بقلم: ڈاکٹر أسامة جادو
اعتکاف رمضانی تربیت گاہ ہے جو نفس کو سنوارنے اور پاک کرنے، اور اسے پاکیزگی اور قربت کی بلندیوں تک لے جانے کا ذریعہ ہے۔ یہ کامل مومنین کا راستہ ہے تاکہ وہ کمال کے درجات حاصل کر سکیں اور رب العالمین کی طرف بڑھنے والوں کے مقامات میں ترقی کر سکیں۔
یہ ایک روحانی ورکشاپ ہے جس میں روح بے نیازی و قناعت حاصل کرتی ہے، اپنی ضرورت کا احساس کرتی ہے، اور قربت کا درجہ پاتی ہے۔ اعتکاف کے لمحات دوسرے اوقات کی طرح نہیں ہوتے ہیں، وہ گویا آخرت کے وقت کے حصے ہیں، جنہیں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کی قربت کی نعمت کا مزہ چکھنے کے لیے جلدی لایا گیا ہے۔ معتکف فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جا رہا ہے، اس کے سامنے کھڑا ہے، اس سے دعا کر رہا ہے اور اسے عاجزی سے مناجات کر رہا ہے۔ معتکف کا شعار یہ ہوتا ہے: ” اے میرے رب، تیری خوشنودی کے لیے جلدی چلا آیا ہوں”۔
اعتکاف مسجد میں رہنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کی نیت سے اس میں رہنا ہے۔ امام بخاریؒ اپنی صحیح میں ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے لیکن وصال کے سال میں بیس دن اعتکاف فرمایا”۔
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: کہ معتکف کے لیے رمضان کے آخری عشرے میں لوگوں کے ساتھ میل جول کرنا مستحب نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ليے بہتر ہے کہ وہ اکیلا رہے اور اپنے آقا سے مناجات کیلئے تخلیہ کرے۔ درحقیقت اعتکاف لوگوں کے رشتوں کو منقطع کرنے کا ایک وقتی وقفہ ہے تاکہ انسان خالق عزوجل کی خدمت کا شرف حاصل کرے۔
اعتکاف کے مقاصد:
اعتکاف کے کچھ اہداف اور مقاصد ہیں، جنہیں معتکف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعتکاف کا سب سے بڑا مقصد بندے کے دل کا رب کی اطاعت پر ٹھہرنا ہے، جسے امام ابن قیمؒ اعتکاف کا سب سے بڑا مقصد قرار دیتے ہیں:
[اور ان کے لیے اعتکاف مشروع کیا گیا، جس کا مقصد اور روح یہ ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے، اس پر جمع ہو جائے، اس کے ساتھ خلوت اختیار کرے، مخلوق کے ساتھ مشغولیت ترک کر دے اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ مشغول ہو جائے، یہاں تک کہ اس کے ذکر اور محبت، اور اس کی طرف رجوع کرنے کی کیفیت دل کی فکروں اور خیالات کی جگہ لے لے، اور یہ چیز دل پر غالب آ جائے۔ یوں دل کا تمام ہمّ و غم اللہ کی طرف ہو جائے، اور تمام خیالات اس کے ذکر اور اس کی رضا کے حاصل کرنے اور اس سے قریب ہونے پر مرکوز ہو جائیں۔ نتیجتاً بندہ مخلوق کی انسیت کے بجائے اللہ کے ساتھ انسیت پیدا کر لیتا ہے، اور اس طرح خود کو قبروں کی وحشت کے دن، جب اس کے پاس اللہ کے سوا کوئی انسیت یا خوشی کا سامان نہ ہوگا، اللہ کی انسیت کے لیے تیار کر لیتا ہے۔ یہ اعتکاف کا سب سے بڑا مقصد ہے]۔ (1)اعتکاف کے سب سے بڑے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ لیلۃ القدر کی تلاش کی جائے۔ یہ مقصد قابل ذکر اور واضح ہے، جیسا کہ صحابی رسول ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے، جب ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے لیلۃ القدر کی تاریخ کا تعین کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے اس کا ذکر کریں: [میں نے عرض کی کہ فلاں نخلستان میں کیوں نہ چلیں سیر بھی کریں گے اور کچھ باتیں بھی کریں گے۔ چنانچہ آپ تشریف لے چلے۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے راہ میں کہا کہ شب قدر سے متعلق آپ نے اگر کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو اسے بیان کیجئیے۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھ گئے، لیکن جبریل علیہ السلام نے آکر بتایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں (شب قدر) وہ آگے ہے۔ چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف کیا اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی۔ جبریل علیہ السلام دوبارہ آئے اور فرمایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں وہ (رات) آگے ہے۔ پھر آپ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ دوبارہ کرے۔ کیونکہ شب قدر مجھے معلوم ہو گئی لیکن میں بھول گیا اور وہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہے اور میں نے خود کو کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا۔ مسجد کی چھت کھجور کی ڈالیوں کی تھی۔ مطلع بالکل صاف تھا کہ اتنے میں ایک پتلا سا بادل کا ٹکڑا آیا اور برسنے لگا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو نماز پڑھائی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کا اثر دیکھا۔ آپ کا خواب سچا ہو گیا]۔ (2)
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اللہ کی اطاعت اور اس سے طلب کرنے کی کوشش کریں، لیلۃ القدر کو پانے کی تحقیق کریں، اس کا ثواب حاصل کریں اور اس موقع کو غنیمت جانیں۔ آپ کا اعتکاف لیلۃ القدر کو پانے کی غرض سے ہوتا تھا اور اس معنی کی طرف حنبلی علماء میں سے ایک عالم ابن رجب حنبلیؒ نے اشارہ کیا ہے:
[بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے جس میں آپ لیلة القدر کو تلاش کرتے تھے، اپنے کام سے منقطع ہو کر، راتوں کو عبادت میں مصروف رہتے، اپنے رب سے دعا و مناجات کرتے، رب کا ذکر کرتے۔ وہ لوگوں سے الگ ایک چٹائی پر بیٹھے جہاں وہ لوگوں سے نہ ملتے، نہ ہی ان کے ساتھ میل جول کرتے، اسی وجہ سے امام احمد نے استدلال کیا کہ معتکفیں کے لئے لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا پسندیدہ عمل نہیں ہے]۔ (3)اعتکاف کی فضیلت اور حکمت:
اعتکاف میں ایک بہت بڑی فضیلت اور بڑا اجر ہے جو پرہیزگاروں کے جوش و خروش کو تیز کرتا ہے اور مجاہدین کو دعوت دیتا ہے: اس عشرے میں اپنے گھر اور اپنی دنیا کو اپنی پیٹھ کے پیچھے رکھو اور اپنے رب کی راہ پر چلو اور محراب سے چمٹے رہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے، صرف احکامات کی اتباع اور اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہوئے اور محراب سے چمٹے رہتے ہوئے، تمام دروازے کھولتا ہے۔ عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا: "اعتکاف کرنے والا تمام گناہوں سے رکا رہتا ہے، اور اس کو ان نیکیوں کا ثواب جن کو وہ نہیں کر سکتا ان تمام نیکیوں کے کرنے والے کی طرح ملے گا”۔ [ابن ماجہ سے مروی ہے] (4)
اسے طبرانی اور بیہقی نے شعب الایمان اور البزار کے ضمیمہ میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسجد ہر متقی شخص کا گھر ہے، اور اللہ ان لوگوں کی کفالت کرتے ہیں جن کے گھر مسجدیں ہیں، روح اور رحمت کے ذریعہ، اور اللہ انہیں اپنی رضا اور جنت کے راستے پر گامزن کرتے ہیں”۔ [5]
اعتکاف سنت مؤکدہ ہے جس کی مشروعیت قرآن و سنت اور علماء کے اجماع سے ثابت ہے۔ یہ ایک پسندیدہ عمل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا اور پابندی سے انجام دیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا مستحب ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اعتکاف مستحب ہے، یہ واجب نہیں ہے، اور یہ رمضان کے آخری عشرے میں اس کا ہونا یقینی ہے۔
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لوگوں کی یہ بات تعجب خیز ہے کہ انہوں نے اعتکاف کیسے چھوڑا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی عمل کرتے اور چھوڑ دیتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک اعتکاف نہیں چھوڑا جب تک کہ آپ اس دار فانی سے کوچ نہ کر گئے۔
ایک دن اور ایک رات کا اعتکاف بھی جائز ہے۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں: ایک گھنٹہ ایک لمحے کا اعتکاف کرنا بھی جائز ہے اور اس کا طریقہ کار شافعی حضرات کے یہاں یہ ہے کہ: وہ تھوڑا سا بھی رکوع کرنے کے جتنا ٹھہرے۔
اسی بنا پر اگر کوئی مسلمان مسجد میں محدود وقت تک اعتکاف کرنے کا ارادہ کرے، مثلاََ نماز کا انتظار کرنا ہے تو یہ اس کے لیے صحیح ہے اور اسے اس کا ثواب ملے گا جیسا کہ صحابی یعلی بن امیہؓ نے فرمایا: میں مسجد میں ایک گھنٹہ بھی قیام کرتا ہوں تو اعتکاف کی نیت سے ٹھہرتا ہوں۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کہتے ہیں: "علماء نے اعتکاف کے لئے مسجد کی شرط پر اتفاق کیا اور حنفیوں نے عورتوں کو اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کی اجازت دی ہے، جہاں وہ نماز پڑھتی ہیں، اور بعض علماء نے یہ شرط رکھی ہے کہ اعتکاف جامع مسجد میں ہونا چاہئے تا کہ معتکف جماعت سے محروم نہ رہے۔”
روزے کے بغیر اعتکاف کرنا جائز ہے، مثلاََ وہ شخص جو رات کو اعتکاف کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، کیونکہ رات روزے کی حالت نہیں ہے۔ بعض علماء نے معتکف کے لئے روزہ رکھنے کی شرط رکھی ہے۔ امام مالک اور ابوحنیفہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اعتکاف میں روزہ رکھنا شرط ہے اس لیے روزہ توڑنے والے کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
معتکف کے لیے جائز ہے کہ وہ مسجد سے باہر نکلے، اپنی یا دوسروں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے، بشرطیکہ وہ ضرورت پوری ہوتے ہی یا عذر ختم ہوتے ہی مسجد میں واپس آ جائے، اور اگر وہ جان بوجھ کر بغیر کسی ضرورت کے مسجد سے نکل جائے تو اس کا اعتکاف باطل ہو جائے گا۔
جیسا کہ چاروں اماموں نے فرمایا ہے کہ اکیسویں رمضان کی رات غروب آفتاب سے پہلے، معتکف کا مسجد میں داخل ہونا سنت ہے۔ امام لیث بن سعد، اوزاعی اور ثوری رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ معتکفیں صبح کی نماز کے بعد مسجد میں داخل ہوں۔
دو اماموں، شافعی اور ابو حنیفہ کے مطابق رمضان کے آخری دن غروب آفتاب کے بعد مسجد سے نکلنا جائز ہے۔ جہاں تک امام مالک کا تعلق ہے تو ان کا ماننا ہے کہ معتکفیں کیلئے مسجد سے نکل کر نماز عید کے لیے نکلنا زیادہ بہتر ہے۔
ممنوعہ چیزوں کے بارے میں امام ابن رشدؒ فرماتے ہیں: "علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر معتکف جان بوجھ کر مباشرت کرے، تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مباشرت مسجد میں کی یا جب معتکف کسی عذر یا ضرورت کے لئے باہر نکلے، وہاں کی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "عورتوں سے مباشرت نہ کرو اس حال میں کہ تم معتکف ہو” [البقرہ: 187]۔
معتكف کیلئے نصیحتیں:
معتکف کو عبادت اور ذکر میں مشغول ہونا چاہئے اور رب العزت کے سامنے مکمل طور پر موجود ہونا چاہئے معتکف کی سب سے بڑی مصروفیات یہ ہونی چاہیے۔
نماز: معتکف کو چاہیے کہ وہ باجماعت اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کا شوق پیدا کرے اور تکبیر تحریمہ امام کے ساتھ ادا کرے اور نفل نماز (قبل و بعد) کی، نیکیوں کی حرص کی وجہ سے ادا کرے، اور رات کے وقت سے خوب نیکیاں کمانے کی خواہش میں اضافہ کرے، کیونکہ وہ قیمتی اور انمول وقت ہے، اسے بے توجہی یا بات چیت میں ضائع نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے لیے یہی مشورہ ہے جیسا کہ ابو عمامہ، ابو الدرداء اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے: "قیام اللیل یعنی تہجد کا اہتمام کیا کرو، کیونکہ تم سے پہلے کے صالحین کا یہی طریقہ ہے، اور رات کا قیام یعنی تہجد اللہ سے قریب و نزدیک ہونے کا، گناہوں سے دور ہونے کا اور برائیوں کے مٹنے اور بیماریوں کو جسم سے دور بھگانے کا ایک ذریعہ ہے۔” (6)
تلاوت، حفظ قرآن کریم، فہم قرآن، ذکر، حمد، تہلیل اور تکبیر کا اہتمام کریں۔
اللہ تعالیٰ سے کثرت سے مغفرت طلب کریں اور توبہ کی تجدید کریں اور اپنے رب تعالیٰ سے یہ عہد کریں کہ اکیلے اس کی بندگی کریں گے اور باقی زندگی اس کی راہ پر چلتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے، دعوت دیتے ہوئے، اس کے دین کی مدد کرتے ہوئے گزاریں گے۔
معتکف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مثال بنائے اور انہی کی شبیہ اور عبادت میں ان کی لگن کو دل ودماغ میں مستحضر رکھے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ (دہا) آتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جاگتے اور کمر کس لیتے، اور اپنے گھر والوں کو جگاتے۔” (7) اور انہی سے روایت ہے کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت) میں ایسی محنت کرتے تھے کہ ویسی آپ اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ (8)
اور "شد الميئزر” کا مطلب ہے، عورتوں کو چھوڑنا کیونکہ آپ صلی اللہ معتکف ہوتے تھے، اور معتکف کیلئے عورتیں جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "جب تم معتکف ہو تو ان کے ساتھ مباشرت نہ کرو” [البقرہ: 187]۔ دوسرا مطلب "شد الميئزر”کا، سنجیدگی اور تياری کے ساتھ کام کرنا، اور دونوں معنی درست ہیں۔
خاتمہ:
یہ مضمون ہر ایک کے لئے دعوت ہے کہ وہ سنتِ اعتکاف کو اپنی زندگیوں میں زندہ کریں اور اس کے مال غنیمت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں، مسلمانوں کے پاس جو کچھ بھی موجود ہے، اس کے مطابق جس کو جو وقت، صلاحیت اور قابلیت ہو، وہ ایسا کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرے۔
جو شخص اعتکاف رکھنے کی قدرت رکھتا ہو اور اس کی استطاعت کچھ کم ہو، تو وہ خود کو محروم نہ رکھے یہاں تک کہ دن یا رات کے ایک گھنٹے کے لیے یا نماز کا انتظار کرتے ہوئے بھی اعتکاف کر لے، وہ جب بھی مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کا اعادہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے روزے، قیام اللیل اور نیک اعمال قبول فرمائے۔ آمین یارب العالمین
اللہ تعالیٰ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود و رحمت نازل فرمائے جو اچھے لوگوں کے استاد ہیں۔
ماخذ اور حوالہ جات:
1۔ زاد المعاد في هدي خير العباد (2/82)
2۔ صحيح البخاري.
3۔ لطائف المعارف، لابن رجب، ص 190-191.
4۔ کتاب مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – باب سوم – ص 168۔
5۔ بیہقی نے اسے شعب الایمان (10657) میں روایت کیا ہے اور البانی نے کہا: حسن لغيره۔
6۔ اسے امام احمد، ترمذی، حاكم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
7۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
8۔ المصدر السابق.
مترجم: ڈاکٹر بہاؤالدین