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے، اور انہیں زیادہ لچکدار اور تبدیلیوں کے ساتھ چلنے کے قابل بنانے کی کوشش کی۔
ان خیالات نے عرب دنیا کے بہت سے تعلیمی مفکرین کو متاثر کیا، اور بعد ازاں کئی عرب ممالک کے تعلیمی نصاب میں ان میں سے کچھ تجاویز کو نافذ بھی کیا گیا۔
امام نے روحانی اور اخلاقی تعلیم کو بھی اولین ترجیح دی، جسے انہوں نے تعلیمی عمل کا بنیادی جز قرار دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ صالح افراد کی پرورش کی بنیاد ہے اور ایک صحیح اور نیک معاشرے کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے۔
امام نے روحانی اور اخلاقی تعلیم پر زور دیتے ہوئے مذہبی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا، جس میں ایمانداری، دیانت داری، اور انصاف جیسے اعلیٰ اخلاقی اقدار پر توجہ مرکوز کی گئی اور طلبہ کو صالح اعمال میں مشغول ہونے کی ترغیب دی۔
مزید برآں، امام نے خواتین کی تعلیم اور ان کے اندر اسلامی روشن خیالی پیدا کرنے کی وکالت کی۔ پہلے قدم کے طور پر، انہوں نے اپنے دور کی مسلم خواتین کی بدترین حالت کو بے نقاب کیا، یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ وہ مذہبی اور دنیاوی علم دونوں سے کیسے محروم تھیں۔ انہوں نے خواتین کی تعلیم کے مخالفین کے اس خیال پر تنقید کی کہ یہ جہالت حیا اور عفت کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے ایسے دعوؤں کی تردید کی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ خواتین کو بنیادی مذہبی عقائد سیکھنے یا روزے کے علاوہ دیگر فرض عبادات پورا کرنے سے بھی ناجائز طور پر روکا گیا تھا۔
امام نے خواتین کے تعلیمی حق کی حمایت کی اور امید ظاہر کی کہ روشن خیال، تعلیم یافتہ خواتین، لڑکیوں کے اسکول قائم کرنے کے لیے خواتین کی انجمنیں بنانے میں پیش پیش ہوں گی۔ انہوں نے خواتین کے لیے سیاسی معاملات، سیلونوں یا اشرافیہ کی محفلوں میں شرکت کے بجائے تعلیمی کردار کو ترجیح دی، اور انہیں علم اور بااختیار بنانے کے ذریعے سماجی ترقی کو اولیت دینے کی تلقین کی۔
تعلیمی کام یا سیاسی کام؟
امام محمد عبدہ کے تعلیم و تربیت کے میدان میں نمایاں خیالات عام طور پر یہ ہیں کہ تعلیم قوموں اور عوام کی ترقی کی بنیاد ہے۔ یہ جامع ہونی چاہیے، تمام سماجی طبقات کے درمیان امتیاز کے بغیر سب کے لیے قابل رسائی ہو، اعلیٰ معیار کی ہو، اور معاشرے کی ضروریات کے مطابق ہو۔
امام کا یقین تھا کہ تعلیم نشاۃ ثانیہ کا واحد راستہ اور ہر سماجی بیماری کے لیے شفا بخش دوا ہے۔ انہوں نے ذہنی غربت اور تعلیم کی کمی کو سب سے شدید قسم کی غربت سمجھا۔ ان کے خیال میں، ایک غیر تعلیم یافتہ شخص ہر چیز کھو دیتا ہے، اور انسان تعلیم کے بغیر حقیقی انسان نہیں بن سکتا۔ اس بارے میں انہوں نے کہا: "میں تعلیم کی وکالت کرتا ہوں کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ قومیں آج جو بیج بوتی ہیں اور لمبے عرصے تک ان کی پرورش کرتی ہیں، کہ وہ اس کے پھل کیسے کاٹتی ہیں۔”
امام محمد عبدہ تعلیم کی اس طاقت پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ یہ ایک بیدار اور روشن خیال طبقہ پروان چڑھا سکتی ہے جو درست پارلیمانی حکومت قائم کرنے کے قابل ہو۔ انہوں نے جہالت کو جمہوریت حاصل کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھا ۔ ایک ایسا نظریہ جو آج بھی گہری صداقت رکھتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سیاسی سرگرمیاں تعلیمی کوششوں پر سایہ نہیں ڈالنی چاہئیں۔ اس سلسلے میں ان کا ایک قول ہے: "میں حیران ہوں کہ مسلم دنیا کے دانشور اور ان کے اخبارات اپنی تمام توانائی سیاست پر صرف کر دیتے ہیں جب کہ تعلیم کے مقصد کو نظرانداز کرتے ہیں، جو ہر چیز کی بنیاد ہے۔ اگر سید جمال الدین افغانی نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو تعلیم اور تربیت کی طرف موڑ دیا ہوتا، تو انہوں نے اسلام کو سب سے بڑی خدمت فراہم کی ہوتی۔”
اس طرح، امام محمد عبده نے تعلیم کے میدان میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مصر اور عرب دنیا میں تعلیمی نظاموں کی اصلاح کی وکالت کی، مصریوں میں تعلیم کے پھیلاؤ کو فروغ دیا، نصاب کو جدید بنایا، اور روحانی اور اخلاقی ترقی کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کے خیالات نے عرب دنیا کے تعلیمی مفکرین پر گہرا اثر ڈالا، اور ان کی بہت سی اصلاحات کو کئی عرب ممالک کے تعلیمی ڈھانچوں میں شامل بھی کیا گیا۔
مآخذ و حوالہ جات
- سمیر حلبی : شیخ محمد عبدہ دور حاضر میں اصلاح کا علمبردار
- احمد شاہ: شیخ محمد عبدہ، ص 11-17
- محمد زاہد ابو غدہ، شیخ عبدہ ، مجدد اسلام اور مفتی مصر
- محمد عبدہ کی مکمل تصانیف
- محمد منیر مرسی: بلاد عربیہ میں اسلامی تربیت کا آغاز اور نشوونما
مترجم: سجاد الحق