تیراکی، تیر اندازی، کشتی اور دوڑ ان معیاری کھیلوں میں سے ہیں جو زمانہ جاہلیت سے معروف تھے، اور جب اسلام آیا تو اس نے انہیں برقرار رکھا بلکہ مسلمانوں کو ان کی مشق یا مشاہدہ کرنے کی ترغیب دی، کیونکہ یہ کھیل انسان کے نفس کو عبادات اور دیگر ذمہ داریوں کے لیے آمادہ کرتے ہیں، کیونکہ جب نفس کسی کام سے تھک جائے تو اسے بوجھل محسوس ہوتا ہے۔ البتہ آج بعض کھیلوں میں جو شرعی خلاف ورزیاں پائی جاتی ہیں وہی ممنوع ہیں۔
رشید ناجی الحسن کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کھیل اگرچہ مفید ہیں لیکن جب یہ اپنی جائز حدود سے نکل کر آفت بن جائیں، اور عوام کو ان کی خاطر اپنی ذمہ داریاں چھوڑنے پر آمادہ کر دیں، تو اس کے نتیجے میں شور شرابہ، گالیاں، طعنے اور مذموم تعصب جنم لیتا ہے، جو دوستوں اور جاننے والوں کے درمیان سخت اختلافات اور شدید جھگڑوں کا باعث بنتے ہیں۔
ریاضت کا مفہوم:
ریاضت لغوی اعتبار سے “راض” سے ماخوذ ہے۔ کہا جاتا ہے: راضَ المُهْرَ يُروِّضُه رِياضًا ورياضَة، یعنی اسے فرمانبردار اور قابو میں کر لیا۔ جسمانی ریاضت سے مراد جسم کو مختلف حرکات و سکنات کے ذریعے اس طرح سنوارنا ہے کہ اعضاء اپنی ذمہ داریاں سہولت کے ساتھ انجام دے سکیں۔
سعدیؒ نے ریاضت کی نہایت جامع تعریف یوں کی ہے: یہ اُن امور کی مشق اور تربیت ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچائیں، اور اُن نافع ذرائع پر محنت ہے جن کے ذریعے بلند مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
اسلام نے ریاضت کو خاص اہمیت دی ہے، کیونکہ یہ انسان کے فطری وجود کا ایک ضروری پہلو ہے۔ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات قوت حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ ومِن رِّبَاطِ الخَيْلِ، ترجمہ: “اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو” [الأنفال: 60]۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے (طالوت) پر بھی یہ انعام جتایا کہ اسے علم کے ساتھ ساتھ قوی جسمانی صلاحیت عطا کی:
وزَادَهُ بَسْطَةً فِي العِلْمِ والْجِسْمِ، ترجمہ: “اس کو دماغ و جسمانی دونوں قسم کی اہلیت فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں” [البقرة: 247]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مضبوط اور صاحبِ قوت مومن کو زیادہ بہتر قرار دیا اور فرمایا:
“المؤمن القوي خيرٌ وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف، وفي كلٍّ خير، ترجمہ: “قوی مومن ضعیف مومن سے بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ پسند ہے اگرچہ کہ دونوں میں خیر ہے”
اور یہاں قوت کا مفہوم وسیع ہے: قوتِ عزم و ہمت، قوتِ ارادہ، اور ساتھ ہی وہ جسمانی طاقت جو عبادت اور جہاد کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے ضروری ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ بھی کامل اور مضبوط جسمانی ساخت کی مالک تھی۔ کتبِ حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مضبوط بدن والے، کشادہ سینے والے، چوڑے کندھوں والے، بڑے جوڑوں والے، بازوؤں اور کلائیوں میں قوت رکھنے والے، اور ہاتھ پاؤں میں وسعت رکھنے والے تھے۔ نہ بہت لمبے تھے نہ بالکل پست قد۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے دَور میں جسمانی طاقت کے مقابلوں میں انہی اعضا کو پیمائش اور معیار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اور جس کا جسم ان اوصاف کا حامل ہو، وہی اصل فاتح اور چیمپیئن سمجھا جاتا ہے۔
کھیل کود کے احکامات:
ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص شریعت کے جزوی نصوص پر غور کرے تو اُسے نہ قرآنِ کریم کی محکم آیات میں اور نہ ہی سنتِ نبویہ کی صحیح روایات میں کھیل، ورزش اور تفریح کو بذاتِ خود حرام قرار دیا گیا ملتا ہے، سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ کوئی شرعی طور پر ممنوع امر شامل ہوجائے یا وہ کسی فساد کا سبب بنے۔
اسلام نے اس بات کو مدنظر رکھا ہے کہ اگر کھیل اور ورزش کا مقصد جسم کو اس لائق بنانا ہے کہ وہ فریضۂ جہاد ادا کرسکے اور اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے قابل ہو تو یہ عمل مطلوب ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے بعض کھیلوں کو پسند کیا ہے کیونکہ اُن میں فائدہ ہے۔ اور اگر مقصد محض دل کا بوجھ ہلکا کرنا اور نفس کو راحت دینا ہو تو ورزش مباح ہے۔ لیکن اگر اس میں کوئی حرام پہلو شامل ہو جائے، جیسے نماز کو ضائع کرنا، ستر کھولنا، عورتوں کے ساتھ اختلاط یا اس جیسی کوئی اور خرابی، تو پھر وہ کھیل حرام ہو جائے گا۔
مباح کھیلوں میں شامل ہے: جائز دوڑ یا گھوڑوں پر مقابلے وغیرہ۔ اسی طرح مباح کھیلوں میں وہ تمام کھیل آتے ہیں جنہیں آج “ایتھلیٹکس” کہا جاتا ہے، جیسے چلنا، دوڑنا، چھلانگ لگانا، تیر اندازی، وزن اٹھانا وغیرہ۔ اسی طرح گیند کے کھیل جیسے فٹ بال، باسکٹ بال اور دیگر بھی شامل ہیں، بشرطیکہ ان میں حد سے زیادہ مشغولیت اور اسراف نہ ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وكُلُوا واشْرَبُوا ولا تُسْرِفُوا إنَّهُ لا يُحِبُّ المُسْرِفِينَ، ترجمہ: “کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو، بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔” [الأعراف: 31]
پس قاعدہ یہ ہے کہ مباح چیز میں بھی اگر اسراف کیا جائے تو وہ حرام ہو جاتی ہے یا کم از کم حرام کے قریب جا پہنچتی ہے۔
مستحب کھیلوں میں شامل ہیں: تیر اندازی، نیزہ بازی، گھڑ سواری، تیراکی اور ہر وہ چیز جو جنگ میں مفید ہو۔ (آج کے دور کے حساب سے نشانہ بازی وغیرہ)
اور مکروہ کھیلوں میں شامل ہے: پرندوں اور کبوتروں کے ساتھ کھیلنا، کیونکہ یہ اصحابِ مروّت کے شایانِ شان نہیں، بلکہ کبھی یہ حرام بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو کبوتر کے پیچھے بھاگ رہا تھا تو فرمایا: “شیطان شیطاننی کے پیچھے بھاگ رہا ہے”۔ اسی طرح ہر وہ کھیل جس میں کوئی فائدہ نہ ہو مکروہ ہے، کیونکہ اس میں وقت ضائع ہوتا ہے اور ذکرِ الٰہی اور نماز سے غفلت ہوتی ہے۔
اسی طرح حرام کھیلوں میں شامل ہے: ہر وہ کھیل جس میں جوا ہو، یعنی ایک جیتے اور دوسرا ہارے، کیونکہ یہ مَیسِر (جوا) ہے جس سے اللہ نے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح حرام کھیلوں میں شامل ہیں: آزادانہ کشتی اور باکسنگ (جس کے قوانین و قواعد نہ ہوں اور جان کو خطرہ ہو)، مرغوں کو آپس میں لڑانا، جانوروں کو ٹکرانا، بیلوں کی لڑائی وغیرہ، کیونکہ ان میں انسان یا حیوان کی جان و صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہاں، اگر کشتی یا باکسنگ میں کسی فریق کو کوئی ضرر نہ پہنچے تو یہ جائز ہے، اور یہ بھی جائز ہے اگر اس میں انسان کو طاقت، جنگی مہارت اور اپنے دفاع کی تربیت ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ ایک مشرک سے کشتی کی اور اسے پچھاڑا۔
کچھ کھیل ایسے بھی ہیں جو اپنی اصل میں جائز ہیں لیکن وہ کراہت یا حرمت تک پہنچ سکتے ہیں، جیسے شکار۔ ضرورت کے وقت شکار جائز ہے، لیکن صرف کھیل تماشے کے طور پر شکار مکروہ ہے، اور اگر اس میں لوگوں پر ظلم ہو جیسے ان کی کھیتی یا مال پر حملہ، یا اسراف ہو، تو پھر یہ حرام ہے۔
جہاں تک احتراف (کھیل کو بطور پیشہ اپنانا) کا تعلق ہے کہ کوئی شخص کھیل کو مستقل اور منظم طریقے سے بطور پیشہ اپنائے اور اسی سے اپنی بنیادی روزی کمائے … تو اس بارے میں معاصر علماء کے تین اقوال ہیں: مکمل حرمت، جواز مع کراہت، اور جواز بشرطِ قیود و ضوابط۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑ سواری کی بھی ترغیب دی ہے، جو گھوڑے پر سوار ہونے، اسے سدھانے، اس کی حرکات کو قابو میں رکھنے اور اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ایک مربوط انداز میں چلنے کی صلاحیت ہے۔ صحیحین میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے درمیان دوڑ کرائی اور جو آگے نکلا اسے انعام دیا، جیسا کہ مسند احمد میں ہے۔ اسلام نے اس کھیل کو اس لیے اہمیت دی کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ اور امت و وطن کے دفاع کے لیے طاقت اور قوت کی تیاری سے وابستہ ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیراکی کی بھی ترغیب دی، باوجود اس کے کہ مکہ اور مدینہ یا ان کے گردونواح میں نہ دریا تھے نہ سمندر۔ تیراکی وہ کھیل ہے جو دیگر کھیلوں کی نسبت جسم کے لیے زیادہ مفید ہے، کیونکہ یہ اعصابی نظام کو مضبوط کرتی اور پٹھوں کو نشوونما دیتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر وہ چیز جو ذکرِ الٰہی سے خالی ہو وہ لہو و لعب ہے، سوائے چار چیزوں کے: “آدمی کا دو نشانے (تیر اندازی کی جگہ) کے درمیان چلنا، اپنے گھوڑے کو سدھانا، اپنے گھر والوں کے ساتھ کھیلنا، اور تیراکی سکھانا”۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلواروں سے مشق اور مبارزت کی بھی ترغیب دی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشیوں کو اپنی مسجد میں برچھیوں سے کھیلنے کی اجازت دی، جیسا کہ حدیث میں صحیح طور پر ثابت ہے۔
ان کھیلوں میں سے ایک جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کیا، وہ پیدل چلنا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں: “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر تیز چلنے والا کوئی نہیں دیکھا، گویا زمین آپ کے لیے لپیٹ دی جاتی تھی۔ ہم چلتے تو تھک جاتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تھکن ظاہر نہ ہوتی تھی … ایک روایت میں ہے کہ ہم اپنی جان لگا دیتے مگر آپ پر اس کا اثر نہ دکھائی دیتا۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے طائف تک (جو تقریباً 110 کلومیٹر کا فاصلہ ہے) اپنے قدموں پر چل کر گئے۔
اسلام میں کھیل کود اور ورزش کے حوالے سے درج ذیل مقاصد اور شرعی ضوابط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہیں تاکہ یہ عبادت کے درجے میں آ جائیں اور باعثِ اجر ہوں، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جیسا کہ امام نوویؒ فرماتے ہیں: مباح عمل بھی اگر اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے تو وہ اطاعت اور موجبِ ثواب بن جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: “یہاں تک کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو، تمہارے لیے صدقہ ہے”۔
ان میں سے اہم ضوابط درج ذیل ہیں:
- عورت و مرد کی ستر پوشی: کھیل کے دوران شرعی پردہ لازمی ہے۔
- مسابقت کی آڑ میں دشمنی سے اجتناب: کھیل کو سببِ دوستی یا دشمنی نہ بنایا جائے، کیونکہ دوستی اور دشمنی صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ قرآن میں ہے: وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ، ترجمہ: “مومن مر د اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں” [التوبہ: 71]۔
اس کی تشریح میں قرطبیؒ نے فرمایا: یعنی ان کے دل محبت، دوستی اور ہمدردی میں ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ - خطرناک کھیلوں سے پرہیز: وہ کھیل یا مشغلے ممنوع ہیں جن میں جان یا جسم کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق نقصان پہنچے، کیونکہ مقصد صرف جسمانی تربیت ہے نہ کہ ایذا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ، ترجمہ: “اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو” [البقرہ: 195]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ خود نقصان پہنچاؤ اور نہ دوسروں کو نقصان دو۔ - اختلاط سے اجتناب: کھیلوں میں مرد و زن کا آزادانہ میل جول ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میں اپنے بعد مردوں پر عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑ رہا”۔
- حرام کمائی سے بچاؤ: کھیلوں کو قمار اور حرام شرط بندی کا ذریعہ نہ بنایا جائے جیسا کہ آج کے بیشتر گھڑ دوڑ کے مقابلے ہیں۔
- طاقت کا صحیح استعمال: اسے صرف اللہ کی اطاعت، دوسروں کی مدد اور حق کی نصرت میں استعمال کرنا چاہیے، اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِّلْمُجْرِمِينَ، ترجمہ: “اے میرے ربّ، یہ احسان جو تُو نے مجھ پر کیا ہے اِس کے بعد اب میں کبھی مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا” [القصص: 17]، یعنی وہ علیہ السلام چاہتے تھے کہ جو نعمتیں اللہ نے انہیں عطا کی ہیں وہ مظلوموں کے دفاع اور حق کی نصرت میں استعمال ہوں، نہ کہ ظالموں کے ہاتھوں میں کوئی ہتھیار بنیں۔
- مخلوقات کو ایذا دینے سے اجتناب: مخلوقات کو، خواہ انسان ہوں یا جانور، جان بوجھ کر اذیت نہ دی جائے، جیسے پرندوں کو نشانہ بازی کی مشق کے لیے ہدف بنانا، یا جانور کو تکلیف دینا، یا محض تفریح کی خاطر پرندوں اور جانوروں کو آپس میں لڑانا، جیسا کہ بیلوں کی لڑائی وغیرہ۔
- اعتدال کی پابندی: کھیل میں اسراف اور غلو سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ مباح میں بھی زیادتی ناپسندیدہ ہے۔
خواتین کے لیےورزش کے ضوابط:
عورت کو مرد کے مقابلے میں ورزش کی زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ اس کی حرکت کم ہوتی ہے اور اس کے کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے، پھر عورت کی فزیولوجیکل زندگی، جیسے حمل، ولادت، بعد از حمل کے حالات اور ماہواری کا سلسلہ، یہ سب اسے ورزش کی سخت ضرورت مند بناتے ہیں۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ آج کے دور میں عورتیں کھیلوں میں مشغول مرد کو پسند کرتی ہیں، اور مرد، نازک اندام و ورزش کرنے والی متناسب عورت کو اپنی دوسری ہم عمروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ غالباً یہی وہ خوشی ہے جس کا ذکر حدیث شریف میں آیا ہے کہ میاں بیوی دونوں اپنے جسم اور ہیئت کا خیال رکھیں، اور ورزش اس میں شامل ہے۔
چونکہ شریعت کے احکام اصولاً مرد و عورت دونوں کے لیے عام ہیں، سوائے ان کے جن میں کسی ایک کے لیے خاص دلیل موجود ہو، اور چونکہ ورزش کا اصل حکم جواز ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ عورت کے لیے کھیل کود اور ورزش کرنا جائز ہے، بلکہ بعض اوقات مستحب بھی ہوتا ہے، البتہ شرائط اور ضوابط کے ساتھ۔
یہ بات بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ کئی مرتبہ دوڑ لگائی، اور یہ بھی کہ قوت کی تیاری کی فضیلت بیان کرنے والے شرعی نصوص تمام مسلمانوں کو شامل کرتے ہیں، خواہ مرد ہوں یا عورت، ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق۔ عورت مرد کی ہمشیرہ ہے، وہ بھی اپنے جسم کو بنانے اور طاقت حاصل کرنے کی ضرورت رکھتی ہے تاکہ اپنے رب، اپنے گھرانے اور اپنے معاشرے کے حق ادا کرسکے، اور وہ ان عمومی نصوص شرعیہ میں شامل ہے۔
یہ بھی ثابت ہے کہ بہت سی خواتین عہدِ نبوی اور اس کے بعد جہاد میں شریک ہوئیں۔ مثلاً نسیبہ بنت کعبؓ، جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کے لیے تیر اندازی کی۔ خولہ بنت الأزورؓ نے جنگ یرموک میں رومیوں کے دلیر سپاہیوں کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب ان کی تلوار گر گئی تو خیمے کی لکڑی سے لڑیں اور مسلمانوں قیدیوں کو آزاد کرایا۔ اسی طرح حضرت خنساءؓ جنگ قادسیہ کے موقع پر، اور دوسری مسلم خواتین نے بھی اپنے شوہروں کی خدمت گھر اور باہر دونوں جگہ کی، جیسا کہ حضرت فاطمہؓ، اور حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ، جو زبیرؓ کے باغات سے گھٹلیاں لایا کرتی تھیں تاکہ ان کے جانوروں کو چارہ ڈال سکیں، اور وہ ان کے گھوڑوں کی خدمت بھی کرتی تھیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کے لیے سب سے بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی وہ کھیل یا ورزش کرے جو اس کے لیے موزوں ہو۔ البتہ اگر اسے گھر سے باہر ورزش کی ضرورت پیش آئے تو لازماً شرعی ضوابط کی پابندی کرے، جن میں یہ امور شامل ہیں:
- یہ کہ وہ جگہ جہاں عورت ورزش کرے مردوں سے خالی ہو اور نگاہوں سے چھپی ہوئی ہو، حتیٰ کہ وہاں کام کرنے والے ملازمین بھی نہ ہوں، اور نہ ہی کسی اجنبی مرد کے ساتھ خلوت کا اندیشہ ہو۔ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ وہاں کیمروں کی تنصیب نہ ہو۔ اس سلسلے میں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہؓ کے ساتھ دوڑ لگائی تو پہلے مردوں کو آگے بھیجا اور عائشہؓ کو ان سے پیچھے رکھا۔ اس سے دو اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں: پہلی یہ کہ عورت کے لیے کھیل کود شرعاً مشروع ہے، اور دوسری یہ کہ اس میدان میں عورت کی خصوصیت اور شرعی ضابطے ملحوظ رکھے جائیں۔
- احتشام کے ساتھ اسلامی لباس زیب تن کرے، اور ایسی چیز ظاہر نہ کرے جس کا ظاہر کرنا جائز نہیں۔ کپڑے ڈھیلے ڈھالے ہوں، خواہ وہاں صرف عورتیں ہی موجود ہوں۔
- عورت وہی کھیل یا ورزش کرے جو اس کی ساخت، فطرت اور نفسیات کے موافق ہو، اور سخت یا پرتشدد کھیلوں سے بچے جو اس کے جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہوں یا ان خصائص کو زائل کر دیں جو اللہ نے اس کے اندر ودیعت فرمائے ہیں۔
- ایسے مقامات پر عورتوں کی نگرانی اور انتظام مؤمن، دیندار، بااعتماد اور ہوشیار خواتین کے ہاتھوں میں ہو تاکہ کسی خلاف ورزی پر توجہ دے سکیں۔
- ورزش عورت کو اس مقصد سے غافل نہ کر دے جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے، یعنی اللہ کی عبادت، شوہر کے حقوق کی ادائیگی، اولاد کی نیک تربیت اور دین کی خدمت۔
کچھ لوگوں کے نزدیک کھیل اور ورزش محض دل لگی اور نفس کو راحت دینے کا ذریعہ ہیں، لیکن بعض کے لیے یہ واجب بھی ہوسکتی ہیں تاکہ وہ اپنے ان جسموں کی حفاظت کر سکیں جن پر عبادت اور زمین کی آبادکاری کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ اسی لیے سیدنا عمر بن خطابؓ نے مسلمانوں کو ان کھیلوں کی تعلیم دینے کی ہدایت فرمائی جو ان کے لیے نفع مند ہوں، اور فرمایا: اپنے بچوں کو تیر اندازی، تیراکی اور گھڑ سواری سکھاؤ۔
مترجم: زعیم الرحمان