اسلام انسانی مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، خصوصاََ غربت وافلاس کا مسئلہ، جو حالیہ اقتصادی بحران کی وجہ سے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے دور سے یہ بحران کچھ ایسے اقتصادی اور سماجی رجحانات کی مرہون منت رہا ہے جس نے ترقی یافتہ اور پسماندہ ہر دو ممالک پر برابر اثر ڈالا ہے۔ چنانچہ ہر امیر ملک میں غریب لوگوں کا ایک بڑا طبقہ موجود ہے، اور ہر غریب ملک میں غربت کے باوجود دولت کا ایک بڑا حصہ چھوٹے سے مخصوص گروہ کے ہاتھوں میں جمع ہوکر رہ گیا ہے، جو امیر طبقہ کہلاتا ہے۔
اسلام کی نظر میں غربت ایک بلا اور مصیبت ہے، اس لئے اسلام نے اس سے چھٹکارا پانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور اللہ کی کتاب میں بھی مفلسوں کی تعریف میں کوئی آیت نہیں آئی ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی صحیح حدیث غربت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی ہے اور اپنی دعاؤں میں فقر کو کفر کا قرینہ قرار دیا ہے۔

غربت قرآن و سنت کی نظر میں
عربی زبان میں فقر سے مراد تنگ دستی، کسی چیز کی کمی یا اس کی عدم دستیابی ہے، یعنی مال کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے کسی فرد کا اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہونا ہے۔ قرآن مجید کی آیات میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {اپنے بچوں کو افلاس سے قتل نہ کرو، تمہاری طرح ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں} [الانعام: 151] دوسری جگہ فرمایا: {اپنے بچوں کو غربت کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں اور انہیں دونوں کو رزق دیں گے یقیناََ انہیں قتل کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔} [الاسراء: 31]
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے: {اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں اور رحمتیں کھول دیتے، لیکن جب انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کرتوتوں کی پاداش میں پکڑ لیا} اور یہ مصیبت اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی ٰ فرماتا ہے: {اور ہم تمہاری خوف، بھوک، جان ومال اور پیداوار کے نقصان سے آزمائش کریں گے۔ اور اس پر صبر کرنے والوں کو خوشخبری دو۔} [البقرہ: 155]۔
اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق کرکے اس میں برکت رکھ دی، اس کے اندر مناسب مقدار میں غذا فراہم کر دی اور اس کے اندر اور باہر رزق کی اتنی فراوانی اور برکتیں جمع کردیں کہ اللہ کے تمام بندے کسی تنگدستی اور فاقہ کے بغیر خوشحالی سے زندگی بسر کرسکیں۔ اللہ جل و اعلیٰ نے فرمایا: {ہم نے تمہیں زمین میں بسایا اور اس میں تمہارے لیے زندگی کا ساز وسامان مہیا کیا لیکن تم لوگ کم ہی شکر کرتے ہو} [اعراف: 10]
یہ مال اور برکتیں صرف انتھک محنت، جہد مسلسل اور دوڑ دھوپ سے حاصل کی جا سکتی ہیں: {وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے بچھا کر رکھا، پس اس کے راستوں پر چلو اور اس کے رزق میں سے کھاؤ اور آخر کار اسی کے پاس جمع ہونا ہے} [الملک: 15]۔ تو جس نے کوشش کی اور زمین میں پھیل گیا اور اللہ کے فضل اور رزق کی تلاش میں مختلف جگہوں کا سفر کیا وہی اس کی نعمتوں کا مستحق ہے، اور جو بیٹھا رہا، سستی، کہالت اور خواہشوں میں مبتلا ہوا وہ اس لائق ہے کہ اللہ کی نعمتوں سے محروم رہے۔
قرآن مجید نے تنبیہ کی ہے کہ بھوک ایک طرح کا عذاب ہے جو اللہ نے اپنی نعمتوں کا کفر کرنے والی قوموں کو دیا: {اور اللہ ایک ایسی بستی کی مثال بیان کرتا ہے جو امن وامان اور خوشحال زندگی بسر کرتی تھی اس پر ہر جگہ سے رزق کی بارش ہورہی تھی، جب انہوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا، تو اللہ نے انہیں اعمال بد کی پاداش میں بھوک اور خوف میں مبتلا کردیا۔} [النحل: 112]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غربت سے پناہ مانگی ہے اور اسے کفر تک پہنچانے والی چیز قراردیا ہے اور فرمایا: {اے اللہ میں کفر اور افلاس سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔} [ابوداؤد] ایک اور حدیث میں آیا ہے:{ اے اللہ میں تجھ سے فقیری، قلت اور ذلت سے پناہ مانگتا ہوں اور تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں ظلم کروں یا مجھ پر کوئی ظلم کرے۔} [ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ]۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:{ ایک بندے کو اس کے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کیا جاتا ہے۔} اس کے بالمقابل خوشحالی ایک نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ بلکہ اللہ نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو استغنا سے نوازا تھا اللہ فرماتا ہے:{ اور اللہ نے آپ کو تنگ دست پایا پھر غنی کردیا} [الضحی: 8]، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے، ہدایت اور تقویٰ کے ساتھ خوشحالی بھی مانگا کرتے تھے، فرماتے ہیں: ”اے اللہ میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاکیزگی اور دولت کی بے نیازی مانگتا ہوں”۔ [مسلم]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف اور دیگر صحابہ کی تجارت میں برکت کی دعا کی اور اپنے خادم انس رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: {اے اللہ اس کے مال میں اضافہ فرما۔}، اور فرمایا: {مجھے مال نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال جیسا فائدہ نہیں پہنچایا۔} [احمد وابن ماجہ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکینوں کو اجازت دی ہے کہ لوگوں سے مانگیں، فرمایا: {ہاتھ پھیلانا صرف تین لوگوں کے لئے جائز ہے: جو انتہائی مفلس ہو، جو قرض میں ڈوب چکا ہو، یا جس پر خون بہا لازم ہو} [مسلم]۔

اسلام میں غربت سے لڑنے کے وسائل
اسلام نے فقر وفاقہ سے لڑنے کے لیے بہت سے ذرائع مقرر کیے ہیں ذیل میں بعض کا ذکر ہے:
- اس بات پر ایمان کہ رزق کے خزانے اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے: {اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ چیز ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے تو زمین وآسمان کے رب کی قسم یہ بات اتنی ہی سچ ہے جتنا یہ کہ تم بول سکتے ہو} [الذاریات: 22،23]، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے سب اسی کا ہے} [طہٰ: 6]۔
- دعا اور استغفار: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {میں نے ان سے کہا اپنے رب سے مغفرت طلب کرو کہ وہ بخشنے والا ہے۔ وہ آسمان سے تم پر خوب بارشیں برسائے گا اور تمہیں مال و اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ اگائے گا اور تمہارے لیے نہریں بہائے گا} [نوح: 10-12]۔ اور فرماتا ہے: {اور اپنے رب سے معافی مانگو اور اس سے توبہ کرو وہ مدت مقررہ تک تمہیں متاع حسنہ سے نوازے گا اور فضل والوں کو ان کا فضل عطا کرے گا} [ہود: 3]۔
- کوشش، عمل اور کمانے کی تلقین: قدرت رکھنے والے پر تلاش معاش کی جد وجہد واجب ہے اس علم کے باوجود کہ رزق اللہ تعالیٰ نے لکھ رکھا ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ عاجزی اختیار کرے، اور کسی کام پر تکبر نہ کرے۔ جائز عمل اور کوشش میں عزت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو مختلف پیشے سیکھنے کی طرف رغبت دلاتے اور ابھارتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود نبوت سے پہلے بھیڑ بکریاں چراتے تھے، اور پھر اس کے بعد تجارت کرتے تھے۔
- مالدار لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے غریب رشتہ داروں کی کفالت کریں: اس وقت جب مفلسی کام کرنے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے ہو، بڑھاپا ہو یا خاندان کے سربراہ یا کمانے والے کی موت ہوئی ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو} [الاسراء: 26]۔
- زکوٰۃ: زکوٰۃ کے مال میں غریب کا حصہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {صدقات صرف غریبوں اور مساکین کے لیے ہیں) [التوبہ:60] یہ ان حقوق میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے غریبوں کے لیے مقرر کیے ہیں۔
- خیراتی وقف: یعنی ایک شخص اپنے مال ودولت سے الگ اپنی کوئی پراپرٹی وقف کرے جس کا صدقہ جاریہ جائز امور میں کام آئے۔ یہ وقف طے شدہ اشیاء میں ہونا چاہیے، جیسے: ریل اسٹیٹ، زمینیں اور منقولہ اثاثے جن کا فائدہ باقی رہتا ہے، جو استعمال کے بعد تبدیل نہیں ہوتا ہے۔
- صدقہ: یہ وہ تحفہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب طلب کیا جاتا ہے۔ اس کی فضیلت کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہر دن کے آغاز میں دو فرشتے انسان پر نازل ہوتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ خرچ کرنے والے کو مزید دے اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ روکنے والے کو تباہ وبرباد کر دے۔} [متفق علیہ]۔
- لوگوں کے بیچ معاملات کو منظم کرنا: لوگوں کے درمیان ان چیزوں کی ممانعت جن سے غربت پیدا ہوتی ہے یا لوگوں کے حقوق سلب ہوتے ہیں، جیسے کہ سود کی ممانعت، کیونکہ اس سے ترقی رک جاتی ہے، پسماندگی پیدا ہوتی ہے، اور غریب غریب تر ہوجاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {سات ہلاک کرنے والی باتوں سے بچو، اور ان میں سود کا ذکر کیا۔}
- کھانے پینے کی چیزیں اور قربانی: ان میں وہ جانور بھی شامل ہیں جو مناسک حج میں ذبح کیے جاتے ہیں اور جن میں غریبوں کا حصہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {پس اسے خود کھاؤ اور حاجت مندوں اور فقراء کو کھلاؤ} [حج: 36]۔
- قربانی: یہ وہ قربانی ہے جوعید الاضحی پر کی جاتی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن واقد رضی اللہ عنہ کی حدیث کے آخر میں فرمایا جسے مسلم نے روایت کی ہے: {کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو۔}
- عقیقہ: یہ نوزائیدہ بچے کے ساتویں دن ذبح کیا جاتا ہے لڑکے کو دو بھیڑیں اور لڑکی کو ایک بھیڑ ذبح کی جاتی ہے اور مسکینوں کو اس میں حصہ دیا جاتا ہے، بلکہ حدیث میں آیا ہے جسے احمد نے اپنی مسند اور بیہقی نے سنن کبریٰ میں رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ سے فرمایا: {اس کے بال منڈوا دو اور اس کے وزن کے برابر اصحاب صفہ یا مسکینوں پر صدقہ کرو۔}
- لیڈر کی سرپرستی اور دیکھ بال: جسے ہمارے دور میں عام لوگوں کی حکومت یا ریاست اور فلاحی ریاست کہا جاتا ہے، اور جس کے لیے حکومت کو لوگوں کے سامنے یا پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، اللہ سبحانہ فرماتے ہیں: {اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے حوالے کردو، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو} [النساء: 58] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {تم سب چرواہے ہو اور تم سب اپنے اپنے ریوڑ کے ذمہ دار ہو، امام ایک چرواہا ہے جو اپنے ریوڑ کا ذمہ دار ہے۔} [بخاری]
اسلام نے شروع سے ہی غربت کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف توجہ دی ہے اور اسے دور کرنے کی ذمہ داری کو فرد اور ریاست کی مشترکہ ذمہ داری قرار دیا ہے، لہذا فرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کام میں مہارت حاصل کرنے اور پیداوار میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے اور اس سب کوعبادت سے جوڑے۔ لیکن ان سب باتوں سے پہلے اللہ پر ایمان رکھے کہ وہ رزاق ہے اور اپنے بندوں کو خیرات و برکات کی نعمتیں عطا کرتا ہے۔
ماخذ اور حوالہ جات:
- صالح بن عبداللہ بن حمید: اسلام میں غربت اور اس کا علاج۔
- جزیرہ سعودی عرب ویب: غربت سے لڑنا مسلمانوں پر فرض ہے تاکہ محتاجوں کی کمزوریوں کی تلافی کریں۔
- ڈاکٹر راغب السرجانی: غربت اور بے روزگاری کا نبوی علاج۔
- یاسین الشرجبی: غربت کے خاتمے کے لیے اسلام کی پالیسی۔
- اسلام سوال و جواب: غربت اور اس کے برے اثرات اور اسلام میں اس کے خاتمے کے ذرائع۔
- اسلام میں غریبی کا علاج : علامہ یوسف القرضاوی
مترجم: سجاد الحق