قرون اولیٰ کے مسلم علماء نے خود کو کبھی کسی ایک خاص علمی شعبے تک محدود نہیں رکھا بلکہ وہ علم کے سمندروں میں غوطہ زن ہوکر وہاں سے بیش بہا علمی، تعلیمی اور فکری سرمایہ نکال کر دنیا سے چلے گئے، جن میں امام احمد بن حنبل کا نام گرامی بھی شامل ہے جو ایک قابل اور ثقہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تفقہ فی الدین کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ تحریرات، عمدہ افکار اور نظریات کے ساتھ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام احمد بن حنبل نے تربیتی شعبے میں بھی اپنی ایک نمایاں چھاپ چھوڑی ہے۔ جہاں آپ نے استاد کے لئے ایک تعلیمی لائحہ عمل وضع کیا، اس کے طرز عمل کا جائزہ لیا اور اس کے حقیقی مشن کو واضح کیا، وہاں پر آپ نے طالب علم کو نظر انداز نہیں کیا، بلکہ اس کے سامنے علم کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لیے تحصیل علم اور طرزِ عمل کے نقوش کی وضاحت کردی۔
امام احمد بن حنبلؒ کون ہیں؟
آپ کا پورا نام ابو عبداللہ احمد بن احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی ہے، جو امام احمد بن حنبل کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ 164 ہجری / 780ء میں بغداد میں پیدا ہوئے، وہیں پرورش پائی، اور وہاں کے شیوخ سے حدیث سنی، پھر کوفہ، بصرہ، مکہ، مدینہ، یمن، شام اور جزیرے کا سفر کیا اور بہت سے لوگوں سے حدیث سنی۔
احمد بن حنبلؒ نے حدیث، فقہ اور بہت سے علوم کی تحصیل کی، یہاں تک کہ وہ اپنے زمانے کے لیے ایک مشعلِ راہ اور روشنی کا مینار بن گئے، اور اس طرح علم کے متلاشیوں کا محور ومرکز ٹھہرے اور آپ نے اپنے کردار کے ذریعے عزیمت کی ایسی عظیم مثالیں پیش کی ہیں جنہیں تاریخ نے ابدیت عطا کی ہے، جیسے کہ آپ تین خلفاء یعنی مامون، معتصم اور الواثق کے زمانے میں فتنۂ خلق قرآن کے سامنے ڈٹے رہے، یہاں تک کہ وہ فتنہ خلیفہ متوکل کے زمانے جاکر ختم ہوا۔
احمد بن حنبلؒ نے کھڑے ہو کر اس فتنے کو مسترد کر دیا، یہاں تک کہ آپ کو اس وجہ سے گرفتار کیا گیا، ستایا گیا، اذیتیں دی گئیں اور قید میں ڈالا گیا، اور آپ نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے علماء کے درمیان مثال قائم کردی، یہاں تک کہ ایک چوتھائی صدی کے بعد آزمائش ختم ہو گئی اور خلیفہ المتوکل نے آپ کو اپنا منصب واپس کردیا اور آپ درس و تدریس کے لیے مسجد میں پھر لوٹ آئے۔ یہاں تک کہ آپ نے 241ھ/855م میں وفات پائی۔
اپنے انفرادی اوصاف، خوبیوں اور کمالات کی بدولت چاروں ائمہ کبار کے درمیان آپ نے اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ آپ ایک کامیاب مربی بھی تھے جو اپنے منفرد اسلوبِ تربیت اور علمی تبحر کی وجہ سے مسجد میں اپنے علمی حلقے میں بے شمار طلباء کو راغب کرنے میں کامیاب رہے۔
امام احمدؒ نے اپنی خاص پرورش اور اعلیٰ تربیت کی وجہ سے علم اور دین میں رفعت حاصل کی اور اس میں آپ کے گھر والوں کی بہترین رہنمائی بھی شامل تھی جس کے اثرات علم حدیث، فقہ اور بہت سے تعلیمی علوم میں آپ کی ذہانت اور دین سے منحرف لوگوں کے عقائد اور شاذ اقوال کے مقابلے میں آپ کی ثابت قدمی میں ظاہر ہوئے، پھر بھلے ہی ایسا کرنے سے آپ مصیبت میں پڑگئے ہوں۔
آپ کے دعوتی، تعلیمی اور تربیتی کام میں آپ کی کتابوں اور ان کے ذریعے عملی اور معاشرتی رویوں میں ہونے والی تبدیلی سے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے جو ریاست کی توسیع سے اور زیادہ بڑھ گئے۔
احمد بن حنبلؒ کی نظر میں تعلیم وتربیت کے مقاصد
تعلیم وتربیت، طالب علم اور اس کے ماحول کے درمیان ہم آہنگی اور تعامل کو کہتے ہیں، یہ وہی بات ہے جس پر امام احمد بن حنبلؒ نے خوب غور و فکر کیا اس لیے کہ آپ علم اور تعلیم کو عبادت سمجھتے تھے، اور یہ کہ یہی وہ صحیح راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے۔
امام احمدؒ کا ماننا ہے کہ تعلیم کا ایک ہدف علم میں اضافہ کرنا اور خاص کر امور دین میں نئی اور مفید چیز کو معلوم کرنا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ سوال کرنا علم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ سائل اس کے ذریعے اپنے اس علم اور میدان کا تعین کرتا ہے جس سے وہ استفادہ کرنے کا خواہاں ہو۔
ابن حنبلؒ کے نزدیک تعلیم کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہے کہ طالب علم کے اندر اس بات کی صلاحیت ہو کہ وہ مختلف علوم کے درمیانتمیز کرسکے اور فائدہ مند علم کو غیر ضروری چیزوں سے الگ کرسکے، نیز وہ صالحین کی پیروی کرنے کے قابل ہو اور ان کے اس راستے پر چل سکے جو زندگی کے مقصد اور غایت تک لے جاتا ہو۔
ابن حنبلؒ کا ایمان ہے کہ تعلیم کا ایک مقصد، طالب علم کی شخصیت کے اہم پہلوؤں کا خیال رکھنا ہے اور اس کی نشوونما اس انداز میں کرنا ہے جس میں مہربانی، شفقت، بہترین رہنمائی اور لطف شامل ہو، اور انہیں خوشیوں میں خصوصاً عیدین کے مواقع پر شریک کرنا ہے یہی چیز امام احمد اپنے بچوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔
معلم کے بارے میں آپ کا تعلیمی نقطہ نظر
امام احمد بن حنبلؒ کی رائے ہے کہ استاد کے لیے کچھ آداب کا اہتمام کرنا اور اپنے اندر ان کو پیدا کرنے کی کوشش کرنا لازمی ہے کیونکہ ایک معلم پانی کے چشمے کی طرح ہے جس سے ہر کوئی سیراب ہوتا ہے۔ چند آداب کا تذکرہ درج ذیل ہے:
- استاد کو صاحب اخلاق ہونا چاہئے، جو طلباء کو علم نافع کی طرف رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ بُردباری، تقویٰ، انکساری، سچائی، ایثار اور خوفِ خدا جیسی صفات سے آراستہ کرے۔
- معلم کی علمی نشوونما: تاکہ وہ اپنے شاگردوں سے صرف عالمانہ گفتگو کرے، اور فلسفیانہ انداز اختیار کرنے سے اعراض کرے، اور ایسی مابعد الطبیعیاتی بحثوں میں نہ پڑے جن کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، کیونکہ یہ اسے ایک پر خطر راستے کی طرف لے جاتا ہے، جب کہ علم میں اضافہ کی کوشش کرنا اور اسے اس لیے ذخیرہ کرنا کہ یہ اس کا ہتھیار ہے۔ اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو وہ پوری زندگی کرتا رہے۔
- عملی تربیت: ابن حنبل اس طریقے کو طالب علموں کے لیے زیادہ متاثر کن سمجھتے ہیں، اور یہ ان مسائل کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے جو استاد اپنے شاگردوں کو پڑھاتا ہے، جیسے کہ وضو، کیونکہ عملی تربیت نظری وضاحت سے زیادہ افضل اور سود مند ہے۔
- نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا: استاد کو چاہئے کہ وہ اس پر خود قائم رہے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس پر اُبھارنے کے ساتھ ساتھ عمدہ اسلوب اور انداز سے واقف کرائے، کیوںکہ امت کو ہر وقت اس کی ضرورت ہے تاکہ اس کے معاملات درستگی کے ساتھ قائم رہیں۔
- قرآن مجید کی طرف توجہ دینا، حفظ اور عمل کے ساتھ ساتھ اپنی استطاعت کے مطابق مختلف فنون بالخصوص عربی زبان و ادب اور فن الشعر کا اہتمام کرے اور استاد کو اپنے مشن کی آبیاری کرنے کے لیے اس کے قابل ہونا ضروری ہے۔
- معلم اور شیخ الحدیث کو اس وقت تک تدریس کے لیےنہیں بیٹھنا چاہیے جب تک کہ وہ دونوں علم اور حدیث پر عبور حاصل نہ کر لے اورنیز انہیں مضمون پر پوری گرفت اور مناسب تربیت اور تجربہ نہ ہو۔ نیز یہ بات بھی اہم ہے کہ اس تمام کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ان کے دلوں میں موجود ہو۔
- معلم کی تحقیقی پہلو میں دلچسپی اوردوسروں پر انحصار کی سوچ کو ختم کرکے طالب علموں کو تحقیق پر ابھارنا، جیسا کہ ابن حنبلؒ نے اپنے شاگردوں کو مشورہ دیا کہ وہ اصل مآخذ کی طرف لوٹیں اور دوسروں کی تحریروں پر تکیہ نہ کریں، آپ طالب علموں کو وعظ و نصیحت کے ذریعے علوم کی حفاظت کے لیے اس بات پر ابھارتے تھے کہ جو کچھ علوم کے بارے میں کہا گیا ہے اور جو اس میں سے مفید اور خس و خاک سے پاک ہے اسے مرتب و مدون کریں۔ اور بہت ہی عمدہ خط وکتابت کا استعمال کریں تاکہ بعد میں پڑھنے میں آسانی ہو۔
- استاد کو چاہیے کہ وہ کسی ایسے سوال کا جواب دینے میں معذرت کرنے سے گریز نہ کرے جسے وہ نہیں جانتا ہو یہاں تک کہ وہ حوالہ جات کی طرف رجوع نہ کرے اور سوال اور اس کے جواب کی حقیقت سے اچھی طرح واقف نہ ہو، کیونکہ اس سے استاد کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا ہے، بلکہ یہ اس کے لیے اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ نہ جاننے کے باوجود جواب دینے کی جرات کرے۔ اور اس سے یہ بات استاد پر خود بخود لازم آتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے درمیان بیٹھنے سے پہلے اچھی طرح سے تیاری کرکے آئے۔
- استاد کو چاہئے کہ وہ تمام طلباء کو اپنے ساتھ اس طرح گفتگو میں شامل کرے جس سے کسی کو ایک کو بھی تکلیف نہ پہنچے، کیونکہ بات چیت اور مشارکت سے تمام طلباء مستفید ہوتے ہیں۔
طالب علم کے آداب کے بارے میں ابن حنبلؒ کا نقطہ نظر
طالب علم وہ ہے جو علم کی طلب، تحصیل علم، اس پر عمل اور لوگوں میں علم کی بھلائی کو احسن طریقے سے پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، اور امام احمد بن حنبلؒ نے ان آداب کی وضاحت اس طرح کی ہے:
- طالب علم کے لیے تحصیل علم کے سلسلے میں مطلوبہ اوصاف: یعنی وہ خالصۃََ لوجہ اللہ علم کا متلاشی ہو، وہ علم کو حاصل کرنے کا سلسلہ بلا ناغہ جاری رکھے اور منقطع نہ کرے،علمی مصادر کی طرف رجوع کرتا رہےاور اس کی تدوین میں دل چسپی لے۔
- ابن حنبل کا خیال ہے کہ شاگرد کسی ایک ہی استاد پر قناعت نہ کرے یا ایک ہی جگہ تک محدود نہ رہے اگر اس کے بس میں ہو۔ کیونکہ اس کے لیے ایک سے زیادہ معلمین یا شیوخ سے وسیع، جامع اور متنوع علوم حاصل کرنا زیادہ مفید ہے۔
- طالب علم کو چاہیے کہ وہ ایک ساتھ اسباق کو یاد کرنے اور اُن کے فہم کو یقینی بنائے اور ایک کو چھوڑ کر صرف ایک پہلو پر قناعت نہ کرے، جب تک کہ وہ مختلف علوم و فنون میں مہارت نہ حاصل کرے۔ اور اسے چاہیے کہ علمی مجالس کےاوقات کا خیال رکھے اور ان کی حاضری میں تاخیر نہ کرے۔
- طالب علم کو چاہیے کہ وہ صالحین کے اخلاق اور طرز عمل کی پیروی کرتے ہوئے ان کی سراہنا کرے، ان کی خوبیوں کا اعتراف کرے اور ان کی موجودگی میں آواز اونچی نہ کرے۔
- طرز عمل کی خصوصیات، جیسے اپنے معاملات کو منظم کرنے میں خود پر اعتماد کرنے کی تربیت اور اپنے ذریعۂ معاش کے انتظام کے لیے کام کرنا اور دوسروں پر انحصار نہ کرنا۔
- یہ کہ طالب علم اپنے اپنی جیسی ذہنی سطح رکھنے والوں اور ہم عمر لوگوں کے ساتھ تک بیٹھنے کا شوقین ہو، جواُن میں سریع الفہم، حاضر جواب اور اچھے اخلاق کے مالک ہوں۔ ان باتوں کو احمد ابن حنبل بہت اہم چیزوں کے طور پر دیکھتے ہیں جو طالب علم کو علم کے راستے پر گامزن رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
تعلیمی اسالیب
امام احمد بن حنبلؒ نے متعدد تعلیمی اسالیب کا استعمال کیا ہے پھر چاہے وہ مسجد میں دروس کا سلسلہ ہو یا آپ اور خلق قرآن کے علمبرداروں کے درمیان ہونے والے بحث و مناظرے ہوں جن میں خلیفہ المعتصم بھی شامل تھا۔
آپ کا ماننا ہے کہ جو لوگ تعلیمی عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تدریسی طریقوں سے واقف ہوں، جو زمان و مکان کی تبدیلی سے وقتاََ فوقتاََ تبدیل ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے جس نے احمد بن حنبلؒ کی مجلس کو ہزاروں طلباء سے بھر دیا تھا، اور ان طریقوں میںدرج ذیل چیزیں شامل ہیں:
- مناظرہ: جہاں ایک طرف ابن حنبل بحث وجدل سے کوسوں دور تھے اور حق کی تلاش میں مصروف تھے، اس لیے آپ نے صرف لوگوں کے سامنے باطل پرستوں کی برائی کو ظاہر کرنے کے لیے مناظرہ کو استعمال کیا، جس طرح نوجوانِ اخدود نے اسے استعمال کیا تھا اور جس نے اپنے اثرات دکھائے تھے اسی طرح ابن حنبلؒ نے لوگوں کے سامنے جہمیہ اور معتزلہ کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے اسے آزمایا تھا۔
- مذاکرہ: ابن حنبل نے اسے اپنے بعض مشائخ کے ساتھ استعمال کیا ہے، اور اسی طرح درس کو سمجھنے اور جائزہ لینے کے لئے اسے طلباء میں بھی رواج دیا تھا۔
- پڑھنا: نظام تعلیم میں یہ ایک معروف اسلوب مانا جاتا ہے، اور یہ یا تو شیخ کی طرف سے شاگردوں کو پڑھانا ہے یا کسی طالب علم کا شیخ کے لیے پڑھنا ہوتا ہے، پھر استاد وضاحت اور تبصرہ کرتا ہے، واضح رہے کوئی بھی شخص جو پڑھ نہیں سکتا وہ علم نہیں سیکھ سکتا ہے۔
- لکھنا: یہ علم کا سب سے اہم وسیلہ ہے، اس کے ذریعے علم کو محفوظ کیا جاتا ہےاور لوگوں میں پھیلایا جاتا ہے، اور یہ نہ ہو تو علم ضائع ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ وہ طریقہ ہے جس پر تعلیم کے ہر مرحلے میں انحصار کیا جاتا ہے، اور ابن حنبل اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا کرتے تھے: "جاؤ ان شیوخ کے بارے میں مسجد میں لکھو یہاں تک کہ آپ کا ہاتھ ہلکا ہو جائے۔
- اشارے اور مثالیں دینا: یہ ایک ایسا تعلیمی طریقہ ہے، ضروری ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو سکھانے کے لیے اشاروں اور مثالوں کا استعمال کرے، اور اس کے لئے واضح مثالیں استعمال کرتا ہے، اور امام بن حنبل نے یہ طریقہ فرقۂ جہمیه کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی صفات کے انکار کے جواب میں استعمال کیا۔
- سفر: تحصیل علم میں امام ابن حنبل رحمہ اللہ کے سفر نے اس پر بہت اثر ڈالا ہے اس کے ذریعے اسے علم کو اس کے اصلی مآخذ سے ان علماء سے بالمشافہ حاصل کرنے کا موقعہ فراہم ہوا جو اس میں مشہور تھے۔
- سوالات کا طریقہ: اس طریقہ کار کے ذریعے طالب علم عالم یا استاد سے ایک یا ایک سے زیادہ سوالات پوچھتا ہے اور پھر استاد ان سوالات کے مندرجات کو واضح کرکے ان کا جواب دیتا ہے۔
تعلیم نسواں کے بارے میں آپ کا نقطہ نظر
اولاد کی تربیت اور اس کے اندر نیکی کو پروان چڑھانے کی پہلی معلمہ ماں ہوتی ہے۔ اس ایک فرد کی اصلاح پر ہی پورے معاشرے کی اصلاحی بنیاد ہوتی ہے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبلؒ اپنے زمانے میں اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ عورت کا اپنے شوہر کو ضروریات زندگی کی تکمیل میں مدد کرنا یا شوہر نہ ہونے کی صورت میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کرنا جائز ہے۔
آپ نے مسند احمد میں بہت سی عورتوں سے احادیث روایت کی ہیں، جن کی تعداد ایک سو ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حنبل نے عورت کی تعلیم کو قبول کیا ہے تاکہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے بچوں کی صحیح پرورش کی جائے، ان کی تربیت کی جائے اور زندگی کے تقاضوں میں شوہر کی مدد کی جائے۔
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر یقین رکھتے ہیں: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے” یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف مردوں کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا، بلکہ مرد اور عورت دونوں کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ ان کی بعض عورتوں اور مسلمان عورتوں نے اس سے یہ حدیث بیان کی ہے، لیکن اس کے باوجود آپ نے یہ شرط رکھی کہ اس سے مردوں اورعورتوں کا آپسی اختلاط نہ ہو۔ اور یہ تعلیم عورت کی فطرت سے الگ نہیں ہے، لیکن جو چیز فتنے کا باعث بنتی ہے اسے ابنِ حنبل نے مسترد کر دیا ہے۔
آخری بات
امام احمد بن حنبلؒ نے وہ وقت پایا ہے جب اسلامی ریاست پھل پھول رہی تھی، لیکن اس چیز نے آپ کو علم میں مشغول ہونے سے نہیں روکا، جسے ہر طالب علم کو سمجھنا چاہئے، اور آپ نے اس بات کا نعرہ بلند کیا کہ تعلیم انسانی سماج کے لیے لازمی چیز ہے۔ کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ علم قوم کا بہترین محافظ ہے۔
بہت سے جدید علماء نے سینکڑوں سال پہلے امام احمد کے پیدا کردہ وسائل اور طریقوں کی پیروی کی ہے، اور انہیں ایک ایسے طالب علم کی شخصیت سازی میں مفید قرار دیا ہے جو زندگی کے معاملات کو سنبھالنے اور اپنے ملک کو ترقی کی طرف لے جانے پر قادر ہو جہاں وہ رہتا ہے اور کام کرتا ہے۔
مآخذ و حوالہ جات:
- صالح بن احمد بن حنبل: امام احمد بن حنبل کی سیرت، مکتب اسلامی نشر واشاعت، دمشق شام،1997
- محمد بن عبد اللہ موسی: امام احمد بن حنبل اور اس کی دعوتی خدمات، دعوت اسلامی کالج ام درمان سوڈان، 2009م
- جمعان احمد صالح دبسی: امام احمد بن حنبل کی تعلیمی فکر، ماسٹرز مضمون، تربیہ کالج، ام القرٰی یونیورسٹی مکہ مکرمہ، 1995، ص96
- جمعان احمد صالح دبسی : سابقہ حوالہ، ص 99-118
- ابن الجوزی: امام احمد بن حنبل کے مناقب، عبد اللہ بن عبد المحسن ترکی کی تحقیق،دارھجر، قاہرہ، 1409ھجری
مترجم: سجاد الحق