استاد، مجاہد، مربی شیخ محمد بشیر ابراہیمی مسلم دنیا کے ان رہنماؤں میں سے ہیں جنہوں نے ابنائے قوم کے سینوں میں جزبہ حریت کی شمع جلائی اوراپنی قوم کو بیدار کرکے استعمار کے خلاف جہاد کا پرچم بلند کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب امت مسلمہ مسلسل حملوں اور جارحیت کا سامنا کر رہی تھی اور استعمار امت کے وسائل لوٹ کر اس کے حصے بخرے کر رہا تھا۔
شیخ البشیر عصر حاضر کے مصلحین اور مجددین ائمہ میں سے تھے۔ آپ، خطیب، مربی اور عالم ہونے کے ساتھ ساتھ اصلاحی شخصیت کے حامل تھے۔ آپ عالم عرب کے ممتاز ادیب و مفکر کی حیثیت سے معروف تھے۔ لہٰذا شیخ کی زندگی اور ان کے علمی، دعوتی اور جہادی سفر و مراحل کا مطالعہ اور جائزہ لیا جانا اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ ان سے تربیتی اسباق اخذ کیے جا سکیں۔

محمد البشیر الإبراہیمی کی پیدائش اور ان کا علمی سفر:
شیخ محمد البشیر الإبراہیمی 14 جون 1889ء کو قسنطینہ کے قریب شہر سطیف کے نزدیک راس الوادی نامی گاؤں میں ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے نو سال کی عمر میں اپنے چچا شیخ المکی الإبراہیمی کی زیر نگرانی قرآن مجید حفظ کر لیا، اور اس کی تربیت اور تشکیل میں بڑا حصہ اُن کے چچا جان کو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں طلبہ کی تعلیم میں اپنا دست و بازو بنایا۔
شیخ محمد البشیر نے عربی علوم کی تعلیم اپنے چچا سے حاصل کی، جو اپنے وقت کے الجزائر کے ممتاز عالم تھے۔ انہیں صرف، نحو اور فقہ کے علوم میں مہارت حاصل تھی اور یوں وہ عوام اور طلبہ کے لیے مرجع بن گئے تھے۔ انہوں نے اپنے بھتیجے کی خصوصی توجہ کے ساتھ تربیت کی اور علم کے کئی دروازے ان کے لیے کھولے، یہاں تک کہ البشیر نے لغت کے کئی متون، مشہور شعرا کے کئی دواوین کو زبانی حفظ کیا اور بلاغت، فقہ اور اصول کے علوم میں مہارت حاصل کی۔
اللہ نے شیخ بشیر کو غیر معمولی حافظہ عطا کیا تھا، جس کی بدولت انہوں نے اس زمانے کے مشہور علمی متون جو اس زمانے کے نصاب میں شامل تھے، کو حفظ کیا، جیسے کہ تلخیص، جمع الجوامع، الفیہ ابن مالک، سیرت میں الفیتا العراقی، علوم الاثر، مملکتوں کے نظام پر ابن الخطيب کا رقم الحلل، قراءات اور رسم میں شاطبيتين، ابن عاصم الأندلسی کی تحفہ، اور نو سال کے بعد امام مالک کی موطأ، صحیح مسلم کا مقدمہ، اور معلقات و مفضليات کو زبانی یاد کیا۔
ان کے چچا نے ان کی تربیت کے لیے ایسا طریقہ اختیار کیا جو ان کی فطری صلاحیتوں کے عین مطابق تھا۔ وہ مسلسل تعلیم و تدریس کے دوران ان کے ساتھ رہتے اور صرف نیند کے اوقات میں ناغہ ہوتا۔ چلتے پھرتے، بیٹھتے یا کسی بھی حالت میں، وہ انہیں پڑھاتے، املا کرواتے اور وضاحت کرتے رہتے، یہاں تک کہ نیند ان پر غالب آجاتی۔ یہ سب ان کی غیر معمولی حافظہ، ذہانت اور فطری استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا۔ ان کے چچا نے اپنی بصیرت سے ان کی بے پناہ صلاحیتوں کو پہچان لیا تھا، جو اس بات پر زور دیتی ہے کہ بچوں کی زندگی میں مربی اورعلما کا کردار کتنا اہم ہوتا ہے۔
چچا نے انہیں ان علوم کی تدریس کی اجازت دی جو وہ ان سے مکمل طور پر سیکھ چکے تھے، اور وہ محض پندرہ سال کی عمر میں تدریس کے لیے کھڑے ہو گئے۔ ان کے دروس سے وہ لوگ بھی مستفید ہوئے جو عمر میں ان سے بڑے تھے۔ چچا کے انتقال کے بعد، انہوں نے ان علوم کی تدریس شروع کی جو انہوں نے اپنے چچا سے سیکھے تھے، اور اپنے ہم درسوں کواس سب کی تعلیم دیتے، جس کی ذمہ داری ان پر آن پڑتی۔
1911ء میں جب ان کی عمر 22 سال ہوئی تو وہ مشرق کی طرف روانہ ہوئے تاکہ اپنے والد سے جا ملیں، جو چار سال قبل فرانسیسی استعمار سے بچنے کے لیے وہاں ہجرت کر چکے تھے۔ انہوں نے مدینہ میں قیام کا فیصلہ کیا اور اپنے بیٹے کو خط لکھ کر جلد آنے کی درخواست کی۔ سفر کے دوران شیخ نے قاہرہ میں تین ماہ قیام کیا، اس دوران انہوں نے جامعہ الازہر کے چند بڑے علما، جیسے “سلیم البشری”، “محمد نجیب المطیعی”، اور “یوسف الدجوی” کے دروس میں شرکت کی۔
البشیر نے مدینہ پہنچنے کے بعد حرم نبوی کے علمی حلقوں میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ وہاں ان کی ملاقات شیخ عبد الحمید بن بادیس سے ہوئی، جو حج کی ادائیگی کے لیے آئے تھے۔ ان دونوں کا مقصد چوں کہ ایک ہی تھا تو آپس میں گہری دوستی اور مضبوط تعلق قائم ہوا۔ انہوں نے الجزائر کی اسلامی امت میں نئی روح پھونکنے کے لیے ایک منصوبہ وضع کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کے ساتھ ایک اور جزائری عالم “الطیب العقبی”، جو ان سے پہلے مدینہ ہجرت کر چکے تھے، بھی شامل ہو گئے۔ ان تینوں نے مسلسل ملاقاتیں کیں اور الجزائر کی مخدوش حالت اور اس کی بحالی کے طریقوں پر سنجیدہ بحث و مباحثے کیے۔ ان ہی ملاقاتوں کے دوران انہوں نے جمعیۃ العلماء المسلمین الجزائریین کے اولین اصول وضع کیے۔
جب شیخ البشیر کی عمر تیس سال سے تجاوز کر گئی، تو وہ 1920ء میں الجزائر واپس آئے۔ اس سے پہلے وہ دس سال سے زیادہ عرصہ عالمِ اسلام کے اہم علاقوں میں سفر کرتے رہے، جہاں انہوں نے مسلمانوں کے حالات کا مشاہدہ کیا، ان کےمشکلات، تاریخی حادثات، تہذیبی اور دینی مسائل کو قریب سے دیکھا، اور امت کے امراض و کمزوریوں کے ممکنہ علاج کو دریافت کیا اور امت کی اصل خرابیوں پر ہاتھ رکھا۔ آخراس غور و خوض کے بعد انہوں نے امت کی آزادی اور اصلاح کے لیے صحیح راستے پر کام اور جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔
الجزائر واپس آکر شیخ البشیر نے اپنا تربیتی اور اصلاحی منصوبہ شروع کیا۔ انہوں نے طلبہ کے لیے علمی دروس، اور چھوٹے گروہوں کے لیے دینی درس و تدریس کا آغاز کیا۔ وہ دیہاتوں اور شہروں میں خطابت اور تدریس کے لیے سفر کرتے رہے۔ ان کی تقاریر نے ذہنوں کو بیدار کیا اور جہالت و پسماندگی سے مرجھائی ہوئی روحوں میں نئی زندگی پیدا کر دی۔
شیخ البشیر نے محسوس کیا کہ ان کے دروس کا اثر ظاہر ہونے لگا ہے اور لوگ مزید سیکھنے کے لیے پرجوش ہیں، اس لیے انہوں نے ایک ایسا مدرسہ قائم کرنے کا ارادہ کیا جہاں نوجوانوں کو خطابت اور صحافت کی تربیت دی جا سکے، تاکہ وہ عوام کی قیادت کر سکیں۔ اس دوران وہ خود تجارت کے معاملات میں ملوث ہونے کا تاثر دیتے رہے تاکہ پولیس ان کا پیچھا نہ کرے اور ان کے “مہمانوں” کو ہراساں نہ کرے۔ اس سب کے باوجود بھی فرانسیسی استعمار نے شیخ کی سرگرمیوں کی اہمیت کو سمجھا اور ان کی تحریک کو روکنے کی کوشش کرتے رہے، ساتھ ہی ان کے پیروکاروں کی نگرانی بھی کرتے۔
دوسری طرف شیخ محمد البشیر دراصل شیخ عبد الحمید بن بادیس کے جنگی ساتھی اور 1931ء میں الجزائر میں قائم ہونے والی تنطیم “جمعیت العلماء المسلمین” کے نائب صدر۔ اس تنظیم کا مقصد فرانسیسی استعمار کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک دینی، ثقافتی اور سیاسی تحریک کا آغاز کرنا تھا۔ دینی علم کے ساتھ ساتھ وہ زبان و ادب کے ایک ممتاز عالم بھی تھے اور دمشق کے مجمع اللغة العربیہ کے رکن بھی تھے۔
شیخ ابراہیمی اور شیخ عبد الحمید بادیس معاصر الجزائر کے روحانی پیشواؤں کے نمائندے تھے اور آپس میں ساتھی بھی تھے اور شریک کار بھی۔ اس طرح پہلے دوسرے کے نائب اور جمعیۃ العلماء المسلمین کے نائب صدر تھے۔ یہ دونوں وہ قائدین تھے جن کی نظریات نے الجزائر کے عوام کو فرانسیسی استعمار اور ثقافتی استعمار سے نجات دلانے کی جدوجہد کی۔
دونوں رہنماؤں نے دین میں بے بنیاد عقائد کے خلاف منظم جنگ کی، تعلیم میں مغربیت کے اثرات کے خلاف آواز اٹھائی، اور اسکولوں، مساجد کا جال بچھایا اور قوم میں وفاداری، انقلاب اور احیاء کا جذبہ پیدا کیا۔ انہوں نے اسلامی قوانین کے تحت شخصی معاملات میں عدالت کی خودمختاری کا اور حکومت کو ملازمین کی تقرری میں عدم مداخلت کا مطالبہ کیا۔ اس کے نتیجے میں الجزائر کے عوام نے “جمعیت العلماء” کے ذریعے سیاسی اور فکری طور پر آزادی اور خود مختاری کی صلاحیت حاصل کی۔
شیخ البشیر نے اپنے ہم عصر شیخ عبد الحمید بن بادیس کی طرح الجزائر کے وسیع علاقے میں سرگرمی سے سفر کیا اور 400 اسلامی اسکول اور 200 مساجد تعمیر کیں جہاں نمازیں اور لیکچر ہوتے تھے۔ بعد میں، شیخ البشیر نے قسنطینہ میں ایک بڑا ثانوی ادارہ قائم کیا جس کا نام “معهد ابن بادیس” رکھا، یہ ایسا عظیم الشان ادارہ تھا کہ اس کے پہلے بیچ میں ایک ہزار سے زیادہ طلباء تھے۔
شیخ البشیر نے اپنی زندگی میں کبھی بھی تربیت، فکری نشوونما اور امت کی اصلاح کے راستے میں آنے والی مشکلات کے سامنے ہار نہیں مانی، یہاں تک کہ جب عمر کے آخری حصے میں بیماری اور بڑھاپا ان پر غالب آیا، تو وہ اپنے گھر میں مقیم ہو گئے۔ بالآخر وہ عظیم کارہائے نمایاں انجام دینے کے بعد 19 مئی 1965ء کو، اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ اللہ ان کی قبر پر اپنی بے پایاں رحمتوں کی بارش کرے۔ آمین

شیخ محمد البشیر کے چند تربیتی کردار:
شیخ کی اصلاحی تحریک کا ایک بنیادی جز تربیت تھا۔ ذیل کے نکات میں ان کی کچھ وضاحت کی جاتی ہے:
1۔ ابتدائی طلبہ کی تعلیم کا پروگرام: اس مرحلے کے تعلیمی مواد کو چھ سالوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جو طالب علم کی ابتدائی عمر کے پہلے مراحل ہوتے ہیں۔ جب وہ ان مراحل کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرتا ہے تو اسے “شهادة التعليم العربي الابتدائي” (ابتدائی عربی) کی سند دی جاتی ہے، جو پڑھنے اور لکھنے کی مہارت کو ظاہر کرتی ہے، اور دین اسلام کے مبادیات کو علمی اور عملی انداز میں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ کے بنیادی نکات بھی سیکھنے ہوتے ہیں۔ طالب علم یہ چھ مراحل اپنی عمر کے پہلے دس سال کے قریب مکمل کرتا ہے، اس طرح اس کی ذہنی پرورش اس کی جسمانی پرورش کے ہم آہنگ ہوتی ہے۔
2۔ معلم کا کردار: شیخ البشیر الإبراهیمی معلمین سے اس تعلیمی پروگرام کے نفاذ کے حوالے سے کہتے ہیں: “میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں، اے میرے معلمین بیٹو! تم اپنی تمام ترتوجہ اوراعتماد بچوں کی تربیت کے لیے صرف پروگراموں اور کتابوں پر نہ رکھو۔ اصل مقصد تربیت کے حصول میں وہ اخلاق ہیں جو تمہاری روحوں سے تمہارے طلباء کی روحوں تک منتقل ہوتے ہیں، وہ اخلاق جو تمہاری زندگی کا حصہ ہیں اور وہ تمہارے ساتھ رہ کر ہی سیکھے جا سکتے ہیں۔ تم تعلیمی کرسیوں پرہو، اور تمہاری رعایا امت کے بچے ہیں! لہٰذا ان سے نرمی اور حسن سلوک سے پیش آؤ، اور انہیں ایک کامل تربیتی مرحلے سے اکمل مرحلے کی طرف لے جاؤ۔ بچوں کی فطری خصوصیت یہ ہے کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ان سے محبت کرتے ہیں، وہ ان کی طرف مائل ہوتے ہیں جو ان پر احسان کرتے ہیں، وہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں اور جو ان کے ساتھ مسکراہٹ اور خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں، ان کے ساتھ خوش رہتے ہیں۔”
3۔ بچوں کے رجحانات کا مطالعہ: بچوں کے ساتھ قریبی تعلق قائم کرکے ان کے رجحانات اور دل چسپیوں کا جاننا اور سمجھنا معلم اور مدرس کے لیے از حد ضروری ہے۔ اس کو چاہیے کہ وہ ان کے درمیان بڑے بھائی کی طرح رہے اوراپنی شفقت ان پر نچھاور کرے۔ اور ان کے اندر اپنی خیر خواہی کے بیج بو دے۔ محبت اور نرمی کے ساتھ سائل کو جواب دے۔ بچوں کے رجحانات کو جاننے کے بعد ہی ممکن ہے کہ معلم ان کی خرابیوں کی اصلاح کرکے ان کے اندر خیر و صلاح پیدا کرسکے۔ اور یہ بات طے ہے کہ معلم اپنے شاگردوں کے اندر فضائل پیدا نہیں کرسکتا جب کہ وہ خود ان فضائل کا حامل نہ ہو۔
4۔ رہنما معلم: شیخ البشیر الإبراهیمی معلمین سے کہتے ہیں۔ “اپنے طلباء کے لیے اعمال، احوال اور اقوال میں اچھے نمونہ بنو۔ وہ تم سے صرف اچھے اعمال اور تمہارے عمدہ رویے دیکھتے ہیں اور تم سے صرف سچی باتیں سنتے ہیں۔ اور رویوں کا تضاد گفتگو میں جھوٹ بولنے سے زیادہ نقصان دہ ہے، نہ صرف اپنے لیے بلکہ امت کے لیے بھی۔
5۔ معلموں کی تربیت: شیخ البشیر الإبراهیمی معلموں کی تربیت پر خاص توجہ دیتے تھے، اور اس کے لیے وہ سرکاری اسکولوں میں عربی تعلیم کے ذمہ داران اور “اعلی تعلیمی کمیٹی” کے مقرر کردہ معائنہ کاروں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے تھے۔ دوسری طرف، وہ اپنے وعظ و خطابات اور مقالات کے ذریعے بھی معلموں کی تربیت میں معاونت فراہم کرتے تھے، جو خاص طور پر معلموں کے لیے ہوتے تھے۔ یہ مقالات اور خطابات ایک تربیتی پروگرام کی مانند ہوتے تھے جو معلموں کی سطح بلند کرنے، ان کے تجربات کو بڑھانے، اور انہیں بچوں کی مختلف معاملات کی حقیقت اور تعلیمی عمل کی نوعیت کے بارے میں صحیح علم فراہم کرنے کا مقصد رکھتے تھے۔
6۔ تربیت کے بارے میں معلمین کا نقطہ نظر: شیخ البشیر الإبراهیمی کے مطابق، تربیت ایک ہدف کے تحت کی جانے والی انسانی کوشش ہے جو فرد اور معاشرے کی دیکھ بھال کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ذہن کی نشونما، عقل کی تطہیر، سلوک کی اصلاح، جسم کی مضبوطی، اور صلاحیتوں کی ترقی ہے، تاکہ انسان اپنی زندگی میں جو مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، یعنی انسانیت اپنی معراج کو پہنچے، یعنی ایک کامل و مکمل شخصیت کی تعمیر۔ وہ اس محنت کو دیکھتے ہیں جو علماء، معلمین اور معاشرتی ذمہ دار افراد فرد کی تربیت کے لیے کرتے ہیں، جس کا مقصد افراد کو موجودہ اور مستقبل کی زندگی کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے۔
7۔ اخلاقیات، آداب، خیالات اور رجحانات: یہ وہ جہات ہیں جو فکری اور اقداری ورثے کی تشکیل کرتے ہیں، یا جیسا کہ ابراہمی انہیں کہتے ہیں، وہ سامان جو نسل در نسل وراثت میں ملتا ہے، جس سے ان کا مزاج تشکیل پاتا ہے اور ان کی شخصیت اور نظریات کا تعین ہوتا ہے، اور یہ کہ ان اقدار اور رجحانات تک پہنچنے کا راستہ جس کی اپنی نئی نسلوں تک منتقلی میں معاشرہ دل چسپی رکھتا ہے وہ عربی مدرسہ ہے، یعنی جمعیۃ العلماء کا قائم کردہ اسکول، وہ مکتب جو قوم کی انفرادیت کی پہنچان سے تعبیر ہوتا ہےاور اس کے اجزاء ترکیبی کو جوڑ دیتا ہے۔ اور اپنے پروگرام کی تہذیبی اور ثقافتی بنیادوں پر کھڑا کرتا ہے، جس کی بنیاد پر امت مجتمع اور متحد ہو پاتی ہے۔
8۔ تعلیمی طریقہء کار: یہ وہ فکری منصوبہ ہے جسے شیخ البشیر الإبراهیمی نے اپنے اصلاحی کام کے لیے تربیتی اور تعلیمی میدان میں بنایا تھا، اور اسے وہ اپنے طریقہ کار کے طور پر اپناتے تھے تاکہ تربیت کے مسائل کو زیر بحث لایا جا سکے، ہر مسئلے کا مفہوم متعین کیا جا سکے، اور وہ تعلیمی نمونہ تیار کیا جا سکے جو معاشرتی توقعات کے مطابق ہو اور نسلوں کی آرزوؤں کو پورا کرے۔ ان کے نزدیک تعلیم ایک ذریعہ ہے اور تربیت ایک مقصد، اورجب منصوبہ تیار کیا جائے تو یہ مقصد ذریعے سے پہلے آتا ہے ، لیکن دونوں (ذریعہ اور مقصد) ایک ساتھ ضروری ہیں۔
9۔ مطلوب تربیتی اسکول: شیخ البشیر الإبراهیمی قوم کے لیے اسکولوں کے نظام کا خاکہ بنانے میں فرانسیسی تعلیمی نظام کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں جو الجزائر کے ماحول میں رائج تھا، اور کہتے ہیں: “قوم ایک ایسی عربی تعلیم چاہتی ہے جو دورِ حاضر کی طاقت اور نظام سے ہم آہنگ ہو، نہ کہ ایسی تعلیم جو مرگ کے آثار اور تباہی کی علامات پیدا کرے۔” اس تعلیم کو عربی زبان، مقاصد اور مواد کے لحاظ سے عربی ہونا چاہیے، تاکہ یہ قوم کی خصوصیات اور تہذیبی ورثے کے ساتھ ہم آہنگ ہو، اور یہ قومی پروفرام (یعنی الجزائری) ہونا چاہیے، نہ کہ درآمد شدہ۔ اس میں غیر ملکی خیالات کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ قوم کی ذہانت سے نکلا ہوا، اس کے منفرد خصائص اور خصوصیات کے ساتھ ہونا چاہیے، تاکہ اسے قوم خود اپنی مرضی اور ارادے کے مطابق تخلیق کرے۔
10۔ تربیت کا مقصد: شیخ البشیر الإبراهیمی کے مطابق تربیت کا سب سے بڑا مقصد نوجوان نسل کو اس کے خیالات اور رجحانات میں یکجہتی فراہم کرنا، اس کے جذبوں کو قابو میں رکھنا، اور اس کی زندگی کے بارے میں نظریات کو درست کرنا ہے تاکہ یہ ایک ایسی نسل کو تیار کرے جو ہم آہنگ ذوق اور یکجا رجحانات کی حامل ہو، جو زندگی کو اس کی اس کی بدلتی ہوئی حقیقت میں دیکھے، اور جو دین اور وطن کی خدمت میں ایک مضبوط ارادے کے ساتھ وسائل تلاش کرنے کی کوشش کرے۔
11۔ علم کی ضرورت: شیخ البشیر الإبراهیمی کہتے ہیں، “زندہ انسان کی اس زمانے میں علم کی ضرورت، اس کی کھانے کی ضرورت کی طرح ہو گئی ہے۔”
12۔ اخلاق تربیت کی اساس: شیخ البشیر الإبراهیمی نے اخلاقی تربیت کو تربیت کا بنیادی ستون قرار دیا اور اسے مسلمان کی شخصیت کی تشکیل کا ضامن سمجھا۔ وہ کہتے ہیں، “ہمارے پاس ایک ایسی اساس ہے جس پر ہم تعمیر کر سکتے ہیں، اور یہ بہت زیادہ مشکل نہیں ہے کہ اسے زندہ کیا جائے، وہ ہیں اسلامی اخلاق جو وراثت میں ہمیں ملے ہیں، جن میں سے زیادہ تر قرآن میں واضح ترین الفاظ اور بیان میں پائے جاتے ہیں، پھر عربی اخلاق جو ان کے آداب سے اخذ کیے گئے ہیں، جو ان کے تراث کا سب سے قیمتی حصہ ہیں”
13۔ تربیت تبدیلی کی بنیاد ہے: شیخ البشیر الإبراهیمی کے مطابق، تربیت کا طریقہ ہی تبدیلی کے عمل کی بنیاد ہے، چاہے وہ فرد کی سطح پر ہو یا معاشرتی سطح پر۔ یہ وہ طریقہ ہے جو پرانے اور نئے استعمار کا مقابلہ کرنے کے لیے موزوں ہے، کیونکہ استعمار تخریب کرتا ہے اور تربیت تعمیر کرتی ہے، استعمار جڑیں اکھاڑتا ہے اور تربیت بیج بوتی ہے۔
14 ۔ فلسفہ تربیت: شیخ البشیر الإبراهیمی کا ماننا تھا کہ تربیت ایک طویل عمل ہے لیکن اس کا اثر یقینی ہوتا ہے، اور اس میں وہ امام حسن البنا شہید کے منہج اور طریقہ کار سے متفق تھے۔
15۔ تعلیم فہم اور عمل ہے: شیخ البشیر الإبراهیمی کے نزدیک تعلیم صرف طلباء کے دماغوں میں معلومات کا انبار لگانے کا عمل نہیں تھا جسے وہ اتنی ہی تیزی سے بھول جائیں جتنا جلدی انہوں نے سیکھا ہو، بلکہ تعلیم فہم اور عمل تھا۔
16۔ دماغی اور عملی تربیت پر توجہ: شیخ البشیر الإبراهیمی نے دماغی تربیت کی اہمیت پر زور دیا اور نسلوں کو سائنسی اور تنقیدی سوچ کی تربیت دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عملی تربیت دماغی اور اخلاقی تربیت سے کم اہم نہیں ہے، اور یہ فرد کو کام کرنے اور تخلیق کرنے کے قابل بنانے کی ضمانت ہے۔
17۔ تربیت کو حقیقت سے جوڑنا: شیخ البشیر نے تربیت کو حقیقت سے جوڑنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ تربیت کو فرد کی عملی زندگی میں درکار صلاحیتوں اور مہارتوں کی ترقی کی طرف مائل ہونا چاہیے۔
18۔ تربیت میں خاندان کی اہمیت: شیخ البشیر الإبراهیمی نے خاندان کو معاشرت میں پہلی بنیادی اینٹ قرار دیا اور کہا کہ یہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کی ذمہ دار ہے۔
19۔ تربیتی امور میں مدرسہ اور خاندان کی باہمی معاونت: شیخ البشیر الإبراهیمی نے مدرسہ اور خاندان کے درمیان تربیت میں تعاون کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ دونوں مل کر ایک مکمل نظام بناتے ہیں جو ایک نیک نسل کی تیاری کا باعث بنتا ہے۔
شیخ کا علمی سرمایہ:
شیخ کی اہم تصنیفات اور علمی میراث جس نے عالم اسلام کے علمی سرمایے میں گراں قدر اضافہ کیا یہ ہیں:
اسرار الضمائر في العربية
شعب الإيمان: جمع فيه الأخلاق والفضائل الإسلامية
حكمة مشروعية الزكاة في الإسلام
فتاوى متناثرة
ما أخلّت به كتب الأمثال من الأمثال السائرة
مخارج الحروف
نظام العربية في موازين كلماتها
الاطراد والشذوذ في العربية: وهي رسالة في الفرق بين لفظ المطرد والكثير عند ابن مالك
الصفات التي جاءت على وزن فعَل
الملحمية الرجزية في التاري.
بقايا فصيح العربية في اللهجة العامية بالجزائر
رسالة في ترجيح أن الأصل في بناء الكلمات العربية ثلاثة أحرف لا اثنان
رسالة في مخارج الحروف وصفاتها بين العربية الفصيحة والعامية
عيون البصائر: وهي مجموعة من مقالاته التي كتبها في السلسلة الثانية من مجلة
)اکثر تصنیفات عربی زبان، گرامر اور اسلامی آداب، احکام اور فقہ سے متعلق ہیں(
شیخ محمد البشیر الإبراهیمی الجزائر میں اصلاح کے علمبردار، زبان کے عظیم عالم، اور فکر و جہاد کے رہنما تھے۔ انہوں نے استعماری منصوبوں کا پردہ چاک کیا اور عربی و اسلامی یکجہتی کی حمایت کی۔ اس طرح وہ الجزائر کے عظیم علمی و عملی شخصیتوں میں شمار ہوئے۔ انہوں نے قوم کے لیے عظیم کام کیے، جن کا خلاصہ انہوں نے یوں معذرت کے ساتھ بیان کیا کہ تصنیف و تالیف میں مشغولیت کی وجہ سے زیادہ کچھ نہ کر سکا البتہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے قوم کے لیے انسانوں کو تیار کیا، اور ان کے ذہنوں کو آزاد کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کے جسم بھی آزاد ہوں، ان کا دین اور زبان درست کی، اور انہیں ایک مسلمان عربی بنایا، اور ان کے فہم کے ترازو کو درست کر کے انہیں ایک آزاد انسان بنایا۔ اور یہ سب میری کوششوں کا مقصد تھا، اور یہی میرے لیے رب کے رضا اور عوام کی رضا کا ذریعہ ہے۔ اس کے باوجود میں نے مفید موضوعات پر لکھا، مگر نہ تو میرے پاس وقت تھا اور نہ ہی طباعت کے وسائل تھے۔
مصادر و مراجع:
- أحمد طالب الإبراهيمي: آثار الإمام محمد البشير الإبراهيمي 1/14.
- أسامة شحادة: العلاّمة محمد البشير الإبراهيمي.
- محمد شعبان أيوب: محمد البشير الإبراهيمي.. الشيخ الذي كشف التناقض العلماني للفرنسيين بالجزائر.
- ديوان العلامة محمد البشير الإبراهيمي: المورد العذب النمير من أشعار العلامة محمد البشير، ص 6.
- طريق الإسلام: الشيخ البشير الإبراهيمي رحمه الله تعالى.
- الدكتور سليمان صالح: الصحافة ومعركة الهوية.. تجربة الشيخ محمد البشير الإبراهيمي.
- الدكتور محمد الجوادي: العلامة محمد البشير الإبراهيمي الرمز الحي لكفاح الجزائر.
- عمر تراكة: مرشد المعلمين للعلامة محمد البشير الإبراهيمي رحمه الله
مترجم: زعیم الرحمان