اسلام اپنی متوازن شریعت وقانون اور رواداری پر مبنی تعلیمات کی وجہ سے نظم وضبط کا دین ہے۔ اس (دین) نے افراط وتفریط سے بچتے ہوئے کام اور عبادت کے درمیان کامل توافق قائم کردیا ہے۔ یہی معاملہ روح وجسم، عقل ونقل، اور مادیت وروحانیت کا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے اس کے ذریعے دارِ آخرت کے لیے کوشش کرو اور دنیا میں اپنے حصے کو فراموش نہ کرو اور احسان کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو کیونکہ اللہ تعالیٰ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ [القصص: 77]
اسلام بندے اور اس کے پیدا کرنے والے رب کے درمیان تعلق قائم کرتا ہے تاکہ اس کے قلب وروح کو ایمان کی کرنوں اور نور یقین سے زندہ کردے۔ یہ دنیاوی زندگی کی تعمیر اور اصلاح کرنے کا بیڑہ اٹھاتا ہے اور اسی زمین کی پیٹھ سے انسان کے لیے رزق فراہم کرتا ہے، لیکن اصلاح اور تعمیر کو ایک دوسرے پر حاوی نہیں ہونے دیتا ہے۔
اسلام میں کام اور عبادت کے درمیان توازن:
اسلام نے کام اور عبادت میں دو اصولوں کی بنیاد پر توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے: جب بات کام اور کمانے کی آتی ہے تو اسلام نے زمین کو آباد کرنے اور اس کی پیٹھ سے رزق نکالنے کی ترغیب دی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ زمین پر حق کے ساتھ رہنے کی تلقین بھی کی ہے، اور تمام لوگوں کے ساتھ خیر، عدل اور احسان سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔ جہاں تک عبادت کا تعلق ہے تو اسلام نے بندے اور اس کے خالق و پروردگار کے درمیان تعلق مضبوط کرنے پر ابھارا ہے، تاکہ اس کے اندر ایمان و یقین کی روشنی کے ذریعے زندگی کی نئی روح پھونک دی جائے اور اس کی صاف وشفاف فطرت اور انسانیت نکھر کر سامنے آئے، تاکہ وہ محبت بھری چھاؤں اور نگرانی اور صدق وصفا کے ماحول میں زندگی بسر کرے۔
بلا شبہ عبادت، کام کے لیے ایندھن، کسوٹی، روشنی اور محکم دستور ہے جس کے سامنے خواہشات بھٹکتی نہیں ہیں اور نہ ہی خیالات وافکار گمراہی کے شکار ہوتے ہیں اور نتیجتاً اسلام میں یہ دو اصول انسان کی قوتوں، ترغیبات، اور میلانات کو ملحوظ نظر رکھ کر اس کے بشری تقاضوں اور انسانی قوتوں کو مخاطب کرتے ہیں۔ اس طرح انسان اپنی پوری قوت وتوانائی اور صلاحیتوں کو بغیر کسی کمی، کوتاہی، پابندی، رکاوٹ اور حرج کے بروئے کار لاتا ہے۔ اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔ کوئی بھی بڑا کام کرنے کی ممانعت نہیں ہے، اور نہ فرد کی زندگی بخش قوتوں اور صلاحیتوں کو ضائع کرنے کا کوئی تصور ہے۔
اسلام کی اصل غایت یہ ہے کہ دنیا و آخرت کے عمل میں ایسا توازن قائم کیا جائے جو اس کی عین فطرت کے مطابق ہو اور دنیوی زندگی میں اس کا مقصد پورا ہو، اسے خلافت ارضی کی خلعت نصیب ہو اور اس زندگی میں موجود سہولیات میں کسی چیز کی کمی نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “اور یہ لوگ جب خرچ کرتے تو اسراف سے بچتے ہیں اور بخل سے کام نہیں لیتے ہیں بلکہ ان کا رویہ میانہ روی کا ہوتا ہے” [فرقان: 67]۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: “امہات المومنین کے گھر تین لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق دریافت کرنے آگئے پھر جب انہیں حسبِ حال بتایا گیا تو وہ اس طرح بات کرنے لگ گئے گویا انہیں آپ صلعم کا عمل کم نظر آیا ہو انہوں نے کہا: ” کہاں نبی صلعم کی شان اور کہاں ہم؟ آپ صلعم کی اگلی پچھلی خطائیں بخش دی گئی ہیں، ایک نے کہا: میں تو پوری پوری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا: میں تو ہر دن روزہ رکھوں گا کبھی روزہ نہیں توڑوں گا اور آخری شخص نے کہا: میں عورتوں کو چھوڑ دوں گا کبھی نکاح نہیں کروں گا، پس جب نبی کریم صلعم ان کے پاس آگئے اور کہا: کیا تم وہی وہ لوگ ہو جنہوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ مجھے قسم ہے رب کی میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تقویٰ اختیار کرتا ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں تو روزہ توڑتا بھی ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے” [متفق علیہ]
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نبی صلعم نے عین موقعہ پر آکر اس بڑی غلطی کا ازالہ کردیا جس میں یہ تینوں پڑنے والے تھے۔ یہ وہ غلطی ہے جو انسان کے اندر سے قوت زندگی، اقتصادی وبشری قوت کو دین اور عقیدہ کے نام پر ختم کرنا چاہتی ہے۔ پس رسول اللہ صلعم نے اپنی عظیم رسالت کی صورت میں عبادت کرنے کے صحیح اصول وضوابط دے کر راہ اعتدال کی طرف رہنمائی کی۔
رسول اللہ صلعم کی احادیث ان مزدوروں کی تعریف سے خالی نہیں ہیں جو دن بھر محنت کرکے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ حضور صلعم نے فرمایا: “اگر کوئی مسلمان درخت لگائے یا فصل اگائے پھر اس کا پھل چاہے پرندہ کھائے یا کوئی انسان کھائے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے” [البخاری]۔ اور آپ صلعم نے فرمایا: “کسی شخص نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا ہوگا جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کمایا ہے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی میں سے کھاتے تھے” [البخاری]
معاشی جد وجہد انسان کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ عبادت بن جاتی ہے مثلاً:
- اس کا کام اسلام کی نظر میں حلال ہو۔
- اس کی نیت صحیح ہو۔
- کہ وہ اپنے کام کو ایمان واحسان کے ساتھ انجام دے۔
- کہ وہ اس میں اللہ کی حدود کا خیال رکھے۔
- اسے دنیاوی امور دینی فرائض بجا لانے سے غافل نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اے ایمان والو تمہیں تمہارے اموال اور اولاد اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ کردیں، جو لوگ اس غفلت کا شکار ہوں گے وہی نقصان اٹھانے والے ہیں” [المنافقون: 9] اور فرمایا: “کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ تعالیٰ کی ذکر، اقامت الصلاۃ اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتے وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب دل الٹنے اور آنکھیں پتھرا جانے کی نوبت آئے گی۔ [النور: 37]
جب ایک مسلمان ان باتوں کا خیال رکھے گا اس کی ہر کوشش عبادت بن جائے گی، گرچہ وہ کسی مسجد یا خانقاہ کے محراب میں بیٹھ کر اللہ کی ذکر میں مشغول نہ بھی ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں واضح طور پر آیا ہے کہ جو کام رزق حاصل کرنے کے لیے کیا جائے اور مقصد اللہ کی فرمانبرداری ہ،و تو وہ جائز کام ہے۔ ایسے عمل سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور ایسی عبادت پر ثواب بھی ملے گا۔ تقریباً یہی بات طبرانی نے روایت کی ہے۔
کعب بن عجرہ نے کہا: “ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گذرا صحابہ کرام نے اس کی قوت ونشاط دیکھ کر کہا: “یا رسول اللہ صلعم اگر اس کی قوت جہاد فی سبیل اللہ میں کام آتی ؟ آپ صلعم نے جواباً فرمایا: اگر یہ شخص اس لیے گھر سے نکلا ہے کہ اپنے بچوں کو کھلانے پلانے کے لیے کام کرے، یہ بھی اللہ کی راہ میں ہے، اگر اپنے بوڑھے ماں باپ کو کھلانے کے لیے نکلا ہے، تب بھی اللہ کی راہ میں ہے، یا اگر اپنے لیے گھر سے نکلا ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے، یہ بھی فی سبیل اللہ ہے۔ ہاں اگر اس وجہ سے نکلا ہے کہ دکھاوا اور تکبر کرے تو پھر شیطان کی راہ میں ہے” [الطبرانی]
صحابہ کرام بہت سے پیشوں سے وابستہ تھے اور تجارت کرتے تھے، حتی کہ آپ صلعم کے قریب ترین ساتھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے، لیکن آپ صلعم کی محبت اس کے کام اور تجارت کے آڑے نہیں آئی۔ آپؓ نے حضور صلعم کے دور میں بھی تجارت کی غرض سے بصری کا سفر کیا۔
صحابہ کرام نے علم شریعت حاصل کرنے، قرآن وحدیث حفظ کرنے اور کسب وتجارت کے درمیان اسی توازن کا خیال رکھا، نہ دنیا میں خود کو گم کردیا اور نہ ہی صرف مسجد میں بیٹھ کر رہ گئے۔ یہ وہ درمیانی راستہ ہے جس کے حصول کی توفیق کے لیے ایک مسلمان کو جد وجہد کرنی چاہیے۔
کام اور عبادت میں عدم توازن کے أسباب:
کام اور عبادت میں عدم توازن کے کئی اسباب ہیں جن میں بعض اس طرح ہیں:
- انسان کی تخلیق کی غرض وغایت کو ٹھیک طرح سے نہ سمجھنا جس کے مطابق انسان کو اللہ کی فرمانبرداری، تمدن کی تعمیر اور زمین میں خلافت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
- بعض لوگوں کی سوچ میں تضاد ہوتا ہے، انہیں کچھ چیزوں کے معانی سمجھ نہیں آتے، اس لیے وہ غلط فہمی میں مبتلا ہو کر عبادت کو رہبانیت مان کر کام کرنے سے دور بھاگتے ہیں۔ ان تین اشخاص کی طرح جنہوں نے قسم کھائی تھی کہ نہ نکاح کریں گے، نہ سوئیں گے اور نہ روزہ توڑیں گے۔ لیکن آپ صلعم نے انہیں زندگی کی حقیقت سے آگاہ کیا اور زندگی گزارنے، اس سے لطف اندوز ہونے اور عبادت کرنے کے درمیان توازن قائم کرنے کا مفہوم سمجھایا اور اسی بات کی تشریح کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے: “اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے ذریعے آخرت کے گھر کے لیے عمل کرو لیکن اس دنیا میں اپنے حصے کا نصیب فراموش نہ کرو اور احسان کرو جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا نہ کرو بے شک اللہ تعالیٰ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے [القصص: 77]
- زندگی کے ایک پہلو میں غلو، شدت اور انتہا پسندی اپنا کر اسے دوسرے پہلوؤں پر ترجیح دینا۔
- ایمان کی کمزوری، دین داری، اس کے واجبات اور امر ونہی کو چھوڑ کر صرف دنیا میں مگن رہنا، آخرت کا خیال دل سے نکالنا، دنیا کے فتنوں میں پڑا رہنا، کسی بھی طریقے سے مال حاصل کرنے کی دھن میں رہنا، لیکن اپنی روح اور ذات کو اس کی روحانی اور تربیتی غذا فراہم نہ کرنا۔
ہم خود کو اور اپنے بچوں کو کام اور عبادت میں توازن رکھنا کیسے سکھائیں؟
ہمارے دین حنیف نے کام اور عبادت کے درمیان اتنا واضح نظم ونسق قائم کیا ہے کہ اس میں ایک پہلو دوسرے پہلو پر حاوی ہوکر انسان کی زندگی میں فساد برپا نہیں کرسکتا۔ بچے اپنے ماں باپ میں جو بھی دیکھتے ہیں اس کی تقلید کرتے ہیں اگر والدین اچھے کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں تو بچے بھی اچھا کرتے ہیں، اگر وہ برا کرتے ہیں تو بچے بھی برا کرتے ہیں۔ اس لیے ماں باپ کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت اللہ کی عبادت، اس کی فرمانبرداری اور معاش، کام اور کسب کے درمیان توازن کی محبت پر کریں اور اس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا کریں:
- دنیاوی معاملات میں احکام شریعت کی پابندی کی جائے، لیکن یہ صرف نماز، روزہ، حج، ذکر اور دعا وتلاوت سے نہیں ہوگی، بلکہ یہ دوسرے بہت سے امور میں شریعت نافذ کرنے سے آتی ہے، مثلاً نکاح، طلاق، پرورش، رضاعت، خرید وفروخت، امانت، کفالت، سرپرستی اور لین دین وغیرہ۔
- یہ بہت ضروری ہے کہ انسان جائز وحلال شعبہ میں کام کرے۔ کسی حرام یا ممنوع کام میں مصروف نہ ہو، جس کی وجہ سے اس کے دل پر پردہ پڑ جائے گا اور ایمان کی کمزوری میں مبتلا ہوجائے گا۔
- یہ کہ ایک مسلمان دنیا کے کام، اس کی تعمیر کی کوشش، اور اس میں لوگوں کے لیے بھلائی پھیلانے کے دوران دنیا کو اپنے دل میں بسا کر نہ بیٹھے۔
- ایک مسلمان کو یہ بات سمجھ آجائے کہ اللہ کی عبادت بہت ضروری ہے جس طرح اس کی خرید وفروخت کا کام اہم ہے: “وہ لوگ جنہیں تجارت یا خرید وفروخت اللہ تعالیٰ کی یاد اور نماز قائم کرنے سے نہیں غافل کرتے ہیں” [النور: 37]۔ یہ بات واجب ہے کہ مسلمانوں کو دنیاوی کاروبار، اس کی زینت، اس کی تجارت اور خرید وفروخت اپنے خالق و رازق رب کی یاد سے بیگانہ نہ کرے۔
- اپنی املاک میں سے اللہ کا حق نکالے، مال کا حق چھوڑ دے، اس کی زکوٰۃ ادا کرے، اسی طرح زراعت کا حق، اپنے کام اور تجارت میں اللہ کی رضا کو مدنظر رکھے۔
- اپنے بچوں کے لیے گھر، مسجد، سڑک اور اسکول میں اچھا ماحول اور اچھی صحبت فراہم کریں۔ ضروری ہے ان کے لیے اپنی ذات میں بہترین رول ماڈل فراہم کریں، جس میں عبادات اور دنیوی کاموں کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ اپنے بچوں کی سرپرستی اورنگرانی میں نرمی اور ضبط سے کام لیں، انہیں زیادہ لارڈ پیار اور لاپرواہی میں نہ چھوڑیں، بلکہ انہیں ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیار کریں۔
- بچوں میں فرق نہ کریں اور انہیں بری صحبت میں نہ رہنے دیں۔ انہیں میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے گندے پروگراموں کے حوالے نہ کریں۔ انہیں حفظ قرآن، نفع بخش علم کے حصول اور نیک اعمال کی طرف راغب کریں، اور اللہ تعالیٰ کی ذکر کرنے اور قرآن پڑھنے میں لگا دیں، انہیں مہارت اور کوئی بھی کام سیکھنے کے دوران اپنی شخصیت پر اعتماد کرنا سکھائیں، جب تک اس میں مہارت نہ حاصل کریں گے۔
- بچوں کو حوصلہ افزائی اور آمادہ کرنے کے لئے ترغیب کا طریقہ اپنانا، بچوں کی عمر کے مختلف مراحل کی رعایت کرنا، انہیں وقت کی پابندی اور تنظیم سکھانا، نرمی اور سختی میں توازن رکھنا۔
- بچوں کو زندگی اور تعلیم میں اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے پر ابھارنا کیونکہ اس سے ان کا دین بھی مضبوط ہوگا اور یہ وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان بہت سے نیک اعمال کرنے اور اللہ کا اجر حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
- تعلیمی وتربیتی کانفرنسیں منعقد کروانا اور ان قابل اعتماد نمونوں کا مطالعہ کرنا جو کام اور عبادت کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئے، جس طرح بہت سارے صحابہ نے تجارت اور مال ودولت کمانے میں کامیاب ہوئے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم صلعم نے ان کو حسن عمل اور اللہ کے قریب ہونے کی وجہ سے جنت کی بشارت دی۔
انسان کی زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں دنیا اور آخرت کا راستہ ایک دوسرے سے ملتا ہے۔ اس لیے آخرت کی بھلائی کا راستہ وہی ہونا چاہیے جو دنیا کی بھلائی کا راستہ ہوگا۔ جس طرح دنیا میں پیداوار، نشوونما اور ترقی خوشحالی کی ضمانت دیتی ہیں، اسی طرح انہی چیزوں کی فراوانی آخرت میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے۔ البتہ اس تمدن ارضی کی پشت پر ایمان وتقویٰ اور عمل صالح کی سند ہونی چاہیے، کیونکہ یہی چیزیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اخروی سعادت حاصل کرنے کے وسائل ہیں اور یہی اصل میں انسانی زندگی کی فطرت ہے۔
البتہ یہ حقیقت تب تک حاصل نہیں ہوسکتی ہے جب تک کہ زندگی کو اس طریقہ پر نہ چلایا جائے جس طریقہ کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے پسند کیا ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جو عمل کو عبادت بناتا ہے اور زمین میں اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق خلافت چلانے کو فرض قرار دیتا ہے، اور اسلامی طرز فکر وعمل سے دنیا کے کام اور آخرت کے عمل میں توافق وہم آہنگی پیدا کی جاتی ہے۔ پس آخرت حاصل کرنے سے انسان کی دنیا نہیں ختم ہو جاتی ہے اور نہ دنیا حاصل کرنے کی وجہ سے اس کی آخرت چلی جاتی ہے، یہ دونوں اسلامی تصور میں ایک دوسرے کی ضد اور بدلے نہیں ہیں۔
مآخذ وحوالہ جات:
اسلام میں عبادت کا تصور۔۔۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی، مکتبہ وہبہ قاہرہ، 1416؛ 1995
بندگی، ابن تیمیہ رحمہ اللہ، عبد الرحمن البانی کی تحقیق ، ط7، بیروت، 1426؛2005
قرآن کے سائے میں، سید قطب، تفسیر سورۃ المائدہ، آیت:66
عبادت اور کام میں توازن، تحریک اصلاح، 7 اپریل 2022
دنیاوی اور اخروی معاملات میں ہم آہنگی، محمد صالح المنجد ،18شوال 1424ھ
ہم اپنے بچوں کو عبادت کی محبت کیسے سکھائیں؟ شیخ احمد عقیلی، 10 دسمبر 2021
مترجم: سجاد الحق