امام حسن البصریؒ کو اسلامی مدرسۂ تربیت کی نمایاں ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے، جن کے اقوال اور ملفوظات سے ان کی مستند تعلیمی و تربیتی فکر کا پتہ چلتا ہے۔ ان کی فکر اللہ تعالیٰ کی توحید پر کامل یقین پر مبنی ہے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قرآن مقدس اور سنت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم تربیت کے بنیادی اور اساسی مصادر ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیمی و تربیتی عمل میں عقل اور تجربے کی اہمیت اور ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے، تاکہ ایک جامع اور کامل انسانی شخصیت کو پروان چڑھایا جائے اور اس کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے۔
امام حسن البصریؒ نے اسلامی تربیت کے اہداف کی نشاندہی کی ہے۔ ان اہداف کا خلاصہ انسانی دل میں اللہ تعالیٰ پر ایمانِ کامل پیدا کرنا، بچوں کو اسلامی اقدار اور اصول فراہم کرنا، ان کے ذہن و فکر کی نشوونما، ان میں دین کے فہم اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا، ان کی روحوں میں اچھے اور بلند اخلاق پیدا کرنا، جیسے ایمانداری، دیانتداری، سخاوت اور عفت، اور انہیں بہتر سماجی زندگی گزارنے کے لیے تیار کرنا۔
امام حسن البصریؒ کون ہیں؟
حسن بن یسار، جن کا لقب بصرہ کی نسبت سے بصری پڑ گیا، سنہ 76ھ کو مدینہ میں ام سلمہ کے گھر پیدا ہوئے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ایک تھیں۔ جب ان کی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کے گھر جاتی تھیں تو حسن رو پڑتے اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا انہیں شفقت سے اپنی گود میں لے لیتیں اور اپنی چھاتی سے دودھ پلاتیں، جب تک کہ ان کی والدہ نہ آتیں۔ اسی وجہ سے آپ ان میں علمی کمال، حکمت، فصاحت و بلاغت کی برکت دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا انہیں صحابہ کے پاس لے جاتیں کہ وہ ان کے لیے دعا کریں۔ چنانچہ خلیفۂ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کے لیے اللہ سے دعا کی کہ: “اے اللہ اسے دین کی سمجھ عطا فرما اور لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے محبت پیدا کر”
حسن بصریؒ نے اپنا بچپن وادیِ قری میں گزارا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کی نماز میں شرکت کی۔ انہیں مدینہ میں رہ کر صحابہ کرام سے تفسیر، علمِ حدیث اور فقہ پڑھنے اور سیکھنے کا شرف حاصل ہوا یہاں تک کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ہاں بصرہ منتقل ہو گئے۔
حسن بصریؒ نے کثیر تعداد میں صحابہ کو دیکھا اور ان سے احادیث روایت کیے، جیسے: نعمان بن بشیر، جابر بن عبداللہ، ابن عباس، اور انس بن مالک رضوان اللہ علیھم اجمعین، اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے انہیں سید التابعین کا لقب دیا اور فرمایا: “میں نے سید التابعین کو بصرے کا قاضی مقرر کیا ہے۔ جب سیدۃ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے ان کو سنا تو فرمایا: “یہ کون ہیں جو صدیقین کی طرح کلام کرتے ہیں؟”
حسن بصریؒ اپنے دور کے سب سے بڑے عالم تھے۔ قتادۃ کہتے ہیں کہ: “میں نے کبھی کسی عالم سے اس کا علم نہیں لیا سوائے اس کے کہ مجھے معلوم ہوا کہ اس میں کوئی بڑی خوبی پائی جاتی ہے، البتہ اگر مجھے کوئی مسئلہ درپیش آتا تو اس کے بارے میں سعید بن المسیب سے پوچھتا، اور میں اس کے سوا کبھی کسی فقیہ کے پاس نہیں بیٹھا لیکن حسن بصری کی عظمت کا شاہد ہوں۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ نفلی روزہ رکھتے، قیام اللیل کا اہتمام فرماتے۔ وہ مقدس مہینوں کے ساتھ ساتھ ہر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے۔
ابن سعد ان کے علمی کمال کے بارے میں کہتے ہیں: حسن بصری ایک جامعُ العلم، بڑےعالم، بلند پایہ فقیہ، ثقہ، عبادت گزار، فصیح، خوبصورت اور حسین و جمیل شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے جن سے احادیث لیں یا ان سے جنہوں نے احادیث بیان کیں سب حسن حجت ہیں۔ وہ جب مکہ تشریف لائے تو لوگوں نے انہیں پلنگ پر بٹھایا اور ان سے احادیث بیان کرنے کو کہا۔ جن میں نمایاں ترین حضرات مجاھد، عطاء، طاووس اورعمرو بن شعيب تھے، جن میں سے چند ایک کا کہنا ہے کہ “ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا”۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے تھے: حسن سے پوچھو، کیونکہ وہ حافظ ہیں اور ہم بھول گئے ہیں۔ ابو سعید بن الاعرابی نے طبقات النساک میں لکھا ہے کہ ہم نے جن کا ذکر کیا ہے ان میں سے اکثر لوگ حسن بصری کے پاس آتے اور ان کی باتیں سنتے تھے۔ عمرو بن عبید اور عبد الواحد ابن زید ان کے ساتھیوں میں سے تھے اور ان کے گھر میں ایک خاص مجلس منعقد ہوتی جس میں وہ بالخصوص زہد، عرفان اور باطنی علوم کے موضوعات پر گفتگو فرماتے۔
وہ اللہ و رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم، مسلمانوں کے ائمہ اور عام لوگوں کے ساتھ خیر خواہ تھے۔ عمر بن عبدالعزیز نے انہیں لکھا کہ: مجھے نصیحت کیجئے، تو اس کے جواب میں انہوں نے لکھا: جو شخص تمہارے ساتھ ہو وہ تمہیں نصیحت نہیں کر سکتا، اور جو آپ کو مشورہ دے وہ آپ کے ساتھ نہیں چلتا۔ حسن بصری اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تھے، جیسا کہ ہشام بن حسن نے ان کے بارے میں کہا ہے۔ اور جعفر بن سلیمان کہتے ہیں کہ: حسن بصری لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تھے، اور اگر مہلب مشرکین سے لڑتے تو انہیں سب سے آگے بھیجتے۔
حسن بصریؒ نے اپنے پیچھے بہت سی کتابیں اور رسائل چھوڑے ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
كتاب عدد آيات القرآن۔
كتاب تفسير القرآن۔
كتاب نزول القرآن۔
رسالة في الفرائض۔
رسالة في الأسماء الإدريسية۔
رسالة في التكاليف۔
رسالة في فضائل مكة والسكن فيها۔
رسالة عبد الملك بن مروان في الرد على القدرية۔
الأحاديث المتفرقة۔
حسن بصریؒ کا انتقال 110ھ کو جمعہ کی رات ہوا جب کہ اس وقت ان کی عمر 89 برس تھی۔
حسن البصریؒ کی تربیتی فکر کی خصوصیات:
حسن البصریؒ کی تعلیمی و تربیتی فکر جن اصول و مبادی پر مبنی ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
عقل ایک ایسی نعمت ہے جس سے انسان کے اندر احساس اور ادراک کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، یہ صلاحیت اللہ نے انسان کو عطا کی ہے تاکہ اسے اپنے اعمال کے سلسلے میں مکلف بنایا جائے۔ یہی وہ آلہ ہے جس کے ذریعے سے وہ سمجھتا، غور و فکر کرتا، سوچتا اور سیکھتا ہے۔ عقلی تربیت وہ شے ہے جو دماغ کی پرورش کرتی ہے، اسے سرگرم اور توانا بنانے کے ذرائع فراہم کرتی ہے، اور اس میں غور و فکر، تدبر و تفکر، تجزیہ اور نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے، یعنی اس کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو فروغ دیتی ہے۔ عقل کی اسلامی تربیت کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اس میں شروعات ایمان کے نور سے کی جاتی ہے جس سے دل و دماغ کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے بعد علم و عرفان کے در وا کیے جاتے ہیں۔
اسلام مسلمانوں کے ذہنوں کے لیے علم و عرفان کے وسیع تر میدان کھولتا ہے تاکہ وہ سچائی اور نیکی کی راہ پر چل سکیں۔ علم ہر تعلیمی، تربیتی اور دعوتی فکر کی اساس اور شرط ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھینتے ہوئے نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا کر علم کو اٹھا لے گا حتیٰ کہ جب وہ (لوگوں میں) کسی عالم کو (باقی) نہیں چھوڑے گا تو لوگ (دین کے معاملات میں بھی) جاہلوں کو اپنے سربراہ بنا لیں گے۔ ان سے (دین کے بارے میں) سوال کیے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر فتوے دیں گے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے” [بخاری]۔ اس حدیث میں ہمارے لئے بہت سارا تربیتی مواد موجود ہے، جیسے علم کے حصول کا شوق، علمائے کرام کی قدردانی اور ان کی عظمت اور فتاویٰ جاری کرنے کی اہمیت اور ہدایات، جاہلوں سے دور رہنے اور ان سے فتویٰ لینے پر تنبیہ وغیرہ۔ قرآن و سنت میں علم حاصل کرنے کی اہمیت اور فضیلت کے بے شمار ثبوت موجود ہیں اور یہ کہ علم دماغ کو حقیقی علم تک پہنچنے کے لیے سچائی کی تلاش میں رہنے اور جستجو کرتے رہنے کی تربیت دیتا ہے۔
حسن البصریؒ کا خیال ہے کہ طلباء میں ذہنی نشوونما، حافظے کی مضبوطی اور صلاحیت میں تفاوت ان کے سیکھنے اور سمجھنے کی رفتار کو متاثر کرتی ہے۔ خطیب بغدادی نے بھی طلباء میں اس کے اثرات اور ان کی کامیابی پر پڑنے والے نمایاں اثر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی ہے کہ بعض طلباء کم وقت میں بہت ساری معلومات حفظ کرنے کے قابل ہوتے ہیں جب کہ کچھ طلبہ کو آدھا صفحہ یاد کرنے میں کئی کئی دن لگ جاتے ہیں۔
حسن البصریؒ کے متنوع ایسے اقوال ہیں جو دل کو شرک، نفرت، بغض اور حسد کی گندگیوں سے پاک کرنے اور ایمان، یقین، مراقبہ، اطاعت اور مختلف قسم کی چیزوں سے اس کی اصلاح پر مبنی ایک عظیم تعلیمی اصول قائم کرتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں: “ان دلوں سے بات کرو کیونکہ یہ بہت تیزی سے برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور انفس کو پاک کرو کیونکہ یہ گناہ اور فحش کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ فرد اور معاشرے کی اصلاح علم کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی لئے ان کی علم و تحقیق سے دلچسپی کا باعث اسلام کا اس حوالے سے واضح نکتہ نظر کا ہونا ہے۔
اسلام میں، اللہ کی خاطر علمی سرگرمی میں مشغول ہونا نفلی روزہ و نماز اور تسبیح و تحلیل سے بہتر ہے، کیونکہ علم سے مخلوق خدا اجتماعی طور پر مستفید ہوتی ہے جب کہ نفلی عبادات کا فائدہ فردِ واحد تک محدود ہوتا ہے۔
جہاں تک ایک طالب علم کے آداب کا تعلق ہے تو حسن بصریؒ کے نزدیک وہ یہ ہیں: بنیادی اور ابتدائی معلومات کا ہونا، علمی اخلاقیات کو اپنانا، علماء کی مجالس میں بیٹھنے کے آداب سیکھنا اور شائستگی اختیار کرنا، اپنے علم کے مطابق عمل کرنا اور علم و عمل کے درمیان توازن قائم رکھنا۔ کم عمری میں علمی سرگرمیوں سے وابستہ ہونے کی خصوصیات ہی الگ ہیں کیونکہ اس میں انسان تندرست ہوتا ہے، اس کا دماغ خالی ہوتا ہے اورذہن سفید کاغذ کی طرح بالکل صاف ہوتا ہے۔
علمی اخلاقیات پر عمل پیرا ہونے سے متعلق وہ فرماتے ہیں کہ: “جو شخص اللہ کے لیے علم حاصل کرتا ہے، وہ عنقریب اپنے اندرعاجزی، انکساری اور تواضع کو دیکھے گا”۔ جہاں تک علماء کی مجالس میں بیٹھنے کے آداب کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں وہ فرماتے ہیں: “اگر تمہیں علماء کی محفلوں میں بیٹھنے کا اتفاق ہو جائے تو اپنی بات سے زیادہ ان کی باتوں پر دھیان دو اور محتاط انداز میں ان کی گفتگو سنا کرو، اچھا بولنے اور سننے والے بنو اور کبھی ان کی گفتگو درمیان میں نہ کاٹو۔
حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ایک عالم پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کو توشہ آخرت بنائے۔ کیونکہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس کا دل مردہ ہو جائے گا اور وہ علم کی نعمت سے محروم ہو جائے گا۔ چنانچہ فرماتے ہیں: اہل علم حضرات اپنے علم کی بدولت اس دنیا کے لوگوں سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ اور علماء نے اپنے علم کی بدولت وہ مقام حاصل کیا جو اہل دنیا اپنی دولت کے بل بوتے پر نہ کر سکے۔ اسی طرح اگر کوئی صاحب علم اپنے اخلاقی کمال سے اپنے ساتھی کو متاثر نہ کر سکے تو اس کے علم کا کوئی فائدہ نہیں۔ لہٰذا علماء کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے کیونکہ قوم و ملت کی تربیت و صحیح رہنمائی میں سب سے بڑا کردار علماء کا ہی ہے۔
جہاں تک قرآن کریم کی تعلیم کا تعلق ہے تو اس بارے میں ان کا خیال ہے کہ قرآن کا حقیقی علمبردار وہ ہے جس کا اخلاق قرآنی اخلاق ہو، یعنی جو قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ اور قرآنی تعلیمات سے مراد مجرد اس کی تلاوت کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے اوامر پر عمل پیرا ہونا اور اس کی ممانعت سے رکنا ہے۔ یعنی اس پر تدبر و تفکر کرنا ہے۔
حسن بصریؒ کی نظر میں، ایمان تعلیمی و تربیتی عمل کا ایک اہم ستون بلکہ اس کا محور ہے۔ کیونکہ ایمان و عقیدے کی تربیت باقی تمام شعبہ جات کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، اسی لیے ہم اسے ہر شعبے میں قدر مشترک اور ہر کوشش کے آخری ہدف کے طور پر دیکھتے ہیں۔
تقویٰ ایمان کا ستون ہے، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ ایمانی تربیت ہر فرض یا حکم کا خاصہ ہے، یہ ایک صحیح شخصیت کی تعمیر کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے، درحقیقت یہ پہلو اسلامی دعوت کا مرکزی نکتہ سمجھا جاتا ہے۔اگر ہم رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت پر اس حیثیت سے غور کریں گے کہ کس طرح انہوں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایمانی تربیت کی، بالخصوص مکی دور میں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زیادہ تر توجہ ایمانی تربیت، اور ایمان کو صحابہ کی روحوں میں پیوستہ کرنے پر مرکوز تھی۔
نیز، ایمانی تربیت، ان کے نزدیک، یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضامندی کے حصول کے لیے اس راستے پر چلنا جو امت کے صلحاء نے اختیار کیا ہے۔
حسن بصریؒ نے بہتر ایمانی تربیت کے لیے دو شرائط رکھی ہیں: پہلی یہ کہ یہ تربیت کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارشادات کے عین مطابق ہو، اور دوسری یہ کہ: اس تربیت کا تسلسل تب تک جاری رہنا چاہیے جب تک یہ انسان میں ایک مجسم حقیقت کا اظہار نہ کرے۔
ایمانی تربیت کے بہت سے طریقے اور اسالیب ہیں۔ جن میں موت کی حقیقت کے بارے میں سوچنا، عبادت، مجاھدۃ النفس اور قیام اللیل کے ذریعے روح کی تربیت کرنا، اپنے نفس کا محاسبہ کرنا، روح کو اس کے امراض سے پاک کرنا، زبان اور اعضاء کی حفاظت کرنا، آخرت کی فکر دامن گیر رہنا اور اس کیلئے بھرپور تیاری کرنا، کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کرنا، موت کو ہر وقت یاد کرنا اور دنیا سے بے رغبت ہونا، کیونکہ دنیا، آخرت کے مقابلے میں نہایت قلیل اور چھوٹی شے ہے۔ اللہ و رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اطاعت میں زندگی گزارنا، تلاوت قرآن کو اپنا معمول بنانا اور خود کو کتاب و سنت کا پابند بنانا۔
حسن بصریؒ کے مطابق ایمانی تربیت کے ثمرات میں سے امید اور خوف شامل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں: امید اور خوف مومن کے ساتھی ہیں، کیونکہ خوف میں نفس اور روح کی بھلائی ہے۔ یقین اور توکل کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ: کوئی بھی بندہ جنت اور جہنم کا صحیح معنوں میں ادراک اور یقین نہیں کر سکتا سوائے اس کے جسے یقینِ محکم اور امید ہو، جو عاجز ہو اور ثابت قدم رہے یہاں تک کہ اسے موت آجائے۔
جہاں تک اجتماعی تربیت کا تعلق ہے، حسن البصریؒ کے مطابق، اس کا مقصد افراد کو اپنی شخصیت کو جامع طریقے سے تیار کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ بہتر طور پر اپنے اجتماعی کردار کو انجام دے سکیں، معاشرے میں رہ بس سکیں اور اس کے متنوع تجربات میں حصہ لے سکیں۔ کیونکہ فرد کی زندگی کی تشکیل اور اس کے تناظر میں اسے اجتماعی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اجتماعی تربیت فرد کے اجتماعی شعور کو فروغ دینے اور معاشرے میں اس کے رول کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے تاکہ ایک ربط و تعلق اور تعاونِ باہمی کی بنیاد پر ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔
حسن البصریؒ نے ایسے متعدد امور کی نشاندھی کی ہے جن سے بہتر اجتماعی تربیت کو ممکن بنایا جا سکتا ہے مثلاََ: ایثار کا معاملہ کرنا، یہ کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کے ساتھ نیک دلی، سخاوت اور رحم دلی کا معاملہ کرے، یہ کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرے اور انہیں نقصان پہنچانے سے باز آئے۔ اور سماج کے اس حق کو ادا کرے کہ نصیحت، تلقین جاری رکھے اور لوگوں کے جنازوں میں شرکت کرے اور یہ کہ ایک مسلمان لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جس کے وہ حقدار ہیں۔
جہاں تک اجتماعی خرابیوں کا تعلق ہے جو افراد کے درمیان رشتے کو کمزور کرتے ہیں یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کے ساتھ بخل کا معاملہ کرے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ایک آدمی کے لیے یہ فخر اور بہادری کی بات نہیں کہ وہ اشیاء ضروریہ کا احتکار کرے تاکہ لوگوں سے بھاری بھرکم قیمتیں وصول کرے اور مال پر اجارہ داری قائم کرے، جو کہ بہت بڑا گناہ ہے۔
ان کا عقیدہ ہے کہ اسلامی اصولوں پر مبنی فرد کی اصلاح سے ہی اجتماعی اصلاح ممکن ہے۔ اور یہ کہ اسلامی تعلیمات پر ثابت قدم رہنا ہی فرد اور معاشرے کے لیے مفید ہے۔
ایک چھوٹا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو جو چیز اس کو پیش کی جائے وہ اسی کی طرف لپکتا ہے۔ خواہ وہ اچھائی ہو یا برائی۔ کیونکہ ایک بچہ بنیادی طور پر فطرت سلیم یعنی نیکی اور معروف سے محبت کے راستے پر پیدا ہوتا ہے۔ تاہم، اسے اس چیز کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی بہتر تربیت اور پرورش کی جائے۔
بچوں کی اچھی اخلاقی تربیت اسلام کے اعلیٰ مقاصد میں سے ایک ہے۔ اسی وجہ سے اسلام والدین کو پابند کرتا ہے کہ وہ بچوں کی بہترین تربیت اور پرورش کریں۔
اخلاقی تعلیم و تربیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ نوجوانوں کو اچھے اخلاق، مثالی اور اچھی صفات پر مسلسل آمادہ کیا جائے جب تک کہ وہ ٹھوس اور مستحکم خصائل نہ بن جائیں، جس سے وہ دونوں جہانوں میں سرخرو اور کامیاب ہو جائیں۔
دینِ اسلام بھائی چارے کو پروان چڑھانے کی دعوت دیتا ہے اور یہ کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کے بارے میں فکرمند رہے اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے اور اس کے لیے وہی چیز ناپسند کرے جسے اپنے لئے ناپسند کرتا ہے۔
اس طرح امام حسن البصریؒ نے ایک ایسا تعلیمی نقطہ نظر پیش کیا جو اپنی اصل میں مکمل و مربوط ہے۔ جس نے اپنے اسلاف کی راہیں روشن کیں اور تعلیم و تربیت کے میدان میں کام کرنے والے داعیان حق کے لیے مشعل اور رہنما کا کام کیا۔
مصادر ومراجع:
د. خالد سعد النجار: نظرات تربوية في فكر الحسن البصري.
عبد الحليم محمود: تربية الناشئ المسلم، ص 28.
الزهراني: التطبيقات التربوية لأسس البناء الفكري في السنة النبوية، ص 168.
سامية الخشاب: علم الاجتماع الإسلامي، ص 43.
ياقوت الحموي: معجم البلدان 1/430.
مصطفى سعيد الخن: الحسن بن يسار البصري الحكيم الواعظ، ص 81-82۔
مترجِم: عاشق حسین پیر زادہ